hamare masayel

متعین فایدہ کی شرط کے ساتھ کمپنی میں پیسہ لگانے کا حکم

متعین فایدہ کی شرط کے ساتھ کمپنی میں پیسہ لگانے کا حکم

سوال: ایک کمپنی ہے اس کا ایک پروجیکٹ یہ ہے کہ آپ 30 ہزار روپے منتھلی جمع کریں، کمپنی اس رقم سے اپنا بزنس کریگی اور مہینہ کے اخیر میں یومیہ 500 کے حساب سے آپکو  15ہزار  ریفنڈ اور 30 ہزار جمع کردہ رقم واپس کریگی بزنس میں کمپنی کا فائدہ ہو یا نقصان، پیسہ جمع کرنے والے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا.کیا یہ صورت شرعاً صحیح ہے؟

المستفتی: شیخ محمد خالد اعظمی بسہی اقبال پور، ترجمان پاسبان علم وادب واٹس ایپ گروپ

الجواب باسم الملهم للصدق والصواب

شریعت اسلامیہ میں دوسرے کے ساتھ ملکر یا دوسرے کو صرف رقم دے کر تجارت کرنے کی جتنی شکلیں جائز ہیں ان تمام میں کسی بھی قسم میں نفع کی ایک خاص مقدار کو متعین کرنا (خواہ سامنے والے کو نفع ہو یا نقصان) جائز نہیں ہے۔

لہذا سوال میں مذکورہ صورت قرض دینے کی شکل ہے اور قرض دے کر فائدہ لینا سود ہے جو سراسر حرام ہے۔

اس صورت میں اگر کچھ فائدہ لے چکا ہے تو وہ رقم اصل مالک کی طرف لوٹانا ضروری ہے۔ (مستفاد: احسن الفتاوی 7/ 21)

نوٹ: مذکورہ صورت میں اگر یہ طے کر لیا جائے کہ ماہانہ جو نفع ہوگا اس کا آدھا تہائی یا چوتھائی حصہ ملے گا تو یہ صورت جائز ہے۔

الدلائل

قال ﷲ تعالیٰ:  ﴿وَاَحَلَّ اللّٰه الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ [البقرة: 275].

وعن علي رضي الله عنه قال: قال رسول الله ﷺ: “كل قرض جر منفعة فهو ربا”، رواه الحارث بن أبي أسامة، وإسناده ساقط، ولكن الأمة عملت عليه.

عن ابن سیرین أنه کان یکره أن یدفع الرجل إلی الرجل المتاع مضاربة، ویحسبه علیه دراهم. (المصنف لابن أبي شیبة، 11/ 428 رقم: 22787).

لا تصح المضاربة حتی یکون الربح مشاعًا بینهما بأن یکون أثلاثًا أو منصفًا ونحوهما. (مجمع الأنهر/ کتاب المضاربة 3/ 446 دار الکتب العلمیة بیروت، کذا في البحر الرائق/ کتاب المضاربة 7/ 448 زکریا، الهدایة/کتاب المضاربة 3/ 258 یاسر ندیم).

ومن الشرط أن یکون الربح جزءًا شائعًا في الجملة لا معینًا. (بدائع الصنائع 6/ 59 المکتبة النعیمیة دیوبند).

کل شرط یوجب جهالة في الربح، أ ویقطع الشرکة فیه یفسدها. (رد المحتار، کتاب المضاربة، زکریا 8/ 433، 434 کراچي 5/ 648).

قال القدوري في کتابه: کل شرط یوجب جهالة الربح، أو قطع الشرکة في الربح یوجب فساد المضاربة…ولو دفع إلیه مضاربة علی أن یعطي المضارب رب المال ماشاء من الربح، فهذه مضاربة فاسدة، کذا في المبسوط۔ (الفتاوى العالمكيرية، کتاب المضاربة، الباب الأول، والثاني، زکریا جدید 4/ 296، 297، قدیم 4/ 228، المبسوط للسرخي، دارالکتب العلمیة بیروت 22/27).

إلا بالمال الذي تصح به الشرکة، وهو أن یکون رأس المال دراهم، أودنانیر، عندهما رحمهما اﷲ، أو فلوساً رائجة، عند محمدؒ وبما سواه لا یجوز وبه قالت الأئمة الثلاثة ونص في الذخیرة أنه إجماع۔ (البنایة، کتاب المضاربة، اشرفیه 10/46).

یشترط أن یعلم کیف یقسم الربح بین الشرکاء فإذا بقي مبهمًا ومجهولاً کانت الشرکة فاسدة؛ لأن الربح هو المعقود علیه في الشرکة وجهالة المعقود علیه تفسد العقد۔ (شرح المجله، رستم، مکتبه اتحاد دیوبند 2/713، رقم: 1336).

والله أعلم

 تاريخ الرقم: 10/4/1440هـ 18/12/2018م الثلاثاء

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply