hamare masayel

نکاحانہ کی شرعی حیثیت، نکاح پڑھانے کی اجرت، نکاح کے پیسے لینا

  • Post author:
  • Post category:نکاح
  • Post comments:0 Comments
  • Post last modified:July 16, 2021
  • Reading time:1 mins read

(سلسلہ نمبر: 543)

نکاحانہ کی شرعی حیثیت

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں: قاضی کا نکاح پڑھا کر اجرت لینا کیسا ہے؟ یہ اجرت لڑکی والوں سے لینگے یا لڑکے والوں سے؟ عموماً لڑکی والے بلاتے ہیں اور اجرت لڑکے والوں سے وصول کی جاتی ہے، کیا ایسا کرنا درست ہے؟ اگر ہم نکاحانہ کو اجرت کہتے ہیں تو اجرت جانبین سے طے ہونی چاہیے  ایسا ہوتا نہیں، کیا مجہول اجرت درست ہے؟  قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرماکر ثواب دارین حاصل کریں۔

المستفتی: عبدالحمید قاسمی چماواں پھول پور۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: نکاح پڑھا کر اجرت لینا شرعاً درست ہے، لیکن ہمارے عرف میں نکاح کے بعد لڑکے والوں کی طرف سے جو رقم قاضی کو دی جاتی ہے وہ نکاح پڑھانے کی اجرت نہیں بلکہ ایک طرح کا ہدیہ ہے، اس لئے لڑکے والوں کی طرف سے اس ہدیہ کے قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اور اگر کہیں نکاح پڑھانے کی اجرت پہلے سے طے کی جاتی ہو تو اگر قاضی کو بلانے والے لڑکی والے ہیں اور وہی طے کرکے لائے ہیں، تو اس صورت میں اس کی اجرت لڑکی والوں پر ہی ہوگی؛ کیوں کہ بلانے والے وہی لوگ ہیں، لڑکے والے پر اس کی اجرت نہیں؛ لہٰذا ان پر اس کا بار ڈالنا بھی جائز نہیں ہے؛ لیکن اگر لڑکے والے بخوشی نکاح خواں کی اجرت دے دیتے ہیں، یا لڑکے والوں نے لڑکی والوں کو نکاح خواں کو بلانے کا مکلف بنایا ہے اور ان ہی کے کہنے کے مطابق لڑکی والوں نے نکاح خواں کو بلایا ہے، تو نکاح خوانی کی اجرت لڑکے والوں کو ادا کرنی ہوگی، اور اگر کہیں قاضی کو لڑکی والے بلاتے ہیں اور اجرت لڑکے والے دیتے ہیں اور اس کا تعارف وتعامل ہوچکا ہے، تو لڑکے والوں کی طرف سے دلالۃً لڑکی والوں کے لئے اجازت ہوتی ہے، تو ایسی صورت میں بھی لڑکے والے اجرت دے سکتے ہیں؛ لیکن اس بات کو صراحت کے ساتھ طے کر لیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ (مستفاد: کفایت المفتی قدیم:5/ 152) ۔

اسی طرح اگر اجرت پہلے سے طے نہ ہو تو مفضی الی النزاع نہ ہو تو ایسی اجرت لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

الدلائل

 قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : “تصافحوا يذهب الغل، وتهادوا تحابوا، وتذهب الشحناء”. (الموطأ للإمام مالك، رقم الحديث: 2641).

والعرف في الشرع له اعتبار … لذا عليه الحكم قد  يدار. (رد المحتار: 3/ 147).

وکل نکاح باشرہ القاضي، وقد وجبت مباشرته علیه کنکاح الصغار والصغائر، فلا یحل له أخذ الأجرۃ علیه وما لم تجب مباشرته علیه حل له أخذ الأجرۃ علیه. (الفتاوى الهندیة: 3/ 304، جدید زکریا).

والأجرة إنما تكون في مقابلة العمل. (رد المحتار: 3/ 156).

والجهالة ليست بمانعة لذاتها بل لكونها مفضية  إلى النزاع. (رد المحتار: 6/ 53).

والله أعلم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.

13- 4- 1442ھ 29- 10- 2020م الأحد.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply