hamare masayel

موروثی زمین کو فروخت کر نے کے بعد تقسیم کرنا

(سلسلہ نمبر: 356)

موروثی زمین کو فروخت کر نے کے بعد تقسیم کرنا

سوال: ایک شخص بیس سال پہلے ایک زمین کا اپنی بہنوں کے ساتھ وارث ہوا تھا، لیکن اس وقت اس زمین سے اپنی بہنوں کا حصہ نہیں دیا، اب بیس سال بعد وہ اپنی بہنوں کو حصہ دینا چاہتا ہے تو کس طرح دے گا؟

یاد رہے میراث میں ملی ہوئی زمین وہ شخص بیچ چکا ہے اور اس سے حاصل شدہ قیمت کے ذریعے دیگر زمین وغیرہ خرید چکا ہے جس کی قیمت میراث میں ملی زمین سے چار پانچ گنا زیادہ ہے

اب سوال یہ ہے کہ وہ شخص بیس سال پہلے میراث میں ملی ہوئی زمین کی قیمت  کے حساب سے حصہ دے گا؟ یا اس زمین کو بیچ کر جو دیگر زمین وغیرہ خریدی ہے اس کے حساب سے دے گا؟

نوٹ: موروثہ زمین دس لاکھ کی بیچ کر دس لاکھ کی دوسری زمین خرید لی اور اس دوسری زمین کی قیمت اس وقت پچاس لاکھ ہوگئی ہے، اب پچاس لاکھ کے حساب سے میراث دینی ہوگی؟ بینوا توجروا۔

 المستفتی: احمد بجنوری۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

 تقسیم سے پہلے بلا اجازت تمام شرکاء ترکہ میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر کوئی وارث بقیہ ورثاء کی اجازت کے بغیر تصرف کرلے تو نفع ونقصان کا وہی ذمہ دار ہوگا، یعنی اگر ترکہ کو تجارت میں استعمال کرے اور نفع حاصل ہو تو نفع صرف اسی وارث کا ہوگا بقیہ ورثاء اس نفع میں شریک نہیں ہوں گے اور اگر تجارت میں خسارہ ہوجائے تو ذمہ دار وہی وارث ہوگا بقیہ ورثاء کے حصہ سے کمی نہیں ہوگی۔

لہذا صورت مسئولہ میں اس شخص نے اگر ترکہ کی زمین کو بہنوں کی اجازت کے بغیر دس لاکھ میں فروخت کیا تھا تو یہی دس لاکھ ترکہ ہے اسی میں سے بہنوں کا جتنا حصہ بنتا ہو وہ ادا کرے، دوبارہ خریدی ہوئی زمین کی مالیت کے حساب سے تقسیم نہیں ہوگی۔

الدلائل

لو تصرف أحد الورثة في الترکة المشترکة وربح، فالربح للمتصرف وحدہ، کذا في الفتاویٰ الغیاثیة. (الفتاویٰ الہندیة، کتاب الشرکۃ / الباب السادس في المتفرقات 2/346 کوئٹہ).

إذا بذر بعض الورثة الحبوب المشترکة بإذن الکبار أو رضي الصغار تصیر جملة الحاصلات مشترکة بینهم في الأراضي الموروثة، أما لو بذرها بغیر إذن بقیة الورثة، فالغلة للزارع فقط. (شرح المجلۃ لسلیم رستم باز 1/609 رقم: 1089)

إذا أخذ أحد الورثة مبلغًا من نقود الترکة قبل القسمة بدون إذن الآخرین وعمل فیه وخسر کانت الخسارۃ علیه، کما أنه إذا ربح لا یسوغ لبقیة الورثة أن یقاسموہ الربح. (شرح المجلۃ لسلیم رستم باز 1؍610 رقم: 1090).

لأن الترکة في الاصطلاح ما ترکه المیت من الأموال صافیًا عن تعلق حق الغیر بعین من الأموال. (رد المحتار / کتاب الفرائض 6/759 کراچی، 10/493 زکریا)

أعیان المتوفیٰ المتروکۃ عنہ مشترکۃ بین الورثۃ علی حسب حصصہم. (شرح المجلۃ لسلیم رستم باز 1/610 رقم المادۃ: 1092 کوئٹہ).

والله أعلم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

10- 10- 1441ھ 3- 6- 2020م الأربعاء.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply