مولانا اسماعیل شہید کی حق گوئی

مولانا اسماعیل شہید کی حق گوئی و جرات ایمانی اور اکبر شاہ ثانی کی حقیقت پسندی

مولانا اسماعیل شہید کی حق گوئی و جرات ایمانی اور اکبر شاہ ثانی کی حقیقت پسندی

مرتب: محمد ہاشم بستوى

شاہ اسماعیل شہید کا مختصر  تعارف

آپ كا نام شاہ محمد اسماعیل شہید، پیدائش :26 Apr 1779 | مظفر نگر, اتر پردیش، وفات :06 May 1831 بالا كوٹ (پاكستان كا  ايك شہر )

آپ شاہ ولی اللہ کے پوتے اور حضرت شاہ عبد الغنی کے بیٹے۔ اور شاہ عبد العزیزدہلویؒ، حضرت شاہ رفیع الدین دہلویؒ اور شاہ عبد القادر دہلویؒ کے بھتیجےہيں، آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے چچا شاہ عبدالعزیز کے زیر سایہ ہوئی۔سید احمد بریلوی نے سکھوں کے خلاف جو جہاد کیا تھا شاہ اسماعیل اس میں اُن کے دست راست رہے اور بالاخر بالاکوٹ ضلع ہزارہ میں شہید ہوئے۔بالاکوٹ میں ہی سید احمد بریلوی کے ساتھ مدفون ہیں۔ان کی مشہور کتاب تقویۃ الایمان ہے اس کے علاوہ اصول فقہ، منصب امامت، عبقات، مثنوی سلک نور اور تنویر العینین فی اثبات رفع الیدین بھی آپ کی تصانیف ہیں۔

شاہان مغلیہ کے عہد زوال کے ایک بادشاہ اکبر ثانی” گذرے ہیں۔ ان کی بادشاہت کے دور میں جب کہ انگریزوں کا دہلی اور دہلی کے نواح واطراف میں قبضہ ہو چکا تھا۔ لال قلعہ اور جامع مسجد وغیرہ پر ان کا تسلط نہیں تھا، اسی دوران ایک دن مولانا اسماعیل شہید جامع مسجد کے حوض پر بیٹھے ہوئے اصحاب ارادت و عقیدت کو وعظ ونصیحت رہے تھے تھوڑی دیر میں مجاوروں نے جامع مسجد کے ایک حجرہ سے تبرکات کے نام ہے کچھ چیزیں نکالیں ، وہ چیزیں آں حضرت ﷺ کی طرف منسوب موئے مبارک اور نعلين شريف تھیں، اس کو مجاوروں نے ہاتھ میں لیا اور باہر نکالتے ہی حاضرین میں جن جن لوگوں نے ديکھا، سلام کیا ، ادب و احترام سے سرو قد کھڑے ہو گئے ۔ لیکن جب مولانا اسماعیل شہید كےپاس سے گذرے تو نہ انہوں نے کھڑے ہو کر احترام کیا اور نہ ان کے اصحاب مجلس نےتكريم  کی ۔

جب یہ مجاور حضرات تبرکات کو لے کر لال قلعہ تک پہونچے تو اکبرثانی کے ملاحظہ میں ان تبرکات کو پیش کرتے ہوئے رونے لگے، دوبارہ استفسار پر کہنے لگے:  ان تبرکات کی تو ہین ہو گئی۔ واقعہ کے طور پر کہا کہ ان تبرکات کو لے کر ہم لوگ جامع مسجد سے نکلے تو ہر ایک نے تكریم و تعظیم کی ، لیکن مولانا اسماعیل شہید اور ان کے حلقہ کے لوگ جامع مسجد میں بیٹھے رہ گئے اور ان تبرکات کی کوئی تکریم ہی نہیں کی ، تو بادشاہ نے ان کو انعام دے کر رخصت کیا اور کہا کہ ہم مولانا اسماعیل شہید کو بلا کر ان سے دریافت کریں گے، اور ہرکارہ ( قاصد ) مولانا اسماعیل شہید کی خدمت میں بھیج دیا۔

مولانا اسماعیل شہید کے پاس ہرکارہ پہونچا تو انہوں نے خط کے جواب میں لکھا: میں وقت مقررہ پر حاضر ہو جاؤں گا ، اور سلام مسنون کر کے آپ کے پاس بیٹھ جاؤں گا۔ میں جھک جھک کر سات مرتبہ فرشی سلام کو نہیں اختیار کروں گا، جو آپ کے سامنے علماء و حاضرین دربار کیا کرتے ہیں۔ مشورہ کیلئے شاہ عبد العزیز کے پاس آئے ، انہوں نے فرمایا: تم کو جانے سے انکار کرنا چاہئے ۔ ہم لوگ کسی تقریب کے موقعہ پر( پہلے سے ) بلائے جاتے ہیں، ہاتھ کے ہاتھ نہیں بلائے جاتے تو مولانا نے کہا: میں نے تو جانے کا فیصلہ کر لیا ہے، تو شاہ عبدالعزیز نے فرمایا: کہ جب تم نے فیصلہ کر لیا ہے، تو جاؤ لیکن انگریز ریزیڈنٹ کو خبر کرو ، تا کہ بادشاہ کوئی غلط قدم تمہارے معاملے میں نہ اتھائے۔ (مولانا شہید نے ) فرمایا، میں انگریز ریزیڈنٹ کے پاس نہیں جاؤں گا۔ میرا تو کل صرف اللہ پر ہے، اور شاہ عبدالعزیز کو یہ آیت کریمہ سنائی، “قل لن يصيبنا الا ما كتب اللـه لنـا وهـو مـولـنا وعلى الله فليتو كل المؤمنون” ( آپ فرمادیجئے کہ ہم پر کوئی حادثہ نہیں پڑ سکتا مگر وہی جو اللہ نے ہمارے لئےمقدر فرمایا ہے، وہ ہمارا مالک ہے، اور اللہ کے تو سب مسلمانوں کو اپنے سب کام سپر در کھنے  چاہئيں(توبه (51)

چنانچہ آپ لال قلعہ میں تشریف لے گئے اور اکبر شاہ ثانی لال قلعہ سے اٹھ کر شاہی محل ميں چلا گیا، پھر مولانا اسماعیل شہید شاہی محل میں پہونچ گئے۔ اکبر شاہ ثانی جہاں بیٹھے تھے وہیں آپ بھی السلام علیکم کہہ کر بیٹھ گئے ۔ بادشاہ نے کہا: آپ حضرات کی زیارت و ملاقات کا شرف بہت کم ملتاہے، آج آپ کی تشریف آوری سے ہمیں بڑی سعادت حاصل ہوئی۔ ہم چاہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی سیرت پاک پر آپ ہمیں کچھ سنائیے۔ آپ نے وعظ فرمانا شروع کیا اور سیرت پاک کے ان واقعات کو بیان کیا جو رسول اللہ ﷺ پر دعوت و تبلیغ کے موقعہ پر ابو جہل وغیرہ سے تکلیف پہنچی تھی اور جو تکلیف طائف کی تبلیغ کے موقع پر وہاں کے شریر اوباش لڑکوں نے حضور ﷺ کو پہنچائی، اور بالو ریت اور کنکرڑ کی بوچھار کیا تھا، اور تیر اندازوں نے تیروں کی بارش کر کے آپ ﷺ کے بدن کو زخمی کر دیا تھا۔ آپ کے بدن سے خون بہ کر ایڑیوں میں پہونچا جو جوتے سے چپک گیا تھا۔

حضور نے کی اس دعوت وتبلیغ کے ایسے پر درود پر تاثیر واقعات کو بیان فرمایا کہ اکبر شاہ ثانی رونے لگا اور مولانا اپنی پرکشش اور پرتاثیر باتیں بیان کرتے رہے، کئی رومال اس کے آنسوؤں سے تر ہو گئے۔ جب مولانا اسماعیل شہید نے سمجھا کہ اب بہت رو چکا تو اپنی تقریر کے لب ولہجہ کو ہلکا کیا، دھیرے دھیرے بادشاہ کی سسکیاں باقی رہ گئیں، مولانا نے بھی اپنے وعظ کی گرمی کومدھم کیا اور اخیر میں وعظ ختم کر کے بیٹھ گئے ، اس پر اکبر شاہ ثانی نے کہا: اس نبی کی محبت میں اور اس کی دعوت وتبلیغ کے پر تا ثیر واقعات کے بیان میں آپ خود بھی روتے ہیں اور دوسروں کو بھی رلاتے ہیں، تو اس نبی کے تبرکات سے آپ نے کوئی محبت کیوں نہیں فرمایا، اور ان کی تکریم و تعظیم آپ نے کیوں نہیں کی۔ مولانا نے فرمایا، وہ تبرکات کیسے ہونگی؟اور نبی ﷺ کے نعلین شریفین اور موئے مبارک کا ثبوت کہاں سے ملا کہ وہ حضور ﷺ کی ہی چیزیں ہیں؟

تو بادشاہ نے کہا، ہمارے دادا با برشاہ کے عہد سے یہ تبرکات آئی تھیں اور وہیں سے دہلی لائی گئیں۔ مولانا نے فرمایا، بادشاہوں کے پاس تبرکات کے نام سے چیزیں لانے والے لاتے ہیں اور بادشاہ ان کو انعام دے کر رخصت کر دیتا ہے اور تبرک کی چیزوں کو قبول کر لیتا ہے لیکن ان کی کون سی سند ہے،کہ ان کی لائی ہوئی چیزیں اصلا حضور ﷺ  کی ہیں۔ پھر مولانا نے فرمایا کہ آپ کے یہاں صحیح بخاری شریف ہو تو منگوا يئے۔

 بادشاہ کے حکم سے صحیح بخاری شریف کتب خانہ سے نکل کر آگئی ۔ اکبر شاہ ثانی اور مولانا بدستور بیٹھے رہے ۔ مولانا نے صحيح بخاری کو ہاتھ میں لیا اور کہا:صحيح بخاری کی تمام احادیث رسول ﷺ کی طرف صحيح نسبت رکھتی ہیں، آپ ﷺ کے تمام اقوال اور آپ کے تمام افعال آپ کے سامنے کئے گئے، صحابہ کے افعال سب کے سب اس میں اصلی نسبت کے ساتھ موجود ہیں۔ یہ گنجينہء  عامرہ جو  نبى ﷺ كى صحيح نسبتوں کا مجموعہ ہے لیکن آپ نے اور ہم نے اس کی کوئی تعظیم نہيں کی اور ان مشکوک نعلین اور موئے مبارک کی جو آپ نے تعظیم کی جن کا کوئی ثبوت نہیں کہ یہ چیزیں رسول ﷺ کی طرف واقعی نسبت رکھتی ہیں۔  علاوہ ازیں اگر وہ تبرك کی چیزیں تھیں تو ان کی زیارت آپ کو وہاں جا کر کرنی تھی، نہ یہ کہ وہ چیزیں آپ کے پاس لائی جائیں مثل ہے کہ پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے، کنواں پیاسے کے پاس نہیں لایا جا تا۔ اگر وہ چیزیں خیر و برکت کی تھیں تو آپ کو وہاں جانا چاہئے ۔

 اس کے بعد اکبر شاہ ثانی لا جواب ہو گیا، اور مولانا نے اکبر شاہ ثانی سے مزید کہا کہ اپنے جس نانا جان کی محبت میں ابھی آپ رور ہے تھے ان کا فرمان آپ کو کیا نہیں معلوم کہ یہ سونے کا کنگن جسے آپ پہنے ہوئے ہیں، آپ کے نانا جان نے مردوں پر حرام کیا ہے۔ اکبر شاہ ثانی نے فورا جواب دیا کہ میرے نانا جان نے جب اس کو حرام ٹہرایا ہے تو اس کو میں فورا نکالتا ہوں ، آپ بھی اس کنگن کو ہاتھوں سے نکالنے میں مددفرمائیے۔

 جب دونوں کنگن نکل گئے تو اکبر شاہ ثانی نے کہا کہ:  میرے دربار میں پچاسوں علماء آج بھی موجود ہیں جن کی پوری طرح خبر گیری اور کفالت کرتا ہوں لیکن کسی نے یہ نہیں بتایا کہ میرے نانا جان نے سونے کو حرام کیا ہے ورنہ میں کب کا نکال چکا ہوتا ، پھر مولانا سے اکبر شاہ ثانی نے کہا کہ میرے دونوں کنگن ہمراہ لیتے جائیے گا اور فقیروں کو دید یجئے گا۔ مولانا نے فرمایا کہ آپ اسے بطور خود اپنے ذریعہ سے صدقہ کیجئے، اگر میں اسے لے جاؤں گا تو آپ کے درباری علماء يہی کہیں گے کہ اسماعیل آیا تھا اور بادشاہ کے سونے کا کنگن اینٹھ کر لے گیا۔ یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ اس کو فقراء میں تقسیم کر دیں۔

 اکبر شاہ ثانی نے مولانا کو بڑی عزت واحترام کے ساتھ رخصت کیا ، سواری کیلئے گھوڑا دیا، سات پارچہ خلعت دیا اور شاہی خوان غلاموں کے ساتھ گھر پر بھیج دیا۔ اکبر شاہ ثانی نے مولانا کی بہت عزت و تکریم کی تھی ۔ یہ اس کی علم دوستی اور علماء اسلام کی قدردانی اور سر پرستی کا ایک نادر واقعہ تھا۔ اس طرح اور بھی علماء نوازی اور معارف پروری کے واقعات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

(ماخوذ از تذكرہ سيد احمد شہيد مصنفہ رئيس احمد جعفرى ، بحوالہ تعميرِ حيات لكھنؤ 25 جون 1996ء)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply