hamare masayel

فلم ایکٹر کے انتقال پر دعائے مغفرت کرنا

(سلسلہ نمبر: 301)

فلم ایکٹر کے انتقال پر دعائے مغفرت کرنا

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلۂ ذیل کے بارے میں؟

آج ایک مسلمان فلم ایکٹر کا انتقال ہو گیا، بظاہر وہ اپنی پوری زندگی اسلامی تعلیمات سے دور رہے بلکہ بعض اوقات ان میں سے کچھ کی تخفیف بھی کی، صوم وصلوٰۃ کا اہتمام کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھے گئے اور غیر اسلامی ایکٹیویٹیز میں ہمیشہ ملوث رہے، گویا ان کی پوری زندگی غیر اسلامی طرز پر گذری؛ لیکن ان سب عادات قبیحہ کے باوجود کبھی ان سے کلمۂ کفر بکنا نہیں سنا گیا اور نہ ہی انہوں نے اسلام کی بنیادی باتوں کا انکار کیا. کیا ان کے انتقال کے بعد ان کے لئے دعائے مغفرت کی جا سکتی ہے؟ کیا ان کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور کیا ان کو اسلامی طریقہ پر دفن کیا جائے گا؟

بینوا توجروا۔

المستفتی: محفوظ احمد بھیرہ، مئو۔ (مقیم حال ریاض، سعودی عربیہ)

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

 گانا بجانا، ناچنا وغیرہ فلم ایکٹیوٹیز میں ملوث رہنا یہ سب غیر شرعی امور اور گناہ کبیرہ ہیں، ایسے کاموں کو کرنے والے لوگ سخت گنہ گار اور شریعت کی اصطلاح میں فاسق وفاجر ہیں، لیکن کافر ومشرک نہیں، ایسے کاموں سے لوگوں کو سختی سے پرہیز کرنا چاہئے ورنہ آخرت میں سخت عذاب کا سامنا ہوسکتا ہے۔

فاسق وفاجر کی نماز جنازہ پڑھنے کا حکم خود  حضور اقدس ﷺ نے دیا ہے، نماز جنازہ دعائے مغفرت ہی ہے اس لئے بعد میں بھی مغفرت کی دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے. بلکہ کرنا چاہیئے کیونکہ فساق وفجار کی بخشش ﷲ تعالی کے اختیار میں ہے، وہ چاہے تو بخش دے اور چاہے تو عذاب دے، نیز باجازتِ خداوندی انبیاء، صلحاء، علماء اور حفاظ کی سفارش سے فاسقوں کی مغفرت میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں۔

اس لئے ایسے لوگوں کی نماز جنازہ بھی پڑھی جائے اور شرعی طریقے پر تدفین بھی جائے؛ البتہ جنازہ وتدفین میں شرعی مقتدا وپیشوا لوگ شرکت نہ کریں، تاکہ اس طرح کے کام کرنے والے دوسرے لوگوں کو عبرت ہو۔

نوٹ: بعض احادیث میں کچھ گناہوں کے بارے میں آیا ہے کہ اس کے مرتکب جنت میں نہیں جائیں گے اس کا مطلب محدثین کرام نے یہ لکھا ہے ابتداءً جنت میں داخل نہیں ہوں گے یا تو اپنے گناہوں کی سزا پانے کے بعد یا اللہ تعالیٰ کے معاف کردینے سے بغیر سزا کے جنت میں داخل ہوں گے، ایمان کے ساتھ دنیا سے جو بھی جائے گا وہ جنت میں دیر سویر ضرور داخل ہوگا۔

الدلائل

قال الله تعالى: ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَایَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِهِ وَیَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ﴾ (النساء: 48).

عن أبي ذر رضي الله عنه قال: أتيت رسول الله ﷺ فقال:  “ما من عبد قال : لا إله إلا الله . ثم مات على ذلك إلا دخل الجنة”. قلت : وإن زنى وإن سرق؟ قال:  “وإن زنى وإن سرق” قلت : وإن زنى وإن سرق؟ قال:  “وإن زنى وإن سرق” . ثلاثا ، ثم قال في الرابعة:  على “رغم أنف أبي ذر” الخ (صحيح البخاري، اللِّبَاس/ الثِّيَابِ الْبِيضِ، الرقم: 5827).

عن أنس بن مالك رضي الله عنه عن النبي ﷺ قال: “شفاعتي لأهل الكبائر من أمتي”. (سنن أبي داود، السنة/ في الشفاعة، الرقم: 4739).

عن أبي هریرۃ رضي الله عنه، قال: قال رسول الله ﷺ:… والصلاۃ واجبة علی کل مسلم برًّا، کان أو فاجرًا، وإن عمل الکبائر. (سنن أبي داود، الجہاد/ في الغزو مع أئمة الجور، الرقم: 2533).

عن معاوية رضي الله عنه يقول : سمعت رسول الله ﷺ يقول: “كل ذنب عسى الله أن يغفره ، إلا الرجل يموت كافرا ، أو الرجل يقتل مؤمنا متعمدا”. (سنن النسائي. كتاب تحريم الدم، الرقم: 3984).

عن أبي هریرۃ رضي الله عنه أن رسول الله ﷺ قال: صلوا خلف کل بر وفاجر، وصلو علی کل بر وفاجر. (سنن الدار قطني، الصلاۃ / صفۃ الصلاۃ معہ والصلاۃ علیہ، الرقم: 1750).

ویصلی علی کل کل بر و فاجر إذا ماتت علی الإیمان للإجماع۔ لقولہ علیه الصلاۃ والسلام: لا تدعوا الصلوۃ علی من مات من أهل القبلة. (شرح عقائد نسفي 160).

إن مذہب أہل السنة وما علیه أهل الحق من السلف والخلف أن من مات موحداً دخل الجنة قطعاً – إلی قولہ – فلا یخلد في النار أحد مات علی التوحید ولو عمل من المعاصي ما عمل کما أنه لا یدخل الجنة أحد مات علی الکفر ولو عمل من أعمال البر ما عمل. (شرح النووي علی مسلم1/41)

والشفاعۃ ثابتة للرسل والأخیار في حق أہل الکبائر، وقال المحشي: (قوله): والأخیار هم الصلحاء والأتقیاء والأنبیاء والشہداء والأصحاب والعلماء. (شرح عقائد نسفي: 114)

وأهل الکبائر من أمۃ محمد ﷺ في النار لا یخلدون، إذا ماتوا وهم موحدون، وإن لم یکونوا تائبین، بعد أن لقُوا اللّٰه عارفین مؤمنین، وهم في مشیئته وحکمه إن شاء غفر لہم، وعفا عنہم بفضله، کما ذکر عزوجل في کتابه:

﴿وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَشَّآءُ﴾ [النساء: 48]

وإن شاء عذبہم في النار بعدلہ، ثم یخرجہم منہا برحمته وشفاعة الشافعین من أهل طاعته، ثم یبعثہم إلی جنته. ( شرح العقیدۃ الطحاویۃ لابن أبي العز الدمشقي 296، الفتاوی التاتارخانیة 18/5  زکریا).

أي لا یدخلہا مع اتصافه بذٰلک بل یصفی من خبث القطیعۃ إما بالتعذیب أو بالعفو، وکذا یقال في نحو لا یدخل الجنۃ متکبر وشبہہ، وہو محمول علی المستحل أو علی سوء الخاتمۃ. (فیض القدیر 6/552  بیروت).

واللہ أعلم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له استاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند

6- 9- 1441ھ 30- 4- 2020م الخمیس.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply