ماخوذ من کتاب بر الولدین، مولف احمد عیسی عاشور۔
مترجم محمد ہاشم قاسمی بستوی، جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڑھ۔
بیٹیوں کی تعلیم وتربیت کی فضیلت
حضرت انس سے روایت ہے کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اپنی دو بیٹیوں کی اچھی طرح پرورش کی اور ان کی کفالت کا بیڑا اٹھایا یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائیں، یعنی وہ اپنے گھر کی ہو جائیں تو میں اور وہ شخص قیامت کے دن ساتھ ساتھ رہیں گے، پھر آپ نے اپنی دو انگلیوں کو ملا کر کہا: بالکل اسی طرح جس طرح یہ میری دونوں انگلیاں آپس میں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں۔ (مسلم)
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہتی ہیں: ایک عورت میرے پاس اپنی دو چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ساتھ کھانے کی کوئی چیز مانگنے کے لیے آئی، اتفاق سے اس وقت گھر میں سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہ تھا، میں نے وہ کھجور اس کو دے دی، اس نے اس کھجور کو آدھا آدھا کرکے دونوں بیٹیوں کو کھلا دیااور خود اس کھجور کو چکھا بھی نہیں، پھر وہ اپنی بچیوں کو لے کر چلی گئی، اس کے جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ ان کی کفالت کا بیڑا اٹھایا یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائیں، یعنی وہ اپنے گھر کی ہو جائیں تو میں اور وہ شخص قیامت کے دن ساتھ ساتھ رہیں گے، پھر آپ نے اپنی دو انگلیوں کو ملا کر کہا: بالکل اسی طرح جس طرح یہ میری دونوں انگلیاں آپس میں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں۔ (مسلم)
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہتی ہیں: ایک عورت میرے پاس اپنی دو چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ساتھ کھانے کی کوئی چیز مانگنے کے لیے آئی، اتفاق سے اس وقت گھر میں سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہ تھا، میں نے وہ کھجور اس کو دے دی، اس نے اس کھجور کو آدھا آدھا کرکے دونوں بیٹیوں کو کھلا دیااور خود اس کھجور کو چکھا بھی نہیں، پھر وہ اپنی بچیوں کو لے کر چلی گئی، اس کے جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ تشریف لائے، میں نے آپ سے اس عورت کا پورا قصہ بیان کیا، اس کے قصہ کو سن کر آپ نے فرمایا: جو بھی ان بچیوں کے ساتھ آزمائش سے گزرے، فاقہ اور تنگ حالی کے دور میں بھی ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے تو بچیاں اس کے لیے جہنم سے آڑ ثابت ہوں گی۔ (ابن مبارک)
حضرت عوف بن مالک سے روایت ہے کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے پاس تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان اچھی طرح سے کفالت کرے، یہاں تک کہ وہ اس جدا ہو جائیں، یعنی ان کی شادی ہو جائے یا ان کا انتقال ہوجائے تو یہ بیٹیاں اس آدمی کے لیے جہنم سے پردہ ثابت ہوں گی۔ (بیہقی)
حضرت عوف بن مالک سے ایک اور روایت ہے کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس آدمی کے پاس تین بیٹیاں ہو اور وہ ان کی اچھی طرح سے پرورش کرے یہاں تک کہ وہ سب اس سے جدا ہوجائیں، یا انتقال کر جائیں تو یہ بیٹیاں اس کے لیے جہنم سے ڈھال بن جائیں گی۔
حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: جس شخص کے پاس تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان پر صبر کرے، اور وہ اپنی وسعت کے مطابق ان کو کھلاتا پلاتا رہے تو یہ بیٹیاں اس کے لیے جہنم سے پردہ بن جائیں گی۔ (مسند احمد)
بیٹیاں اللہ تعالی کا بے نظیر تحفہ ہیں، بیٹیوں کو ناپسند کرنے کی شناعت اور قباحت کے لیے یہی کافی ہے کہ بندہ اللہ تعالی کے تحفے کو ناپسند کرے، اور اللہ تعالی کے اس قیمتی تحفے کو ناپسند کرنے والے سے بڑا بدبخت اور کون ہو سکتا ہے۔
والدین کے فرماں بردار کی دعا قبول ہوتی ہے
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ پچھلے زمانے میں تین لوگ سفر پر ایک ساتھ نکلے، چلتے چلتے رات ہوگئی تو ان لوگوں نے پاس کے ایک غار میں رات بسر کرنے کا ارادہ کیا، جیسے ہی وہ لوگ غار میں داخل ہوئے اوپر پہاڑ سے ایک چٹان گری اور غار کا منھ بند ہوگیا اور پورے غار میں گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا، اچانک یہ حادثہ پیش آنے کی وجہ سے تینوں کی جان پر آپڑی، ان کوموت اپنے سامنے نظر آنے لگی، ظاہر سی بات ہے تھی کہ اس پہاڑ جیسی چٹان کو ہٹانا ان کے لیے ناممکن تھا، تینوں نے اپنی زندگی سے مایوس ہو کر کہا: اب ہمارے لیے یہاں سے بچ نکلنا بہت مشکل ہے اگر اللہ تعالی ہی کوئی کرشمہ کر دے تو اور بات ہے، اس لیے جس نے بھی اپنی زندگی میں کوئی نیک کام صرف اور صرف اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لیے کے کیا ہووہ اس کام کا واسطہ دے کر اللہ سے دعا کرے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی ہماری دعا کو قبول کر کے ہمیں اس مصیبت سے چھٹکارا دلا دیں۔
وہ تینوں آدمی اپنے اپنے اعمال کا جائزہ لینے لگے، تھوڑی دیر کے بعد ان میں سے ایک آدمی نے بولنا شروع کیا کہ میرے بوڑھے ماں باپ تھے، میں جنگل میں لکڑیاں کاٹ کاٹ کر ان کا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا، میرا یہ معمول تھا کہ بکریوں کا دودھ دوھ کر سب سے پہلے اپنے بوڑھے ماں باپ کو پلاتا تھا، اس کے بعد اپنے بچوں کو پلاتا تھا، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ والدین سے پہلے میں نے بچوں کو کھلایا پلایا ہو۔
ایک بار ایسا ہوا کہ لکڑیوں کی تلاش میں میں بہت دور نکل گیا، اور گھر واپس ہوتے ہوتے بہت رات گزر گئی، میں نے جلدی جلدی دودھ دوھا، اور والدین کو پلانے کے لیے دودھ کا پیالہ لے کر ان کے پاس پہنچا، تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ دونوں سو چکے ہیں، اور میرے بچے بھوک کی وجہ سے بلبلا رہے تھے، اب میں شش وپنج میں پڑ گیا کہ خدایا میں کیا کروں والدین کوجگاؤں تو ان کی نیند خراب ہو، اور بچوں کا رونا دھونا بھی برداشت نہیں ہو رہا تھا، بہر حال اپنے دل کو مضبوط کرکے میں ہاتھ میں پیالہ لے کر والدین کے سرہانے کھڑا ہوگیا، اور ان کے جاگنے کا انتظار کرنے لگا، ادھر میرے بچوں بھوک کی وجہ سے برا حال تھا،بھوک کی شدت سے چیخ رہے تھے، ان کی چیخ پکار سن کر میرے ماں باپ جاگ گئے، میں نے جلدی سے ان کو دودھ پلایا وہ شکم سیر ہو گئے، اس کے بعد میں نے اپنے بچوں کو دودھ پلایا، ان کی بھی بھوک مٹ گئی اور وہ بھی سو گئے۔
یہ سب کچھ ہونے کے بعد اس آدمی نے کہا: اے اللہ اگر یہ کام میں نے تیری رضا اور خوشنودی کے لیے کیا ہو تو میری دعا قبول کر کے اس چٹان کی مصیبت سے ہمیں نجات دلا، اتنا کہنا تھا کہ چٹان تھوڑی کھسک گئی، اور غار کے اندر ہلکی ہلکی روشنی آنے لگی۔
اس کے بعد دوسرے شخص نے کہا: اے االلہ تو اچھی طرح جانتا ہے کہ میری ایک چچا زاد بہن تھی جس سے میں بہت محبت کرتا تھا، میں نے اس پر قابو پانے کی بہت کوشش کی، اور اس سے اپنی خواہش کا اظہار کرتا رہا لیکن ہر بار وہ باز رہی، اسی دوران ایک سال بہت سخت قحط پڑا، کھانے پینے کی ساری چیزیں ختم ہو گئیں، وہ بھی تنگ حالی سے مجبور ہو کر میرے پاس آئی تاکہ میں اس کی کچھ مدد کروں، میں نے اس ور ان کے جاگنے کا انتظار کرنے لگا، ادھر میرے بچوں بھوک کی وجہ سے برا حال تھا،بھوک کی شدت سے چیخ رہے تھے، ان کی چیخ پکار سن کر میرے ماں باپ جاگ گئے، میں نے جلدی سے ان کو دودھ پلایا وہ شکم سیر ہو گئے، اس کے بعد میں نے اپنے بچوں کو دودھ پلایا، ان کی بھی بھوک مٹ گئی اور وہ بھی سو گئے۔
یہ سب کچھ ہونے کے بعد اس آدمی نے کہا: اے اللہ اگر یہ کام میں نے تیری رضا اور خوشنودی کے لیے کیا ہو تو میری دعا قبول کر کے اس چٹان کی مصیبت سے ہمیں نجات دلا، اتنا کہنا تھا کہ چٹان تھوڑی کھسک گئی، اور غار کے اندر ہلکی ہلکی روشنی آنے لگی۔
اس کے بعد دوسرے شخص نے کہا: اے االلہ تو اچھی طرح جانتا ہے کہ میری ایک چچا زاد بہن تھی جس سے میں بہت محبت کرتا تھا، میں نے اس پر قابو پانے کی بہت کوشش کی، اور اس سے اپنی خواہش کا اظہار کرتا رہا لیکن ہر بار وہ باز رہی، اسی دوران ایک سال بہت سخت قحط پڑا، کھانے پینے کی ساری چیزیں ختم ہو گئیں، وہ بھی تنگ حالی سے مجبور ہو کر میرے پاس آئی تاکہ میں اس کی کچھ مدد کروں، میں نے اس شرط پر اس کو ایک سو بیس دینار دئے کہ وہ میری نفسانی خواہش کو پورا کرے، اور اپنے نفس پر مجھے قابو دے، حالات کی ماری مجبورا راضی ہو گئی، اب وہ پورے طور پر میرے قبضے میں تھی، اور میں نے اپنی ہوس کی کوشش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اس کے پیروں کے درمیان بیٹھا، وہ لرز گئی، اور کہنے لگی میرے بھائی اللہ سے ڈر اس مہر کو ناجائز طریقہ سے نا توڑ، اس کی بات سن کر میرے دل میں اللہ کا خوف پیدا ہوا، اور میں اپنے ارادے سے باز آگیا، اور وہاں سے چلا گیا، حالانکہ وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی، میں اس سے سچی محبت کرتا تھا، میں نے اس کو دیا ہوا دینار بھی واپس نہیں لیا، اے اللہ اگر یہ کام میں نے تیری رضا اور تیرے ڈر سے کیا تھا تو اسی کے طفیل ہماری اس مصیبت کو دور کر دے، چنانکہ چٹان تھوڑی اور کھسک گئی، اب غار کے اندر پوری روشنی آرہی تھی، لیکن ابھی بھی وہ غار سے نہیں نکل سکتے تھے۔
اب تیسرے شخص کی باری آئی اس نے کہا: اے اللہ جیسا کہ تو جانتا ہے کہ میں نے چند مزدوروں کو مزدوری پر رکھا تھا، میں ان سب کو وقت پر مزدوری دے دیتا تھا، ان میں سے ایک مزدور اپنی مزدوری چھوڑ کر چلا گیا تھا، کافی دن گزر گیا، وہ نہیں آیا، میں نے اس کی مزدوری کو کاروبار میں لگا،اللہ کی شان دیکھئے اس کاروبار میں بڑا نفع ہوا، کچھ سالوں کے بعد وہ آدمی اچانک میرے پاس آکر کہنے لگا: میرے بھائی میری مزدوری مجھے دے دو، میں نے اس سے کہا: یہ جتنے اونٹ، گائیں، بکریاں اور غلام تم دیکھ رہے ہو یہ سب کا سب تمہارا ہی ہے، جاؤ لے لو، اس نے کہا: میرے بھائی! مزاق چھوڑو مجھے میری مزدوری دے دو، میں نے اس سے کہا: میں مزاق نہیں کر رہا ہوں واقعی یہ سب کچھ تمہارا ہی ہے، یہ سارا مال واسباب تمہاری اسی مزدوری کا نتیجہ ہے، بس میں نے اس کو کاروبار میں لگا دیا تھا، اور اللہ تعالی نے اس میں برکت دی، اور اتنا سب کچھ ہو گیا۔
وہ مزدور بہت خوش ہوا، اور خوشی خوشی سارا ریوڑ لے کر چلا گیا، اے اللہ اگر تیرے علم میں اگر میں نے یہ کام تیری رضا کے لیے کیا ہو تو ہمیں اس مصیبت سے نجات دلا، اتنا کہنا تھا کہ چٹان پوری کی پوری کھسک گئی، اور وہ سب اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔
والدین کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین لوگوں کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے: (۱) مظلوم کی دعا (۲) مسافر کی دعا (۳) ماں باپ کی دعا بچوں کے لیے۔
حضرت ثوبان سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: چار لوگوں کی دعا مقبول ہوتی ہے: (۱) انصاف کرنے والے بادشاہ کی دعا (۲) بھائی کے حق میں بھائی کی دعا، اس طور پر کہ بھائی کانو کان خبر نہ ہو، (۳) مظلوم کی دعا (۴) آدمی کی دعا اپنی اولاد کے لیے۔
حضرت انس سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین لوگوں کی دعا کبھی رد نہیں کی جاتی: (۱) باپ کی دعا اپنے لڑکے کے لیے، (۲) مظلوم کی دعا (۳) مسافر کی دعا۔
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے، کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: ماں کی گود میں صرف دو ہی بچوں نے بات کی تھی، ایک عیسی علیہ السلام، اور دوسرا جریج کا ساتھی، صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! حضرت عیسی علیہ السلام کو تو ہر کوئی جانتا ہے، لیکن یہ جریج کا ساتھی کون ہے؟ اس کو تو ہم نہیں جانتے ہیں۔
حضور ﷺ نے فرمایا: جریج ایک راہب تھا، وہ اپنے کلیسا میں رہتا تھا، ایک چرواہا اس کے کلیسا کے نیچے رات گزارتا تھا، گاؤں کی ایک عورت سے اس چرواہے کی آشنائی تھی، وہ رات میں اس کے پاس برابر آتی تھی، ایک بار کا ذکر ہے کہ جریج کی والدہ جریج کے پاس آئی، اور جریج جریج کہہ کر آواز دینے لگی، جریج اس وقت نماز میں مشغول تھا، اس نے اپنے دل میں کہا: والدہ کی پکار کا جواب دوں یا نماز پوری کر لوں، آخر اس نے یہ فیصلہ کیا کہ نماز پوری کر لوں اس کے بعد ماں کی طرف توجہ دوں گا، اس کی ماں نے پکار پکار کر تھک گئی، اور اس کو بہت غصہ آیااور جریج کو بدعا دے کر چلی گئی کہ: جا تجھے اس وقت تک موت نہیں آ ئے گی جب تک تو موسمات کے چہروں کو نہ دیکھ لے۔
کچھ مہینوں کے بعد وہی چرواہے والی عورت ایک نومولود بچے کے ساتھ بادشاہ کے دربار میں حاضر کی گئی، گاؤں کے لوگوں نے اس عورت پر یہ الزام لگایا تھا کہ: بادشاہ سلامت! اس عورت کی ابھی شادی بیاہ کچھ نہیں ہوا ہے، آخر یہ بچہ اس کی گود میں کہاں سے آگیا؟ بادشاہ نے اس عورت سے پوچھا: یہ کس کا بچہ ہے؟ عورت نے جواب دیا: یہ جریج کا بچہ ہے، بادشاہ نے استفسار کیا: کیا وہی کلیسا والا؟ اس نے کہا: ہاں، بادشاہ نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ جاؤ اس کے کلیسا کو ڈھا دو، اور اسے پکڑ کر ہمارے پاس لاؤ، ہم اس کو بڑا نیک اور صالح سمجھ رہے تھے، اور وہ اندر ہی اندر نہ جانے کیا کیا گل کھلا رہا تھا۔
بہرکیف بادشاہ کے کارندوں نے حکم کی تعمیل میں پھاؤڑوں سے جریج کے کلیسا کو گرا دیا، اور اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر بادشاہ کے دربار کی طرف لے کر چلے، راستے میں جریج نے طوائفوں کو دیکھ کر زیرِ لب مسکرایا، اور دل ہی دل میں یہ سوچنے لگا یہ میری والدہ کی بدعا کا نتیجہ ہے، خیر بادشاہ کے کارندے اس کو بادشاہ کے دربار میں لے کر حاضر ہوئے، بادشاہ نے اس سے کہا: کیوں رے جریج تو تو بڑا پارسا بن رہا تھا، اور اندر ہی اندر نہ جانے کیا کیا گل کھلا رہا تھا، اس نے کہا: بادشاہ سلامت کیا ہوا؟ بادشاہ نے کہا: بھولے نہ بنو، کیا تم اس عورت کو نہیں جانتے؟ اور یہ تمہارے بارے میں کیا کہہ رہی ہے؟جریج نے کہا: واقعی مجھے کچھ معلوم نہیں، بادشاہ نے کہا: یہ عورت کہہ رہی ہے کہ اس کے بچے کے باپ تم ہی ہو، اتنا سننا تھا کہ جریج کا سر شرم سے جھک گیا، خیر اس کو اپنے خدا پر پورا بھروسہ تھا کہ وہ اسے اس تہمت اور الزام سے بری کر دے گا، جریج نے کہا: وہ بچہ کہاں ہے؟ بادشاہ نے کہا: یہی جو اس کی گود میں ہے، جریج دل ہی دل میں دعا کرتے ہوئے اس بچے سے مخاطب ہوا کہ پیارے بچے! ذرا بتاؤ تمہارا باپ کون ہے؟ جریج کی اس حرکت پر لوگ ہنسنے لگے کہ کہیں تو پاگل تو نہیں ہو گیا ہے بھلا ایک نو زائدہ بچہ جو بالکل نا سمجھ ہے اور بولنا بھی نہیں جانتا وہ یہ کیسے بتائے گا کہ اس کا باپ کون ہے، لیکن اللہ نے اس بچے کو گویائی عطا کی، اور اس نے بتا دیا کہ میرا باپ وہی چرواہا ہے جس سے یہ عورت رات میں چھپ چھپ کر ملتی تھی، بچے کے جواب سے پورا مجمع دنگ رہ گیا، اور سب سر شرم سے جھک گیا، اور سب نے یقین کر لیا کہ جریج نردوش ہے، ساری کارستانی اسی عورت کی ہے، اور بادشاہ بھی اپنے فعل پر بہت نادم ہوا، جریج کے ہاتھ پاؤں کو رسیوں سے کھلوایا، اور کہنے لگا کہ انجانے میں مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے تمہارے کلیسا کو گروا کر میں نے بہت بڑا پاپ کیا ہے، اگر تم حکم دو تو میں تمہارے لیے سونے چاندی کا ایک نیا کلیسا بنوا دیتا ہوں، جریج نے کہا: اس کی کوئی ضرورت نہیں بس میرا کلیسا ویسے ہی بنا دو جیسے تھا، بادشاہ نے کہا: ٹھیک ہے، لیکن ایک بات بتاؤ ابھی تم ہنس کیوں رہے تھے، اس نے جواب دیا مجھے میری ماں کی بدعا لگ گئی تھی، پھر پورا قصہ بیان کیا۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.