hamare masayel

نکاح کے وقت لڑکی کا نام غلط ہو جائے

  • Post author:
  • Post category:نکاح
  • Post comments:0 Comments
  • Post last modified:July 4, 2021
  • Reading time:1 mins read

(سلسلہ نمبر: 485)

نکاح کے وقت لڑکی کا نام غلط ہو جائے

سوال: اگر نکاح میں لڑکی کا نام بدل جائے تو نکاح منعقد ہوگا یا نہیں؟ جیسے زید کا نکاح سازیہ سے ہونا طے تھا لیکن قاضی نکاح نے نکاح نامہ میں سازیہ کے بجائے راضیہ لکھ دیا اور اسی نام سے ایجاب کیا اور لڑکے نے قبول کیا، ایجاب وقبول راضیہ نام پر اس لئے ہوگیا کہ اس وقت کوئی اعتراض کسی کی طرف سے نہیں ہوا کیونکہ ان لوگوں نے سمجھا کہ اس لڑکی کا نام راضیہ ہی ہے جس سے نکاح ہونا طے پایا ہے، باقی اور کسی کے نام میں کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے، نکاح ہوئے مہینہ گزرچکا ہے، نیز راضیہ لڑکی کی بہن کا بھی نام نہیں ہے، اب اس صورت میں نکاح منعقد ہوگا یا نہیں؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔

المستفتی: ابو سلمان، ممبر مجلس مشاورت۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: نکاح کی مجلس نکاح میں اگر لڑکی موجود تھی تو نام غلط ہونے کی باوجود اس کا نکاح صحیح ہوچکا ہے اور اگر نکاح کی مجلس میں لڑکی موجود نہیں تھی اور نکاح خواں نے رسید پر غلط لکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی زبان سے بھی غلط نام لے کر کے نکاح پڑھایا ہے تو ایسی صورت نکاح منعقد نہیں ہوا؛ اس لئے کہ اس شکل میں لڑکی متعین نہیں ہوئی، حالانکہ نکاح کے اندر لڑکی کا متعین ہونا لازم ہوتا ہے۔

چونکہ لڑکی لڑکا نکاح درست سمجھ کر ایک ساتھ رہ چکے ہیں اس لئے مہر دینا ضروری ہوگا، آگے اگر دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔

نوٹ: اس دوران اگر عورت کو حمل ٹھہر گیا ہو تو پیدا ہونے والے بچہ کا نسب ثابت ہوگا۔

الدلائل

والحاصل أن الغائبة لا بد من ذكر اسمها واسم أبيها وجدها، وإن كانت معروفة عند الشهود على قول ابن الفضل، وعلى قول غيره يكفي ذكر اسمها إن كانت معروفةعندهم وإلا فلا ………. لو زوجه بنته ولم يسمها وله بنتان لم يصح للجهالة بخلاف ما إذا كانت له بنت واحدة إلا إذا سماها بغير اسمها ولم يشر إليها فإنه لا يصح كما في التنجيس. اهـ. (رد المحتار:  3/ 22).

إذا دخل الرجل بالمرأۃ علی وجه شبہة أو نکاح فاسد فعلیه المہر وعلیها العدۃ ثلاث حیض إن کانت حرۃ. (البنایة على الهداية: 5/ 604، المكتبة الأشرفية ديوبند).

الأصل فیما إذا دخل الرجل علی غیر امرأته فدخل بها قال: علیه مهر لها لأنه دخل بها بشبهة النکاح لأن خبر الواحد حجة فی المعاملات فیصیر شبهة تسقط الحد ویجب المهر … وعلیها العدۃ ویثبت نسب ولدها منه. (فتح القدیر:3/ 349، زكريا ديوبند).

هذا ما ظهر لي والله أعلم وعلمه أتم وأحكم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

1- 2- 1442ھ 20- 9- 2020م الأحد.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply