hamare masayel

ضرورت سے زائد کپڑوں پر زکوة نہیں

ضرورت سے زائد کپڑوں پر زکوة نہیں

سوال : لڑکیاں اپنی شادی میں جو کپڑے پاتی ہیں وہ ضرورت سے بہت زائد ہوتے ہیں، کیا ان کپڑوں پر زکوة آئے گی؟

 المستفتی : محمد عبد اللہ قاسمی کٹولی کلاں

الجواب باسم الملهم للصدق والصواب:

ایسے کپڑوں پر زکوة نہیں ہے؛ کیونکہ زکوة واجب ہونے کے لیے مال کا اصلا یا حکما نامی ہونا بھی شرط ہے، کپڑا مال نامی نہیں ہے؛ اس لئے اس کو نصاب میں شامل نہیں کیا جائے گا۔

دارالعلوم دیوبند کے مفتیان کرام تحریر کرتے ہیں کہ ضرورت اصلیہ کی چیزیں، مثلا: گاڑی، کپڑا وغیرہ اگر ضرورت سے زائد ہوں، تب بھی اُن پر زکوة فرض نہیں ہے۔ (فتوی نمبر 66557).

 اسی طرح مولانا یوسف صاحب لدھیانوی رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ زیورات کے علاوہ استعمال کی چیزوں پر زکوٰة نہیں۔

نوٹ: ایسے کپڑے وغیرہ جو ضرورت سے زائد ہوں وہ تو زکوة کے نصاب میں شامل نہیں کئے جائیں گے؛ لیکن صدقہ فطر کی ادائیگی کے وقت اگر کپڑوں وغیرہ کی مالیت نصاب تک پہنچ جائے تو صدقہ فطر ادا کرنا ہوگا، گرچہ نصابِ زکوٰة اور نصابِ صدقۂ فطر کی مقدار ایک ہی ہے، لیکن نصابِ زکوٰة اور نصاب صدقۂ فطر میں یہ فرق ہے کہ زکوٰة فرض ہونے کے لئے تو چاندی یا سونا یا مالِ تجارت ہونا ضروری ہے اور صدقۂ فطر واجب ہونے کے لئے ان تین چیزوں کی خصوصیت نہیں، بلکہ اُس کے نصاب میں ہر قسم کا مال حساب میں لے لیا جاتا ہے۔ ہاں حاجت ِاصلیہ سے زائد اور قرض سے بچا ہوا ہونا دونوں نصابوں میں شرط ہے۔

پس اگر کسی شخص کے پاس اُس کے استعمال کے کپڑوں سے زائد کپڑے رکھے ہوئے ہوں یا روز مرہ کی ضرورت سے زائد تانبے ، پیتل، چینی وغیرہ کے برتن رکھے ہوں یا کوئی مکان اُس کا خالی پڑا ہے اور کسی قسم کا سامان اور اسباب ہے اور اُس کی حاجت اصلیہ سے زائد ہے اور اُن چیزوں کی قیمت نصاب کے برابر یا زیادہ ہے تو اُس پر زکوٰة فرض نہیں ،لیکن صدقۂ فطر واجب ہے۔

صدقۂ فطر کے نصاب پر سال بھر گذرنا بھی شرط نہیں، بلکہ اُسی روز نصاب کا مالک ہوا ہو تو بھی صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے۔ (مستفاد از تعلیم الاسلام حصہ چہارم)۔

الدلائل

(ولا فی ثیاب البدن) لمحتاج إلیها لدفع الحر والبرد، ابن ملک، (وأثاث المنزل ودور السکنی ونحوها)، وکذا الکتب وإن لم تکن لأهلها إذا لم تنو للتجارة. (الدر المختار مع رد المحتار: 2/265، کتاب الزکاة، ط: دار الفکر، بیروت).

وشرط عندنا (لوجوب صدقة الفطر) ملک النصاب الفاضل عن حاجته الأصلیة من غیر اشتراط النماء. (لمعات التنقیح في شرح مشکاة المصابیح: 4/281 دار النوادر).

تجب (صدقة الفطر) علی حر مسلم مکلف مالک لنصاب أو قیمته وإن لم یحل علیه الحول. (مراقي الفلاح مع الطحطاوي/باب صدقة الفطر: 595 مصري).

 والله أعلم

تاريخ الرقم: 14-9-1439ه 30-5-2018م الأربعاء

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply