yaume ashura

يوم عاشورہ، اس كا روزہ اور مروجہ بدعات احاديث كے تناظر  ميں

يوم عاشورہ، اس كا روزہ اور مروجہ بدعات احاديث كے تناظر  ميں

بقلم:  محمد ہاشم  قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ

یوم عاشورہ کی تاریخی حیثیت

سال میں کچھ دن ایسے مخصوص ہیں کہ جنکی فضیلت بہت زیادہ ہے، ان دنوں میں عبادت کرنے سے ثواب زیادہ ملتا ہے ،انہی دنوں میں سے ایک دن یوم عاشورہ کا دن بھی ہے ۔

 یوم عاشورہ کی تاریخی حیثیت مسلم ہے اہل کتاب میں بھی اور مسلمانوں میں بھی،زمانہ قدیم سے لوگ اسکا احترام کرتے چلے آۓ ہیں،اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئى،نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان کے بعد اسی دن جودی پہاڑ پر ٹھہرى ،حضرت موسی علیہ السلام کو اسی دن فرعون کی غلامی سے نجات ملی،اور فرعون ملعون اسی دن دریاۓ نیل میں غرق ہوا، قریش بھی زمانہ جاہلیت سے اس دن کا احترام کرتے تھے،  ١٠  محرم میں ہی خانہ کعبہ پر غلاف ڈالتے تھے،بہر حال ابتدائے آفرينش سے ہى اس دن عظمت اور وقعت سب كے دلوں ميں پيوستہ تھى۔

یوم عاشورہ کی فضیلت احادیث کی روشنی میں

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَحَرَّى صِيَامَ يَوْمٍ فَضَّلَهُ عَلَى غَيْرِهِ إِلَّا هَذَا اليَوْمَ، يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَهَذَا الشَّهْرَ يَعْنِي شَهْرَ رَمَضَانَ. (أخرجه البخاري في صحيحه (2006)، ومسلم في صحيحه (1132).

ترجمہ: حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:کہ میں نے نبی ﷺ کو کسی فضیلت والے دن کے روزے کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سواۓ اس دن یعنی یومِ عاشورہ کے اور سواۓ اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔

حضرت ابن عباسؓ نے آپکے طرزِ عمل سے یہی سمجھا کہ نفل روزوں میں جس قدر اہتمام آپ ﷺ یومِ عاشورہ کے روزوں کا کرتے تھے،اتنا کسی دوسرے روزے کا نہیں کرتے تھے۔

عَنْ أَبِي قَتَادَةَ: في حديث طويل وفيه: ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ. (أخرجه الإمام مسلم في صحيحه (1162)، وأبو دادو في سننه (2425)، والترمذي في سننه (752).

ترجمہ: حضرت ابو قتادہؓ ايك لمبى حديث كے ضمن ميں  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ عاشورہ کے دن کا روزہ گزشتہ سال کے روزوں کا کفارہ ہو جاۓگا۔

ان احادیث شریفه سےيہ بات اظہر من الشمس ہو جاتى ہے کہ یوم عاشورہ بہت ہی عظمت و تقدس کا حامل ہے،لہذا ہمیں اس دن کی برکات سے بھرپور فیض اٹھانا چاہۓ، اور روزہ ركھنا چاہئے۔

عاشوره كا روزہ

صحيح احاديث سے معلوم ہوتا ہے كہ رمضان سے پہلے عاشورہ كا روزہ فرض اور ضرورى تھا، ليكن جب رمضان كے روزوں كى فرضيت مشروع ہوئى تو عاشورہ كے روزے كى فرضيت منسوخ ہو گئى، چنانچہ بخارى شريف ميں آيا ہے:

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ المَدِينَةَ صَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَكَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ.  صحيح البخاري: (2002)

ترجمہ:  حضرت عائشہ رضى اللہ عنہا فرماتى ہيں: قريش زمانہ جاہليت ميں بھى عاشورہ كے روزہ كا اہتمام كرتے تھے، جب رسول الله  ﷺ مكہ سے ہجرت كر كے مدينہ تشريف لائے تو آپ بھى اس دن روزہ ركھتے تھے اور صحابہ كرام سے بھى ركھنے كے ليے كہتے تھے، اور يہ عمل رمضان كے روزوں كى فرضيت تك چلتا رہا، جب رمضان كے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ كے روزوں كى فرضيت منسوخ ہو گئ، اور على حاله يہ روزہ سنت ہے فرض نہيں ہےـ۔

 اس بات پرسارے علما كا اتفاق ہےکہ عاشوراء کے دن روزہ رکھنا سنت ہے ۔ اختلاف اس میں ہے کہ صرف ایک روزہ کافی ہے یا یہودیوں کی مخالفت کرتے ہوئے دو روزہ رکھنا ضروری ہے ، اس سلسلہ ميں حافظ ابن قيم رحمہ الله نے اپنى مشہور كتاب زاد المعاد ميں بڑى قيمتى بات لكھى ہے جس يہاں نقل كرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ، وه فرماتے ہيں كہ:

فَمَرَاتِبُ صَوْمِهِ ثَلَاثَةٌ أَكْمَلُهَا: أَنْ يُصَامَ قَبْلَهُ يَوْمٌ وَبَعْدَهُ يَوْمٌ، وَيَلِي ذَلِكَ أَنْ يُصَامَ التَّاسِعُ وَالْعَاشِرُ وَعَلَيْهِ أَكْثَرُ الْأَحَادِيثِ، وَيَلِي ذَلِكَ إِفْرَادُ الْعَاشِرِ وَحْدَهُ بِالصَّوْمِ. (زاد المعاد:( 2/72)

يعنى عاشورہ كے روزوں كو ركھنے كے تين طريقے ہيں: سب سے بہتر طريقہ يہ ہے كہ: يوم ِعاشورہ سے ايك دن پہلے روزہ ركھے اور ايك دن بعد ميں  يعنى 9، 10، 11 محرم پورے تين دن ـ۔

اور دوسرا طريقہ جو اس سے كم درجہ كا ہے ، اور اكثر احاديث اسى پر دلالت كرتى ہيں، وہ يہ ہے كہ 9، 10 محرم كو ركھے۔

اور تيسرا طريقہ يہ ہے كہ صر ف دسويں كو ركھے ـ۔

عاشورہ كے دن اہل و عیال پر وسعت

خوشى اور مسرت كے ايام آدمى روز مرہ كے مقابلہ ميں كھانے پينے ميں تنوع كرتا ہے، اس ميں اپنى استطاعت كے بقدر فراخ دلى سے كام ليتا ہے، عاشورہ كا دن ايك حساب سے خوشى و مسرت كا دن ہے، اس سے خوشى كے بہت سارے واقعات جڑے ہيں، تو اس دن فرض اور ضرورى نہ سمجھتے ہوئے تھوڑى بہت فراخ دلى دكھانے اور كھانے پينے ميں وسعت برتنے ميں كوئى مضائقہ نہيں ہے، عاشورہ كے دن كھانے پينے ميں فراخى كے سلسلہ ميں عام طور پر لوگ ايك مشہور روايت سے استدلال كرتے ہيں جس كے الفاظ يہ ہيں :

 “مَنْ وَسَّعَ عَلَى عِيَالِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللهُ عَلَيْهِ فِي سَائِرِ سَنَتِهِ”.

ترجمہ: جو شخص یوم عاشوراء میں اپنے اہل و عیال پر خرچ میں وسعت سے کام لے ،اس پر اللہ تعالی سال بھر وسعت برتتے ہیں ۔

سب سے پہلے ہم اس روايت كى تخريج كرتے ہيں پھر اس پر مجموعى حكم لگائيں گے، اور اس سے مستنبط احكام كے بارے ميں اجمالى طور پر بتائيں گے:

حديث كى تخريج

امام بيہقي نے اس حديث كو شعب الايمان (3513)  ميں، اور امام طبرانى نے معجم كبير (10007) ميں اورعقيلى نے  الضعفاء الكبير (3/252) ميں حضرت عبد بن مسعود، سے روايت كيا ہے۔

اسى روايت كو امام بيہقى نے شعب الايمان (3515) ميں ، ابن عدى نے الكامل فى ضعفاء  الرجال (2/374) ميں،  اور عقيلى نے الضعفاء الكبير (4/65) ميں، اور امام نعيم اصبہانى نے تاريخ اصبہان (1/239) ميں حضرت ابو ہريرہ سے روايت كيا ہے۔

 اور امام بيہقى نے شعب الايمان (3514) ميں،  اور امام طبرانى نے معجم اوسط (9302) ميں، اور ابن ابى الدنيا نے النفقة على العيال (2/566) ميں حضرت ابو سعيد خدرى سے روايت كيا ہے۔

اور اس كے علاوه اس حديث كے اور بہت سے طرق ہيں ، ليكن طوالت كے خوف سے ان كو چھوڑ ديا گيا ہے۔

حديث پركلام

مشہور محدث اسماعيل بن محمد  عجلونى نے اپنى مشہور كتاب: كشف الخفاء ومزيل الإلباس عما اشتهر من الأحاديث على ألسنة الناس (2/283، 284)  ميں اس پر  وارد ہونے والے سارے كلام كو ايك جگہ نقل كر ديا ہے جو ہم عربى داں حضرات كے پيش كرتے ہيں:

قال في الدرر تبعا للزركشي لا يثبت إنما هو من كلام محمد ابن المنتشر، ورده السيوطي في التعقبات بأنه ثابت صحيح، وأخرجه البيهقي في الشعب عن أبي سعيد الخدري وأبي هريرة وابن مسعود وجابر بأسانيد ضعيفة إذا ضم بعضها إلى بعض تقوت، وقال الحافظ أبو الفضل العراقي في أماليه حديث أبي هريرة ورد من طرق صحح بعضها الحافظ أبو الفضل بن ناصر، وأورده ابن الجوزي في الموضوعات من طريق سليمان بن أبي عبد الله عنه، وقال سليمان مجهول وسليمان ذكره ابن حبان في الثقات قال وله طريق عن جابر على شرط مسلم أخرجها ابن عبد البر في الاستذكار من رواية أبي الزبير وهو أصح طرقه، قال النجم ولفظه من وسع على نفسه وأهله يوم عاشوراء أوسع الله عليه سائر سنته.

وورد أيضا من حديث ابن عمر أخرجه الدارقطني في الأفراد موقوفا على عمر وأخرجه ابن عبد البر بسند جيد، ورواه في الشعب عن محمد بن المنتشر فذكره، قال وقد جمعت طرقه في جزء هذا كلام العراقي في أماليه، وقد لخصت الجزء الذي جمعه في التعقبات على الموضوعات انتهى ما في الدرر، وقال السخاوي في المقصد رواه الطبراني والبيهقي وأبو الشيخ عن ابن مسعود والأولان فقط عن أبي سعيد والثاني فقط عن جابر وأبي هريرة وقال إن أسانيده كلها ضعيفة ولكن إذا ضم بعضها إلى بعض استفاد قوة بل قال العراقي في أماليه الحديث أبي هريرة طرق صحح بعضها الحافظ ابن ناصر الدين، قال العراقي وقد جمعت طرقه في جزء واستدرك عليه الحافظ ابن حجر كثيرا لم يذكره، وتعقب اعتماد ابن الجوزي ذكره له في الموضوعات وأورده ابن حبان في الثقات فالحديث حسن على رأيه.

امام عجلونى كى سارى تفصيلات كو مدّ نظر ہوئے اس حديث پر كم سے كم حسن كا حكم لگايا جا سكتا ہے، اور يہ حديث لائق عمل ہے، مسلمانوں میں یہ دن خوشی و مسرت کا دن سمجھا جاتا ہے، مجموعی طور پر عاشوراء کی تاریخ اور خصوصیات اور اس دن جو انبیاء اور رسولوں کی تاریخ وابستہ ہے بحیثیت مجموعی اس کو دیکھتے ہوئے اس دن اچھا کھانے پینے میں حرج نہیں ، كھانے پينے ميں فراخى خوشى كے ايام ہى ميں ہوتى ہے۔

ایام عاشورہ میں رونما ہونے والى خرافات اور ان كا ازالہ

شيعوں كى وجہ اس متبرك دن ميں بہت سى خرافات بھى راہ پا گئى ہيں، انھوں نے اس پورےمہينے كو شہادت حسين سے جوڑ ديا ہے، اور باقى سارى خوبيوں كو وہ يكسر بھلا بيٹھے ہيں،محرم ميں رونما ہونے والے ان كے سارے خرافات بے اصل وبے بنياد ہيں، جن كا ہمارے دين اسلام سے كوئى واسطہ نہيں ہے، انہيں ميں سے ماتم کی مجلس، تعزیہ کے جلوس، دسویں محرم کو کھچڑا پکانا،  پانی یا شربت کی سبیل لگانا، حضرت حسين كے غم ميں سينہ كوبى وغيرہ كرنا شامل ہيں، ان سارے خرافات كا اہل سنت والجماعت سے كوئى لينا دينا نہيں، يہ سب شيعوں كى ايجاد كردہ بدعات ہيں جن ہمارے دين سے كوئى تعلق نہيں ہے

بخارى شريف ميں حضرت عائشہ سے روايت فرماتى ہيں:

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ، فَهُوَ رَدٌّ. (أخرجه البخاري في صحيحه. (2697)

حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ہمارے دین میں کوئى ایسی نئى بات ايجاد كى  جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ بات اس كے منھ پر مار دى جائے گى۔

اس قاعدہ كى رو سے شيعوں كے ذريعہ منعقد ہونے والى تمام مجالس بدعات ميں شامل ہيں، مسلمانوں كا ان كى  ماتم کی مجلس میں جانا اور تعزیہ نکالنا یا تعزیہ کی مجلس میں شامل ہونا یہ سب گناہ کے کام ہیں،  ہمیں چاہۓ کہ ہم ان خرافات اور بدعات سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ اللہ رب العزت ہم سبکی ان بدعات و خرافات سے ہماری حفاظت فرماۓ آمین ثم آمین یا رب العلمین۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply