سورة البلد مكتوبة، سورة الشمس مكتوبة، سورة اليل مكتوبة
ترجمہ اور تفسير سورہ بلد
مرتب: محمد ہاشم بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفرپور اعظم گڑھ يوپى انڈيا۔
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے۔
لَا أُقْسِمُ بِهَٰذَا الْبَلَدِ ﴿1﴾
میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی۔
وَأَنْتَ حِلٌّ بِهَٰذَا الْبَلَدِ ﴿2﴾
اور (بطور جملہ معترضہ کے تسلی کے لیے پیشن گوئی فرماتے ہیں کہ) آپ کو اس شہر میں لڑائی حلال ہونے والی ہے۔
وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ ﴿3﴾
اور قسم ہے باپ کی اور اولاد کی۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ ﴿4﴾
بلاشبہ ہم نے انسان کو اس طرح بنایا کہ اس کی زندگی مشقتوں سے گھری ہوئی ہے۔
أَيَحْسَبُ أَنْ لَنْ يَقْدِرَ عَلَيْهِ أَحَدٌ ﴿5﴾
کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس پر کسی کا بس نہ چلے گا؟
يَقُولُ أَهْلَكْتُ مَالًا لُبَدًا ﴿6﴾
کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال خرچ کرڈالا۔
أَيَحْسَبُ أَنْ لَمْ يَرَهُ أَحَدٌ ﴿7﴾
کیا وہ سمجھتا ہے کہ اس کو کسی نے نہیں دیکھا؟
أَلَمْ نَجْعَلْ لَهُ عَيْنَيْنِ ﴿8﴾
کیا ہم نے اسے ایک ایک چھوڑ، دو دو آنکھیں نہیں دیں؟ (جن سے وہ دیکھتا ہے)
وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ ﴿9﴾
اور زبان اور ہونٹ نہیں دیے ہیں ؟ (جوگویائی کا ذریعہ ہیں) ۔
وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ ﴿10﴾
اور کیا ہم نے اسے سعادت و شقاوت کی دونوں راہیں نہیں دکھادیں؟
فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ ﴿11﴾
پھر وہ اس گھاٹی میں داخل نہیں ہوسکا۔
وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ ﴿12﴾
اور تمہیں کیا پتہ کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟
فَكُّ رَقَبَةٍ ﴿13﴾
وہ کسی (کی) گردن کا غلامی سے چھڑا دینا ہے۔
أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ ﴿14﴾
یا کھانا کھلانا فاقہ کے دن میں۔
يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ ﴿15﴾
کسی رشتہ دار یتیم كو۔
أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ ﴿16﴾
یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا۔
ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ ﴿17﴾
پھر وہ ان لوگوں میں بھی شامل نہ ہوا جو ایمان لائے ہیں، اور جنہوں نے دیکد وسرے کو ثابت قدمی کی تاکید کی ہے، اور ایک دوسرے کو رحم کھانے کی تاکید کی ہے۔
أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ ﴿18﴾
یہی وہ لوگ ہیں جو بڑے نصیب والے ہیں۔
وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا هُمْ أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ ﴿19﴾
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا ہے، وہ نحوست والے لوگ ہیں۔
عَلَيْهِمْ نَارٌ مُؤْصَدَةٌ ﴿20﴾
ان پر آگ محیط ہوگی جس کو بند کردیا جاوے گا۔
تشريح
﴿لَا أُقْسِمُ بِهَٰذَا الْبَلَدِ﴾ بیت اللہ کی فضلیت
اس پر اجماع ہے کہ آيت ميں اس شہر سے مراد مکہ ہے، بیت اللہ کی فضلیت میں حضرت ابو شریح (رض) بیان کرتے ہیں کہ: نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مکہ کو اللہ نے حرم بنایا ہے، اس کو لوگوں نے حرم نہیں بنایا، جو شخص اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ مکہ میں خون بہائے اور نہ مکہ کے کسی درخت کو کاٹے، اگر کوئى شخص مکہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتال کرنے سے معارضہ کرے تو اس سے کہو کہ اللہ نے اپنے رسول کو اجازت دی تھی اور تم کو اجازت نہیں دی ہے اور مجھے دن کی ایک ساعت ( ایک گھنٹہ) میں قتال کی اجازت دی تھی، پھر اس کی حرمت آج اسی طرح لوٹ آئی ہے جس طرح کل تھی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٠٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٣٥٤)
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ: نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منٰی میں فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ آج کونسا دن ہے ؟ مسلمانوں نے کہا : اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا : بیشک یہ یوم حرام ہے ( عزت اور حرمت والا دن ہے) ، پھر فرمایا : کیا تم جانتے ہو یہ کونسا شہر ہے ؟ مسلمانوں نے کہا : اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا : یہ بلد حرام ہے ( حرمت والا شہر ہے) پھر فرمایا : کیا تم جانتے ہو یہ کونسا مہینہ ہے ؟ مسلمانوں نے کہا : اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا : یہ عزت اور حرمت والا مہینہ ہے، پھر آپ نے فرمایا : بیشک اللہ نے تمہاری جانوں کو اور تمہارے مالوں اور تمہاری عزتوں کو ایک دوسرے پر اس طرح حرام کردیا ہے، جس طرح آج کے دن کی حرمت ہے اور آج کے مہینہ کے حرمت ہے اور جس طرح تمہارے اس شہر کی حرمت ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 1742، صحیح مسلم رقم الحدیث: 66)
﴿وانت حل بھٰذا البلد﴾
امام قرطبی لکھتے ہیں: اس آیت میں فرمایا ہے: ”وأنت حل“ یعنی اس شہر میں آپ جو کام بھی کریں وہ آپ کے لیے حلال ہے، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : جس دن آپ مکہ میں داخل ہوئے آپ کے لیے حلال کردیا گیا کہ آپ جس کافر کو چاہیں قتل کردیں، سو آپ نے ابن خطل، مقیس بن صبابہ وغیرہما کو قتل کردیا اور آپ کے بعد اور کسی شخص کے لیے مکہ میں کسی کو قتل کرنا جائز نہیں ہے۔ ابو صالح نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ آپ کے لیے دن کی ایک ساعت میں مکہ میں قتال کرنا حلال ہوا تھا اور یہ فتح مکہ کا دن تھا، پھر اس کے بعد قیامت تک کے لیے اس کی حرمت لوٹ آئی، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا : بیشک اللہ نے جب آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا، اس وقت اس نے مکہ کو حرم بنادیا تھا پس وہ قیامت تک کے لیے حرام ہے، نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال ہوا تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا اور میرے لیے صرف دن کی ایک ساعت میں حلال ہوا تھا۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٣٥٣)
وأنت حل: کا دوسرا یہ معنی کیا گیا ہے کہ آپ اس میں مقیم ہیں اور یہ آپ کا محل ہے اور ایک قول یہ ہے کہ آپ اس میں محسن ہیں یعنی آپ اس شہر میں نیک کام کرنے والے ہیں اور میں اس شہر میں آپ سے راضی ہوں۔ قتادہ نے کہا : اس کا معنی یہ ہے کہ آپ اس میں حلال ہیں یعنی آپ اس میں گناہ گار نہیں ہیں۔
اہل لغت نے ذکر کیا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ: فلاں شخص حل ہے اور حلال ہے اور محل ہے، اس کا معنی گرہ کھولنا، حلال ہونا اور نازل ہونا، اترنا اور ٹھہرنا ہے یعنی آپ مکہ میں نازل ہونے والے اور ٹھہرنے والے ہیں۔
ایک قول یہ ہے کہ: اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف اور تحسین ہے یعنی آپ اس شہر میں کوئی ایسا کام کرنے والے نہیں ہیں، جس کا ارتکاب آپ پر حرام ہو، کیونکہ آپ کو معلوم تھا کہ بیت اللہ کے کیا حقوق ہیں، نہ کہ ان مشرکین کی طرح جو اس شہر میں کفر اور معصیت کے کام کرتے تھے اور ان آیتوں کا معنی اس طرح ہے کہ میں اس بیت معظم کی قسم کھاتا ہوں جس کی عزت اور حرمت کو آپ جانتے ہیں، سو آپ اس بیت کی تعظیم کرتے ہوئے اس میں مقیم ہیں اور اس شہر میں کوئی ایسا کام نہیں کرتے جو آپ پر حرام ہو۔
شرجیل بن سعد نے کہا : آپ اس شہر میں حلال ہیں اور کفار مکہ میں قتل کرنے کو اور شکار کرنے کو اور اس کے درختوں کو کاٹنے کو حرام قرار دیتے ہیں، اس کے باوجود وہ مکہ سے آپ کے نکالنے کو اور آپ کے قتل کو حلال قرار دیتے ہیں۔ ( الجامع الاحکام القرآن جز ٢٠ ص ٥٥، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
﴿وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ﴾ والد اور اولاد کے مصداق میں اقوال مفسرین
مجاہد اور قتادہ اور حسن اور ابو صالح نے کہا: والد سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں اور اس کی اولاد سے مراد ان کی نسل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی قسم اس لیے کھائی ہے کہ وہ روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کی سب سے عمدہ مخلوق ہیں، اس میں انبیاء (علیہم السلام) بھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف دیگر دعوت دینے والے بھی ہیں۔
ایک قول یہ ہے کہ والد سے مراد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں اور اولاد سے مراد ان کی ذریت ہے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد ان کی تمام ذریت ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہوں جو ان کی ذریت میں سے مسلمان ہیں۔
ایک قول یہ ہے کہ اس سے مرادعام والد اور اس کی اولاد ہے۔ الماوردی نے کہا: یہ بھی ہوسکتا ہے کہ والد سے مرادہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں کیونکہ اس سے پہلی آیتوں میں آپ کا ذکر ہے اور اولاد سے مراد آپ کی امت ہے، حدیث میں ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں تمہارے لیے والد کی طرح ہوں، تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤ سنن نسائی رقم الحدیث : ٤٠) (النکت والعیون للماوردی ج ٦ ص ٢٧٥، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
﴿يَقُوْلُ اَهْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًا﴾ لبدا کا معنی
اس آیت میں ”لبدا“ کا لفظ ہے، ”لبد“ کا معنی مال کثیر ”لابد“ کا بھی یہی معنی ہے، اصل میں ”لبد“ اور ”لبدۃ“ کا معنی ہے : نمدہ اور گوند سے چپکایا ہوا اون، نمدہ ہو یا چپکایا ہوا اون، ان میں تہ پر تہ جمائی جاتی ہے، وسعت استعمال کی وجہ سے مال کثیر کو بھی ”لبد“ کہتے ہیں، گویا اس میں بھی مال کی تہ پر تہ جائی جاتی ہے، ”لبد“ اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو گھر میں بیٹھا رہے اور کمائی کے لیے باہر نہ نکلے۔ ( القاموس الحیط ص ٣١٦، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢٤ ھ)
امام لیث فرماتے ہيں: ”مال لبد“ سے مراد یہ ہے کہ وہ اتنا زیادہ مال ہو کہ اس کی کثرت کی وجہ سے اس کے فناء ہونے کا خوف نہ ہو، اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کافر یہ کہتا ہے کہ میں نے ( سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت میں مال کثیر خرچ کیا ہے یا اس سے مراد یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں کفار اپنی بڑائی اور فخر کو ظاہر کرنے کے لیے مال کثیر خرچ کرتے تھے، اس کے متعلق ان میں سے کسی نے کہا : میں نے اپنا بہت مال خرچ کردیا ہے۔
﴿أَيَحْسَبُ أَنْ لَمْ يَرَهُ أَحَدٌ ﴾
اس آیت کی دو تفسیریں ہیں، امام قتادہ كہتے ہيں: وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ نے اس کو نہیں دیکھا اور وہ اس سے یہ نہیں پوچھے گا کہ اس نے یہ مال کہاں سے حاصل کیا اور کہاں خرچ کیا ؟ امام كلبى نے کہا ہےكہ : وہ جھوٹا ہے، اس نے کچھ خرچ نہیں کیا، پس اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اللہ اس کو دیکھ رہا ہے کہ وہ کیا خرچ کررہا ہے اور کیا خرچ نہیں کررہا، وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے اور ہر چیز کو جانتا ہے۔ (جامع البیان جز ٣٠ ص ٤٩ ہ، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
﴿أَلَمْ نَجْعَلْ لَهُ عَيْنَيْنِ،وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ، وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ﴾
امام ابن عساکر نے مکحول سے روایت کیا کہ: نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، اے ابن آدم ! میں نے تجھے بہت عظیم نعمتیں عطاء کی ہیں، جو عدد شمار سے باہر ہیں اور جن کو تو شکر ادا نہیں کرسکتا، اور میں نے تجھ کو جو نعمتیں دی ہیں، وہ یہ ہیں کہ تیرے لیے دو آنکھیں بنادی ہیں جن سے تو دیکھتا ہے اور میں نے ان آنکھوں کے لیے پردے ( پلکیں) بنادی ہیں، تو اپنی آنکھوں سے حلال چیزوں کو دیکھ اور جب تو ان چیزوں کو دیکھے جن کو میں نے حرام کردیا تو ان پردوں ( پلکوں) کو منطبق کر دے اور میں نے تجھ کو زبان دی ہے اور اس کے لیے غلاف بنادیا ہے پس تو میرے حکم کے مطابق زبان سے بول، جو باتیں تیرے حلال ہیں اور اگر تیرے سامنے وہ چیزیں پیش ہوں جن کو میں نے تجھ پر حرام کردیا ہے تو اپنی زبان پر تالا ڈال دے، اور میں نے ترے لیے شرم بنائی ہے اور اس کے لیے پردہ بنایا ہے تو اپنی شرم گاہ سے ان چیزوں کو حاصل کر جو میں نے تیرے حلال کردی ہیں اور جب تیرے سامنے کوئی حرام چیز آئے تو تو اس پر پردہ ڈال دے، اے ابن آدم ! میری ناراضگی کو نہ اٹھاؤ اور تو میرے انتقام کی طاقت نہیں رکھتا۔
مجاہد نے: ”وھدیناه النجدین“ کا معنی يہ بتايا ہے كہ : ہم نے انسان کو خیر اور شر کے راستوں کی پہچان کرا دی ہے۔
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : ہدایت اور گم راہی کے راستوں کی۔
امام ابن مردویہ نے حضرت حسن (رض) سے روایت کیا ہے کہ: نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے : اے لوگو ! یہ دو راستے خیر اور شر کے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے شرکا راستہ خیر کے راستے سے زیادہ محبوب نہیں بنایا۔ (الدر المنثور ج ٨ ص ٤٧٨۔ ٤٨٨ دراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
﴿فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ﴾
”اقتحم“ کا معنی: چڑھا، گھس پڑا، اس کا مصدر اقتحام ہے اس کا معنی ہے: بغیر دیکھے بھالے اپنے آپ کو کسی چیز میں جھونک دینا۔ ( القاموس المحیط ص ١١٤٦، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢٤ ھ)
اور اس آیت میں ” العقبة “ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے: گھاٹی، پہاڑ میں چڑھائی کا جو دشوار گزار راستہ ہوتا ہے، اس کو ” عقبہ “ کہتے ہیں۔ ( القاموس المحیط ص ١١٦، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢٤ ھ)
عقبہ كى تفسير
امام عطا نے کہا ہے كہ: ”عقبة“ سے مراد یہاں جہنم کی گھاٹی ہے، الکلبی نے کہا : یہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک گھاٹی ہے، حضرت ابن عمر نے کہا : یہ جہنم میں ایک پہاڑ ہے، حسن اور مقاتل نے کہا ہے کہ دشوار گزاری گھاٹی پر چڑھنے کے ذکر میں یہ مثال دی ہے کہ انسان نے اپنے نفس کی ناجائز خواہشوں کے خلاف مزاحمت کیوں نہیں کی اور غلط نفسانی تقاضوں کو پورا کرنے سے اجتناب کیوں نہیں کیا اور نیکی کرنے میں شیطان کے بہکانے سے جہاد کیوں نہیں کیا، الحسن نے کہا : اللہ کی گھاٹی بہت شدید ہے، اور یہ انسان کا اپنی ناجائز خواہشوں سے اور شیاطین انس اور جن سے جہاد کرنا ہے۔
امام رازی نے فرمایا : یہی تفسیر برحق ہے کیونکہ انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ محسوسات کے عالم سے نکل کر انوار الٰہیہ کے عالم میں پہنچ جائے اور اس مادی عالم اور عالم قدس کے درمیان بیشمار دشوار گزار گھاٹیاں اور پر خطرہ وادیاں ہیں جن کو عبور کرنا ہے بعد مشکل اور دشوار ہے۔
﴿فَكُّ رَقَبَةٍ﴾ غلام آزاد کرنے کی فضلیت
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے کسی غلام کو آزاد کیا، اللہ تعالیٰ اس غلام کے ہر عضو کے بدلے میں اس کے عضو کو دوزخ سے آزاد کر دے گا، حتیٰ کہ اس کا شرم گاہ کو اس کی شرم گاہ کے بدلہ میں۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث: ٢٥١٧، صحیح مسلم رقم الحدیث: ٥٠٩، سنن ترمذی رقم الحدیث: ١٥٤١ )
حضرت ابو امامہ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دیگر اصحاب بیان کرتے ہیں کہ: نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: جس مسلمان مرد نے کسی مسلمان مرد کو آزاد کیا تو وہ اس کا دوزخ سے چھڑانا ہوگا، اس کے ہر عضو کا اس کے عضو سے بدلہ ہوگا اور جس مسلمان عورت سے کسی مسلمان عورت کو آزاد کیا تو وہ اس کا دوزخ سے چھڑانا ہوگا اور اس کے ہر عضو کا اس کے عضو سے بدلہ ہوگا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث: ١٥٤٧، السنن الکبریٰ، للبیہقی ج ١٠ ص ٢٧١، المعجم الکبیر ج ١ ص ٩٥)
غلام کو آزاد کرنا اور صدقہ کرنا دونوں افضل عمل ہیں، امام ابوحنیفہ کے نزدیک غلام کو آزاد کرنا صدقہ کرنے سے افضل ہے اور امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک صدقہ کرنا، غلام آزاد کرنے سے افضل ہے، اور اس آیت میں امام ابوحنیفہ کے مؤقف پر دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے غلام کو آزاد کرنے کا ذکر صدقہ دینے سے پہلے کیا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے غلام کی گردن چھڑائی، اللہ تعالیٰ اس کے ہر عضو کے بدلہ میں اس کا عضو دوزخ سے آزاد کر دے گا۔ ( سنن ابو داود رقم الحدیث: ٣١٦٦ )
﴿أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ﴾ بھوکے مسلمان کو کھانا کھلانے کی فضلیت میں آیات اور احادیث
اس آیت میں ”مسغبة“ کا لفظ ہے، یہ اسم مصدر ہے، اس کا معنی ہے: بھوک، بھوکا ہونا، ”سغب“ کا معنی ہے، ایسی بھوک یا پیاس جس میں تھکان سی محسوس ہو، جیسے جب جسم میں گلو کوز کم ہونے کے وقت کیفیت ہوتی ہے۔ ( القاموس المحیط ص ٩٧، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢٤ ھ)
قحط، تنگ دستی اور شدید ضرورت کے وقت مال نکالنا انسان کے نفس پر سخت مشکل اور دشوار ہوتا ہے، جیسے قرآن مجید میں ہے :
﴿وَاٰتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ﴾ (البقرہ : 177)
اور مال سے اپنی محبت کے باوجود رشتہ دراروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سوالیوں اور گردن چھڑانے کے لیے مال دے۔
﴿وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا﴾ (الدھر : 8)
اور وہ کھانے کی ضرورت کے باوجود مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ: ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا : اسلام کے کون سے حکم پر عمل کرنا سب سے افضل ہے؟ فرمایا : تم جس شخص کو پہچانتے ہو يا نہ پہچانتے ہو، اس کو کھانا کھلاؤ اور سلام کرو۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث: ١٢، صحیح مسلم رقم الحدیث: ٢٩، سنن ابو داود رقم الحدیث: ٥١٩٤، سنن نسائی رقم الحدیث: ٥٠٠٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث: ٣٢٥٣ )
کھانا کھلانے میں فضلیت ہے، لیکن جب انسان خود بھوکا ہونے کے باوجود دوسرے کو کھلائے تو اس میں زیادہ فضلیت ہے۔
جبان بن ابی جمیلہ بیان کرتے ہیں کہ: نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو صدقہ سب سے زیادہ سرعت کے ساتھ آسمان پر چڑھتا ہے، وہ یہ ہے کہ انسان بہت عمدہ کھانا تیار کرے اور پھر اپنے ( مسلمان) بھائیوں کو کھلائے۔ (کنز العمال ج ٦ ص ٤٢٤، رقم الحدیث: ١٦٣٦٩ )
ضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ: کسی بھوکے پیٹ والے کو سیر ہو کر کھانا کھلانے سے زیادہ کوئی عمل افضل نہیں ہے۔ (الفردوس بما ثور الخطاب رقم الحدیث: ٦٣٤٧، کنز العمال رقم الحدیث: ١٦٣٧٠، شعب الایمان رقم الحدیث: ٣٣٦٧ )
محمد بن مکندر بیان کرتے ہیں کہ: نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مغفرت کے موجبات میں سے یہ ہے کہ بھوکے مسلمان کو کھانا کھلایا جائے۔ ( شعب الایمان رقم الحدیث: ٣٣٦٤، کنز الایمان رقم الحدیث: ١٦٣٧٢، المستدرک ج ٢ ص ٥٢٤، رقم الحدیث: ٣٩٣٥)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے اپنے ( مسلمان) بھائی کو روٹی کھلائی حتی کہ وہ سیر ہوگیا اور اس کو پانی پلایا حتیٰ کہ وہ سیر ہوگیا، اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ کی سات خندقوں سے دور کر دے گا، ہر خندق کی مسافت پانچ سو سال ہے۔ ( شعب الایمان رقم الحدیث: ٣٣٦٨، کنز العمال رقم الحدیث: ١٦٣٧٣)
حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے کسی بھوکے مسلمان کو کھلانا کھلایا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے پھلوں سے کھلائے گا اور جس شخص نے کسی بےلباس مسلمان کو لباس پہنایا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کا سبز لباس پہنائے گا اور جس شخص نے کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلایا، اللہ تعالیٰ اس کو رحیق ( شراب طہور) سے پلائے گا۔ (شعب الایمان رقم الحدیث: ٣٣٧٠)
حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلایا حتیٰ کہ وہ سیر ہوگیا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے دروازوں میں سے اس دروازے میں داخل کرے گا، جس میں سے صرف اس جیسے مسلمان داخل ہوں گے ۔ ( المعجم الکبیرج ٢٠۔ رقم الحدیث : ١٦٢، کنز العمال رقم الحدیث: ١٦٣٧٤)
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: جب تمہارے گناہ زیادہ ہوں تو پانی کے گھاٹ پر لوگوں کو پانی پلاؤ، تمہارے گناہ اس طرح جھڑ جائیں گے جس طرح تیز آندھی سے درخت کے پتے گرتے ہیں۔
( تاریخ بغداد ج ٦ ص ٤٠٣، کنز العمال رقم الحدیث: ١٦٣٧٧)
ابو جنید الفہری اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے کسی پیاسے کو پانی پلا کر اس کو سیر کردیا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا ایک دروازہ کھول دے گا اور اس سے کہا جائے گا اس دروازے سے داخل ہو اور جس نے کسی بھوکے کو کھانا کھلا کر اس کو سیر کردیا، اس کے لیے جنت کے تمام دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا : جس دروازے سے چاہو داخل ہو جاؤ۔ ( المعجم الکبیر ج ٢٢۔ رقم الحدیث: ٩٣٩، کنز العمال رقم الحدیث: ١٦٣٨٢، اس حدیث کی سند ضعیف ہے)
﴿يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ﴾ یتیم کا معنی
انسانوں میں یتیم اس شخص کو کہتے ہیں جس کا بچپن میں باپ فوت ہوگیا ہو اور حیوانات میں یتیم اس کو کہتے ہیں جس کی بچپن میں ماں فوت ہوگئی ہو اور بعض اہل لغت یتیم اس شخص کو کہتے ہیں جس کے ماں باپ دونوں فوت ہوگئے ہوں۔
جو یتیم رشتہ نہ دار ہو اس پر بھی صدقہ کرنے میں فضلیت ہے لیکن جو یتیم رشتہ دار بھی ہو، اس پر صدقہ کرنے میں زیادہ فضلیت ہے، جس طرح جس یتیم کے کفالت کرنے والے ہوں، اس پر صدقہ کرنے میں بھی فضیلت ہے لیکن جس یتیم کا کوئی کفیل نہ ہو، اس پر صدقہ کرنے میں بہت فضیلت ہے۔
یتیموں کو صدقہ دینے کی فضیلت میں احادیث
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے مسلمانوں میں سے کسی یتیم کو رکھا اور اس کو اپنے کھانے پینے میں شامل کیا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کر دے گا، اسکے پاس اسکا کوٸ ایسا گناہ نہ ہوو جس کی مغفرت نہ ہو سکے۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث: ١٩١٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث: ٣٦٦٩ )
حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ان دو انگلیوں کی طرح ایک ساتھ ہوں گے ، آپ نے انگشت شہات اور درمیانی انگلی کے ساتھ ارشاہ فرمایا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث: ٦٠٠٥، سنن ترمذی رقم الحدیث: ١٩١٨، سنن ابو داود رقم الحدیث: ٥١٥٠، مسند احمد ج ٥ ص ٣٣٣)
حضرت ابوامامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا اور صرف اللہ کی رضا کے لیے ہاتھ پھیرا تو اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے، اس کی اتنی نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور جس شخص کے پاس کوئی یتیم لڑکی یا یتیم لڑکا ہو اور وہ اس کے ساتھ نیک سلوک کرے تو وہ میرے ساتھ جنت میں ان دو انگلیوں کی طرح ہوگا اور آپ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگل کو ملایا۔ (مسند احمد ج ٥ ص ٢٥٠ طبع قدیم، مسند احمد ج ٣٦ ص ٤٨٤، رقم الحدیث: ٢٢١٥٣، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢١ ھ، حلیۃ الاولیاء ج ٨ ص ٧٨، شرح السنۃ رقم الحدیث: ٣٤٥٦، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٧٢٨١، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٣١٩٠)
رشتہ داروں کو صدقہ دینے کی فضلیت میں احادیث
حضرت حکیم بن حزام (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ کس کو صدقہ دینا سب سے افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: اس قرابت دار کو جو پہلو تہی کرتا ہو۔ (سنن دارمی رقم الحدیث : ١٦٧٩، مسند احمد رقم الحدیث: ١٤٨٩٦، داراحیاء التراث العربی، بیروت)
ام المؤمنین حضرت ميمونہ نے اپنی باندی کو آزاد کیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تم یہ باندی اپنے کسی ماموں کو دیتے دیتیں تو تم کو زیادہ اجر ملتا۔ (سنن ابو داود رقم الحدیث: ١٦٩٠، مسند احمد رقم الحدیث: ٢٦٢٨٣، داراحیاء التراث العربی، بیروت)
سلیمان بن عامرالضبی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: مسکین پر صدقہ کرنا ایک صدقہ ہے اور قرابت دار پر صدقہ کرنا دو صدقے ہیں، ایک صدقہ ہے اور ایک صلہ رحمى ہے۔ (سنن نسائی رقم الحدیث: ٢٥٨٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث: ١٨٤٤، مسند احمد رقم الحدیث: ٥٧٩٤، داراحیاء التراث العربی، بیروت)
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی حضرت زینب (رض) بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کیا کہ کیا ان کے لیے یہ صدقہ کافی ہوگا کہ وہ اپنے خاوند اور اپنی گود کے بچوں کو صدقہ دے؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! تمہیں دو اجر ملیں گے، ایک اجر صدقہ کا ہوگا اور ایک اجر قرابت داری کا۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤٦٦، صحیح مسلم رقم الحدیث: ١٠٠٠، سنن نسائی رقم الحدیث: ٢٥٨٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث: ١٨٣٤، مسند احمد رقم الحدیث: ٢٦٥٠٨، داراحیاء التراث العربی، بیروت)
﴿أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ﴾ خاک نشین کے مصداق
خاک نشین سے مراد یہ ہے کہ جس کے پاس کچھ نہ ہو، حتیٰ کہ فقیر کی وجہ سے وہ مٹی سے آلود ہے اور سوائے خاک اور مٹی کے اس کا اور کوئی ٹھکانا نہیں ہے، حضرت ابن عباس نے فرمایا: یہ وہ شخص ہے جو راستہ ( فٹ پاتھ) پر پڑا ہو اور اس کا کوئی گھر نہ ہو، مجاہد نے کہا: یہ وہ شخص ہے جو اپنے جسم اور لباس کو مٹی سے نہ بچا سکے، قتادہ نے کہا: اس سے مراد یہ ہے کہ وہ عیال دار ہو، عکرمہ نے کہا : اس سے مراد ہے کہ وہ مقروض ہو، ابوسنان نے کہا : اس سے مراد ہے کہ وہ اپاہج ہو، ابن جبیر نے کہا : اس سے مراد ہے: جس کو دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ ہو۔ ( الجامع الاحکام القرآن جز ٢٠ ص ٦٢، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
﴿ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ الخ
مؤمنین صالحین کے لیے بشارت اور کفار کے لیے عذاب کی وعید
یعنی جو لوگ دشوار گزار گھاٹی پر چڑھیں گے اور نفس کے ناجائز تقاضوں سے جنگ اور جہاد کریں، ان کا یہ جہاد اس وقت قابل تحسین اور لائق اجر ہوگا، جب وہ مومن ہوں اور اگر وہ ایمان نہیں لائے تو ان کا یہ سارا جہاد رائیگاں جائے گا۔
حضرت عائشہ (رض) نے کہا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! زمانہ جاہلت میں ابن جدعان رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتا تھا، کھانا کھلاتا تھا، قیدیوں کو چھڑاتا تھا اور غلاموں کو آزاد کرتا تھا اور اللہ کی راہ میں لوگوں کو اونٹوں پر سوار کرتا تھا، کیا ان اعمال سے اس کو نفع ہوگا؟ آپ نے فرمایا: نہیں، اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا: اے اللہ ! قیامت کے دن میری خطاؤں کو بخش دینا۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٤)
سورة البلد مكتوبة، سورة الشمس مكتوبة، سورة اليل مكتوبة
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.