كيا ريشم ميں زكاة ہے

كيا ريشم ميں زكاة ہے؟

كيا ريشم ميں زكاة ہے؟

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی، جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو یوپی۔

ریشم کے کیڑوں کی غذا کے لیے شہتوت کے درخت لگائے جاتے ہیں اور ان درختوں سے اس کے سوا کوئی خاص فائدہ وابستہ نہیں ہوتا، اس لیے اس میں عشر نہیں ہے لیکن کیا ان کیڑوں سے حاصل ہونے والے ریشم میں عشر ہے؟ کیونکہ وہ زمین کی پیداوار سے غذا حاصل کرتے ہیں، علامہ مرغینانی کہتے ہیں کہ اس میں عشر نہیں ہے، کیونکہ  شہد کی مکھی پھولوں اور پھلوں سے رس حاصل کرتی ہے اور ان دونوں میں عشر ہے، تو یہی حکم اس کا بھی ہوگا جو ان دونوں سے پیدا ہو، بخلاف ریشم کے کیڑے کے کہ وہ پتے کھاتا ہے اور پتے میں عشر نہیں ہے۔ [1]

مگر ظاہر ہے کہ اس کی بنیاد اس  پر پے کہ اس دور میں شہتوت کے درخت اس مقصد سے نہیں لگائے جاتے تھے لیکن موجودہ دور میں ان درختوں کی کاشت کا مقصدہے ان کے پتوں کے ذریعے کیڑوں کو غذا فراہم کرنا، تو جس طرح سے بالقصد اگر گھاس وغیرہ اگائے جائیں تو اس میں عشر ہے، اسی طرح سے ان درختوں سے مقصد پتا حاصل کرنا ہے اس لئے پتا عشری ہے اور کیڑا اس سے غذا حاصل کرتا ہے، لہٰذا اس کی پیداوار یعنی ریشم میں بھی عشر ہے جیسے کہ شہد میں ہے، چنانچہ صاحب کفایہ لکھتے ہیں:

امام ابوحنیفہ کے نذدیک ضابطہ یہ ہے کہ ہر وہ چیز جسے باغ میں لگایا جائے اور اس کا مقصد زمین سے آمدنی حاصل کرنا ہو تو اس میں عشر ہے۔[2]

علامہ شامی لکھتے ہیں:

مصنف کا مقصد محض بانس  نہیں  بلکہ اس سے مراد یہ تمام چیزیں ہیں جن کے ذریعے عام طور پر زمین سے آمدنی حاصل کرنا مقصود نہ ہو اور یہ کہ مسئلے کا مدار مقصد پر ہے، اس لیے اگر بانس اور گھاس وغیرہ سے مقصود آمدنی ہو تو عشر واجب ہوجائے گا۔[3]

اور شہد کے بارے میں عمر و بن شعیب کے حوالے سے منقول ہے کہ:

’’عن النبيﷺ أنه أخذ من العسل العشر‘‘.  (سنن ابن ماجه: 1824)

’’نبی ﷺ نے شہد میں سے عشر لیا‘‘۔

اور حضرت عمرؓ سے منقول ہے کہ انہوں نے ایک صاحب کو لکھا :

’’أن أدّ إليک ما کان يودّی إلی رسول الله ﷺ من عشور نحله‘‘.  (إرواء الغليل:  284/3)

’’رسول اللہؐ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں شہد کا جو حصہ عشر کے طور پر دیتا تھا وہ تمہیں بھی دے‘‘۔


حوالاجات

[1]  لأن النحل يتناول من الأنوار والثمار وفيهما العشر فكذا فيما يتولد منهما بخلاف دود القز لأنه يتناول الأوراق ولا عشر فيها. الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 108)

[2]  ’’الأصل عند أبي حنيفة أن کل ما يستنبت في الجنان ويقصد به استغلال الأراضي ففيه العشر‘‘(الکفاية مع الفتح: 186/2)

[3]  ’’ليس المراد بذالک ذاته بل لکونه من جنس ما لا يقصد به استغلال الأرض غالبا، وإن المدار علی القصد حتی لوقصد به وجب العشر‘‘.  (رد المحتار 267/3)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply