ترجمہ اور مختصر تفسير سورہ فجر
مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفرپور اعظم گڑھ۔
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے۔
وَالْفَجْرِ ﴿1﴾
قسم ہے فجر کی،
وَلَيَالٍ عَشْرٍ ﴿2﴾
اور دس راتوں کی،
وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ ﴿3﴾
اور جفت اور طاق کی،
وَاللَّيْلِ إِذَا يَسْرِ ﴿4﴾
اور رات کی جبکہ وہ رخصت ہو رہی ہو۔
هَلْ فِي ذَٰلِكَ قَسَمٌ لِذِي حِجْرٍ ﴿5﴾
یقیناً اس میں قسم ہے صاحب فہم کے لئے۔
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ ﴿6﴾
کیا آپ کو خبر نہیں کہ آپ کا پروردگار نے کیا معاملہ قوم عاد کے ساتھ کیا،
إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ ﴿7﴾
جو ستونوں کی طرح بڑے لمبے چوڑے تھے۔
الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ ﴿8﴾
ان کی طرح کوئی قوم دنیا میں پیدا نہیں کی گئی تھی۔
وَثَمُودَ الَّذِينَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ ﴿9﴾
اور ثمود کے ساتھ کیسا سلوک کیا جو وادی میں پہاڑوں کو پتھر تراشا کرتے تھے یعنی گھر بنانے کے ليے۔
وَفِرْعَوْنَ ذِي الْأَوْتَادِ ﴿10﴾
اور میخوں والے فرعون کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟
الَّذِينَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِ ﴿11﴾
یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی۔
فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ ﴿12﴾
اور ان میں بہت فساد مچایا تھا۔
فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ ﴿13﴾
آخر کار آپ کے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا۔
إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ ﴿14﴾
حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب گھات لگائے ہوئے ہے۔
فَأَمَّا الْإِنْسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ ﴿15﴾
مگرانسان کا حال یہ ہے کہ اس کا رب جب اس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ: میرے رب نے مجھے عزت دار بنادیا۔
وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَنِ ﴿16﴾
اور جب وہ اس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اس کا رزق اس پر تنگ کردیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کردیا۔
كَلَّا ۖ بَلْ لَا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ ﴿17﴾
یہ بات نہیں،اصل یہ ہے کہ تم لوگ یتیم کی قدر نہیں کرتے ہو۔
وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ ﴿18﴾
اور دوسروں کو بھی مسکین کے کھانا دینے کی ترغیب نہیں دیتے ہو۔
وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَمًّا ﴿19﴾
اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو۔
وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا ﴿20﴾
اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو۔
كَلَّا إِذَا دُكَّتِ الْأَرْضُ دَكًّا دَكًّا ﴿21﴾
یہ بات ہرگز نہیں (کہ عذاب نہ ہوگا) جس وقت زمین کو توڑ توڑ کر ریزہ ریزہ کردیا جائے گا۔
وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا ﴿22﴾
اور آپ کا رب جلوہ فرما ہوگا جب کہ فرشتے قطار در قطار حاضر ہوں گے ۔
وَجِيءَ يَوْمَئِذٍ بِجَهَنَّمَ ۚ يَوْمَئِذٍ يَتَذَكَّرُ الْإِنْسَانُ وَأَنَّىٰ لَهُ الذِّكْرَىٰ ﴿23﴾
اور جہنم کو اس روز لایا جائے گا اس روزانسان کو سمجھ آئے گی اور اب سمجھ آنے کا موقع کہاں رہا۔
يَقُولُ يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي ﴿24﴾
کاش میں (آخرت کی) زندگی کے لیے کچھ سامان کرلیتا۔
فَيَوْمَئِذٍ لَا يُعَذِّبُ عَذَابَهُ أَحَدٌ ﴿25﴾
غرض اس روز نہ تو اللہ کے عذاب کی طرح کوئی عذاب دینے والا نکلے گا۔
وَلَا يُوثِقُ وَثَاقَهُ أَحَدٌ ﴿26﴾
اور نہ اس کے جکڑنے کے برابر کوئی جکڑنے والا نکلے گا۔
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ﴿27﴾
اے اطمینان والی روح۔
ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً ﴿28﴾
تو اپنے پروردگار کی طرف چل، خوش ہوتی ہوئی اور خوش کرتی ہوئی۔
فَادْخُلِي فِي عِبَادِي ﴿29﴾
پھر تو میرے (خاص) بندوں میں شامل ہوجا۔
وَادْخُلِي جَنَّتِي ﴿30﴾
اور داخل ہوجا میری جنت میں۔
تشریح
دس راتوں کی تفصیل
اس میں مختلف تفسیریں ہیں۔ ١۔ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ مراد ہے۔ ٢ ۔ رمضان المبارک کا پہلا عشرہ مراد ہے۔ ٣۔ رمضان المبارک کا عشرہ مراد ہے۔ ٤۔ محرم کا پہلا عشرہ مراد ہے۔ ( تفسیر مظہری ص ٢٥٣ ج ١٠)
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (رح) لکھتے ہیں کہ اس سورة میں باقی تمام قسموں کو معرف بالام ذکر فرمایا ہے صرف ” لیال عشر “ کو نکرہ ذکر فرمایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دس راتوں کی تعظیم کا سبب مخفی تھا اس لیے ان کو نکرہ لائے تاکہ تنکیر ان کی تعظیم پر دلالت کرے بخلاف دوسری قسموں کے کہ ان کی وجہ عظمت ظاہر ہے۔ واللہ اعلم ۔ اور بیہقی نے ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ اس سے محرم الحرام کی پہلی فجر مراد ہے جو سال کی پہلی فجر ہے۔ صحابہ کرام (رض) نے سن ہجری کی ابتداء جو محرم الحرام سے کی نہ کہ ہجرت کے مہینہ ربیع الاول سے ، تو اس کی حکمت بھی یہی ہے ( قالہٗ الحافظ ابن حجر (رح))
﴿إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ﴾: قوم ”عاد“ کو ” عار ارم “ کہتے ہیں اور قوم ثمود کو عاد ثانی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ”ذات العماد“ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ١۔۔ یہ لوگ ستونوں جیسے قد آور تھے اللہ تعالیٰ نے انھیں جس مقام پر ہلاک کیا جیسے کھجور کے اکھاڑے ہوئے تنے ہوتے ہیں ایسے ہی پڑے ہوئے تھے۔ ٢۔۔ یہ لوگ بڑی بڑی عمارتیں بناتے تھے۔
ابن العربی (رح) فرماتے ہیں : اس میں اونچی عمارتوں اور پختہ و مضبوط تعمیرات سے تحذیر کی گئی ہے اور ایسے اعمال کی طرف ترغیب دلائی گئی ہے جو دارآخرت کی تعمیرو ترقی کیلئے مفید ہوں ۔ علامات قیامت میں سے تطاول بنیان یعنی اونچی عمارتوں کی تعمیر کو بھی علامت قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد کی بنیادیں پیش کی گئیں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : ” عریش کعریش موسیٰ “ آج ہماری عمارتیں اونچی اور مساجدمزین ہیں لیکن ہمارے دل اور اجسام روح ایمانی سے خالی ہیں۔ ( احکام القرآن ۔ ابن العربی ج ٤ ص ٢٩٩)
﴿وَثَمُوْدَ الَّذِيْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ﴾: یہ لوگ پتھروں کو تراش کر مکانات بنایا کرتے تھے۔ ”وادی القریٰ“ ان کے شہروں میں ایک شہر کا نام ہے جیسا کہ ایک نام حجر ہے اور یہ سب حجاز اور شام کے درمیان میں ہیں اور سب میں ثمود رہتے تھے۔ ( کذا في بعض التفاسیر بحوالہ بیان القرآن : ص ٩٧ ج ١٢)
﴿فَادْخُلِي فِي عِبَادِي﴾ اس کا ایک معنی یہ ہے کہ میرے نیک بندوں کی جماعت میں داخل ہو جاؤ ۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ ”في“ بمعنی ”مع“ کے ہے یعنی میرے بندوں کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ ۔ حضرت تھانوی (رح) لکھتے ہیں کہ یہ خطاب قیمت کے دن کا معلوم ہوتا ہے اور بعض روایات میں جو آیا ہے کہ مرنے کے وقت مومن سے کہا جاتا ہے اس کی یہاں تخصیص نہیں ہے اور شروع سورة کی قسموں سے مناسبت بھی یہی ہے اس سے روز قیامت مراد ہے۔ واللہ اعلم ۔
سورت كا خلاصہ
سب سے پہلے فجر اور دس راتوں اور جفت اور طاق، اور رخصت ہوتی ہوئی رات کی قسم کھا کر سامعین سے سوال کیا گیا ہے کہ جس بات کا تم انکار کر رہے ہو اس کے برحق ہونے کی شہادت دینے کے لیے کیا یہ چیزیں کافی نہیں ہیں ؟ یہ چیزیں اس باقاعدگی کی علامت ہیں جو شب و روز کے نظام میں پائی جاتی ہے، اور ان کی قسم کھا کر یہ سوال اس معنی میں کیا گیا ہے کہ خدا کے قائم کیے ہوئے اس حکیمانہ نظام کو دیکھنے کے بعد بھی کیا اس امر کی شہادت دینے کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ یہ نظام جس خدا نے قائم کیا ہے اس کی قدرت سے یہ بعید نہیں ہے کہ وہ آحرت برپا کرے، اور اس کی حکمت کا یہ تقاضا ہے کہ انسان سے اس کے اعمال کی بازپرس کرے۔
اس کے بعد انسانی تاریخ سے استدلال کرتے ہوئے بطور مثال عاد اور ثمود اور فرعون کے انجام کو پیش کیا گیا ہے کہ جب وہ حد سے گزر گئے اور زمین میں انھوں نے بہت فساد مچایا تو اللہ کے عذاب کا کوڑا ان پر برس گیا۔
یہ اس بات کی علامت ہے کہ کائنات کا نظام کچھ اندھی بہری طاقتیں نہیں چلا رہی ہیں، نہ یہ دنیا کسی چوپٹ راجہ کی اندھیر نگری ہے، بلکہ ایک فرمانروائے حکیم و دانا اس پر حکمرانی کر رہا ہے جس کی حکمت اور عدل یہ تقاضا خود اس دنیا میں انسانی تاریخ کے اندر مسلسل نظر آتا ہے کہ عقلی اور اخلاقی حس دے کر جس مخلوق کو اس نے یہاں تصرف کے اختیارات دیے ہیں اس کا محاسبہ کرے اور اسے جزا اور سزا دے۔
اس کے بعد انسانی معاشرے کی عام اخلاقی حالت کا جائزہ لیا گیا ہے جس میں عرب جاہلیت کی حالت تو اس وقت سب کے سامنے عملاً نمایاں تھی، اور خصوصیت کے ساتھ اس کے دو پہلوؤں پر تنقید کی گئی ہے۔ ایک، لوگوں کا مادہ پرستانہ نقطہ نظر جس کی بنا پر وہ اخلاق کی بھلائی اور برائی کو نظر انداز کر کے محض دنیا کی دولت اور جاہ و منزلت کے حصول یا فقدان کو عزت و ذلت کا معیار قرار دیے بیٹھے تھے اور اس بات کو بھول گئے تھے کہ نہ دولت مندی کوئی انعام ہے، نہ رزق کی تنگی کوئی سزا، بلکہ اللہ تعالیٰ ان دونوں حالتوں میں انسان کا امتحان لے رہا ہے کہ دولت پاکر وہ کیا رویہ اختیار کرتا ہے اور تنگ دستی میں مبتلا ہو کر کس روش پر چل پڑتا ہے۔
دوسرے، لوگوں کا یہ طرز عمل کہ یتیم بچہ باپ کے مرتے ہی ان کے ہاں کسمپرسی میں مبتلا ہوجاتا ہے، غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، جس کا بس چلتا ہے مردے کی ساری میراث سمیٹ کر بیٹھ جاتا ہے اور کمزور حق داروں کو دھتا بتا دیتا ہے اور مال کی حرص لوگوں کو ایک ایسی نہ بجھنے والی پیاس کی طرح لگی ہوئی ہے کہ خواہ کتنا ہی مال مل جائے ان کا دل سیر نہیں ہوتا۔ اس تنقید سے مقصود لوگوں کو اس بات کا قائل کرنا ہے کہ دنیا کی زندگی میں جن انسانوں کا یہ طرز عمل ہے ان کا محاسبہ آخر کیوں نہ ہو۔
پھر کلام کو اس بات پر ختم کیا گیا ہے کہ محاسبہ ہوگا اور ضرور ہوگا اور وہ اس روز ہوگا جب اللہ تعالیٰ کی عدالت قائم ہوگی۔ اس وقت جزا و سزا کا انکار کرنے والوں کی سمجھ میں وہ بات آجائے گی جسے آج وہ سمجھانے سے نہیں مان رہے ہیں، مگر اس وقت سمجھنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ منکر انسان ہاتھ ملتا ہی رہ جائے گا کہ کاش میں نے دنیا میں اس دن کے لیے کوئی سامان کیا ہوتا۔ مگر یہ ندامت اسے خدا کی سزا سے نہ بچا سکے گی۔ البتہ جن انسانوں سے دنیا میں پورے اطمینان قلب کے ساتھ اس حق کو قبول کرلیا ہوگا جسے آسمانی صحیفے اور خدا کے انبیاء پیش کر رہے تھے، خدا ان سے راضی ہوگا اور وہ خدا کے عطا کردہ اجر سے راضی ہوں گے ، انھیں دعوت دی جائے گی کہ وہ اپنے رب کے پسندیدہ بندوں میں شامل ہوں اور جنت میں داخل ہوجائیں۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.