hamare masayel

چچا کی موجودگی میں پوتا محروم ہوگا، کیا دادا کی وراثت میں پوتوں کا حصہ ہے؟

(سلسلہ نمبر: 433)

چچا کی موجودگی میں پوتا محروم ہوگا

سوال: ہمارے دادا کے تین لڑکے اور آٹھ لڑکیاں ہیں، ہمارے دادا اور ہمارے ابو ایک ساتھ کاروبار کرتے تھے، جو نفع نقصان ہوتا تھا ہمارے دادا ہی رکھتے تھے، ہماری دادی کا غالبا سن 1990ء میں انتقال ہوجاتا ہے، اور ہمارے دادا دوسری شادی کرلیتے ہیں جس کو لے کر ہمارے ابو اور دادا میں اختلاف ہوجاتا ہے، اور ہمارے دادا ہمارے ابو کو پوری جائیداد سے بے دخل کردیتے ہیں بلا کچھ معاوضہ دئیے ہوئے، پھر ہم لوگ اپنے نانیہال چلے جاتے ہیں، پھر سن 1997ء میں ہمارے ابو ہم لوگوں کو نانیہال سے دادیہال لے کر آتے ہیں، پھر اچانک سن 2006ء میں ہمارے ابو کا انتقال ہوجاتا ہے، اس دوران  1997 سے لے کر 2011 تک ہم لوگ دادیہال میں رہتے ہیں۔

اب ہمارے چچا لوگ کہہ رہے ہیں کہ آپ لوگوں کا اسلام سے کوئی حصہ نہیں بنتا ہے، اب ہم لوگ اللہ کے آسمان کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، اگر ہمارے ابو ہمارے دادا کے یہاں تنخواہ پر ہوتے یا اپنی پوری کمائی دادا کو نہ دیتے تو ہم لوگ یہ دن نہیں دیکھتے۔برائے مہربانی اس مسئلہ کا جواب ارسال فرمائیں۔

المستفتی: محمود احمد طوی، اعظم گڑھ۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

صورت مسئولہ میں آپ کے دادا کے ترکہ میں آپ لوگوں کا شرعاً کوئی حق نہیں ہے، یہ اللہ کا فیصلہ ہے اور اللہ اپنے بندے کے بارے میں جو بہتر ہوتا ہے اسی کا فیصلہ کرتا ہے، بظاہر یہ فیصلہ گرچہ اچھا معلوم نہیں ہوتا لیکن یقیناً اسی میں آپ حضرات کے لئے خیر پوشیدہ ہے، ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ مستقبل میں آپ حضرات کو وراثت کے ذریعہ ملنے والے حصہ سے بھی زیادہ عنایت فرمادیں، اس لئے تسلیم ورضا اور صبر وشکر کے ساتھ زندگی گزاریں ان شاء اللہ خیر ہی خیر ہوگا۔

نوٹ: آپ کے والد نے دادا کے ساتھ کاروبار میں جو ساتھ دیا تھا اس میں بھی آپ لوگوں کا حق نہیں ہے۔

الدلائل

ویحرم الحفید لکونه أبعد بالنسبة إلیه، وهذا ما أجمعت علیه الأمة الإسلامیة منذ القرون الأولیٰ، لم یختلف فیه أحد من الفقهاء، حتی ظهرت في بلادنا طائفة مستغربة تحکم رأیها في جمیع مسائل الشریعة فشذت عن الأمة في کثیر من المسائل منها هذہ المسئلة، فقالت: إن الحفید إنما یحرم من المیراث عند وجود أبیه، لا عند وجود أعمامه، فیرث الحفید الیتیم وإن کان معه أبناء المیت الآخرون غیر والد ذلک الحفید، ویکون في ذٰلک قائمًا مقام أبیه۔ واستدلوا علی ذٰلک بقوله: {یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلاَدِکُمْ} قالوا: إن لفظ {الْاَوْلاَدِ} یشمل الأحفاد أیضًا۔ وإن دلیلهم هذا ینبئ عن جهلهم بأصول الفقه، وذٰلک أن ’’الولد‘‘ یراد بہ الابن حقیقة والحفید مجازًا، وتقرر في أصول الفقه، وذٰلک أن الجمع بین الحقیقة والمجاز في وقت واحد لا یجوز۔ فلا یراد بہ ’’الابن‘‘ و’’الحفید‘‘ في وقت واحدٍ۔ وإلا لزم أن یدخل في هذہ الکلمات جمیع الأحفاد، وأحفادهم عند وجود أبناء الصلب، ویشارکون في المیراث، وهذہ لا تقول به تلک الطائفة أیضًا. (تکملۃ فتح الملهم، کتاب الفرائض / مسئلۃ میراث الحفید عند وجود الابن 2/17 مکتبۃ دار العلوم کراچی).

الأقرب فالأقرب یرجحون بقرب الدرجۃ. (سراجي 32 الأمین کتابستان دیوبند).

الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له ألا ترى لو غرس شجرة تكون للأب. (رد المحتار: 4/ 325).

اَبٌ وابن یکتسبان في صنعة واحدۃ ولم یکن لھما مال فالکسب کله للاب إذا کان الابن في عیال الاب لکونه معینًا له. (الفتاویٰ الھندیة: 2/ 329).

والله أعلم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

16- 12- 1441ھ 7- 8- 2020م الجمعة.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply