hamare masayel

زکوٰۃ کی ادائیگی کی شرط پر قرض دینا، زکوٰۃ کے مسائل

ہمارے مسائل اور ان کا حل (سلسلہ نمبر: 452)

زکوٰۃ کی ادائیگی کی شرط پر قرض دینا

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلے میں:

زید نے بکر سے پانچ لاکھ روپیے پانچ سال کے لیے قرض مانگا اور یہ کہا کہ میں تمہارے رقم کی زکوة ہر سال ادا کردیا کرونگا، بکر نے اسے منظور کرلیا تو یہ معاملہ درست ہے یا نہیں؟ اور اس طریقے پر بکر کی زکوة ادا ہوگی یا نہیں؟

دوسری صورت یہ ہے کہ بکر نے قرض اس شرط پر دیا کہ زید اس رقم کی زکوة ہر سال ادا کرتا رہے، تو یہ معاملہ درست ہے یا نہیں اور بکر کی زکوة ادا ہوگی یا نہیں؟ کچھ حضرات اس طرح کے معاملہ کو جائز کہتے ہیں، ان کے بارے میں شریعت اسلامیہ کیا کہتی ہے؟  بینوا توجروا۔

المستفتی: محمد ضیاءاللہ غازی پوری، رکن المحکمة الشرعیة۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

 قرض دے کر زیادہ وصولنے کی شرط لگانا یا سامنے والے کے کہنے پر راضی ہونا دونوں ناجائز اور حرام ہے، اس لئے زکوٰۃ ادا کرنے کی جو شرط لگائی گئی ہے یا اس پر رضامندی کا اظہار کیا گیا ہے دونوں سود کے حکم میں ہے، اور سود کی رقم سے زکوٰۃ کی ادائیگی بھی درست نہیں بلکہ سخت گناہ کا کام ہے۔

قرض دے کر نفع حاصل کرنے کو حدیث شریف میں سود فرمایا گیا ہے، اور سود کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا کم سے کم گناہ اپنی ماں کے ساتھ زنا کرنا ہے، اس لئے سودی معاملات سے مسلمانوں کو بہت ہی سختی کے ساتھ اجتناب کرنا چاہئیے، اگر کوئی شخص جان بوجھ کر اعتقاداً سود یا کسی بھی حرام چیز کو حلال یا حلال کو حرام کہے تو وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہوگا، اور اس کے لئے تجدید ایمان وتوبہ لازم ہوگی، اور اگر اعتقاداً تو نہیں؛ بلکہ حکم سے لاعلمی کی بنا پر کہتا ہے تو ایسے شخص کو دائرۂ اسلام سے خارج نہیں کہہ سکتے؛ تاہم اس کے لئے بھی توبہ واستغفار لازم ہے۔

نوٹ: اگر قرض لینے والا واپسی کے وقت سابقہ کسی شرط کے بغیر اپنی خوشی سے زیادہ واپس کرے تو اس کا لینا جائز ہے۔

الدلائل

قال ﷲ تعالیٰ: ﴿وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ (البقرہ: 275).

وقال ﷲ تعالیٰ: ﴿یَأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَأْکُلُوْا الرِّبَا اَضْعَافًا مُضَاعَفَۃً وَاتَّقُوْا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ (اٰل عمران: 130).

وقال ﷲ تعالیٰ: ﴿یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبَا وَیُرْبِیْ الصَّدَقَاتِ﴾ (البقرة: 274).

{وَاَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوْا عَنْهُ} کان الربا محرمًا علیهم، کما حرم علینا {وَاَخْذِہِمْ اَمْوَالَهُمُ النَّاسَ بِالْبَاطِلِ} بالرشوۃ وسائر الوجوہ المحرمۃ. (مدارک التنزیل وحقائق التأویل 1/202، اٰل عمران: 130)

قال اللّٰہ تعالیٰ: ﴿وَلَا تَأْکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ [البقرۃ: 188].

قال القرطبي: من أخذ مال غیرہ لا علی وجه إذن الشرع، فقد أکله بالباطل. (الجامع لأحکام القرآن الکریم للقرطبي 2/323 دار إحیاء التراث العربي بیروت).

قال العلامة البغوي رحمه اللّٰه: {بِالْبَاطِلِ} بالحرام، یعنی بالربا والقمار والغصب والسرقة والخیانة ونحوها. (معالم التنزیل للبغوي: 2/ 50).

عن ابن مسعود قال: لعن رسول الله ﷺ آكل الربا وموكله، وشاهده وكاتبه. (سنن أبي داود | كِتَابٌ : الْبُيُوعُ، وِالْإِجَارَاتُ  | بَابٌ : فِي آكِلِ الرِّبَا وَمُوكِلِهِ، الرقم: 3333).

کان أبوحنیفة رحمه الله یقول: هي أخوف آیة في القراٰن حیث أوعد اللّٰه المؤمنین بالنار المعدۃ للکافرین، إن لم یتقوہ في اجتناب محارمه۔ (تفسیر مدارک التنزیل، النساء 1/269).

عن أبي هريرة قال : قال رسول الله ﷺ: ” الربا سبعون حوبا ، أيسرها أن ينكح الرجل أمه “. (سنن ابن ماجه | كِتَابُ التِّجَارَاتِ  | بَابٌ : التَّغْلِيظُ فِي الرِّبَا، الرقم: 2274).

من اعتقد الحلال حراماً أو علی العکس یکفر – أما لو قال الحرام هذا حلال لترویج السلعة أو بحکم الجهل لا یکفر – وإن اعتقدہ وإنما یکفر إذا کانت الحرمة ثابتة بدلیل مقطوع به. (الفتاوی البزازیة علی هامش الهندیة: 4/ 321).

والله أعلم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

29- 12- 1441ھ 20- 8- 2020م الخميس.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply