رکعات کی تعداد بتانے والا مصلیٰ

رکعات کی تعداد بتانے والا مصلیٰ

رکعات کی تعداد بتانے والا مصلیٰ

بعض ایسے مصلے بنائے گئے ہیں جس میں سجدے کی جگہ پرایک مشین فٹ ہوتی ہے اور اس کے کنارے ایک چھوٹی سی اسکرین لگی ہوتی ہے جس کے ذریعہ سجدوں اور رکعات کی تعداد معلوم ہوتی ہے، کیااس مقصد کے لیے اس طرح کے جائے نماز کا استعمال درست ہے؟

عبادتوں کے سلسلے میں یہ واضح رہنا چاہیے کہ اس میں اصل شریعت کی اتباع، آسانی اور سہولت کاحصول میں تکلف سے احتراز ہے اور نماز کامقصد اللہ کا ذکر اور اس سے تعلق کی مضبوطی ہے اور اس کاتقاضا ہے کہ انسان مکمل طور پر نماز میں حاضر رہے اور ادھر ادھر کے خیالات میں الجھانہ رہے، حضرت عمار بن یاسرؓ کہا کرتے تھے:

’’لا يکتب للرجل من صلاته ما سها عنه‘‘(کتاب الزھد لابن مبارک: 1300)

کسی کی نماز کا وہ حصہ نہیں لکھا جائے گا جسے اس نے غفلت کی حالت میں گزارا ہے۔

اور اگرکبھی ذہن بھٹک جائے اور اس کی وجہ سے سجدے یارکعات وغیرہ کی تعداد میں شک ہوجائے تو احادیث میں اس کی تلافی کی صورت مذکور ہے کہ غور و فکر کرنے کے بعد ظن غالب پرعمل کرے اور اگر کسی پہلو پر غالب گمان نہ ہو تو پھر یقین پر عمل کر ے، جیسے کہ یہ شک ہوجائے کہ اس نے دورکعت کی پڑھی  ہے یا تین رکعت اور غور و فکر کے ذریعے کسی ایک کا گمان غالب ہوجائے تو اس پر عمل کرے، ورنہ اسے دو رکعت مان کر بقیہ مکمل کرے، چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ، فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى ثَلَاثًا أَمْ أَرْبَعًا، فَلْيَطْرَحِ الشَّكَّ وَلْيَبْنِ عَلَى مَا اسْتَيْقَنَ، ثُمَّ يَسْجُدُ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ، فَإِنْ كَانَ صَلَّى خَمْسًا شَفَعْنَ لَهُ صَلَاتَهُ، وَإِنْ كَانَ صَلَّى إِتْمَامًا لِأَرْبَعٍ كَانَتَا تَرْغِيمًا لِلشَّيْطَانِ» (صحیح مسلم: ۵۷۱)

اگر کسی کو نماز میں شک ہو جائے اور پتہ نہ چلے کہ بس نے تین رکعت پڑھی ہے یا چار ۔تو وہ شک کو ایک طرف کرکے یقین پر عمل کرے اور پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرلے۔اگر بس اس نے پانچ رکعت پڑھ لی ہے تو یہ دوسجدے اس ک جفت بنا دیں گے اور اگر چار رکعت ہی پڑھی ہے تو یہ دوسجدے شیطان کی ناک کو مٹی میں ملا دیں گے ۔

اس طرح کے مصلے پر نماز پڑھنے سے نمازکامقصد فوت ہوجائے گا اور اس پر بھروسہ کرتے ہوئے یکسوئی کی کیفیت برقرار نہیں رہے گی نیز یہ نماز کے باہر سے تلقین اور تعلیم ہے اور ایسا کرنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، اس لیے عام حالات میں اس کے استعمال کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔

البتہ اگر کوئی شک کا اس درجہ مریض ہوجائے کہ اسے تعدادبالکل یاد نہ رہے تو پھراس کے لیے اس کے استعمال کی اجازت دی جاسکتی ہے[1]


حواله

[1]  ولو اشتبه على مريض أعداد الركعات والسجدات لنعاس يلحقه لا يلزمه الأداء) ولو أداها بتلقين غيره ينبغي أن يجزيه.  (رد المحتار: 571/2)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply