ٹیلیفون، ای میل وغیرہ کے ذریعے چاند كى اطلاع

ٹیلیفون، ای میل وغیرہ کے ذریعے چاند كى اطلاع

ٹیلیفون، ای میل وغیرہ کے ذریعے چاند كى اطلاع

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی۔ جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو یوپی۔

    تحریر اور ٹیلیفون کے ذریعے گفتگو دونوں میں نقل اتار کر دھوکہ دینے کا اندیشہ رہتا ہے  لیکن  اس احتمال کے باوجود بہت سے معاملات میں تحریر کا اعتبار کیاگیا ہے ، خود قرآن حکیم میں کہاگیاہے کہ جب تم ادھار کاکوئی معاملہ کرو تو اسے لکھ لیاکرو ۔

{إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ} [البقرة: 282]

  اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریر پرایک حد تک  اعتماد کیاگیاہے اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے متعدد مواقع پرخطوط بھیجے ہیں اور دوسروں کی طرف سے آئی ہوئی تحریر کو قبول بھی فرمایا ہے ، اس لیے اگر خطوط کے بارے میں جعل سازی کا اندیشہ نہ ہواور اس بات کا اطمینان اور ظن غالب ہوجائے کہ وہ بھیجنے اور لکھنے والے کی تحریر ہے تو اس کا اعتبار کیاجائے گا ، متعدد فقہی نظیریں اس سلسلے میں موجود ہیں اور یہی حکم ٹیلیفونک گفتگو کا بھی ہے اور اس کے بارے میں بعض فقہی نظیریں ایسی ملتی ہیں جو اس پر مکمل طورپر صادق آتی ہیں جیسے کہ علامہ ابن ہمام نے لکھاہے کہ :

ولو سمع من وراء حجاب كثيف لا يشف من ورائه لا يجوز له أن يشهد، ولو شهد وفسره للقاضي بأن قال سمعته باع ولم أر شخصه حين تكلم لا يقبله لأن النغمة تشبه النغمة إلا إذا أحاط بعلم ذلك لأن المسوغ هو العلم غير أن رؤيته متكلما بالعقد طريق العلم به فإذا فرض تحقق طريق آخر جاز. فتح القدير للكمال ابن الهمام (7/ 384)

اگر کوئی ایسی موٹے پردے کے پیچھے سے کسی کی گفتگو سنے جس سے پردے کے پیچھے موجود شخص نظر نہ آئے تو اس کے لئے اس گفتگو سے متعلق گواہی دینا جائز نہیں ہے اس لئے کہ ایک شخص کی آواز دوسرے کے مشابہ ہوسکتی ہے الا یہ کہ کسی دوسرے ذریعے سے گفتگو کرنے والے کے بارے میں معلوم ہوجائے اس لئے کہ گواہی کے جواز کے لئے علم کی ضرورت ہے اور کسی کے کسی معاملے کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے دیکھناعلم کا ایک ذریعہ ہے اور اگر یہ علم دوسرے طریقے سے حاصل ہوجائے تو اس کے مطابق گواہی دینا جائز ہے ۔

حاصل یہ ہے کہ اگر دوسرے ذرائع سے ظن غالب حاصل ہوجائے کہ آواز اسی شخص کی ہے جس کی طرف نسبت کی جارہی ہے تو اس پر اعتماد کیا جائے گا۔

    رمضان کے چاند کی خبرکومنتقل کرنے کے لیے ایک عادل اور دیندارشخص کافی ہے ، اس لیے اگرکوئی دیندار شخص فون کے ذریعہ اطلاع دے کہ میں نے خود چاند دیکھاہے یا مجھ سے فلاں معتبر شخص نے چاند دیکھنا بیان کیاہے یا شرعی ہلال کمیٹی نے رویت ہلال کا فیصلہ کیا ہے یا فلاں قاضی صاحب کی طرف سے رویت کا اعلان کیاجارہا ہے تو اس کا اعتبار کیاجائے گیا ،بشرطیکہ مضبوط قرائن کے ذریعہ متکلم کی تعیین ہوجائے اور اس کی آواز پہچان لی جائے ، چنانچہ مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:

‘‘رمضان المبارک کے چاند میں چونکہ شہادت یا استفاضہ کی خبر دونوں شرط نہیں ہیں ، ایک ثقہ مسلمان کی خبر بھی کافی ہے ، ا س لیے خط اور آلات جدیدہ (ٹیلیفون ، ریڈیو ، ٹیلی ویژن ) کی خبروں پر اس شرط کے ساتھ عمل کرنا درست ہے کہ خبر دینے والے کا خط یا آواز پہچانی جائے اور وہ بچشم خود چاند دیکھنا بیان کرے اور جس کے سامنے یہ خبر بیان کی جارہی ہو وہ اس کو پہچانتا ہو اور اس کی شہادت کو قابل عمل سمجھتا ہو’’۔(آلات جدیدہ/121)

    عید کے چاند کی خبر کو منتقل کرنے کے لیے شہادت یا خبر مستفیض کی ضرور ت ہے اور ٹیلی فون وغیرہ کے ذریعے گواہی نہیں دی جاسکتی ہے ، اس لیے محض دولوگوں کی طرف سے فون کا آنا کافی نہیں ہے بلکہ ایک کثیر تعداد کی طرف سے فون کا آنا لازم ہے جس کے ذریعے سے اس کی حیثیت خبر مستفیض کی ہوجائے ، یا مرکزی ہلال کمیٹی یا کسی قاضی کی طرف سے متعین کرد ہ شخص کا فون آئے جو اپنے یہاں چاند کی شہادت لے کرقاضی یا مرکزی کمیٹی کو اس کو اطلا ع دے ،کیوں کہ یہ شہادت نہیں بلکہ شہادت سے ثابت شدہ امر کی اطلاع ہے ، جیساکہ مفتی شفیع صاحب وغیرہ کی رائے ہے۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply