مصنوعی طریقہ تولید کے بعد غسل كا مسئلہ

مصنوعی طریقہ تولید کے بعد غسل كا مسئلہ

  • Post author:
  • Post category:طہارت
  • Post comments:0 Comments
  • Post last modified:January 17, 2023
  • Reading time:1 mins read

مصنوعی طریقہ تولید کے بعد غسل كا مسئلہ

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی۔ جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو۔

مردو عورت میں کسی نقص کی وجہ سے طبعی طریقے پر نطفہ بار آور نہ ہوسکے تو پھر اولاد کے حصول کے لیے مصنوعی طریقہ اپنایا جاتا ہے جس میں کبھی مرد سے مادۂ منویہ لے کر سرنج کے ذریعے عورت کے رحم میں پہنچا دیا جا تا ہے اور کبھی دونوں کے تولیدی مادے کو  کچھ دنوں تک ایک مخصوص ٹیوب میں رکھاجاتا ہے اور پھر اسے بچہ دانی میں منتقل کردیا جاتا ہے۔

دونوں صورتوں میں جب کہ تولیدی مادے کو مرد یا عورت سے طبی آلات کے ذریعہ حاصل کیا گیاہے اور اس کے نکلنے میں شہوت کو دخل نہیں ہے تو دونوں میں سے کسی پر غسل فرض نہیں ہے، کیوں کہ غسل فرض ہونے کے لیے منی کا شہوت کے ساتھ نکلنا ضروری ہے، حنفیہ، مالکیہ اورحنابلہ اسی کے قائل ہیں چنانچہ  حضرت علیؓ کہتے ہیں :

’’کنت رجلا مذاء فجعلت اغتسل حتی تشقق ظھری۔ فذکرت ذالک للنبیﷺ، فقال رسول اللہﷺ لاتفعل، اذا رایت المذی فاغسل ذکرک وتوضا وضوءک للصلاۃ فاذا فضخت الماء فاغتسل‘‘(سنن أبي داود: 206)

مجھے کثرت سے مذی آتی تھی اور میں اس کی وجہ سے غسل کیا کرتا تھا جس سے میری پیٹھ پھٹنے لگی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے اس کا تذکرہ کیا تو فرمایا:غسل مت کیا کرو۔جب مذی نظر آئے تو اپنی شرمگاہ دھو دو اور نماز کے وضو کی طرح وضو کرو۔اور جب جوش کے ساتھ پانی نکلے تو غسل کرو۔

حدیث میں وارد لفظ“فضخ”کے معنی ہیں شدت و شہوت کے ساتھ نکلنا (عون المعبود) لہٰذا شہوت کے بغیر منی نکلنے پر غسل واجب نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ مذی کے نکلنے پر غسل نہیں ہے، حالانکہ وہ بھی منی ہی کی طرح ہے، کیونکہ وہ شہوت کے ساتھ نہیں نکلتی ہے۔

البتہ امام شافعی کے نزدیک شہوت کے بغیر بھی منی نکلنے سے غسل واجب ہے، (المجموع 158/2) اس لئے احتیاطاً غسل کرلینا چاہئے ۔

اور شہوت کے بغیر بھی مرد و عورت سے  منی نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا (البدائع 24/1)

 اسی طرح سے طبی آلات کی ذریعے شرمگاہ کے راستے سے عورت کا بیضہ حاصل کیا گیا ہے تو اس سے بھی وضو ٹوٹ جائے گا، لیکن اگر پیٹ میں سوراخ کرکے بیضہ کوحاصل کیاگیا ہے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا الا یہ كہ خون‌نکل کر بہہ پڑے کیونکہ بیضہ کے ناپاک ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے، اس لیے اباحت اصلیہ کے ضابطے سے اسے پاک سمجھاجائے گا۔ اور اگر ناپاک بھی ہو تو وہ اس درجہ باریک اور لطیف ہوتا ہے کہ خورد بین کے بغیر اسے نہیں دیکھاجاسکتا ہے، اس لیے وہ قلیل کے درجے میں اور اس طرح سے کم مقدار میں ناپاکی معاف ہے۔

اور مرد سے منی حاصل کرکے طبی آلات کے ذریعے بچہ دانی میں داخل کرنے سے عورت پر غسل واجب نہیں ہے بشرطیکہ اس عمل کی وجہ سے اسے انزال نہ ہو، چاروں امام اسی کے قائل ہیں۔[1] وجہ یہ ہے کہ شریعت نے غسل کو اس شخص پر واجب قرار دیا ہے جس سے منی خارج ہو، کیونکہ شہوت کے ساتھ منی کے نکلنے سے لذت اور تسکین حاصل ہوتی ہے اور ٹیوب کے ذریعے منی داخل کرنے میں یہ وجہ نہیں پائی جاتی۔ [2]


حوالاجات

[1]  دیکھیے الهدایة:(61/1) عقد الجواهر الثمينة لابن الشاش المالكي: (65/1) المغني: (128/1)

[2]  ولو جامعھا فیما دون الفرج فدخل منیه في فرجھا لا یجب علیھا الاغتسال منه. (البناية: 1/275) وسألت مالكا عن الرجل يجامع امرأته فيما دون الفرج فيقضي خارجا من فرجها فيصل الماء إلى داخل فرجها أترى عليها الغسل؟ فقال: لا إلا أن تكون التذت يريد بذلك أنزلت. المدونة (1/ 135) نیز دیکھئے: المھذب:30/1، الأنصاف:232/1)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply