مطلقہ سے ایلاء کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دیا، پھر دوران عدت اپنی مطلقہ سے ایلاء بھی کرلیا، اور مدت ایلاء میں اپنی بیوی سے صحبت بھی نہیں کیا، یعنی ایلاء کا ثبوت ہوگیا، تو ایسی صورت میں مطلقہ کون سی عدت گزارے گی؟ عدت طلاق یا عدت ایلاء؟ یا دونوں؟
برائے کرم تشفی بخش جواب عنایت فرماکر ممنون فرمائیں!
المستفتی منظر کمال ندوی مئو
الجواب باسم الملهم للصدق والصواب
سوال میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ زید نے اپنی بیوی کو طلاق رجعی دیا تھا یا طلاق بائن؟ اس لئے دونوں صورتوں کا حکم ذیل میں الگ الگ تحریر کیا جاتا ہے۔
(1) اگر زید نے اپنی بیوی کو طلاق بائن دیا ہے تو اب اس مطلقہ سے ایلاء نہیں کرسکتا اور اگر كرے گا تو باطل ہو جائے گا اس لئے کہ ایلاء بیوی سے کیا جاتا اور مطلقہ بائنہ نکاح سے بالکلیہ خارج ہونے کی وجہ سے اس کی بیوی نہیں رہی۔
(2) اور اگر زید نے طلاق رجعی دیا ہے تو چونکہ اس کی بیوی نکاح سے بالکلیہ خارج نہیں ہوئی ہے اور ابھی حکمًا اس کی بیوی ہے اس لئے ایسی عورت سے ایلاءصحیح ہوگا؛ لیکن اگر مدت ایلاء (چار مہینہ)گزرنے سے پہلے طلاق رجعی کی عدت مکمل ہوجائے تب بھی ایلاء باطل ہوجائے گا، اور اگر امتداد طہر کی وجہ سے طلاق رجعی کی عدت مکمل ہونے سے پہلے چار مہینہ مکمل ہوجائے تو ایلاء صحیح ہوگا اور اس ایلاء کی وجہ سے ایک طلاق بائن اور پڑے گی، اب اگر اس عورت سے نکاح کرتا ہے تو آئندہ صرف ایک طلاق کا مالک ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
الدلائل
قال الله تعالى: ﴿لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ ۖ فَإِن فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ، وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ. وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ﴾ الآية (البقرة: 226- 228)
عن عبد الله وعن أناس من أصحاب رسول الله ﷺ فذکر التفسیر -إلی قوله- الطلاق مرتان. قال: هو المیقات الذي یکون علیها فیه الرجعة، فإذا طلق واحدة، أو ثنتین،فإما أن یمسک ویراجع بمعروف وإما یسکت عنها حتی تنقضي عدتها، فتکون أحق بنفسها. (السنن الکبریٰ للبیهقي، الرقم: 15539).
وحکمه وقوع طلقة بائنة إن برَّ ولم یطأ، ولزم الکفارة أو الجزاء المعلق إن حنث بالقربان أي الوطء حقیقة. (تنویر الأبصار مع الدر المختار، کتاب الطلاق/ باب الإیلاء 5/ 60-61 زکریا)
فإن بعد ماطلقها واحدة، أو ثنتین، فانقضت عدتها لو طلقها لایصح طلاقه. (فتاوی التاتار خانیة، زکریا4/ 391، رقم: 6503).
فإن طلقها ولم یراجعها؛ بل ترکها حتی انقضت عدتها بانت. (بدائع الصنائع بیروت، 4/ 387، زکریا 3/ 283).
(وَالصَّرِيحُ يَلْحَقُ) الطَّلَاقَ (الصَّرِيحَ) سَوَاءٌ كَانَ صَرِيحًا بَائِنًا مِثْلُ أَنْ يُقَالَ لِلْمَدْخُولِ بِهَا أَنْتِ طَالِقٌ بَائِنٌ وَطَالِقٌ، أَوْ طَالِقٌ بَائِنٌ أَوْ صَرِيحًا غَيْرَ بَائِنٍ مِثْلُ أَنْ يُقَالَ أَنْتِ طَالِقٌ وَطَالِقٌ وَهِيَ فِي الْعِدَّةِ تَطْلُقُ ثِنْتَيْنِ لِتَعَذُّرِ جَعْلِهِ إخْبَارًا لِتَعَيُّنِهِ إنْشَاءً شَرْعًا، وَكَذَا لَا يُصَدَّقُ لَوْ قَالَ أَرَدْت الْإِخْبَارَ (وَ) يَلْحَقُ الصَّرِيحُ (الْبَائِنُ) يَعْنِي إذَا أَبَانَهَا، أَوْ خَالَعَهَا عَلَى مَالٍ، ثُمَّ قَالَ لَهَا أَنْتِ طَالِقٌ، أَوْ هَذِهِ طَالِقٌ فِي الْعِدَّةِ يَقَعُ عِنْدَنَا؛ لِحَدِيثِ الْخُدْرِيِّ مُسْنَدًا «الْمُخْتَلِعَةُ يَلْحَقُهَا صَرِيحُ الطَّلَاقِ مَا دَامَتْ فِي الْعِدَّةِ». (مجمع الأنهر 406/1).
والله أعلم
تاريخ الرقم: 26/4/1440هـ 3/1/2019م الخميس
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.