مذہبِ اسلام ميں زكاة كى حيثيت اور اس كا مقام
بقلم: محمد ہاشم بستوى
اسلام كى بنياد جن چيزوں پر ہے ان ميں سے ايك اہم ضرورى عنصر اور ركن زكاة بھى ہے، اگر كوئى شخص زكاة كا انكار كر دے، يا يہ كہہ دے كہ اسلام ميں زكاة فرض نہيں ہے تو وہ شخص دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائے گا، زكاة مالدار مسلمانوں پر فرض ہے، زكاة كى فرضيت كے بار ے ميں قرآن كريم كى بے شمار آيتيں موجود ہيں، جن ميں مسلمانوں كو زكاة دينے كى تاكيد كى گئى ہے، اور احاديث نبويہ ميں زكاة كو دين كا اہم جز قرار ديا گيا ہے، چنانچہ ايك مشہور حديث ميں وارد ہے جو حضرت عبد الله بن عمر سے مروى ہے جس كے الفاظ يہ ہيں:
عَنْ عَبْدِ الله بْنِ عُمَرَ قاَلَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: «بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ، شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَحَجِّ الْبَيْتِ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ» رواه مسلم في صحيحه (16)
حديث كا مفہوم يہ ہے كہ اسلام كى بنياد پانچ چيزوں پر ہے: ان ميں سے ايك الله كى وحدانيت اور رسول الله صلى الله عليہ وسلم كى رسالت كا اقرار ہے، دوسرى نماز ہے، تيسرى زكاة ہے، چوتھى حج ہے، پانچويں چيز روزہ ہے۔ (صحيح مسلم: 16)
اسى طرح سے زكاة كى فرضيت كے بارے وہ مشہور حديث ہے جو حضرت معاذ بن جبل سے مروى ہے جس كے الفاظ يہ ہيں:
“فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ” (صحيح البخاري: 1395، صحيح مسلم: 19)
آپ صلى الله عليه وسلم نے جس وقت حضرت معاذ كو جب يمن كا گورنر بنا كر بھيجا تھا، تو اس وقت آپ نے حضرت معاذ كو حكم ديا تھا كہ اے معاذ! جب یمن کے لوگ توحید ورسالت كا اقرار كر كے نماز پڑھنے لگيں پھرتم ان كو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان كے مال ميں زكاة كو فرض كيا ہے، جو ان كے مالداروں سے لى جائے گى اور غريبوں ميں تقسيم كى جائے گى۔ (صحیح بخاری: 1395، صحیح مسلم: 19)
ان دونوں حديثوں سے زكاة كى فرضيت اور اہميت كا اندازہ لگايا جا سكتا ہے۔
زكاة نہ دينے والوں كے ليے سخت وعيد:
مذكورہ بالا باتوں سے يہ بات بالكل واضح ہو چكى ہے كہ زكاة كا اسلام ميں بڑا مقام ہے، اس كى حيثيت اسلام ميں بنيادى ركن كى ہے، جو لوگ اسلام كو ماننے والے ہيں ان كو يہ بھى معلوم ہونا چاہئے كہ قرآن وحديث كے اعتبار سے ہر وہ مسلمان جو مالدار ہو اس پر زكاة فرض ہے، اس كا ادا كرنا ضرورى ہے، اب جو لوگ استطاعت كے باجود زكاة نہيں ديتے ہيں ان كے ليے قرآن وحديث ميں بڑى سخت وعيديں وارد ہوئى ہيں: الله تعالى فرماتے ہيں:
{وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ} [التوبة: 34]
اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو اس دن (قيامت كا دن) کے دردناک عذاب کی خبر سنا دو۔
اسى طرح احاديث ميں زكاة نہ دينے والوں كے ليے الله كے رسول كى طرف سے سخت فرمان ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا، فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِيبَتَانِ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ – يَعْنِي بِشِدْقَيْهِ – ثُمَّ يَقُولُ أَنَا مَالُكَ أَنَا كَنْزُكَ، ثُمَّ تَلاَ: (لَا يَحْسِبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ) ” الآيَةَ (رواه البخاري في صحيحه: 1403)
حضرت ابوہریرہ سے روايت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کو اللہ نے مال عطا کیا اور اس نے اس کو زکوۃ ادا نہیں کی، قیامت کے دن اس كے مال كواس کے لیے ایک گنجا سانپ بنایا جائے گا جس کے دو زہریلے ڈنک ہوں گے، اس سانپ کو اس کا طوق بنادیا جائے گا، پھر وہ اس کو اپنے جبڑوں سے پکڑے گا، پھر کہے گا : میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔ پھر آپ نے آل عمران : 180 کی تلاوت فرمائی۔ (صحیح بخاری: 1403)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ صَاحِبِ ذَهَبٍ وَلَا فِضَّةٍ، لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا، إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ، صُفِّحَتْ لَهُ صَفَائِحُ مِنْ نَارٍ، فَأُحْمِيَ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ، فَيُكْوَى بِهَا جَنْبُهُ وَجَبِينُهُ وَظَهْرُهُ، كُلَّمَا بَرَدَتْ أُعِيدَتْ لَهُ، فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ، فَيَرَى سَبِيلَهُ، إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ». قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ، فَالْإِبِلُ؟ قَالَ: «وَلَا صَاحِبُ إِبِلٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا، وَمِنْ حَقِّهَا حَلَبُهَا يَوْمَ وِرْدِهَا، إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ، بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ، أَوْفَرَ مَا كَانَتْ، لَا يَفْقِدُ مِنْهَا فَصِيلًا وَاحِدًا، تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا وَتَعَضُّهُ بِأَفْوَاهِهَا، كُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ أُولَاهَا رُدَّ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا، فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ، فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ». قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ، فَالْبَقَرُ وَالْغَنَمُ؟ قَالَ: «وَلَا صَاحِبُ بَقَرٍ، وَلَا غَنَمٍ، لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا، إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ، لَا يَفْقِدُ مِنْهَا شَيْئًا، لَيْسَ فِيهَا عَقْصَاءُ، وَلَا جَلْحَاءُ، وَلَا عَضْبَاءُ تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا، كُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ أُولَاهَا رُدَّ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا، فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ، فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ». إلى آخر الحديث….. (رواه البخاري في صحيحه: 286، ومسلم في صحيحه: 987)
ايك دوسرى روايت يہ بھى حضرت ابوہریرہ سے مروى ہے رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے ارشاد فرمايا: ہر وہ شخص جس کے پاس سونا اور چاندی ہو اور وہ اس كى زكاة نہ ديتا ہو، جب قیامت کا دن ہوگا تو اس کے لیے آگ کے پترے تیار کیے جائیں گے، اور ان کو جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا، پھر ان کے ساتھ اس شخص کے پہلو، پیشانی اور پیٹھ کو داغا جائے گا اور جب وہ پترے ٹھنڈے ہوجائیں گے تو ان کو دوبارہ آگ میں گرم کیا جائے گا، یہ عذاب اس دن دیا جائے گا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی، اس کو یہ عذاب دیا جاتا رہے گا حتیٰ کہ تمام لوگوں کا فیصلہ کردیا جائے گا، پھر وہ دیکھے گا اس کا ٹھکانا، جنت کی طرف ہوگا یا دوزخ کی طرف۔
اسى طرح جو اونٹوں ميں زكاة کا حق ادا نہیں کرے گا اس کو اس پورے دن اونٹ اپنے پیروں سے روندتے رہیں گے اور اپنے منھ سے کاٹتے رہیں گے، حتیٰ کہ تمام لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا ، پھر وہ دیکھے گا اس کا ٹھکانا جنت کی طرف ہوگا یا دوزخ کی طرف۔
اوراسى طرح جو شخص بکریوں اور بھیڑوں ميں زكاة کا حق ادا نہیں کرے گا وہ اس کو اس پورے دن تک اپنے سینگھوں سے زخمی کرتی رہیں گی اور اپنے پیروں سے روندتی رہیں گی، حتیٰ کہ تمام لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا۔ پھر وہ دیکھے گا اس کا ٹھکانا جنت کی طرف ہوگا یا دوزخ کی طرف۔ الحدیث۔ (صحیح بخاری: 286، صحیح مسلم: 987)
اسلام ميں زكاة كى فرضيت كى وجہ
ان سارى حديثوں سے يہ بات واضح ہو چكى ہے زكاة دينِ اسلام كا ايك اہم اور ضرورى حصہ ہے، اور زكاة نہ دينے والوں كى الله كے يہاں زبردست پكڑ ہے، مذہبِ اسلام ميں زكاة كى فرضيت كى دو بنيادى ضرورتيں ہيں: ايك غريب مسلمانوں كى مدد، اور دوسرى اسلام كى سربلندى، جب ہم زكاة كے مصارف اور اس كے مستحقين پر نظر ڈالتے ہيں تو يہ دونوں ضرورتيں سب پر آشكارا ہو جاتى ہيں، اس كو سمجھنے كے ليے ہم اجمالى طور پر زكاة كے مصارف اور اس كے مستحقين كو ذكر كر رہے ہيں:
مصارفِ زكاة اور زكاة كے مستحقين:
الله نے تعالى نے سورہ توبہ آيت نمبر 60 ميں زكاة كے مصارف خود بيان كر ديا ہے:
{إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ } [التوبة: 60]
زکاۃ تو غریبوں، حاجت مندوں، صدقہ وصول کرنے پر متعین کارکنوں، وہ لوگ جن کی دلجوئی مقصود ہو، غلاموں، مقروضوں، اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والوں اور مسافروں کا حق ہے، یہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے اور اللہ خوب جاننے والے اور حکمت والے ہیں۔
اس آيت كريمہ كے حساب سے زكاة كے كل آٹھ مصارف ہيں جو درجِ ذيل ہيں:
(1) فقراء (2) مساكين (3) عاملين يعنى حكومت كى طرف سےصدقات اور زكاة وصول كرنے والے (4) مؤلفة القلوب يعنى نئے مسلمانوں كى دلجوئى، (5) مقروض حضرات (6) غلاموں كو آزاد كرنا (7) مسافرين (8) مجاہدين
نوٹ: ان مصارف ميں تھوڑى بہت تفصيل ہےجس كو ہم نے اپنے مضمون: زكاة قرآنى آيات كى روشنى ميں ذكر كيا ہے، مراجعت كے ليے نيچے كے لنك پر كلك كريں:
زكاة قرآنى آيات كى روشنى ميں
بہر حال ان مصارف ميں سے فقراء مساكين، مقروضين، مسافرين اور عاملين كا جو مصرف ہے وہ بلا واسطہ يا بالواسطہ غريب مسلمانوں كى مدد ميں داخل ہے، اور مؤلفة القلوب اور مجاہدين كا جو مصرف ہے وہ اعلائے كلمة الله اور اسلام كى سربلندى كے ليے ہے، اور زكاة كے بارے ميں اسلام كى منشا يہى ہے كہ اس سے غريب مسلمانوں كى مدد ہو اور اسلام كى سربلندى ہو، اسى وجہ سے اسلام ميں زكاة فرض ہے۔
زكاة كس مسلمان پر فرض ہے؟ كب اور كتنى نكالنى ہے؟
اتنا جاننے كے بعد اب اجمالى طور پر يہ بھى جان لينا چاہئے كہ ہر وہ مسلمان جس كے پاس 612.36 گرام چاندى يا 87.48 گرام سونا ہو، يا ان دونوں ميں سے كسى ايك كے برابر روپيه پيسہ ہو اور اس كى روز مرہ كى ضروريات سے زائد ہو، اس پر زكاة فرض ہے، اسے اپنے پورے روپے اور پيسے سے ايك سال كا عرصہ گزرنے كے بعد 2.5 پرسينٹ كى زكاة نكالنا ضرورى ہے۔
خلاصہ:
مذكورہ سارى باتوں كا خلاصہ يہ نكلا كہ اسلام كى نظر ميں زكاة كى بڑى اہميت ہے، اس كا مقصد اسلام كى سربلندى اور غريب مسلمانوں كى مدد ہے، زكاة ہر مالدار مسلمان پر فرض ہے، زكاة نہ دينے والوں ليے قرآن وحديث ميں سخت وعيديں ہيں، ہر وہ مسلمان جو صاحبِ نصاب ہو اس كو اپنے مال سے سال ميں ايك بار 2.5 پرسينٹ نكال كر مصارف زكاة ميں سے كسى ايك مصرف ميں دينا ضرورى ہے۔


Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.