نئی قبر کے اوپر راستہ اور پلر بنانا
سوال: ہمارے شہر کاٹھمنڈو میں حکومت کی جانب سے دی گئی ایک پرانی قبرستان ہے جو عام مسلمانوں کے لئے ہے، اسکے انتظام و دیکھ بھال کے لئے ایک کمیٹی تجویز کی گئی ہے، جس میں چند افراد شامل ہیں، کمیٹی نے آپس میں مشورہ کرکے قبرستان کے اوپر مٹی بھرنے کی ضرورت محسوس کی؛ لہذا اب اس قبرستان میں اوپر سے پانچ فٹ مٹی بھری جارہی ہے اور قبرستان کے بیچ سے کچھ راستے نکالے جارہے ہیں جس کی وجہ سے کچھ قبروں کے اوپر پلر قائم کیا گیا ہے، ایک قبر ابھی چار ماہ کی ہے، اس کے اوپر پلر کھڑا کیا گیا ہے، اہل خانہ قبرستان کمیٹی سے سخت ناراض ہے، معاملہ اختلاف وانتشار تک پہونچ گیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا قبرستان کمیٹی کا یہ فیصلہ درست ہے؟ ایسے قبرستان پر اوپر سے مٹی بھرنا اور درمیان سے کچہ راستے نکالنا اور قبروں کے اوپر اسطرح پلر کھڑا کرنا شرعا درست ہے؟ برائے کرم مدلل جواب عنایت فرمائیں.
المستفتی: مفتی ابوبکر صدیق قاسمی دارالافتاء والقضاء نیپالی جامع مسجد کاٹہمنڈو نیپال۔
الجواب باسم الملہم للصدق والصواب:
صورت مسئولہ میں اگر قبرستان میں مٹی کی ضرورت ہے تو مٹی ڈالی جاسکتی ہے البتہ مٹی ڈالنے کے لئے بغیر سخت مجبوری کے ٹریکٹر ٹرالی اور جے سی بی وغیرہ قبروں کے اوپر نہ چلائیں؛ بلکہ مزدوروں کے ذریعہ مٹی ڈلوائیں اور برابر کروائیں؛ لیکن راستہ اور پلر ایسی جگہوں پر بنائیں جہاں نئی قبر نہ ہوں، اگر قبر نئی ہو تو اس پر راستہ بنانا یا پلر کھڑا کرنا درست نہیں، اس لئے کمیٹی والے جس نئی قبر پر پلر کھڑا کر رہے ہیں وہ بالکل غلط ہے اور لوگوں کا اعتراض درست ہے، کمیٹی والوں کو اس جگہ سے ہٹ کر دوسری جگہ پلر بنانا چاہئیے تاکہ اختلاف وانتشار کی نوبت نہ آئے۔
الدلائل
عن عائشة رضي اللّٰه عنها أن رسول اللّٰه ﷺ قال: کسر عظم المیت ککسره حیا۔ (سنن أبي داؤد، کتاب الج/ باب في الحفار یجد العظم، هل یتنکب ذٰلک المکان؟ ص: 612 رقم: 3707 دار الفکر بیروت، سنن ابن ماجة رقم: 1616 دار الفکر بیروت).
علی أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفین واجبة. (شامي، کتاب الوقف/ مطلب: مراعاة غرض الواقفین واجبة والعرف یصلح مخصصًا 6/665 زکریا، 4/445 کراچی)
جاز زرعه والبناء علیه إذا بلی وصار ترابًا. (الدر المختار، باب صلاة الجنازة/ مطلب في دفن المیت 3/145 زکریا، 2/238 کراچی)
لایوطأ القبر إلا لضرورة. (شامي، الصلوٰة، با ب صلوٰة الجنازة، مطلب فی الإهداء ثواب القراء ة للنبی ﷺ. کراچی 2/245، زکریا 3/154).
إذا بلي المیت وصار ترابا یجوز زرعه والبناء علیه ومقتضاه جواز المشي فوقه. (شامي، کراچی 2/245، زکریا 3/155، الهندیه، زکریا قدیم 1/167، جدید 1/228)
وإذا خربت القبور فلا بأس بتطیینها. (التاتار خانیة، زکریا 3/72، رقم: 3738).
قال ابن القاسم: لو أن مقبرة من مقابر المسلمین عفت فبنی قوم فیها مسجدًا لم أر بذٰلک بأسًا؛ لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمین لدفن موتاهم، لا یجوز لأحد أن یملکها فإذا درست واستغنی عن الدفن فیها جاز صرفها إلی المسجد؛ لأن المسجد أیضًا وقف من أوقاف المسلمین لا یجوز تملیکه لأحد، فمعناهما واحد. وأما المقبرة الداثرة إذا بُني فیها مسجد لیصلي فیها، فلم أر فیه بأسًا؛ لأن المقابر وقف، وکذا المسجد فمعناهما واحد. (عمدة القاري شرح صحیح البخاري/ باب هل تنبش قبور مشرکي الجاهلیة ویتخذ مکانها مساجد 4/174 مکتبة الإدارة الطباعة المنیریة دمشق)
والله أعلم
15- 12 – 1439 ھ 27-8-2018م الاثنين.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.