hamare masayel

طلاق رجعی یا طلاق مغلظہ

طلاق رجعی یا طلاق مغلظہ

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ زید کے اپنی بیوی سے تعلقات کشیدہ ہونے لگے بالآخر دو چار ذمہ داروں کی موجودگی میں طلاق پر بات منتج ہوئی، ہوا یوں کہ لوگوں نے زید سے کہا تم طلاق دو، زید نے کہا میں اسے طلاق دیتا ہوں، پھر دس قدم آگے چلکر یہی جملہ کہا کہ میں اسے طلاق دیتا ہوں، پھر دس قدم آگے چلکر یہی جملہ کہا کہ میں اسےطلاق دیتا ہوں، اس طرح سے کتنی طلاق واقع ہوئی، ایک یا تین؟ اور کیا پھر زید اس مطلقہ کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتا ہے؟

نوٹ: زید کے بڑے بھائی کا کہنا ہے کہ الگ الگ مجلس میں تین مرتبہ طلاق اس لئے لی گئی تاکہ تین طلاق واقع ہو۔

امید کہ مدلل جواب عنایت فرما کرممنون کریں گے۔

المستفتی :عبدالرحمن مخدوم پور أعظم گڑھ

الجواب باسم الملهم للصدق والصواب :

صورت مسئولہ میں زید کا دو بارہ اور سہ بارہ یہ کہنا کہ میں طلاق دیتا ہوں اگر اپنے پہلے قول کی خبر ہے یعنی دوبارہ اور سہ بارہ طلاق نہیں دیا؛ بلکہ ایک بار جو طلاق دیا تھا اسی کی دو بار اور خبر دیا ہے تو صرف ایک طلاق رجعی واقع ہوئی؛لیکن اگر اس کی مراد تین مجلس میں تین طلاق ہے جیسا کہ زید کے بڑے بھائی کا کہنا ہے کہ اسی لیے الگ الگ مجلس میں تین مرتبہ طلاق لی گئی تاکہ تین طلاق واقع ہو تو ایسی صورت میں تینوں طلاق واقع ہوگئیں اور اب اس بیوی سے بلا حلالہ نکاح کرنا درست نہیں۔

نوٹ: حلالہ یہ ہے کہ پہلے طلاق کی عدت ختم ہونے کے بعد کوئی دوسرا شخص اس عورت سے نکاح کرے اور ہم بستری بھی کرے، پھر اگر بلا کسی دباؤ یا پلاننگ کے کسی وجہ سے طلاق دیدے تو اب زید اگر اس عورت سے نکاح کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اگر صرف دوسرے سے اسی لئے نکاح کرایا گیا کہ کچھ دن ساتھ رہ کر طلاق دیدے تو ایسا کرنے اور کرانے والے سخت گنہگار ہوں گے، ایسے لوگوں پر اللہ اور رسول کی طرف سے لعنت ہے۔

الدلائل

قال الله تعالى: ﴿فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ﴾ [البقرة: 290].

وقال اللیث عن نافع کان ابن عمر رضي اللّٰه عنهما إذا سئل عمن طلق ثلاثا قال: لو طلقت مرة أو مرتین، فإن النبي علیه السلام أمرني بهذا؛ فإن طلقها ثلاثا حرمت حتی تنکح زوجًا غیره. (صحیح البخاري:  5264، صحیح مسلم: 1471).

عن عائشة أنَّ رجلًا طلَّقَ امْرَأَتَهُ ثلاثًا، فتزوَّجَتْ فَطَلَّقَ، فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَحِلُّ لِلْأَوَّلِ؟ قَالَ: لاَ، حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَهَا كَمَا ذَاقَ الأَوَّلُ. (صحيح البخاري:  4980).

سألت الحکم وحمادا عن رجل قال لامرأته: أنت طالق أنت طالق ونویٰ الأولیٰ قالا: هي واحدة. (المصنف لابن أبي شیبة: 18201).

وفي أنت الطلاق أو طلاق أو أنت طالق الطلاق أو أنت طالق طلاقا یقع واحدة رجعیة إن لم ینو شیئا. (الدر المختار مع رد المحتار: 4/463 زکریا، وهکذا في الهندیة: 1/355).

 رجل قال لامرأته: أنت طالق أنت طالق أنت طالق وقال: عنیت بالأولی الطلاق وبالثانیة والثالثة إفهامها صدق دیانة. (الفتاویٰ التاتارخانیة 4/429 رقم: 6597).

ولو قال لامرأته: أنت طالق، فقال له رجل: ما قلت؟ فقال: طلقتها، أو قال: قلت: هي طالق، فهي واحدة في القضاء؛ لأن کلامه انصرف إلی الإخبار بقرینة الاستخبار. (بدائع الصنائع/فصل في النیة في أحد نوعي الطلاق 3/102 کراچی، 3/163 زکریا، الفتاویٰ الهندیة: 1/355 زکریا).

 والله أعلم

تاريخ الرقم: 14-9- 1439ه 30 – 5 – 2018م الأربعاء

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply