hamare masayel

یا حسین لکھنا یا اس کا فریم بنانا

(سلسلہ نمبر: 802)

 یا حسین لکھنا یا اس کا فریم بنانا

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل کے بارے میں:

میرا کام فریم بنانے کا ہے جس پر اللہ محمد وغیرہ کو خوبصورت انداز میں لکھنا رہتا ہے، اب مجھ سے ایک شیعہ یا حسین کا فریم بنانے کو کہہ رہا ہے، تو کیا میرے لئے ایسا فریم بنانا جائز ہے؟

الجواب باسم الملہم للصدق والصواب: شیعوں کا عقیدہ اہل بیت کے بارے میں اہل سنت والجماعت کے عقیدہ کے خلاف ہے، وہ لوگ ان کو انبیاء کی طرح معصوم سمجھتے ہیں، اسی طرح یا علی اور یا حسین وغیرہ بولتے وقت ان کو مشکل کشا اور حاضر وناظر سمجھتے ہیں، کیوں کہ لفظ ’’یا‘‘ عربی زبان میں کسی ایسے شخص کو پکارنے (آواز دینے) کے لیے استعمال ہوتا ہے جو اس مجلس میں حاضر ہو ، جب کہ اہلِ سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ حاضر وناظر ذات صرف اللہ تعالی کی ذاتِ اقدس ہے، اس کے علاوہ کائنات میں کوئی بھی ایسی ذات نہیں جو ہر جگہ موجود ہو اور سب کچھ دیکھ اور سن رہی ہو، یہاں تک کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم بھی حاضر و ناظر نہیں ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حاضر وناظر کا عقیدہ رکھنا بتصریحاتِ فقہاء کفر ہے۔

معلوم ہوا کہ “یا حسین” شیعہ لوگ غلط نظریہ کے ساتھ بولتے ہیں؛ لہٰذا اس جملہ کو لکھنا اور اس کو فریم وغیرہ میں لکھ کر کسی کو دینا یا گھر میں لگانا جائز نہیں، اس لئے ایسا فریم نہ بنائیں۔

الدلائل

قال الله تعالى: وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ. ( سورة المائدة: 2).

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا. وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَالَةٍ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا. (صحيح مسلم، رقم الحديث: 2674).

الثاني: أن الناس قد أكثروا من دعاء غير الله تعالى من الأولياء الأحياء منهم والأموات وغيرهم، مثل يا سيدي فلان أغثني، وليس ذلك من التوسل المباح في شيء، واللائق بحال المؤمن عدم التفوه بذلك وأن لا يحوم حول حماه، وقد عدّه أناس من العلماء شركا وأن لا يكنه، فهو قريب منه ولا أرى أحدا ممن يقول ذلك إلا وهو يعتقد أن المدعو الحي الغائب أو الميت المغيب يعلم الغيب أو يسمع النداء ويقدر بالذات أو بالغير على جلب الخير ودفع الأذى وإلا لما دعاه ولا فتح فاه، وفي ذلك بلاء من ربكم عظيم، فالحزم التجنب عن ذلك وعدم الطلب إلا من الله تعالى القوي الغني الفعال لما يريد. (روح المعاني: سورة المائدة رقم الأية: 35).

رجل تزوج بإمرأة بغير شهود، فقال الرجل للمرأة: ’’خدائے را و پیغمبر را گواہ کردیم‘‘ قالوا: يكون كفراً؛ لأنه اعتقد أن رسول الله صلي الله عليه وسلم يعلم الغيب، و هو ما كان يعلم الغيب حين كان في الأحياء فكيف بعد الموت.” (فتاوى قاضي خان: 2/ 185).

والله أعلم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.

2- 6- 1445ھ 16-12- 2023م السبت

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply