Surah Al Bayyinah With Urdu Translation

Surah Al Bayyinah With Urdu Translation

ترجمہ اور مختصر تفسير سورہ بينہ

مرتب: محمد ہاشم بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفرپور اعظم گڑھ يوپى انڈيا۔

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے۔

لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكِّينَ حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ ﴿1﴾

اہل کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے، وہ اس وقت تک باز آنے والے نہیں تھے جب تک کہ ان کے پاس روشن دلیل نہ آتی۔

 رَسُولٌ مِنَ اللَّهِ يَتْلُو صُحُفًا مُطَهَّرَةً ﴿2﴾

یعنی ایک اللہ کا رسول جو پاک صحیفے پڑھ کر سنائے۔

 فِيهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ ﴿3﴾

جن میں سیدھی تحریریں لکھی ہوں۔

 وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَةُ ﴿4﴾

اور جو اہل کتاب تھے، انھوں نے جدا راستہ اسی کے بعد اختیار کیا جب ان کے پاس روش دلیل آچکی تھی۔

 وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ ﴿5﴾

اور انھیں اس کے سوا کوئی اور حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت اس طرح کریں کہ بندگی کو بالکل یکسو ہو کر صرف اسی کے لیے خاص رکھیں، اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں، اور یہی سیدھی سچی امت کا دین ہے۔

 إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ أُولَٰئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ ﴿6﴾

یقین جانو کہ اہل کتاب اور مشرکین میں سے جنہوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ جہنم کی آگ میں جائیں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ لوگ ساری مخلوق میں سب سے برے ہیں۔

 إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ﴿7﴾

جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انھوں نے نیک عمل کیے ہیں وہ بیشک ساری مخلوق میں سب سے بہتر ہیں۔

 جَزَاؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ ﴿8﴾

ان کے پروردگار کے پاس ان کا انعام وہ سدا بہار جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں۔ وہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے خوش ہوگا اور وہ اس سے خوش ہوں گے ۔ یہ سب کچھ اس کے لیے ہے جو اپنے پروردگار کا خوف دل میں رکھتا ہوں۔

تعارف سورہ بينہ

 یہ سورت مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ۔ مکہ مکرمہ میں تو اکثریت ان لوگوں کی تھی جنہوں نے اللہ کی ذات اور صفات میں غیر اللہ کو اپنا مشکل کشا مان رکھا تھا۔ وہ پتھروں کے بےجان بتوں کی عبادت و بندگی کرتے تھے کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق ان کے کام بنانے اور بگاڑنے کا اختیار رکھتے تھے۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو یہاں ان لوگوں کی اکثریت تھی جن کی ہدایت کے لیے اللہ نے اپنے رسولون کے ذریعہ اپنی کتابیں بھیجی تھیں۔ یہ اہل کتاب کہلاتے تھے۔

انھیں اپنے اہل کتاب ہونے پر بڑا گھمنڈ بھی تھا وہ اپنے علاوہ سب کو جاہل، ان پڑھ اور اجڈ سمجھتے تھے۔ حالانکہ انھوں نے محض دنیا کے لالچ میں اللہ کی بھیجی ہوئی کتابوں میں اس قدر جھوٹ ملا لیا تھا کہ اللہ کی بھیجی ہوئی تعلیمات اور ان میں من گھڑت باتوں کو پہچاننا مشکل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ مشرک کی گندگیوں میں مبتلا ہیں ان کی کمزوری تو یہ ہے کہ ان کے پاس سوائے رسموں اور من گھڑت بتوں کے نہ کوئی کتاب ہے نہ کسی طرح کی ہدایت کی روشنی مگر اہل کتاب کو کیا ہوگیا، جنہیں اللہ نے اپنی کتابوں سے نوازا تھا مگر وہ قرآن کریم جیسی علم سے بھرپور کتاب آنے کے باوجود اختلاف پیدا کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب اس نے اہل کتاب اور مشرکین کی ہدایت و رہنمائی کیلئے ایک ایسے رسول کو بھیجا ہے جن کی زندگی ہر ایک کے لیے اسوہ حسنہ ہے۔ جن کے اخلاق کریمانہ عظیم ہیں۔ وہ حق وصداقت، دیانت وامانت ، حلم و تحمل کا پیکر اور ایک کھلی ہوئی روشن دلیل ہیں۔

ان کے ساتھ ایک ایسی کتاب ہدایت کو نازل کیا گیا ہے جس کی تعلیمات پر عمل کرنے میں دنیا اور آخرت کی کامیابیاں ہیں۔ لہٰذا اللہ ، اس کے رسول اور قرآن کریم کو مان کر اس کے رسول کی مکمل اطاعت کی جائے۔ نماز کی قائم کیا جائے، زکوۃ ادا کی جائے۔ فرمایا کہ اہل کتاب اور مشرکین نے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر اگر ایمان اور عمل صالح کا راستہ اختیار کیا تو نہ صرف وہ بہترین مخلوق کہلائیں گے بلکہ ان کو جنت کی وہ راحتیں عطا کی جائیں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ لیکن اگر انھوں نے نافرمانی کے راستے کو اپنایا تو نہ صرف ان کا شمار بدترین مخلوق میں ہوگا بلکہ ان کو ایسی جہنم میں داخل کیا جائے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

سورت کے مضامین : اس سورت میں تین مضمون ہیں:

1 ۔ شروع میں ایک سوال کا جواب ہے کہ سب سے بڑے رسول آخر میں کیوں آئے ہیں ؟ سلسلہ نبوت کے شروع میں یا درمیان میں کیوں نہیں آئے ؟ جواب یہ ہے کہ اب تک چاندتاروں سے کام چل رہا تھا، گمراہی گہری نہیں ہوئی تھی، اور پوری دنیا میں کام پہنچانے کی صورت بھی نہیں تھی، اس لئے دوسرے انبیاء مبعوث کئے گئے، اب پوری دنیا میں عرب و عجم میں، گمراہی گہری ہوگئی ہے، جب تک آفتاب نبوت طلوع نہ ہوتاری کی چھٹنے والی نہیں، اس لئے اب سب سے بڑے رسول مبعوث کئے گئے ہیں۔

2 ۔ پھر اس سوال کا جواب ہے کہ جب قرآن اعلیٰ درجہ کے مضامین پر مشتمل ہے تو اہل کتاب (یہودونصاری) نے اس کو قبول کیوں نہیں کیا ؟ ان کا زمانہ تو نبوت سے قریب ہے ؟ جواب یہ ہے کہ اہل کتاب ضد سے مخالف ہیں، شبہ سے نہیں، اور ڈھٹائی کا کوئی حل نہیں !

3 ۔ پھر آخر میں یہ بیان ہے کہ جن لوگوں نے دعوت اسلام قبول نہیں کی وہ بدترین خلائق ہیں انہوں نے خود کو اپنے مستوی سے گرادیا ہے اور اسفل السافلین میں پہنچ گئے ہیں، اس لئے ان کی سزا ابدی جہنم ہے جو ان کو قیامت کے دن ملے گی، اور جو ایمان لائے، اور انہوں نے نیک کام کئے اور اللہ سے ڈرے وہ بہترین خلائق ہیں، ان کا صلہ جنت اور اللہ کی خوشنودی ہے جو ان کو آخرت میں ملے گی، اس طرح قیامت کا موضوع شروع ہوگا اور کئی سورتوں تک چلے گا۔

تشريح

رحمت عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے عرب کے باشندے دو گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ایک گروہ وہ تھا جو سرے سے کسی نبی پر ایمان نہیں رکھتا تھا، اور نہ ان کے پاس کوئی آسمانی صحیفہ تھا۔ ان میں سے کوئی بتوں کی پوجا میں مگن تھا، کوئی کواکب کی عبادت میں کھویا اور کوئی آگ کو اپنا معبود بنائے ہوئے تھا، ان کے عقائد میں شدید اخلافات کے باوجود شرک قدر مشترک تھا۔

 دوسرا گروہ ا لوگوں پر مشتمل تھا جو کسی نبی کے امتی ہونے کے دعویدار ہونے کے دعویدار تھے، ان کے پاس کوئی نہ کوئی آسمانی کتاب بھی تھی۔ لیکن مرور زمانہ سے وہ بھی کھلی گمراہی میں پھنس چکے تھے۔ ان کے آسمانی صحیفے تحریف کی نذر ہوچکے تھے۔ ان کے اعمال و عقائد میں واضح بگاڑ پیدا ہوچکا تھا۔ انبیاء کی تعلیمات سے انھوں نے رخ موڑ لیا تھا اور خود ساختہ مخترعات کو اپنا دین بنالیا تھا۔ ان کا بگاڑ اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ کوئی حضرت عزیر کو فرزند خداوند کوئی یسوع مسیح کو خدا کا بیٹا یقی کرتا تھا۔ اگرچہ شرک میں یہ لوگ بھی دیگر مشرکین سے پیچھے نہ تھے، لیکن قرآن کریم نے ان دو گروہوں کو ہمیشہ الگ الگ ناموں سے یاد کیا ہے پہلے گروہ کو مشرک کہا گیا اور دوسرے گروہ کو اہل کتاب۔ اس لیے کہ دوسرا گروہ اپنے آپ کو ایک ایسے دین کا پیرو کہلاتا ہے جو بنیادی طور پر دین توحید ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے انھیں مشرکین کے لفظ سے یاد نہیں کیا۔ شرعی احکام میں بھی اس فرق کو ملحوظ رکھا گیا۔ مشرکین کا ذبیحہ بھی حرام اور ان کی عورتوں کے ساتھ شادی بھی قطعاً ممنوع۔ اس کے برعکس اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کی بھی اجازت ہے اور ان کا ذبیحہ بھی حلال ہے۔ بشرطیکہ وہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ذبح کریں اور شریعت کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ذبح کریں۔

 مذکورہ آیت میں ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ ان دونوں گروہوں میں کفر و شرک اتنا راسخ ہوچکا ہے کہ اب دوسرے درجہ کی کوشش انھیں اس دلدل سے نہیں نکال سکتی۔ کوئی عالم، کوئی زاہد، کوئی مصلح اب ان کو راہ راست پر نہیں چلا سکتا۔ جن تاریکیوں نے ان کا محاصرہ کر رکھا ہے کوئی معمولی روشنی اس محاصرہ کو نہیں توڑ سکتی۔ ان کی ہدایت کے لیے تو کسی ایسی قوی اور تابندہ دلیل کی ضرورت ہے جس کی کرنیں تاریکیوں کا سینہ چاک کر کے رکھ دیں۔ شکوک و شبہات کے غبار کو یکسر ناپید کردیں۔ طلوع آفتاب سے جس طرح زمین کا گوشہ گوشہ چمکنے لگتا ہے، ہدایت کا کوئی ایسا آفتاب طلوع ہو جو ان کے قلب واذہان کے کونے کونے میں اجالا کردے۔

دوسری آیت میں بتادیا کہ وہ البینۃ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات بابرکات ہے، یہ رسول روشی اور ہدایت کا وہ بلند مینار ہے جس کی تابندہ شعاعوں سے عالم انسانیت کے نشیب و فراز جگمگا رہے ہیں۔ کیوں ؟ اس لیے کہ وہ ایسی کتاب کی تلاوت فرماتا ہے جو ہر قسم کے نقص اور عیب سے پاک ہے۔ دوسری مذہبی کتابوں کی طرح اس میں شرف انسانیت سے گری ہوئی کوئی بات نہیں، عقل سلیم کا منہ چرانے والی کوئی حکایت نہیں۔ اخلاق باختگی کی طرف بلانے والی کوئی دعوت نہیں ہے۔ ہر عیب سے وہ پاک ہے، ہر نقص سے وہ مبرا ہے۔

ان کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ ان میں صرف ایسے احکام و ہدایات ہیں جو سراسر حق اور درست ہیں۔حضور کی ذات اقدس، جملہ انسانی کمالات کی مظہر اتم تھی۔ حضور کے اخلاق، سیرت اور اعمال ہر آلائش سے اس قدر پاک تھے کہ رخ انور دیکھ لینے سے حضور کی صداقت کا یقین دل میں پیدا ہوجاتا تھا۔ نیز جو کتاب مقدس آپ پڑھ کر سنایا کرتے اس کا ہر پہلو سراپا اعجاز تھا، جو نظام حیات اس کتاب نے انسانیت کو بخشا وہ اپنی افادیت، اپنی ظاہری و باطنی برکتوں کے اعتبار سے اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ جب ہدایت کے یہ تینوں سامان بہم ہوجائیں تو پھر ہدایت پذیری میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں ہوتی، بجز اس کے کہ انسان کو اس کی بدبختی اس چشمہ فیض سے سیراب ہونے سے محروم کردے۔

پھر اس حقیقت کو واضح کیا گیا کہ سب نبی اور رسول ایک ہی دین کی دعوت دینے کے لیے مبعوث کیے جاتے رہے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ پورے خلوص اوریک سوئیکے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت، نماز کی اقامت اور زکوۃ کی ادائیگی میں سرگرم رہو۔ جن لوگوں نے اس دعوت کو قبول نہ کیا اور اس پر عمل کرنے سے گریزاں رہے، وہ بدترین خلائق ہیں لیکن جن خوش نصیبوں نے س دعوت کو قبول نہ کیا اور اس پر عمل کرنے سے گریزاں رہے، وہ بدترین خلائق ہیں لیکن جن خوش نصیبوں نے اس دعوت کو صمیم قلب سے قبول کیا اور خلوص سے اس کی ہدایات پر عمل پیرا رہے وہ تمام مخلوق سے اعلیٰ وارفع ہیں۔ جنت کی بشارت کے ساتھ انھیں یہ مژدہ جانفزا بھی سنایا جارہا ہے کہ انھوں نے اپنے رب سے ترساں لرزاں جس طرح اپنی زندگی گزاری اس کے عوض انھیں اس منصب رفیع پر فائز کیا جائے گا ۔ جہاں خداوند ذوالجلال ان سے اور وہ اپنے خداوند کریم سے راضی ہوں گے ۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply