كيا مچھلی میں بھى زکاۃ واجب ہے؟
مچھلی کا کاروبار ایک نفع بخش تجارت ہے اور اس کے لیے زراعتی زمین کو پوکھرے میں تبدیل کر دیاجاتا ہے، کیونکہ کاشت کاری میں مشقت زیادہ ہے اور منفعت کم ہے، اس کے برخلاف مچھلی پالنے میں خرچ کم اور فائدہ زیادہ ہے، تالاب میں پانی بھرنے کے لیے قدرتی نہروں اور نالیوں سے مدد لی جاتی ہے اور کبھی ٹیوب ویل کے ذریعے، کیا مچھلی کی اس تجارت کو کاشتکاری کے حکم میں رکھ کر اس پر زکاۃ عائد کی جائے گی ؟
زمین کی پیداوار میں زکاۃ کے سلسلے میں قرآن حکیم میں کہا گیا ہے:
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ} [البقرة: 267]
اے ایمان والو!جو کچھ تم نے کمایا ہو اور جو پیداوار ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالی ہو اس کی اچھی چیزوں کا ایک حصہ (اللہ کے راستے میں)خرچ کیا کرو
اور ظاہر ہے کہ مچھلی زمین سے نکلنے والی چیزوں میں شامل نہیں ہے، اس لیے اس میں زکات واجب نہیں ہوگی، گرچہ کاشت کاری کی زمین کھود کر پوکھرا بنا یا گیا ہو اوربارش اور قدرتی نہروں کے ذریعہ اس میں پانی بھرا گیا ہو، البتہ چونکہ وہ مال تجارت ہے اس لیے اگر اس کی قیمت نصاب کے بقدر ہو تو پھر سال گزرنے پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔[1]
حواله
[1] وأما السمك فلا شيء فيه بحال، في قول أهل العلم كافة، إلا شيء يروى عن عمر بن عبد العزيز. رواه أبو عبيد عنه. وقال: ليس الناس على هذا، ولا نعلم أحدا يعمل به. وقد روي ذلك عن أحمد أيضا. والصحيح أن هذا لا شيء فيه؛ لأنه صيد، فلم يجب فيه زكاة كصيد البر، ولأنه لا نص ولا إجماع على الوجوب فيه، ولا يصح قياسه على ما فيه الزكاة، فلا وجه لإيجابها فيه. المغني لابن قدامة (3/ 56)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.