hamare masayel

قرض کو زیادہ وصول کرنا جائز نہیں، قرض کے احکام و مسائل

(سلسلہ نمبر: 414)

قرض کو زیادہ وصول کرنا جائز نہیں

سوال: مفتی صاحب میں نے فروری کے مہینہ میں ایک شخص کو سات کوئنٹل گیہوں دئیے اور بات یہ ہوئی تھی کہ اپریل کے مہینے میں اس گیہوں کی قیمت اور ایک کوئنٹل گیہوں دونگا میں نے اس بات کو منظور کر لیا کہ ٹھیک ہے اور گیہوں بکا چودہ ہزار روپئے میں، اب اپریل کا مہینہ ختم ہونے کے بعد مئی کے اندر ایک کوئنٹل گیہوں دے دیا اور چودہ ہزار روپے نہیں دئے اور اسکے کچھ روز بعد پھر ایک کوئنٹل گیہوں دے دیا اور کہا کہ جب تک سات کوئنٹل گیہوں کے چودہ ہزار روپئے میں نہیں دے دیتا ہر چار مہینے میں ایک ایک کوئنٹل گیہوں دے دیا کرونگا تو کیا اس طریقے سے گیہوں لینا درست ہے کہ نہیں اور یہ سب کچھ اس کی مرضی سے اسنے کیا ہے میں نے اسکے آگے کوئی بھی شرط نہیں رکھی، میں نے بس شروع میں صرف یہ کہا تھا کہ میں اپنے گیہوں مہنگے داموں پر فروخت کرونگا، جواب ارشاد فرمائیں۔

المستفتی: حکیم محمد اشرف امروہوی بنگلور۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

صورت مسئولہ میں گیہوں کے دام کے علاوہ ہر چار مہینہ میں ایک کوئنٹل گیہوں لینا درست نہیں ہے کیونکہ سامنے والا آپ سے اس معاملہ کی صراحت کر رہا ہے اور آپ خاموش ہیں یعنی آپ کو یہ معاملہ منظور ہے، حالانکہ قرض سے فایدہ اٹھانے کو حدیث شریف میں سود بتایا گیا ہے، البتہ اگر اس طرح کی کوئی بات نہ ہوتی اور سامنے والا ادائیگی کے وقت اپنی مرضی سے کچھ زیادہ رقم یا رقم کے ساتھ گیہوں دیتا تو اس کا لینا جائز ہوتا؛ لیکن سوال میں جو صورت معلوم کی گئی ہے وہ شرعاً ناجائز ہے۔

الدلائل

قال الله تعالى: ﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾ (البقرة: 275).

 عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال : كان لرجل على النبي ﷺ سن من الإبل، فجاءه يتقاضاه، فقال : ” أعطوه “. فطلبوا سنه، فلم يجدوا له إلا سنا فوقها، فقال : ” أعطوه “. فقال : أوفيتني، أوفى الله بك. قال النبي صلى الله عليه وسلم : ” إن خياركم أحسنكم قضاء “. (صحيح البخاري: الوكالة/ وكالة الشاهد والغائب، الرقم: 2305).

عن فضالة بن عبید صاحب النبي ﷺ أنه قال: کل قرض جر منفعة، فهو وجه من وجوہ الربا. (السنن الکبریٰ للبیهقي، کتاب البیوع، باب کل قرض جر منفعة فهو ربا، دارالفکر: 8/ 276، الرقم:11092).

(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به. (رد المحتار: 5/ 166).

والله أعلم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

1- 12- 1441ھ 23- 7- 2020م الخمیس.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply