بانڈز اور شیئرز

بانڈز اور شیئرز كى شرعى حيثيت، اور ان پر زكاة

بانڈز اور شیئرز كى شرعى حيثيت

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی، جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو یوپی۔

حکومت یا کمپنیوں کی طرف سے بسا اوقات لوگوں سے قرض دینے کی خواہش کی جاتی ہے  اورایک محدود مدت میں فائدے کے ساتھ واپسی کی ضمانت دی جاتی ہے اور ثبوت کے لیے سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے، اسی کو بانڈ کہتے ہیں غرضیکہ قرض کی سند اور وثیقہ کو بانڈز کہا جاتا ہے۔

ظاہر ہے کہ یہ بھی ایک سودی معاملہ ہے اور حرام ہے اور اگر اصل رقم نصاب کے بقدر ہے تو وصولی کے بعد تمام سالوں کی زکاۃ فرض ہوگی۔

شیئر کے معاملے میں بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ اس کے صرف اس رقم پر زکوٰۃ ہے جو کاروبار میں لگی ہوئی ہے اور رقم کا جو حصہ مشنری اور عمارت وغیرہ پر خرچ ہوا ہے اس میں زکوٰۃ نہیں ہے، کیونکہ یہ چیزیں ضرورت اصلیہ کی فہرست میں داخل ہیں نیز اگر شیئر کمپنی نے جمع کردہ رقم سے زمین و مکان یا مشین حاصل کرکے اسے کرایہ پر لگاکر فائدہ حاصل کررہی ہے تو اب زکاۃ اسی وقت فرض ہے جب کہ اس سے حاصل ہونے والی ہر ایک کی آمدنی نصاب کے بقدر ہو، ورنہ زکوٰۃ نہیں۔

اس کے برخلاف بعض لوگوں کا رجحان یہ ہے کہ کسی تفصیل کے بغیر شیئرز پر زکوٰۃ ہے، کیونکہ عرف و رواج میں شیئرز خود ایک سامان تجارت کی حیثیت رکھتے ہیں اور اسی حیثیت سے ان کی خرید و فروخت ہوتی ہے، اس لیے جن لوگوں نے اصل حصے کو باقی رکھ کر اس سے ہونے والی آمدنی سے استفادہ کے ارادے سے شیئرز خریدے ہوں  اور کمپنی کی طرف سے لگائی گئی قیمت کے اعتبار سے وہ نصاب تک پہنچتے ہوں تو اس کی زکوٰۃ واجب ہے اور جن لوگوں نے قیمت بڑھنے پر فروخت کرنے کے ارادے سے خریدے ہوں اور مارکیٹ ریٹ کے اعتبار سے اس کی قیمت نصاب تک پہنچ جائے تو اس کی زکاۃ فرض ہے اور یہی رائے زیادہ صحیح ہے اور یہی احتیاط کا تقاضا ہے۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply