hamare masayel

کیا ظہر کی قبلیہ سنت مؤکدہ ایک سلام سے پڑھنا ضروری ہے؟

کیا ظہر کی قبلیہ سنت مؤکدہ ایک سلام سے پڑھنا ضروری ہے؟

سوال: ظہر سےقبل کی چار رکعت سنت پڑھنا شروع کیا، اس کے بعد  ظہر کی جماعت کھڑی ہوجانے کی وجہ سے دو رکعت پر سلام پھیر دیا اور جماعت میں شامل ہوگیا، بعد میں دو رکعت پڑھنا کافی ہے یا چار رکعت پڑھنا ضروری ہے؟ بینوا توجروا۔

 المستفتی: مفتی محمد محمد اشرف علی محمد پوری

الجواب باسم الملهم للصدق والصواب

صورت مسئولہ میں چار رکعت سنت مؤکدہ ادا کرنا ضروری ہے دو رکعت کافی نہیں۔ اس لئے کہ یہ چار رکعت بیک سلام مسنون ہے۔

نوٹ:  مذکورہ صورت میں دو رکعت پر سلام پھیرنے کی ضرورت نہ تھی چار رکعت پوری کر لیتے تو اچھا ہوتا اور یہی راحج قول ہے ، اگرچہ دورکعت پر سلام پھیرنا بھی درست ہے۔

مفتي اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت للہ صاحب نور اﷲ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں: ظہر کی سنتیں جو فرض شروع ہونے سے پہلے پڑھ رہا تھا اگر درمیان میں فرض شروع ہوجائیں تو سنتیں پوری کرکے سلام پھیرے اور فرض میں شامل ہوجائے؛ لیکن اگر دو رکعت پر سلام پھیر کر فرض میں شریک ہوجائے اور پھر چاروں رکعتیں فرض کے بعد ادا کرے تو یہ بھی جائز ہے۔ پہلی صورت بہتر ہے۔ (کفایت المفتی  (3/ 272)

بہشتی ثمر میں ہے:  مسئلہ: ۔  ظہر اور جمعہ کی سنت مؤکدہ اگر شروع کر چکا ہو اور فرض ہونے لگے تو راحج یہ ہے کہ اس کو پوری کرے۔ (بہشتی ثمر: 134/1)

الدلائل

عن عائشة رضي اللّٰه عنها أن النبي ﷺ کان إذا لم یصل أربعاً قبل الظهر، صلاهن بعدها۔ (سنن الترمذي 1/ 97)

(وسن) مؤکداً (أربع قبل الظھر) أربع قبل الجمعة واربع (بعدھا بتسلیمة) فلو بتسلیمتن لم تنب عن السنة. (در المختار مع الشامی 1/ 360، باب الوتر والنوافل مطلب فی السنن والنوافل).

(والشارع في نفل لا یقطع مطلقاً) ویتمه رکعتین (وکذا سنة الظھر) وسنة (الجمعة إذا أقیمت أو خطب الإمام ) یتمھا أربعاً (علی) القول (الراجح) لأنھا صلوٰة واحدة ولیس القطع للإکمال بل للإبطال خلافاً لما رحجه‘ الکمال. (در المختار مع الشامی 1/ 668 باب ادراک الجماعة)

 والله أعلم

تاريخ الرقم:  15/4/1440هـ 23/12/2018م الأحد

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply