hamare masayel

بلا طلاق دوسرے سے نکاح

 (سلسلہ نمبر: 709)

بلا طلاق دوسرے سے نکاح

سوال: مقبول نامی شخص ایک لڑکی (جن کا نام ثمینہ ہے) سے نکاح کیا، نکاح کے پانچ ماہ بعد لڑکی کی اجازت کے بغیر دوسرا نکاح کیا، بعد میں لڑکی کو پتہ چلا ملا تو لڑکی فورا اپنے والد کے گھر چلی گی، لڑکے مقبول سے خلع طلب کیا؛ لیکن لڑکا خلع دینے کے لئے تیار نہیں تھا، چھ سال تک وہ لڑکی کو ایسے چھوڑے رکھا، لڑکی کے والد نے دار القضاء میں انگریزی میں درخواست بھی لکھا کر دیا تھا، لیکن لڑکا نہ آنے کی وجہ سے اس درخواست کو قاضی صاحب نے واپس کردیا، لڑکی کے والد انگریزی نہ جاننے کی وجہ سے اس کو خلع نامہ سمجھ لئے پھر اسی لا علمی میں اپنی لڑکی کا نکاح کرایا دیا، اب پہلا شوہر اعتراض کرتا ہے ہے کہ میں نے خلع نہیں دیا ہے تو میرے خلع کے بغیر نکاح نہیں ہوتا تو اب دوسرا نکاح فسخ کرنے کے بعد‌ کیا لڑکی کو عدت گزارنا ہے یا نہیں؟ یا عدت کے بغیر ہی پہلے شوہر سے خلع لے سکتی ہے؟

جواب مدلل دیں، عین نوازش ہوگی۔

المستفتی: سید نوید بنگلور

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: صورت مسئولہ میں ثمینہ کا جب دوسرا نکاح کرایا گیا، اس وقت اگر اس کے شوہر کو یہ معلوم تھا کہ یہ دوسرے کے نکاح میں ہے تو یہ نکاح باطل ہوا، فوراً علاحدگی اور توبہ واستغفار ضروری ہے، ایسی صورت میں عدت کی ضرورت نہیں ہے، اور اگر دوسرے شوہر کو یہ معلوم نہیں تھا اور بظاہر ایسا ہی معلوم ہوتا ہے تو یہ نکاح فاسد ہوا ، اس میں بھی فوراً علاحدگی اور مہر کی ادائیگی ضروری ہے، اور شوہر پر لازم ہے زبان سے متارکت کے الفاظ (میں نے تجھ سے جدائی اختیار کی وغیرہ) بول کر علاحدہ ہو؛ اس کے بعد اگر پہلے شوہر کے پاس واپس جانا چاہتی تو عدت گزار کر جانا ہوگا اس سے پہلے نہیں۔

اب ایسی صورت میں علاحدگی کے فوراً بعد اگر شوہر اول خلع یا طلاق دے دیتا ہے تو ایک ہی عدت کافی ہے، اور اگر اس عدت کے شروع ہونے یا ختم ہونے کے بعد خلع یا طلاق دیتا ہے تو اس وقت سے دوبارہ عدت شروع ہوگی۔

الدلائل

قال الله تعالى: وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ. (النساء: 24).

أما نکاح منکوحة الغیر ومعتدته؛ لأنه لم یقل أحد بجوازہ، فلم ینعقد أصلا۔ (رد المحتار: 5/ 197، زکریا).

ومنها أن لا تکون منکوحو الغیر لقوله تعالیٰ: وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ. وهي ذوات الأزواج. (بدائع الصنائع: 2/ 548، زکریا).

(وعدة المنكوحة نكاحاً فاسداً) فلا عدة في باطل.

 (قوله: نكاحاً فاسداً) هي المنكوحة بغير شهود، ونكاح امرأة الغير بلا علم بأنها متزوجة. (الدر المختار مع رد المحتار) (5/ 197، زكريا).

لأن الطلاق لا يتحقق في النكاح الفاسد بل هو متاركة۔۔۔في البزازية المتاركة في الفاسد بعد الدخول لا تكون إلا بالقول كخليت سبيلك أو تركتك ومجرد إنكار النكاح لا يكون متاركة. (ردالمحتار: 4/ 276، 277، زكريا).

ولو تزوج بمنکوحة الغیر وهو لا یعلم أنها  منکوحة الغیر فوطئها تجب العدۃ، وإن کان یعلم أنها منکوحة الغیر لا تجب حتی لا یحرم علی الزوج وطؤها. (الفتاوى الهندية: 1/ 346، زكريا جديد).

وإذا وطئت المعتدۃ بشبھة وجبت عدۃً اخریٰ لتجدد السبب وتداخلتا.

وفي الدرر: اعلم أن المرأة إذا وجب عليهاعدتان، فإما أن يكونا من رجلين، أو من واحد، ففي الثاني لا شك أن العدتين تداخلتا، وفي الأول إن كانتا من جنسين كالمتوفى عنها زوجها إذا وطئت بشبهة، أو من جنس واحد كالمطلقة إذا تزوجت في عدتها فوطئها الثاني وفرق بينهما تداخلتا عندنا ويكون ما تراه من الحيض محتسبا منهما جميعا، وإذا انقضت العدة الأولى ولم تكمل الثانية فعليها إتمام الثانية. اهـ. (رد المحتار: 5/ 200، 201، زكريا).

والله أعلم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.

14- 8- 1443ھ 18- 3- 2022م الجمعة.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply