طہارت کے جدید مسائل

وضو کے مسائل، وضو کے جدید مسائل، طہارت کے جدید مسائل

  • Post author:
  • Post category:طہارت
  • Post comments:0 Comments
  • Post last modified:January 18, 2023
  • Reading time:11 mins read
  1. طہارت سے متعلق نئےمسائل

ولی اللہ مجید قاسمی۔ جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو۔

اسلام کی جامعیت اور کمال کی دلیل ہے کہ اس میں چھوٹی بڑی ہر چیز کے متعلق حکم موجود ہے۔حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے ایک غیر مسلم نے بطوراعتراض کہا کہ تمہارے نبی تو تم کو ہر چیز سکھاتے ہیں یہاں تک کہ پیشاب اور پاخانہ کا طریقہ بھی بتاتے ہیں۔

قد علمكم نبيكم كل شيء حتى الخراءة.

انھوں نے  جواب دیا :

 أَجَلْ، لَقَدْ نَهَانَا أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ لِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِالْيَمِينِ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِأَقَلَّ مِنْ ثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِرَجِيعٍ أَوْ بِعَظْمٍ.(صحیح مسلم: 262وغیرہ)

 ہاں ایسا تو ہے ۔ انھوں نے ہمیں پیشاب اور پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف رخ کرنے ، داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے ،تین پتھر سے کم سے طہارت حاصل کرنے اور گوبر یا ہڈی سے استنجاء کرنے سے منع فرمایا ہے ۔

 جواب کا مقصد یہ ہے کہ یہ کوئی نقص نہیں کہ اعتراض کرو بلکہ خوبی ہے جس کا اعتراف کیا جانا چاہئے ۔کسی دین کے مکمل اور جامع ہونے کی دلیل ہے کہ اس میں زندگی کے ہر گوشے کے بارے میں رہنمائی موجود ہو یہاں تک کہ استنجاء کا طریقہ بھی بتلایا گیا ہو کیونکہ نبوی ہدایات و تعلیمات کے بغیر اس معمولی کام کو بھی انسان سلیقے سے انجام نہیں دے سکتا ہے ۔

1-کموڈ کا استعمال:

حدیث میں کھڑے ہوکر قضاء حاجت سے منع کیا گیا ہے اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہی تھا کہ ہمیشہ بیٹھ کر استنجاء کیا کرتے تھے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:

من حدثكم أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يبول قائما فلا تصدقوه ما كان يبول إلا قاعدا. (سنن الترمذي :12)

اور حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں:

إن من الجفاء أن تبول وأنت قائم. (سنن الترمذي :12)

کھڑے کھڑے پیشاب کرنا گنوار پنا ہے ۔

اور حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أتينا الخلاء أن نتوكأ على اليسرى. (أخرجه البيهقي “1/96”: كتاب الطهارة: باب تغطية الرأس عند دخول الخلاء والاعتماد على الرجل اليسرى إذا قعد إن صح الخبر، وذكره الهيثمي في “مجمع الزوائد” “1/211″، وعزاه للطبراني في “الكبير”، وقال: وفيه رجل لم يسم.)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ جب ہم بیت الخلاء جائیں تو بائیں پیر پر ٹیک لگا کر بیٹھیں ۔

یہ حدیث گرچہ سندی اعتبار سے کمزور ہے لیکن اکڑوں بیٹھ کر قضائے حاجت کرنا عملی سنت سے ثابت ہے اور یہی فطری اور طبعی طریقہ ہے اور طبی اعتبار سے یہی زیادہ مناسب اور مفید ہے ۔

اس لئے کموڈ استعمال کرنا خلاف سنت ہے اور بلا ضرورت اس کا استعمال مکروہ ہے البتہ مجبوری اور معذوری کی حالت میں اجازت ہے مثلاً دوسرا متبادل موجود نہ ہو یا گھٹنے میں تکلیف ہو ۔چنانچہ بعض مواقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کھڑے ہوکر پیشاب کرنا ثابت ہے اور حدیث کے شارحین کا کہنا ہے کہ آپ نے کسی عذر یا بیماری کی وجہ سے ایسا کیا۔

2- گندے پانی کا فلٹر کے بعد استعمال:

گھروں اور دیگر جگہوں پر استعمال شدہ پانی کو _ جس میں پیشاب وپائخانہ اور دوسری گندگیوں کی آمیزش بھی ہوتی ہے_ نالی کے ذریعے کسی جگہ جمع کرلیا جائے اور پھر اسے فلٹر کر لیاجائے جس کے نتیجے میں اس کا رنگ، بو، مزا اورخاصیت عام پانی کی طرح ہوجائے اور گندگی کاکوئی اثر باقی نہ رہے توکیا اسے پینا یا وضو و غسل وغیر ہ میں اسے استعمال کرنا درست ہے؟

اس سلسلے میں دو طرح کے نقطہ نظر پائے جاتے ہیں، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فلٹر کی وجہ سے اس کی حقیقت نہیں بدلتی ہے بلکہ صرف بدبو دار اور نقصان دہ اجزاء اور رنگ کو نکال لیاجاتا ہے، اس لیے اسے پاک نہیں سمجھا جائے گا، نیز طبعی طور پر گندے پانی سے گھن محسوس ہوتی ہے اور بدبو، رنگت اور اثرات وغیرہ کی تبدیلی کے باوجود اس کے استعمال سے کراہت ہوگی۔

اس کے برخلاف بعض علماء کا خیال ہے کہ اگر فلٹر کرنے کی وجہ سے پانی اپنی پہلی کیفیت پر لوٹ آئے اور نجاست کا کوئی اثر باقی نہ رہے، تو اسے پاک سمجھاجائے گااور اسے پینا بھی درست ہے بشرطیکہ اس کے استعمال سے صحت کونقصان نہ پہنچے، اور اگر ایسا ہے تو اس کے استعمال سے منع  کیاجائے گا لیکن ناپاک ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ مضر صحت ہونے کے باعث، ان کی دلیل یہ ہے کہ کسی چیز کے پاک ہونے کے لیے اس کی حقیقت کا بدلنا ضروری نہیں بلکہ ناپاکی کے اثرات کا ختم ہوجانا کافی ہے، جیسے کہ شراب ناپاک ہے لیکن اگر سرکہ بن جائے تو پاک ہوجاتا ہے، سرکہ بننے میں اس کی حقیقت ختم نہیں ہوتی بلکہ صرف اس کی نشہ آور ہونے کی کیفیت ختم ہوجاتی ہے، اسی طرح سے حنفیہ، مالکیہ اور ابن حزم کے نزدیک شراب میں نمک وغیرہ ڈال کر اسے سرکہ بنالیاجائے تو وہ پاک ہوجاتا ہے، اسی طرح سے ناپاک کھال دباغت کی وجہ سے پاک ہوجاتی ہے، حالانکہ دباغت کی وجہ سے کھال کی حقیقت نہیں بدلتی بلکہ اس کے ناپاک اجزاء ختم کر دیے جاتے ہیں، اس لیے جو چیزیں بذات خود نجس نہ ہوں بلکہ نجاست کی آمیزش کی وجہ سے نجس ہوگئی ہوں، اگر کسی ذریعے سے اس کے ناپاک اجزا ء کو نکال دیاجائے تووہ پاک ہوجائیں گی، کیونکہ جو چیزیں ذاتی حیثیت سے ناپاک نہ ہوں بلکہ نجاست مل جانے کی وجہ سے ناپاک ہوگئی ہوں، ان میں انقلاب عین ضروری نہیں بلکہ انقلاب وصف کافی ہے۔[1]

3- پٹرول سے پاکی حاصل کرنا:

پٹرول بذاتِ خود پاک ہے اور اس میں پاک کرنے کی صلاحیت بھی ہے، اس لیے اگر اس میں کسی ناپاک چیزکی ملاوٹ نہ ہوتو اس کے ذریعہ جسم یا کپڑے وغیرہ پر لگی ہوئی گندگی اور ناپاکی دور کی جاسکتی ہے، کیونکہ نجاست  زائل کرنے کے لیے پانی ضروری نہیں ہے بلکہ کسی بھی پاک اور سیال چیز سے پاکی حاصل کی جاسکتی ہے، اس لئے  کہ مقصدمحض ناپاک چیز سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو جس چیز سے بھی اس کا اثر زائل ہوجائے اسے استعمال کرلینا کافی ہے خواہ  سرکہ، پٹرول، دوا یاکوئی اور چیز ہو، چنانچہ بعض احادیث میں تھوک کے ذریعے خون کے اثر کو زائل کرنے کا ذکر ہے۔ [2]

البتہ وضو اور غسل کے لیے پانی ضروری ہے، اس کے علاوہ کسی دوسرے سیال مادے سے وضو یا غسل درست نہیں ہے، چنانچہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ:

فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا ( النساء: 43)۔

اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرلو۔

4- ڈرائی کلین

اونی، ریشمی یا اس کے علاوہ بعض دوسرے کپڑے پانی سے دھونے کی وجہ سے خراب ہوجاتے ہیں، اس لیے ایسے کپڑوں کے میل، کچیل، گندگی اور نجاست کو بھاپ کے ذریعے زائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں پانی کا استعمال بہت کم یا بالکل نہیں ہوتا ہے، اور اس کی جگہ بعض کیمیاوی مادے استعمال کیے جاتے ہیں۔

اور یہ بات گزر چکی ہے کہ نجاست کو زائل کرنے کے لیے پانی کا استعمال ضروری نہیں ہے بلکہ ہر اس ذریعے سے نجاست ختم کی جاسکتی ہے جس سے اس کا رنگ و بو وغیرہ زائل ہوجائے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے :

كَانَتِ الْكِلَابُ تَبُولُ، وَتُقْبِلُ وَتُدْبِرُ فِي الْمَسْجِدِ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَكُونُوا يَرُشُّونَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ.(صحیح البخاري: 174، سنن أبي داود: 382)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مسجد نبوی میں کتے آتے جاتے اور پیشاب کردیتے تھے مگر اس پر پانی نہیں بہایا جاتا تھا ۔

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منی کے بارے میں منقول ہے:

كنت أفركه من ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم (صحيح مسلم: 288)

میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے کھرچ دیتی تھی۔

 اور حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ:

عَنْ أُمِّ وَلَدٍ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَتْ: قُلْتُ لِأُمِّ سَلَمَةَ: إِنِّي امْرَأَةٌ أُطِيلُ ذَيْلِي وَأَمْشِي فِي المَكَانِ القَذِرِ؟ فَقَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُطَهِّرُهُ مَا بَعْدَهُ». (موطأ للإمام مالك: (1/24/16، سنن أبي داود: 383، سنن الترمذي: 143)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عورت کے بارے میں پوچھا گیا جس کا کپڑا لمبا ہو اور وہ کسی گندی جگہ سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے بعد والی پاک جگہ اسے پاک کر دیگی

اور حضرت ابو سعید خدریؓ سے منقول ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

فَإِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ فَلْيَنْظُرْ فَإِذَا رَأَى فِي نَعْلَيْهِ قَذَرًا فَلْيَمْسَحْهُمَا بِالْأَرْضِ ثُمَّ يُصَلِّي فِيهِمَا» (سنن أبي داود: 650، مسند أحمد: 11153، صحيح ابن خزيمة: 786)

جب تم میں سے کوئی مسجد آئے تو اپنے چپل کو دیکھ لے اور اگر اس میں کوئی گندگی نظر آئے تو اسے زمین پر رگڑ دے اور پھر اسے پہن کر نماز پڑھ لے۔

اور حضرت ابوہریر نقل کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا وَطِئَ أَحَدُكُمْ بِنَعْلِهِ الْأَذَى، فَإِنَّ التُّرَابَ لَهُ طَهُورٌ» (سنن أبي داود: 385، صحيح ابن خزيمة: 292)

جب تم گندی جگہ پر چپل پہن  کے چلے جاو تو مٹی اسے پاک کردینے والی ہے۔

مذکورہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نجاست ختم کرنے کاذریعہ صرف پانی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بہت سے طریقے ہیں جس کے ذریعے نجاست زائل کی جاسکتی ہے، کیونکہ مقصود نجاست کے اثر کوزائل کرنا ہے نہ کہ اس کے لیے کوئی خاص طریقہ، بلکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ بعض چیزیں نجاست کے اثرکو زائل کرنے میں پانی سے بھی زیادہ موثر ہوں، مذکورہ اور اس کے علاوہ بعض دوسری احادیث کے پیش نظر فقہاء نے لکھا ہے کہ شیشہ اور چھری پوچھ دینے سے اور منی کھرچ دینے سے اورجوتا رگڑ دینے سے اور زمین خشک ہوجانے سے اور روئی دھنائی کے ذریعے پاک ہوجاتی ہے۔ (الہندیہ44/1)

لہٰذا ڈرائی کلین کے ذریعے کپڑے پاک ہوجاتے ہیں بشرطیکہ اس میں نجاست کا کوئی اثر نہ ہو۔

5- سولر ہیٹر کے ذریعے گرم کیے ہوئے پانی سے وضو:

 سولر ہیٹر (Solar Heaters)   سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرکے پانی وغیرہ کو گرم کردیتا ہے، کیا اس طرح کے گرم پانی سے وضو، غسل وغیر ہ درست ہے یا نہیں ؟

سورج کی حرارت کے ذریعے گرم کیے گئے پانی کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے، شافعیہ اور مالکیہ کے نزدیک ایسے پانی کااستعمال مکروہ تنزیہی ہے اور بعض حنفی فقہا ء نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، شافعیہ کے نزدیک اس کی کراہت کے لیے شرط ہے کہ علاقہ گرم ہو، برتن کا میٹریل ایسا ہو کہ اسے پگھلایاجاسکے، جیسے کہ دھات، وغیرہ کا برتن، اسے وضو یا غسل میں استعمال کیاجائے، کپڑا وغیر ہ کے دھونے میں کوئی کراہت نہیں،گرم ہونے کی حالت میں استعمال کیاجائے، ٹھنڈا ہونے کے بعد مکروہ نہیں، ان حضرات کی دلیل وہ احادیث و آثار ہیں جن میں سورج کی تپش سے گرم کیے ہوئے پانی کے استعمال سے منع کیا گیا ہے، اور کہا گیا ہے کہ اس سے برص کی بیماری پیداہوتی ہے۔

اس کے برخلاف حنابلہ، جمہور حنفیہ، بعض مالکیہ اور بعض شافعیہ جیسے کہ امام نووی وغیرہ کے نزدیک اس میں کوئی کراہت نہیں ہے، (دیکھئے الموسوعہ الفقہیہ363/39)کیونکہ اس سلسلے میں وارد حدیث یا کسی صحابی کا قول صحیح سند سے ثابت  نہیں ہے، جیسے کہ حضرت عائشہؓ سے منقول ہے کہ:

عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ سَخَّنْتُ مَاءً فِي الشَّمْسِ , فَقَالَ:  «لَا تَفْعَلِي يَا حُمَيْرَا فَإِنَّهُ يُورِثُ الْبَرَصَ».  قال الدارقطني: غَرِيبٌ جِدًّا،  خَالِدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ مَتْرُوكٌ. (سنن الدارقطني: 86)

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کے لئے میں نے دھوپ کے ذریعے پانی گرم کیا تو آپ نے فرمایا: حمیرا ! ایسا مت کیا کرو،اس سے برص کی بیماری ہوتی ہے۔

اس روایت کو ابن عدی نے موضوع قرار دیا ہے۔ (الکامل في ضعفاء الرجال:3/ 475)، اس ميں ايك راوى خالد بن اسماعيل ہيں وه متروك ہيں۔

اور حضرت عمرؓ سے منقول ہے کہ:

«لَا تَغْتَسِلُوا بِالْمَاءِ الْمُشَمَّسِ , فَإِنَّهُ يُورِثُ الْبَرَصَ». (سنن الدارقطني: 88)

سورج کے ذریعے گرم پانی سے غسل نہ کرو کیونکہ اس سے برص کی بیماری پیدا ہوتی ہے ۔

امام نووی کہتے ہیں کہ: یہ اثر ضعیف ہے، (الخلاصۃ 69/1) اورعقیلی کہتے ہیں کہ دھوپ سے گرم پانی کے متعلق کچھ بھی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، (الضعفاء 176/2)اور اما م شافعی فرماتے ہیں کہ وَلَا أَكْرَهُ الْمَاءَ الْمُشَمَّسَ إلَّا مِنْ جِهَةِ الطِّبِّ الأم للشافعي (1/ 16) یعنی ان کے نزدیک بھی اس سلسلے کی روایتیں صحیح نہیں ہیں، البتہ طبی اعتبار سے  مرض کا سبب ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے، حاصل یہ ہے کہ اگر جدید سائنس کے ذریعہ اس کا نقصان دہ ہونا ثابت ہوجائے تو بچنا چاہیے ورنہ تو شرعی اعتبار سے اس میں کوئی کراہت نہیں۔

6-کاغذ کے ذریعے استنجاء:

پانی کے ذریعے استنجاکرنا بہتر اور پسندیدہ ہے کہ اس سے اچھی طرح سے پاکی اور صفائی حاصل ہوجاتی ہے، چنانچہ آنحضرت ﷺ عام طور پر اس کے لیے پانی ہی استعمال کرتے تھے، حضرت عائشہؓ  کہتی ہیں کہ:

مُرْنَ أَزْوَاجَكُنَّ أَنْ يَسْتَطِيبُوا بِالْمَاءِ، فَإِنِّي أَسْتَحْيِيهِمْ مِنْهُ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُهُ. (سنن الترمذي: 19، سنن النسائي: 46)

اپنے شوہروں کو حکم دو کہ وہ پانی سے استنجاء کیا کریں ۔براہ راست ان سے کہتے ہوئے میں شرم محسوس کرتی ہوں۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔

نیز وہ بیان کرتی ہیں کہ:

مارأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج من غائط قط الا مس ماء[3] (ابن ماجة:354.مسند احمد:25561)

مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنْ غَائِطٍ قَطُّ إِلَّا مَسَّ مَاءً. (سنن ابن ماجه: 354، مسند أحمد: 25561)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی میں نے قضاء حاجت سے واپس ہوتے ہوئے دیکھا ہے تو آپ نے پانی ضرور استعمال کیا ہے۔

اور حضرت انس کہتے ہیں:

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ لِحَاجَتِهِ أَجِيءُ أَنَا وَغُلَامٌ مَعَنَا إِدَاوَةٌ مِنْ مَاءٍ يَعْنِي يَسْتَنْجِي بِهِ.(صحیح البخاری:150، صحيح مسلم: 271)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قضاء حاجت کے لئے تشریف لے جاتے تو میں اور ایک دوسرا بچہ وہاں پانی کا برتن رکھ دیتے تاکہ آپ اس سے استنجاء کرسکیں۔

اور قرآن پاک میں طہارت کے معاملے میں اہل قبا کی تعریف کی گئی ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے ان سے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا:

…..وَنَسْتَنْجِي بِالْمَاءِ. قَالَ: «فَهُوَ ذَاكَ، فَعَلَيْكُمُوهُ». (سنن أبي داود: 44، سنن الترمذي: 3100، سنن ابن ماجه: 355، 357)

۔۔۔اور ہم پانی سے استنجاء کرتے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اسی وجہ سے تمہاری تعریف کی گئی ہے تو اسے اپنے اوپر لازم کرلو ۔

تاہم پتھر اور ڈھیلے وغیرہ سے استنجا کرلینے سے بھی طہارت حاصل ہوجائے گی، جیسا کہ حضرت عائشہؓ سے منقول ہے کہ:

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا ذَهَبَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْغَائِطِ، فَلْيَذْهَبْ مَعَهُ بِثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ يَسْتَطِيبُ بِهِنَّ، فَإِنَّهَا تُجْزِئُ عَنْهُ». (سنن أبي داود: 40، سنن النسائي: 44)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی قضاء حاجت کے لئے جائے تو اپنے ساتھ تین پتھر لے لے اور اس سے پاکی حاصل کرے کیونکہ یہی تین پتھر اس کے لئے کافی ہوجائیں گے ۔

اورجب پتھر اور ڈھیلے وغیر ہ سے استنجا ء درست ہے تو کاغذ سے ا س سے بہتر درجے میں استنجاء جائز ہے، البتہ دوباتوں کا خیال رکھنا چاہیے، ایک یہ کہ وہ چکنا نہ ہو کیونکہ اس کی وجہ سے نجاست جذب نہیں ہوگی بلکہ اورپھیل جائے گی، دوسرے یہ کہ وہ اس لائق نہ ہو کہ اس پر لکھا جائے بلکہ اسی کام کے لیے اسے بنا یا گیا ہو، کیونکہ دوسرے کاغذ علم کاایک ذریعہ ہوتے ہیں، اس لیے اس کا احترام کیاجانا چاہیے اور عام حالات میں اسے اس طرح کے گندے اور اہانت آمیز کاموں میں استعمال نہیں کرنا چاہیے، اسی لیے فقہا ء نے کاغذ سے استنجاء کو مکروہ لکھا ہے۔[4]

7- الکوہل ملی ہوئی خوشبو پاك ہے يا ناپاك:

الکوہل کی دو قسمیں ہیں: میتھائل اور ایتھائل، میتھائل ایک زہریلامادہ ہے جس کے پینے سے اندھا پن پیدا ہوتا ہے، بلکہ زیادہ پینے کی صورت میں موت واقع ہوسکتی ہے، خوشبو وغیرہ میں عام طورپر اسی کی ایک قسم آئی سوپر ویائل استعمال کی جاتی ہے جو نشہ آور نہیں ہوتی ہے، اس لیے اسلامک فقہ اکیڈمی ہندوستان کا فیصلہ ہے کہ:

’’عطریات میں جو الکوہل استعمال ہوتا ہے فنی ماہرین کی تحقیق و اطلاع کے مطابق وہ نشہ آور نہیں ہے، اس لیے وہ ناپاک نہیں ہے‘‘۔ (نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے/289)

دوسری قسم ایتھائل ہے جو نشہ آور ہے اور دواؤں میں عام طور پر اسی کا استعمال کیا جاتا ہے اور مفتی محمد تقی عثمانی نے انسائیکلو پیڈیا آف بڑیطانیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ آج کل جن چیزوں سے الکوہل تیار کیاجاتا ہے، انسائیکلو پیڈیا کے مقالہ نگاروں نے اس میں انگور اور کھجور کا ذکر نہیں کیا ہے۔ (تکملہ فتح الملہم515/1)

اور نشہ آور چیزوں کے بارے میں امام ابوحنیفہ اورابویوسف کی رائے یہ ہے کہ انگور اورکھجور کے علاوہ نشہ آور سیال چیزیں پاک ہیں اور ان کی خرید و فروخت درست ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اسپرے اور سینٹ میں استعمال ہونے والا الکوہل اگر نشہ آور بھی ہو تو وہ اسی وقت ناپاک ہے جب کہ اسے کھجور اور انگور سے کشید کیاگیا ہو، اس لیے عام طور پر استعمال ہونے والے اسپرے اور سینٹ کو پاک سمجھا جائے گا اور اس کے استعمال کی وجہ سے جسم یا کپڑا ناپاک نہیں ہوگا۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب فقہی مقالات 495/1)

8- کلر کریم:

بالوں کی رنگت تبدیل کرنے کے لیے مختلف رنگوں کے کریم وغیرہ استعمال کی جارہى ہیں، اگر ان میں استعمال ہونے والا مادہ پاک ہو اور اس کے لگانے کی وجہ سے بالوں پر کوئی پرت نہ چڑھتی ہو بلکہ وہ محض مہندی کی طرح سے ایک رنگ ہو تو پھر اس کے ہوتے ہوئے وضو اورغسل درست ہے، اور اگر و ہ پینٹ کی طرح سے جسم دار ہو اور جسم یا بالوں پر اس کی پرت چڑھ جاتی ہو تو پھر اس کے ہوتے ہوئے وضو یاغسل درست نہیں ہے، کیوں کہ وضو میں مسح کرتے ہوئے پانی کی تری کو بالوں تک پہنچانا اور غسل میں بالوں کو دھونا ضروری ہے۔

9- سرخی، پاؤڈر، کریم اور لپ اسٹک:

عام طورپر جو سرخی،پاؤڈر، کریم اور لپ اسٹک رائج ہے وہ  گرد وغبار اور تیل کی طرح سے ہے  جس کی وجہ سے جسم پر کوئی تہہ نہیں جمتی ہے اور یہ چیزیں بدن تک پانی کے پہنچنے میں رکاوٹ نہیں بنتی ہیں، اس لیے ان کے ہوتے ہوئے وضو یا غسل درست ہے، [5] البتہ بعض لپ اسٹک یا سرخی ایسی ہوتی ہے کہ اسے لگانے کی وجہ سے موم کی طرح سے تہہ جم جاتی ہے لھذا اس کی موجودگی میں  وضو یاغسل صحیح نہیں ہے۔

10- ناخن پالش:

وضو یا غسل میں جسم تک پانی کے پہنچنے میں رکاوٹ بننے والی چیز کو کسی  شرعی ضرورت وحاجت کے بغیر لگا لینے سے وضو یا غسل درست نہیں ہے، ناخن پالش بھی محض زینت کے لیے لگائی جاتی ہے اور اس سے کوئی شرعی ضرورت وحاجت وابستہ نہیں ہے اور وہ جسم تک پانی کے پہنچنے میں بھی رکاوٹ ہے، اس لیے اس کے ہوتے ہوئے وضو یا غسل درست نہیں ہے۔[6]

واضح رہے کہ تما م علما ء کا اس پر اتفاق ہے کہ غسل واجب میں پورے بدن پر اور وضومیں پورے اعضاء وضو پر پانی کا پہنچانا ضروری ہے، اس لیے جسم سے ان تمام چیزوں کو زائل کرنا لازم ہے جو پانی کے پہنچنے میں رکاوٹ ہوں، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ:

ان رجلا توضأ فترک موضع ظفرعلی قدمہ فابصرہ النبی ﷺ فقال ارجع فاحسن وضوء ک۔ (صحیح مسلم:243)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک شخص نے وضو کرتے ہوئے پیر پر ناخن کے بقدر سوکھا چھوڑ دیا تو فرمایا: جاؤ اور اچھی طرح وضو کرو

اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ:

ان النبیﷺ رای رجلا لم یغسل عقبه فقال ویل للاعقاب من النار۔ (صحیح مسلم:243 صحیح بخاری:165)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے ایڑی کو نہیں دھلا ہے تو فرمایا:ایڑیوں کے لئے جہنم کی ھلاکت ہے ۔

11- مصنوعی بال:

گنجے پن کو دور کرنے یابالوں کو گھنا اور لمبا ظاہرکرنے کے لیے مصنوعی بالوں کا استعمال کیا جاتا ہے، ان میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جو پیوست کردیے جاتے ہیں اور انہیں آسانی سے الگ کر دینا اور پھر عمل جراحی کے بغیردوبارہ لگادینا ممکن نہیں، ظاہر ہے کہ اس طرح کے بال اصل بال کے حکم میں ہوں گے۔

اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو آسانی سے الگ کیے اور لگائے جاسکتے ہیں، اس طرح کے بال اگرپورے سر پر لگے ہوئے ہوں تو وضو کے وقت مسح کے لیے انہیں الگ کرنا اور سر پر مسح کرنا ضروری ہے، کیونکہ مسح کے لیے ضروری ہے کہ پانی کی تری اصل بالوں یا سرتک پہنچ جائے۔

اور اگر پورے سر پر نہ لگے ہوں بلکہ سر کا چوتھائی حصہ کسی بھی طرف سے خالی ہو تو اس کو الگ کرنا ضروری نہیں بلکہ چوتھائی حصے پر مسح کرلینے سے فرضیت ساقط ہوجائے گی، البتہ پورے سر پر مسح کرنا سنت ہے اوراس سنت پر عمل کے لیے مصنوعی بالوں کو الگ کرنا ہوگا۔

اور غسل واجب میں مر د کے لیے بالوں سمیت پورے سر پر پانی بہانا ضروری ہے، اس لیے اگر مصنوعی بال ان تک پانی کے پہنچنے میں رکاوٹ ہوں تو انہیں الگ کرنا ضروری ہے ورنہ نہیں، اور عورتوں کے لیے اگر بال کے جوڑے بنے ہوئے ہوں تو بالوں کی جڑمیں پانی کا پہنچانا کافی ہے،اور اگر کھلے ہوئے ہوں تو جڑ اور پورے بال کو بھگونا ضروری ہےاس لیے ان بالوں کو الگ کیے بغیر بھی پانی جڑ اور پورے بال تک پہنچ جائے تو غسل درست ۔بصورت دیگر انھیں نکالنا ضروری ہوگا۔

 واضح رہے کہ اس مقصد کے لیے انسانی بالوں کا استعمال ممنوع ہے خواہ انہیں مستقل طورپر لگایاجائے یا عارضی طریقے پر، اس لیے کہ حدیث میں ایسا کرنے والے پر لعنت کی گئی ہے، البتہ حیوانات یا مصنوعی بالوں کے استعمال کی اجازت ہے، چنانچہ حضرت عائشہؓ سے منقول ہے کہ انہوں نے بعض خواتین کو اونی دھاگا استعمال کرنے کی اجازت دی[7] اور حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ریشمی اور اونی دھاگا لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔[8]

  وإنما الرخصة فی غیرشعر بنی آدم تتخذہ المرأة لتزید في قرونھا وھو مروي عن أبي یوسف وفي الخانیة لاباس للمرأۃ أن تجعل في قرونھا وذوائبھا شیئًا من الوبر۔( رد المحتار 535/9)

12-مصنوعی دانت:

مصنوعی دانت دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو مستقل طور پر جبڑے میں فٹ کردیے جاتے ہیں، دوسرے وہ جو آسانی سے نکالے اور لگائے جاسکتے ہیں، پہلی صورت میں وہ اصل دانت کے حکم میں ہوں گے، چنانچہ بعض صحابہ کرام سے دانتوں کو سونے کے تار سے باندھنا منقول ہے ۔اور فقہاء نے بہ صراحت ٹوٹے ہوئے دانت کی جگہ بکری یا سونے، چاندی کے دانت کو لگانے اور ہلتے ہوئے دانت کو سونے، چاندی کے تار سے باندھنے کی اجازت دی ہے۔(ردالمحتار 521/9)

اگر یہ چیزیں غسل کے صحیح ہونے میں رکاوٹ ہوتیں تو ہرگز اس کی اجازت نہ دی جاتی، حالانکہ یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے دانتوں کی جڑوں تک پانی کا پہنچانا دشوار تر ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی موجودگی میں  جڑوں تک پانی پہنچانا ضروری نہیں ہے۔

دوسری صورت میں اگر اس کے ہوتے ہوئے مسوڑھوں تک پانی پہنچنا ممکن ہو تو پھر اسے نکالنے کی ضرورت نہیں اور اگر پانی نہ پہنچنے کا امکان ہو تو پھر غسل میں اس کا نکالنا ضروری ہے، کیونکہ غسل میں پورے منہ میں پانی پہنچانا ضروری ہے، اور وضو میں اس کا نکالنا ضروری نہیں ہے، کیوں کہ کلی کرنا وضو میں سنت ہے، البتہ سنت کی ادائیگی کے لیے اسے نکالنا ہوگا۔

13-مصنوعی اعضاء:

مصنوعی اعضا اگر جسم میں اس طرح فکس کر دیے جائیں کہ ان کے نکالنے اور لگانے میں ضرر اور نقصان ہو تو وہ پھر اصلی اعضا کی طرح ہوں گے اورغسل و وضو میں ان کے اوپر سے پانی بہادینا کافی ہوگا۔

اور اگر وہ جسم میں مستقل طورپر فٹ نہ ہوں بلکہ آسانی سے انہیں لگایا اورنکالا جاسکتا ہے تو اگر انہیں نکالے بغیر پورے جسم تک پانی کے نہ پہنچنے کا اندیشہ ہوتو پھر غسل واجب کے صحیح ہونے کے لیے انہیں نکالنا ہوگا اور اگر اس کے رہتے ہوئے بھی اصل جسم تک پانی پہنچ جائے تو پھر نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اور وضو میں دیکھا جائے گا کہ جن حصوں کو دھونا فرض ہے اگر ان کا کوئی بھی حصہ موجود ہے تو اس تک پانی کا پہنچانا ضروری ہوگا، مثلاً ہاتھ گٹے سے کٹ گیا ہے اورکلائی یا کلائی کا کوئی بھی حصہ موجود ہے تو اسے دھونا ضروری ہوگا، چنانچہ حدیث میں ہے کہ:

’’إذا أمرتکم بشيء فاتوا منه مااستطعتم‘‘ (صحیح مسلم:1337)

جب میں تمھیں کسی کام کا حکم دوں تو اپنی طاقت وسعت کے مطابق اسے انجام دینے کی کوشش کرو۔

اورفقہا لکھتے ہیں کہ:

’’ولو قطعت یدہ أورجله فلم یبق من المرفق والکعب شيء یسقط الغسل ولوبقی وجب‘‘ (البحر الرائق 29/1)

اگر کسی کا ہاتھ یا پیر کاٹ دیا گیا ہو اور کہنی اور ٹخنے کا کوئی حصہ نہیں بچا ہے تو اس کے دھونے کا حکم ساقط ہوگیا اور اگر کچھ بھی باقی ہے تو اسے دھونا ضروری ہے ۔

اوراگر اعضا ء وضو کا کوئی حصہ موجود نہیں ہے تو پھرمصنوعی اعضا کو نکالنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ اس سے جڑے ہوئے حصے تک پانی پہنچانے کی حاجت ہے۔ اور اعضا ء وضو کا کوئی حصہ موجود ہو یا نہ ہو، بہر صورت اس حالت میں مصنوعی اعضا کو دھونے یا اس پر مسح کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اورنہ ہی ایسا کرنا  مستحب یا  سنت ہے۔

14- سسٹو اسکوپ Cystoscopy:

یہ ایک ایساطبی آلہ ہے جس میں باریک  نلکی لگی رہتی ہے اورجس کے سرے پر کیمرہ ہوتا ہے، اسے پیشاب کے راستے سے اندر داخل کرکے مثانہ اور گردے وغیر ہ کی پتھری،سوجن یا سوزش کا مشاہدہ کیاجاتا ہے۔

اور پیشاب ، پائخانہ کے راستے سے کسی چیز کو داخل کرنے اور نکالنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، کیونکہ یقینی طور پر اس کے ساتھ گندگی کے اثرات باہر آئیں گے گر چہ اس کی مقدار بہت ہی معمولی  کیوں نہ ہو، چنانچہ حدیث میں ہے کہ:

’’کان رسول اللہﷺ یأمرنا إذا کنا سفرا ألا ننزع خفافنا ثلاثة أیام ولیالھن إلا من جنابة ولکن من غائط وبول ونوم‘‘ (سنن الترمذي: 96)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ سفر میں ہم تین دن اور رات تک اپنا خف نہ نکالیں الا یہ کہ جنابت پیش آجائے تو اسے اتارنا ہے البتہ پیشاب پاخانہ کے کسی بھی جزء اور نیند کے بعد اسے نہیں اتارنا ہے ۔

 مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیشاب و پائخانہ کی کسی بھی مقدار کے نکلنے کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔

 اور ان راستوں سے کسی چیز کو داخل کرکے نکالنے کی وجہ سے غالب گمان یہ ہے کہ اس کے ساتھ گندگی بھی باہر آئے گی اورظن غالب کا اعتبار کرتے ہوئے حدیث میں نیند کو ناقض وضو میں شمار کیا گیا ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے ہوا خارج ہونے کا امکان ہوتا ہے ۔اوران راستوں کے ذریعے کسی چیز کوداخل کرکے نکالنے پرتری اورنمی کا نہ ہونا ایک نادر واقعہ ہے اور کسی نادر واقعہ پر مسئلے کا دار و مدار نہیں ہوتا۔ [9]

15- انڈو اسکوپی  Endoscopy

بعض امراض مثلاً پیٹ کے کینسرکی تشخیص کے لیے معدہ تک کیمیرے والی نلکی داخل کی جاتی ہے اور بسااوقات اس کے ذریعے گوشت کے ٹکڑے کو بھی تجربے کے لیے کاٹ کر نکال لیا جاتا ہے، اس پائپ کو پیٹ میں داخل کرنے اور نکالنے سے وضو پر کوئی اثر نہیں پڑےگا کیونکہ فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ پیٹ کے ذریعے منہ کے راستے کسی چیز کے نکلنے سے وضو اسی وقت ٹوٹیگا جب کہ وہ کثیر ہو اور ظاہر ہے کہ معدہ سے گزر کر جو نلکی باہر آئے گی اس پرنجاست کی بہت معمولی مقدار لگی ہوگی[10]

اسی طرح سے گوشت کے ٹکڑے کا نکالنا بھی ناقض وضو نہیں ہے[11] البتہ اگر اس عمل کے نتیجے میں منہ سے خون نکل آئے تو وضو ٹوٹ جائے گا، کیونکہ خون کا نکلنا مطلقاً ناقض وضو ہے خواہ وہ قلیل ہو یاکثیر ہو۔[12]

واضح رہے کہ اگر یہ نلکی پیچھے کے راستہ سے معدہ تک پہنچائی گئی ہے تو بہر صورت ناقض وضو ہے، اس پر نجاست کا نظر آنا ضروری نہیں ہے۔[13]

16- خون نکالنا اور چڑھانا:

بعض امراض کی تشخیص یا خون منتقل کرنے کے لیے جسم سے خون نکالنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور جسم سے خون نکلنے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ، اس لیے اگر انجکشن یا کسی اور ذریعے سے اتنی مقدار میں خون نکالا جائے کہ وہ جسم سے نکل کر بہہ سکے تواس کی وجہ سے وضو ٹوٹ جائے گا۔[14] چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’من أصابه قيء أو رعاف او قلس أو مذي فلینصرف ثم ليبني علی صلاته وھو في ذلک لایتکلم‘‘(ابن ماحه:1221)

اگر کسی کو قے ہوجائے یا نکسیر پھوٹ پڑے یا مذی نکل آئے تو نماز چھوڑ کر جائے اور وضو کرکے آئے اور پھر جہاں سے چھوڑا تھا وہیں سے شروع کردے بشرطیکہ اس دوران وہ بات چیت نہ کرے ۔

سندی اعتبار سے حدیث ضعیف ہے مگر یہ روایت متعدد سندوں سے منقول ہے اس لیے یہ حسن لغیرہ سے فروتر نہیں، نیز صحیح سند کے ساتھ مرسلاً بھی منقول ہے[15] اور مرسل روایت جمہور محدثین کے نزدیک لائق دلیل ہے، علاوہ ازیں حضرت علیؓ،[16]ابن عمرؓ،[17] ابن عباسؓ اور سلمان فارسیؓ کے قول اور فتوے کی حیثیت سے

یہ روایت ثابت ہے اور کسی صحابی کا خلاف قیاس فتویٰ مرفوع حدیث کے حکم میں ہوتا ہے لہذا ان تمام تائیدات کی وجہ سے مذکورہ حدیث استدلال کے لائق ہوجاتی ہے ۔

البتہ خون چڑھانے سے وضو نہیں ٹوٹے گا، کیونکہ جسم میں نجاست داخل کرنے کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹتا، جیسے کہ وضوکے بعد شراب پینا ناقض وضو نہیں ہے، البتہ اگر سرنج لگانے کی وجہ سے خون نکل کر بہہ جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔

17- ڈائلیسس Dialysis:

گردے کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ خون میں موجود زہریلے اور فاسد مادے کو صاف کرکے اسے پیشاب کے راستے سے باہر کردیتا ہے اورجب کسی کا گردہ ناکاہ ہوجاتا ہے تو پھر مصنوعی طریقے سے خون کی صفائی کی جاتی ہے جسے ڈائلسیزکہا جاتا ہے اور اس وقت اس کی دو صورتیں رائج ہیں:

۱۔ مصنوعی گردے کے ذریعے خون کی صفائی:

 اس طریقے میں ہاتھ یا گردن کی رگ میں ایک پائپ لگا ديا جاتا ہے اورپھر اس کے ذریعے جسم سے خون نکال کرایک مشین سے گزاراجاتا ہے جسے مصنوعی گردہ کہاجاتا ہے، پھر اس کے ذریعہ خون صاف کرکے دوبارہ جسم میں داخل کر دیا جاتا ہے، ظاہر ہے کہ اس طریقے میں جسم سے خون کو نکالاجاتا ہے اور یہ گزر چکا ہے کہ جسم سے خون نکالنے کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، لہٰذا کسی نے وضو کے بعد ڈائلسیز کرایا ہے تو پھر اس کا وضو باقی نہیں رہا۔

۲۔ پریٹونیم کے ذریعے خون کی صفائی:

پریٹونیم اوجھڑی میں چاروں طرف موجود ایک جھلی کا نام ہے اور خون صاف کرنے میں یہ بھی بالکل مصنوعی گردے کی طرح کام کرتا ہے اورجس میں انسان کے قدو قامت کے اعتبار سے ایک سے تین لیٹر تک پانی بھرنے کی گنجائش ہوتی ہے، اس میں ایک نلکی کے ذریعے سے خون صاف کرنے والا سیال مادہ داخل کیاجاتا ہے اور پھر کچھ گھنٹوں کے بعد اس کو نکال لیاجاتا ہے جس کے ذریعے خون میں موجود فاسد مادے اور زہریلے اثرات باہر آجاتے ہیں اور اس پانی میں پیشاب کے تمام اجزا ء موجود ہوتے ہیں اور وہ بالکل پیشاب کے مانند ہوتا ہے اور اس طرح سے وہ ایک نجس پانی ہوتا ہے، اور جسم کے کسی بھی حصے سے نجاست کا نکلنا ناقض وضو ہے، اس لیے اس  اس طرح سے ڈائلسیز کرنے سے بھی وضو ٹوٹ جائے گا۔[18]

18- ناف کے نیچے کے حصے کو بے حس کر دینا:

آپریشن یا میڈیکل ٹیسٹ کے لیے ناف کے نیچے کے حصے کو سن کر دیا جاتا ہے، اس حالت میں مریض گرچہ پورے ہوش وحواس میں رہتا ہے لیکن اسے پیشاب و پائخانہ اور ہوا کے نکلنے کا احساس نہیں رہتااور اس ادراک کے نہ ہونے کی بنیاد پرحدیث میں نیند کو ناقض وضو شمار کیاگیا ہے، حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:

’’وکاء السه العینان فمن نام فلیتوضأ‘‘ (سنن أبي داود: 203، وسنن ابن ماجه: 477، سنن الدارمي: 749)

شرمگاہ کے لئے آنکھیں بندھن کی طرح ہیں لہذا جو سوجائے وہ وضو کرے .

اور نیند ہی کی طرح بے ہوشی بھی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہے، اس لیے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ بے ہوشی کی وجہ سے وضو واجب ہے۔[19]

لہٰذا جسم کے نچلے حصے کو بے حس کردینے کی وجہ سے وضو ٹوٹ جائے گا، کیونکہ اس با ت کا امکان ہے کہ ہوا خارج ہوئی ہو اور اسے پتہ نہ چلا ہو۔

19- نلکی کے ذریعہ پیشاب و پائخانہ:

بعض امراض کی وجہ سے طبعی طریقہ پر فضلا ت کانکالنا دشوار ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان دونوں جگہوں پر یا پیٹ کے نچلے حصے میں جگہ بناکر پائپ لگا دیا جاتا ہے، جس سے پیشاب و پائخانہ خارج ہوکر ایک تھیلی میں جمع ہوتا ہے اور اس کے خارج ہونے میں مریض کے ارادہ و اختیار کو کوئی دخل نہیں ہوتا ہے اوریہ گزر چکا ہے کہ نجاست کے خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے خواہ نجاست متعین جگہ سے نکلے یاجسم کے کسی بھی حصے سے، البتہ چونکہ اسے روکنے کی قوت موجود نہیں ہے اس لیے ایسے شخص کو معذور سمجھا جائے گا اور معذور کا حکم یہ ہے کہ وہ ہر وقت کی نماز کے لیے تازہ وضو کرے، گرچہ اس کے علاوہ وضو کو توڑنے والی چیزوں میں سے کوئی چیز پیش نہ آئی ہو۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ:

جَاءَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِي حُبَيْشٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي امْرَأَةٌ أُسْتَحَاضُ فَلَا أَطْهُرُ، أَفَأَدَعُ الصَّلَاةَ؟ قَالَ: «لَا، إِنَّمَا ذَلِكَ عِرْقٌ، وَلَيْسَتْ بِالحَيْضَةِ، فَإِذَا أَقْبَلَتِ الحَيْضَةُ فَدَعِي الصَّلَاةَ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ فَاغْسِلِي عَنْكِ الدَّمَ وَصَلِّي»،  قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ فِي حَدِيثِهِ: وَقَالَ: «تَوَضَّئِي لِكُلِّ صَلَاةٍ حَتَّى يَجِيءَ ذَلِكَ الوَقْتُ»،

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت فاطمہ بنت حبیش آئیں اور عرض کیا : اللہ کے رسول! مجھے استحاضہ کی بیماری ہے اس لئے میں کبھی پاک نہیں رہتی ۔کیا میں نماز چھوڑ دوں؟نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہیں۔وہ تو رگ کا خون ہے ۔حیض نہیں ہے ۔اس لئے جب تمہارے حیض کا زمانہ آئے تو نماز چھوڑ دو اور جب ختم ہوجائے تو خون دھو دو اور غسل کرکے نماز پڑھو اور ایک روایت میں ہے کہ ہر نماز کے لئے وضو کرو۔یہاں تک کہ تمہارے حیض کا زمانہ آجائے۔

اورہر وضو سے پہلے تھیلی کو بدل دینا یا  تھیلی میں موجود گندگی کو صاف کردینا ضروری ہے[20] لیکن اگر ایسا کرنے میں شدید مشقت ہو یا تھیلی تبدیل کرنے میں ناقابل تحمل مالی بوجھ برداشت کرنا پڑے تو پھر اس کے ساتھ نماز اداکرنے کی اجازت ہوگی، اس لیے کہ:

{ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا } [البقرة: 286]

اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتے ۔

ایسا شخص گھر پہ نماز پڑھے ، پیشاب کی تھیلی کے ساتھ مسجد نہ آئے  کیونکہ مسجد میں کسی ناپاک چیز کو لانا مکروہ اور اس سے مسجد کی آلودگی کا خطرہ ہے نیز دوسرے لوگ اس سے گھن محسوس کرتے ہیں اور انھیں تکلیف ہوتی ہے[21]

20- مصنوعی طریقہ تولید کے بعد غسل:

مردو عورت میں کسی نقص کی وجہ سے طبعی طریقے پر نطفہ بار آور نہ ہوسکے تو پھر اولاد کے حصول کے لیے مصنوعی طریقہ اپنایا جاتا ہے جس میں کبھی مرد سے مادۂ منویہ لے کر سرنج کے ذریعے عورت کے رحم میں پہنچا دیا جا تا ہے اور کبھی دونوں کے تولیدی مادے کو  کچھ دنوں تک ایک مخصوص ٹیوب میں رکھاجاتا ہے اور پھر اسے بچہ دانی میں منتقل کردیا جاتا ہے۔

دونوں صورتوں میں جب کہ تولیدی مادے کو مرد یا عورت سے طبی آلات کے ذریعہ حاصل کیا گیاہے اور اس کے نکلنے میں شہوت کو دخل نہیں ہے تو دونوں میں سے کسی پر غسل فرض نہیں ہے، کیوں کہ غسل فرض ہونے کے لیے منی کا شہوت کے ساتھ نکلنا ضروری ہے، حنفیہ، مالکیہ اورحنابلہ اسی کے قائل ہیں(1)، چنانچہ  حضرت علیؓ کہتے ہیں :

’’کنت رجلا مذاء فجعلت اغتسل حتی تشقق ظھری۔ فذکرت ذالک للنبیﷺ، فقال رسول اللہﷺ لاتفعل، اذا رایت المذی فاغسل ذکرک وتوضا وضوءک للصلاۃ فاذا فضخت الماء فاغتسل‘‘(سنن أبي داود: 206)

مجھے کثرت سے مذی آتی تھی اور میں اس کی وجہ سے غسل کیا کرتا تھا جس سے میری پیٹھ پھٹنے لگی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے اس کا تذکرہ کیا تو فرمایا:غسل مت کیا کرو۔جب مذی نظر آئے تو اپنی شرمگاہ دھو دو اور نماز کے وضو کی طرح وضو کرو۔اور جب جوش کے ساتھ پانی نکلے تو غسل کرو۔

حدیث میں وارد لفظ” فضخ “کے معنی ہیں شدت و شہوت کے ساتھ نکلنا (عون المعبود)لہٰذا شہوت کے بغیر منی نکلنے پر غسل واجب نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ مذی کے نکلنے پر غسل نہیں ہے، حالانکہ وہ بھی منی ہی کی طرح ہے، کیونکہ وہ شہوت کے ساتھ نہیں نکلتی ہے۔

البتہ امام شافعی کے نزدیک شہوت کے بغیر بھی منی نکلنے سے غسل واجب ہے، (المجموع 158/2)اس لئے احتیاطاً غسل کرلینا چاہئے ۔

اور شہوت کے بغیر بھی مرد و عورت سے  منی نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا (البدائع 24/1)

 اسی طرح سے طبی آلات کی ذریعے شرمگاہ کے راستے سے عورت کا بیضہ حاصل کیا گیا ہے تو اس سے بھی وضو ٹوٹ جائے گا، لیکن اگر پیٹ میں سوراخ کرکے بیضہ کوحاصل کیاگیا ہے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا الا یہ كہ خون‌نکل کر بہہ پڑے کیونکہ بیضہ کے ناپاک ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے، اس لیے اباحت اصلیہ کے ضابطے سے اسے پاک سمجھاجائے گا۔ اور اگر ناپاک بھی ہو تو وہ اس درجہ باریک اور لطیف ہوتا ہے کہ خورد بین کے بغیر اسے نہیں دیکھاجاسکتا ہے، اس لیے وہ قلیل کے درجے میں اور اس طرح سے کم مقدار میں ناپاکی معاف ہے۔

اور مرد سے منی حاصل کرکے طبی آلات کے ذریعے بچہ دانی میں داخل کرنے سے عورت پر غسل واجب نہیں ہے بشرطیکہ اس عمل کی وجہ سے اسے انزال نہ ہو، چاروں امام اسی کے قائل ہیں۔[22] وجہ یہ ہے کہ شریعت نے غسل کو اس شخص پر واجب قرار دیا ہے جس سے منی خارج ہو، کیونکہ شہوت کے ساتھ منی کے نکلنے سے لذت اور تسکین حاصل ہوتی ہے اور ٹیوب کے ذریعے منی داخل کرنے میں یہ وجہ نہیں پائی جاتی۔ [23]

21- بے ہوشی کے بعد غسل:

دوا وغیرہ کے ذریعہ کسی کو مکمل طورپر بے ہوش کر دیاجائے تو ہوش آنے پر اس کے لیے غسل کرلینا مستحب ہے گرچہ کپڑے یاجسم پرمنی وغیرہ کے اثرات نہ ہوں۔[24]

چنانچہ  حضرت عائشہؓ کہتی ہیں :

ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَصَلَّى النَّاسُ؟» قُلْنَا: لاَ، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ، قَالَ: «ضَعُوا لِي مَاءً فِي المِخْضَبِ». قَالَتْ: فَفَعَلْنَا، فَاغْتَسَلَ، فَذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَصَلَّى النَّاسُ؟» قُلْنَا: لاَ، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «ضَعُوا لِي مَاءً فِي المِخْضَبِ» قَالَتْ: فَقَعَدَ فَاغْتَسَلَ. (صحيح البخاري: 687، صحيح مسلم: 418)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت بوجھل ہوگئی ۔آپ نے پوچھا کیا لوگ نماز پڑھ چکے ؟ہم نے کہا نہیں ۔وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں ۔آپ نے فرمایا: میرے لئے لگن( ٹب )میں پانی رکھ دو۔ ہم نے ایسا ہی کیا ۔آپ نے غسل فرمایا اور پھر چاہا کہ اٹھیں لیکن آپ پر بے ہوشی طاری ہوگئی اور افاقہ کے بعد پوچھا: لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ہم نے کہا نہیں ۔وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں ۔آپ نے فرمایا: میرے لئے لگن میں پانی رکھ دو ۔ پھر آپ نے اس میں بیٹھ کر غسل فرمایا ۔

آپ ﷺ کے اس عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ بے ہوشی سے افاقہ پر غسل کرلینا چاہیے البتہ اگر افاقہ ہونے پر تری دکھائی دے اور اس کے منی ہونے کا یقین ہو تو غسل واجب ہے اور اگر منی یامذی ہونے میں شک ہو تو غسل واجب نہیں ہے۔ (رد المحتار 300/1.308/1)

22- کنڈوم کے ساتھ صحبت کرنے سے غسل:

مرد کے ختنے کی جگہ کے بقدر حصہ  عورت کی شرمگاہ میں داخل ہوجائے تو غسل واجب ہے خواہ انزال ہو یا نہ ہو، چنانچہ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:

’’إذا جاوز الختان الختان وجب الغسل‘‘ (سنن الترمذي:108، سنن ابن ماجه: 608)

جب مرد کے ختنے کی جگہ عورت کے ختنے کی جگہ سے آگے بڑھ جائے تو غسل واجب ہے ۔

اور حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے منقول روایت کے الفاظ یہ ہیں:

إِذَا الْتَقَى الْخِتَانَانِ، وَتَوَارَتْ الْحَشَفَةُ، فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ. (سنن ابن ماجه: 611، مسند أحمد (2/178)[25]

اور جب مرد وعورت کے ختنے کی جگہ باہم مل جائے اور سپاری چھپ جائے تو غسل واجب ہے ۔

اور بعض روایتوں میں التقاء کی جگہ ملامسہ (چھونے) کا ذکر ہے، اور التقاء وملامسہ (ملنے اور چھونے)کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کے درمیان کوئی حائل نہ ہو، اسی لیے فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص شرمگاہ پر کپڑا وغیرہ لپیٹ کر داخل کرے اور انزال نہ ہوتو غسل واجب نہیں بشرطیکہ  حائل کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے کی حرارت اور لذت محسوس نہ کریں اور اگر رکاوٹ کے باوجود حرارت اور لذت محسوس ہو تو انزال کے بغیر بھی غسل واجب ہے۔ [26]

اور کنڈوم کے استعمال کامقصد ہی ہے کہ مردو عورت ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوں مگرحمل نہ ٹھہرے، اس لیے وہ اس درجہ باریک بنا یاجاتا ہے کہ اس کی موجودگی میں بھی دونوں جنسی لذت  حاصل کرتے ہیں لہٰذا اس کے ساتھ جنسی عمل سے غسل واجب ہے گرچہ انزال نہ ہو

23- حیض روکنے یالانے کے لیے دوا کا استعمال:

بعض فرائض کی ادائیگی جیسے کہ حج کرنے یا رمضان کے خیرو برکات سے استفادے کے لیے حیض روکنے والی دواؤں کا استعمال جائز ہے بشرطیکہ اس سے صحت اور بچہ جننے کی صلاحیت کو کوئی نقصان نہ پہنچے، نیز اگر اس سے شوہر کا کوئی حق متعلق ہو تو اس سے اس کی اجازت لے لی جائے اور جائز ہونے کے باوجود بہتر ہے کہ ایسا نہ کیا جائے، کیونکہ فطری طریقے پر چلنے میں سلامتی ہے، محدث عبدالرزاق نے نقل کیا ہے کہ ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ایک عورت کے بارے میں پوچھا کہ:

’’تطاول بھا دم الحیضة فأرادت أن تشرب دواء بقطع الدم عنھا فلم یر ابن عمر بأسا ونعت ابن عمر ماء الأراک‘‘(مصنف عبدالرزاق 318/1)

حیض کا خون‌ زیادہ مدت تک آنے کی وجہ سے اگر کوئی عورت اسے روکنے کے لئے دوا پی لے تو کیا اس میں کوئی قباحت ہے ؟حضرت عبداللہ بن عمر نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور انھوں نے کہا کہ اس کے لئے وہ پیلو کی لکڑی کا پانی استعمال کرے ۔

اور معمر کہتے ہیں کہ:

’’وسمعت ابن أبي نجیح یسأل عن ذالک فلم یربه  بأسا‘‘ (حوالہ مذکور)

میں نے سنا کہ ابن نجیح سے اس کے بارے میں پوچھا جارہا تھا تو انھوں نے بھی کوئی حرج نہیں سمجھا ۔

اور دوا کے استعمال کے بعد خون نہ آئے تو عورت پاک سمجھی جائے گی، کیونکہ حیض نام ہے خاص دنوں میں خون کے آنے کا اور جب خون کا آنا بند ہے تو ان خاص دنوں میں وہ پاک رہے گی۔[27]

اسی طرح سے حیض جلد آنے کے لیے بھی کسی دوا کااستعما ل کرنا درست ہے، بشرطیکہ اس کے لیے شوہر سے اجازت لے لی جائے اور کسی واجب کو ساقط کرنے کے لیے بطور حیلہ اسے نہ اپنایاجائے اور دوا کے ذریعہ آنے والا خون حیض شمار ہوگا، اگر پندرہ دن یا اس سے زائد پاک رہنے کے بعد آئے اور تین دن تک برقرار رہے، گرچہ وہ عادت کے دنوں میں نہ آئے۔

24- بچہ دانی میں ورم یاکینسر کاعلاج:

بچہ دانی میں ورم یا کینسر کا علا ج دو طرح سے کیاجاتا ہے، ایک ریزکے ذریعے اس کی سینکائی کی جاتی ہے اور دوسرے بچہ دانی کو کاٹ کر نکال دیا جاتا ہے، پہلی صورت میں علاج کے دوران یا اس کے بعد آنے والے خون کو حیض کاخون سمجھاجائے گا بشرطیکہ وہ حیض کے دنوں میں آئے اور اگر حیض کے دنوں کے علاوہ آئے تو اسے استحاضہ کا خون باور کیا جائے گا کیوں کہ وہ رگوں کا خون ہے جو اس کے علاج کی وجہ سے بہہ پڑا ہے، رسول اللہ ﷺ سے حضرت فاطمہ بنت جیش نے پوچھا:

’’إني استحاض فلا أطھر أفأدع الصلوٰۃ؟ فقال علیه الصلاۃ والسلام: “لا إنما ذلک عرق ولیس بحیض فإذا أقبلت حیضتک فدعی الصلاة، وإذا أدبرت فاغسلي عنک الدم ثم صلي‘‘(صحیح البخاری: 226)

مجھے استحاضہ کا مرض لاحق ہے کیا نماز چھوڑ دوں ؟فرمایا : نہیں ۔وہ تو رگ کا خون ہے ۔حیض نہیں ہے ۔لہذا جب تمہارے حیض کا زمانہ آئے تو نماز نہ پڑھو اور جب وہ وقت ختم ہوجائے تو خون دھوکر اور غسل کرکے نماز پڑھو۔

اس حدیث میں کہا گیا ہے کہ جب تمہارے حیض کا زمانہ آئے تو نماز چھوڑ دو، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حیض کی عادت کے دنوں کے علاوہ جو خون آئے اسے حیض کا خون نہیں سمجھاجائے گا۔

دوسری صورت میں جب کہ بچہ دانی کوختم کردیاجائے اور اس کے بعد بھی خون آئے تو اسے حیض کاخون نہیں سمجھاجائے گا، کیونکہ حیض کا خون وہ ہے جو بچہ دانی سے آئے، چنانچہ حیض کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:

’’ھوالدم الخارج من الرحم الممتد إلی وقت معلوم‘‘(تحفة الفقهاء/33)

حیض وہ خون ہے جو بچے دانی سے آئے اور ایک مخصوص وقت تک دراز رہے ۔

25- ڈیجیٹل قرآن کو بے وضو چھونا:

موبائل وغیرہ میں جس وقت اسکرین پر قرآنی آیت ظاہر ہو تو اس وقت موبائل کو بلاوضو ہاتھ لگانا درست نہیں ہے، کیونکہ اس وقت وہ قرآن کے مانند ہے، اور حدیث میں کہا گیا کہ صرف پاک شخص ہی قرآن کو ہاتھ لائے”أَنْ لَا يَمَسَّ الْقُرْآنَ إِلَّا طَاهِرٌ” (موطا: 534)

البتہ کسی قلم یا اس مقصد کے لیے بنائی گئی پنسل سے موبائل کو ہاتھ لگائے بغیر اسے پڑھناممکن ہو تو اس کی گنجائش ہے۔

 اور اگر اسکرین پر حروف ظاہر نہ ہوں بلکہ صرف آواز آئے تو پھر موبائل کو بلاوضو ہاتھ لگانا اور اس کے ذریعے قرآن سننا درست ہے۔

  26- جنابت اور بے وضو ہونے کی حالت میں قرآن کی کمپوزنگ:

  جنابت کی حالت میں قرآن پاک پڑھنا بھی ممنوع ہے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

 كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرئنا القرآن مالك يكن جنبا (سنن الترمذي: 146)

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کے علاوہ ہر حال میں ہمیں قرآن پڑھایا کرتے تھے۔

 اور انھیں سے منقول ایک روایت میں ہے :

  لا يحجبه عن القرآن شيء ليس الجنابة (سنن أبي داود: 229)

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جنابت کے علاوہ کوئی چیز قرآن کے پڑھنے سے نہیں روکتی تھی۔

 گویا کہ جنابت کی وجہ سے ناپاکی کا اثر منہ اور ہاتھ دونوں تک پھیل جاتا ہے اس لئے اس حالت میں قرآن پڑھنا اور چھونا دونوں ممنوع ہے اور بے وضو ہونے کی صورت میں ناپاکی کا اثر صرف چھونے تک محدود رہتا ہے اس لئے ہاتھ لگائے بغیر تلاوت جائز ہے ۔اور دونوں صورتوں میں اسے براہ راست چھونا ناجائز ہے البتہ کسی علاحدہ غلاف وغیرہ کےذریعے  اسے ہاتھ لگانے میں کوئی حرج نہیں  اس لئے اگر  اسکرین پر ہاتھ نہ لگے تو جنابت اور بے وضو ہونے کی حالت میں کمپوزنگ درست گرچہ بہتر یہ ہے کہ مکمل طور پر پاکی کی حالت میں کمپوزنگ کی جائے اور جنابت و بے وضو ہونے کی حالت میں کمپوزنگ سے احتیاط کیا جائے[28]

  27- ترجمہ قرآن کو بے وضو ہاتھ لگانا:

  قرآن کریم کی ترجمے کو خواہ وہ کسی بھی زبان میں ہوں بے وضو ہاتھ لگانا مکروہ ہے کیونکہ اس کے ذریعے قرآن کے معانی کی ترجمانی ہوتی ہے اس لئے اس کا احترام بھی مطلوب ہے ۔[29]


حوالاجات

[1]  بخلاف جلد الميتة فإن عين الجلد طاهرة، وإنما النجس ما عليه من الرطوبات، وأنها تزول بالدباغ. بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 85) لأن الشرع رتب وصف النجاسة على تلك الحقيقة، وتنتفي الحقيقة بانتفاء بعض أجزاء مفهومها فكيف بالكل، فإن الملح غير العظم واللحم، فإذا صار ملحا ترتب حكم الملح. فتح القدير للكمال ابن الهمام (1/200، 201)

[2]  عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: «مَا كَانَ لِإِحْدَانَا إِلَّا ثَوْبٌ وَاحِدٌ تَحِيضُ فِيهِ، فَإِذَا أَصَابَهُ شَيْءٌ مِنْ دَمٍ قَالَتْ بِرِيقِهَا، فَقَصَعَتْهُ بِظُفْرِهَا». (صحيح البخاري: 213)

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: «قَدْ كَانَتْ إِحْدَانَا تَغْسِلُ دَمَ الْحَيْضَةِ بِرِيقِهَا تَقْرُصُهُ بِظُفْرِهَا» قَالَ: أَيُّ ذَلِكَ أَخَذَتْ بِهِ كَانَ وَاسِعًا. (مصنف عبد الرزاق: 1229)

 [3]     (وَإِلَّا مَسَّ مَاءً) أَيِ اسْتَنْجَى بِهِ أَوْ تَوَضَّأَ وَالثَّانِي بَعِيدٌ وَالْأَوَّلُ قَدْ جَاءَ مُصَرَّحًا بِهِ. حاشية السندي على سنن ابن ماجه (1/ 146)

[4]  وكذا ورق الكتابة لصقالته وتقومه، وله احترام أيضا لكونه آلة لكتابة العلم، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 340)

[5]  وفي الفتاوى دهن رجليه ثم توضأ وأمر الماء على رجليه ولم يقبل الماء للدسومة جاز لوجود غسل الرجلين. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 154)

[6]  وإن کان صلبا ممضوغا مضغا متاکدا  بحیث تداخلت أجزاؤه وصارت له لزوجة کالعجین لایجوز، غسله قل أو کثر، وھو الأصح لامتناع نفوذ الماء مع عدم الضرورۃ والحرج۔ (السعایة:180/1، نیزدیکھئے رد المحتار:289/1)

[7]   دیکھیے المعتصرمن المختصر:381/2

[8]  أخرجه أبو داود في سننه (4171) ولفظه: عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: «لَا بَأْسَ بِالْقَرَامِلِ»، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: «كَأَنَّهُ يَذْهَبُ إِلَى أَنَّ الْمَنْهِيَّ عَنْهُ شُعُورُ النِّسَاءِ»، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: كَانَ أَحْمَدُ يَقُولُ: الْقَرَامِلُ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ.  (لَا بَأْسَ بِالْقَرَامِلِ) جَمْعُ قَرْمَلٍ بِفَتْحِ الْقَافِ وَسُكُونِ الرَّاءِ نَبَاتٌ طَوِيلُ الْفُرُوعِ لَيِّنٌ وَالْمُرَادُ بِهِ هُنَا خُيُوطٌ مِنْ حَرِيرٍ أَوْ صُوفٍ يُعْمَلُ ضَفَائِرُ تَصِلُ بِهِ الْمَرْأَةُ شَعْرَهَا (كَأَنَّهُ يَذْهَبُ) أَيْ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ (أَنَّ الْمَنْهِيَّ عَنْهُ شُعُورُ النِّسَاءِ) أَيْ أَنَّ الْمَمْنُوعَ هُوَ أَنْ تَصِلَ الْمَرْأَةُ شَعْرَهَا بِشُعُورِ النِّسَاءِ وَأَمَّا إِذَا وَصَلَتْ بِغَيْرِهَا مِنَ الْخِرْقَةِ وَخُيُوطِ الْحَرِيرِ وَغَيْرِهِمَا فَلَيْسَ بِمَمْنُوعٍ. عون المعبود وحاشية ابن القيم (11/ 152)

[9]  ’’ولو أدخلت في فرجھا أودبرھا یدھا أوشیئا آخر ینتقض وضوؤھا إذا أخرجته لإنه یستصحب النجاسة،(تبیین الحقائق 8/1)

 وکل ما وصل إلی الداخل من الأسفل ثم عاد نقض لعدم انفکاکه عن بلة وإن لم یتم الدخول بأن کان طرفه في یدہ، (الهندیة 10/1)ولو احتشی في قبله أو دبرہ قطنا أومیلا ثم خرج بلا بلة فقیل لاینقض…وقبل ینقض… قلت: وھو الصواب وخروجه بلابلة نادر جداً‘‘(الفروع لابن المفلح141/1) نیز دیکھئے المجموع للنووي13/2)

[10]   كقيء حية أو دود كثير لطهارته في نفسه كماء فم النائم، أي وما عليه قليل لا يملأ الفم فلا يعتبر ناقضا. (رد المحتار 266/1)

[11]  ’’فصار کما لوانفصل قطعة من اللحم فإنه لاینقض‘‘ (البحر الرائق 82/1)

[12] ’’فخروج الدم ناقض بلاتفصیل بین کثیرہ وقلیله‘‘ (السعایہ219/1.رد المحتار 267/1)

[13]  ’’لأن ھذہ الأشیاء وإن کانت طاھرة في أنفسھما لکنھا لا تخلوعن قلیل نجس یخرج معھا‘‘ (البدائع25/1)

[14]   وكذا ينقضه علقة مصت عضوا وامتلأت من الدم، ومثلها القراد) كان (كبيرا) لأنه حينئذ (يخرج منه دم مسفوح) سائل (وإلا) تكن العلقة والقراد كذلك (لا) ينقض (كبعوض وذباب) كما في الخانية. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 139)

[15]  انظر علل الحدیث لابن أبي حاتم:21/1، السنن الکبری للبیهقي:252/2)

[16]  الجواھرالنقي مع البیھقي: 256/2، علل الحدیث:۱/۳۱۔

[17]  قال البیھقي: ھذا عن ابن عمرصحیح۔ البیھقي: 256/2 .

[18]  وینقضه خروج کل خارج نجس منه أي من المتوضئ الحي معتادا أولا من السبیلین أولا. (الدر المختار:260/1)

[19]  أجمعت الأمة علی انتقاض الوضوء بالجنون والإغماء. (المجموع 28/2)

[20]  ويجب رد عذره أو تقليله بقدر قوته (الدر المختار307/1)

[21]  (قوله: وإدخال نجاسة فيه) عبارة الأشباه: وإدخال نجاسة فيه يخاف منها التلويث. اهـ. ومفاده الجواز لو جافة، لكن في الفتاوى الهندية: لايدخل المسجد من على بدنه نجاسة .(رد‌المحتار 665/1،مطلب في أحكام المسجد)

[22]  دیکھیے الهدایة:(61/1) عقد الجواهر الثمينة لابن الشاش المالكي: (65/1) المغني: (128/1)

[23]  ولو جامعھا فیما دون الفرج فدخل منیه في فرجھا لا یجب علیھا الاغتسال منه. (البناية: 1/275) وسألت مالكا عن الرجل يجامع امرأته فيما دون الفرج فيقضي خارجا من فرجها فيصل الماء إلى داخل فرجها أترى عليها الغسل؟ فقال: لا إلا أن تكون التذت يريد بذلك أنزلت. المدونة (1/ 135) نیز دیکھئے: المھذب:30/1، الأنصاف:232/1)

[24]  ’’وندب لمجنون أفاق وکذا المغمی علیه‘‘ (الدر المختار:310/1 )

[25]  صحيح لغيره، وأخرجه ابن أبي شيبة 1/89، ومن طريقه ابن ماجه (611) عن أبي معاوية، بهذا الإسناد. ولفظهما: “التقى”، بدل: “التقت”. وأخرجه الخطيب البغدادي في “تاريخه” 1/311 و6/282 من طريقين عن عمرو بن شعيب، به. ونسبه الزيلعي في “نصب الراية” 1/84 إلى عبد الله بن وهب في “مسنده” من طريق الحارث بن نبهان، عن محمد بن عبيد الله، عن عمرو بن شعيب، به.

[26]  ولو لف ذكره بخرقة وأولجه ولم ينزل فالأصح أنه إن وجد حرارة الفرج واللذة وجب الغسل وإلا فلا والأحوط وجوب الغسل في الوجهين. حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 98)

[27]  یجب أن یعلم بأن حکم الحیض والنفاس والاستحاضة لا یثبت إلابخروج الدم وظھورہ، وھذا ھو ظاهرمذھب أصحابنا وعلیه عامة المشايخ. (الفتاوی التاتارخانیة: 330/1)

[28]  ولا تکرہ کتابة قرآن والصحیفة أو اللوح علی الأرض عند الثاني خلافاً لمحمد، وینبغي أن یقال: إن وضع علی الصحیفة ما یحول بینھا وبین یدہ یوٴخذ بقول الثاني وإلا فبقول الثالث، قاله الحلبي (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطھارة، ۳۱۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قوله: ”خلافاً لمحمد“: حیث قال: أحب إلي أن لا یکتب ؛ لأنه في حکم الماس للقرآن ، حلیة عن المحیط، قال في الفتح: والأول أقیس؛ لأنه في ھذہ الحالة ماس بالقلم وھو واسطة منفصلة فکان کثوب منفصل إلا أن یمسه بیدہ ۔ قوله: ”وینبغي الخ“: یوٴخذ ھذا مما ذکرنا عن الفتح (رد المحتار)، قولہ: ”علی الصحیفة“: قید بھا؛لأن نحو اللوح لا یعطی حکم الصحیفة؛ لأنه لا یحرم إلا مس المکتوب منه،ط (المصدر السابق)، ثم الحدث والجنابة حلا الید فیستویان في حکم المس، والجنابة حلت الفم دون الحدث فیفترقان في حکم القرء ة (الھدایة، کتاب الطھارة، باب الحیض والاستحاضة، ۱: ۶۴، ط: المکتبة الرشیدیة، کوئتة، باکستان) ۔

[29]  ولو كان القرآن مكتوبا بالفارسية يكره لهم مسه عند أبي حنيفة وكذا عندهما على الصحيح (الهندية 20/1)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply