Surah Nas Translation In English

Surah Nas With Urdu Translation, Surah Al Nas Translation in Urdu

سورہ الناس ترجمہ اور تفسيىر

ترتىب: محمد ہاشم قاسمى بستوى۔

قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ﴿1﴾

آپ یوں کہہ دیجئے کہ میں لوگوں کے رب کی پناہ لیتا ہوں

 مَلِكِ النَّاسِ ﴿2﴾

سب لوگوں کے بادشاہ کی۔

 إِلَٰهِ النَّاسِ ﴿3﴾

سب لوگوں کے معبود کی۔

مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ ﴿4﴾

اس وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے جو پیچھے کو چھپ جاتا ہے۔

 الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ﴿5﴾

جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔

 مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ﴿6﴾

چاہے وہ جنات میں سے ہو، یا انسانوں میں سے۔

تعارف سورة الناس

یہ سورة مبارکہ 114 ویں نمبر پر آتی ہے اس میں ایک رکوع اور چھ آیات ہیں، سورة الفلق میں دنیاوی مصائب و آفات سے پناہ مانگنے کی تعلیم تھی اور اب اس سورة میں اخروی آفات و بلیات سے پناہ مانگنے کی تاکید ہے۔

حافظ ابن القیم (رح) فرماتے ہیں : یہ سورت ان شرور سے استعاذہ پر مشتمل ہے جو تمام معاصی اور گناہ کا سبب ہیں اور یہ شر انسان کی ذات میں ہوتا ہے (یعنی نفس و شیطان) جب کہ سورة الفلق ان شرور سے استعاذہ پر مشتمل ہے جو کسی غیر کی طرف سے ظلماً کیا جائے سحر اور حسد وغیرہ کے ذریعہ اور یہ شر ہے جو خارجی ہے۔

تو سورة الناس ان شرور سے استعاذہ پر مشتمل ہوئی جو انسان کے داخلی اور ذاتی شرور ہیں یعنی بندہ کا اپنی ذات پر ظلم کرنا۔ یہ داخلی شر ہے، تو یہ مصائب (انسان کے عیوب) کا شر ہے جب کہ سورة الفلق میں جس شر سے استعاذہ بیان کیا گیا ہے وہ مصائب کا شر ہے اور شر کی جتنی صورتیں اور اقسام ہیں سب کی سب ان دو قسموں میں داخل ہیں۔ یعنی یا مصائب میں یا مصائب میں۔ کوئی تیسری قسم نہیں اور سورة الفلق میں مصائب سے اور سورة الناس میں مصائب سے استعاذہ بیان کردیا گیا ہے (جس سے تمام شرور سے حفاظت کا بہترین ذریعہ اور راستہ حاصل ہوگیا) اور تمام معائب کی اصل ” وسوسہ “ ہے۔

شیطان کے شر سے حفاظت اور استعاذہ و پناہ کی صورتیں : شیاطین کے شر سے حفاظت اور ان کے فتنوں سے مدافعت اور جس استعاذہ کا اس سورت میں حکم دیا گیا ہے، اس کی مختلف صورتیں قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہیں اور انھیں ” حرز “ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ذیل میں ان کو ذکر کیا جاتا ہے۔

(١) حرز اول : شیطان سے حفاظت کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ جب کبھی کوئی شیطانی وسوسہ پیدا ہو تو اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم یعنی تعوذ پڑھ لیا جائے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : واما ینزغنک من الشیطن نزع فاستعذ باللہ (سورة الاعراف : آیت ٢٠٠)

(٢) حرز ثانی : مذکورہ دونوں سورتوں الفلق اور الناس کی تلاوت۔ شیاطین کے شر سے حفاظت اور اس کے دفع میں یہ سورتیں عجیب تاثیر رکھتی ہیں۔ اسی لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ : ما تعوذ المتعوذون بمثلھا تعوذ اور پناہ کے ان جیسے کلمات سے کسی نے پناہ حاصل نہیں کی۔

 خود نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت شریفہ یہی تھی کہ ہر رات سوتے وقت ان سورتوں کا اہتمام فرمایا کرتے تھے اور بعض اوقات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر فرض نماز کے بعد بھی انھیں پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے کہ جس نے یہ دونوں سورتیں، سورة الاخلاص کے ساتھ روزانہ صبح اور شام میں تین تین مرتبہ پڑھ لیں اسے ہر چیز سے کفایت حاصل ہوجائے گی۔

(٣) حرز ثالث : آیت الکرسی کی تلاوت، صحیح حدیث میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا : مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمضان کی زکوۃ کے اموال کی نگرانی پر مامور فرمایا تھا۔ ایک رات ایک شخص آیا اور اس نے اناج میں سے کچھ مقدار اٹھا لی، میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ میں تجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کروں گا (آگے طویل حدیث ہے) بہرحال اس شخص نے مجھے کہا کہ : ” جب تم رات کو اپنے بستر پر لیٹو تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو۔ تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک محافظ مقرر ہوجائے گا اور صبح تک کوئی شیطان تمہارے قریب نہیں پھٹک سکے گا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کو جب میں نے یہ سارا واقعہ سنایا تو) فرمایا : وہ شیطان تھا اگرچہ وہ جھوٹا ہے لیکن یہ بات اس نے سچ کہی۔

(٤) حرز رابع : سورة البقرہ کی تلاوت۔ صحیح حدیث میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : لاتجعلوا بيوتکم قبوراً، وأن البيت الذي تقرأ فيه البقرۃ لا يدخله الشيطان.

(اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ، بلاشبہ جن گھروں میں سورة البقرہ پڑھی جاتی ہے ان میں شیطان داخل نہیں ہوسکتا۔ )

(٥) حرز خامس : سورة البقرہ کی آخری دو آیتیں رات میں پڑھ لیں۔ اس کے لیے کافی ہوجائیں گی۔

(٦) حرز ساوس : سورة حم المومن کی ابتدائی آیات : حم تنزیل الکتب من اللہ العزیز العلیم غافر الذنب وقابل التوب شدید العقاب ذی الطول لا الہ الا ھو الیہ المصیر تک کی تلاوت کی۔

ترمذی شریف میں عبدالرحمن بن ابی بکر عن ابی ابی ملیکہ عن زرارۃ بن مصعب عن ابی سلمہ عن ابی ہریرہ (رض) سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس نے سورة المومن کی ابتدائی آیات ” الیہ المصیر “ تک اور آیت الکرسی صبح کے وقت پڑھیں تو شام تک ان کی وجہ سے حفاظت میں رہے گا اور اگر شام کے وقت پڑھیں تو صبح تک حفاظت میں رہے گا۔

(٧) حرز سابع : ١٠٠ مرتبہ : لا إله إلا اللہ وحدہ لا شریک له، له الملک و له الحمد و ھو علی کل شيء قدیر کا ورد کرنا۔ ضحیحین میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس نے روزانہ سو مرتبہ مذکورہ بالا کلمہ پڑھا : لا إله إلا اللہ ….إلی.. شيء قدیر۔ اسے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا اور سو نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھی جائیں گی اور سو گناہ نامہ اعمال سے مٹا دیئے جائیں گے اور یہ کلمات اس کے واسطے اس روز شام تک شیطان سے حفاظت اور ڈھال ہوجائیں گے اور کوئی آدمی اس سے افضل اعمال والا نہیں ہوگا سوائے اس شخص کے جس نے ان مذکورہ تمام اعمال سے زیادہ کئے ہوں۔ یہ ایک بہت عظیم کلمہ ہے جس کا فائدہ بہت زیادہ اور اس کا کرنا بہت آسان ہے۔ جس کے لیے اللہ آسان فرما دے۔

(٨) حرز ثامن، تمام مذکورہ بالا حرز اور حفاظت از شیطان کے ذرائع سے بڑھ کر حرز و حفاظت کثرت ذکر اللہ عزوجل ہے۔ ترمذی شریف میں حارث اشعری (رض) کی حدیث ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ رب العالمین نے حضرت یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کو پانچ باتوں کا حکم فرمایا آگے ان کی تفصیل ہے۔ اسی میں یہ بھی ہے کہ : اور یہ حکم دیا کہ اللہ کا ذکر کیا کرو۔

کیونکہ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص ہے اس کے تعاقب میں اس کا دشمن تیز رفتاری سے آ رہا ہے (اب اس کے پاس جان بچانے کی کوئی صورت نہیں) اچانک یہ ایک مضبوط قلعہ تک پہنچ جاتا ہے اور اس میں داخل ہو کر اپنے آپ کو دشمن سے محفوظ کرلیتا ہے ایسے ہی بندہ اپنے آپ کو شیطان سے محفوظ نہیں کرسکتا سوائے ذکر اللہ کے (الحدیث) ۔ (قال الترمذي: ھذا حدیث حسن غریب صحیح)

(٩) حرز تاسع : وضو اور نماز کا اہتمام۔ ان کے ذریعہ سے بھی شیطان اثرات سے حفاظت ہوتی ہے۔ خصوصاً غصہ اور شہوانی جذبات کے ہیجان کے وقت کیونکہ یہ بھی قلب انسانی میں آگ کی طرح بھڑکنے والے جذبات ہیں۔ ترمذی میں حضرت ابو سعید خدری (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” آگاہ رہو ! غصہ انسان کے دل میں بھڑکتا ہوا انگارہ ہے، کیا تم غصہ میں مبتلا شخص کی آنکھوں کی سرخی اور رگوں کا پھول جانا نہیں دیکھتے۔ لہٰذا جس کسی کو غصہ کے جذبات ہوں اسے چاہیے کہ زمین پر تھوک دے۔

اور ایک روایت میں ہے کہ : شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ کو پانی ہی بجھاتا ہے۔ لہٰذا غصہ اور شہوت کی آگ کو وضو اور نماز ہی بجھا سکتے ہیں اور یہ ایسا مجرب ہے کہ اس پر کسی دلیل کے قائم کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔

(١٠) حرز عاشر : چار چیزوں سے اجتناب۔ (١) فضول اور ناجائز نظر سے۔ (٢) فضول اور بلاضرورت گفتگو اور کلام سے۔ (٣) بلا ضرور اور زائد از ضرورت کھانے سے۔ (٤) بلاضرورت لوگوں سے میل جول اور تعلقات سے۔ شیطان انہی چار راستوں سے انسان کے قلب و دماغ اور اس کی عزت و آبرو پر مسلط ہو کر اس سے اپنے مقاصد پورے کرتا ہے۔ تمام فتنوں کا سرچشمہ بدنظری ہے جیسا کہ حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ : النظرۃ سهم مسموم من سهام إبليس فمن غض بصرہ لله أور ثه الله حلاوۃ يجدها في قلبه إلی يوم يلقاه.

نظر شیطان کے زہر آلود تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ جس نے (نامحرم کو دیکھنے سے) اپنی نظر جھکا لی۔ اللہ کی خاطر، تو اللہ تعالیٰ اسے ایسی حلاوت نصیب فرمائیں گے جس کی لذت وہ اللہ سے ملاقات کے وقت (موت تک) اپنے قلب میں محسوس کرے گا۔ اسی طرح فضول اور لایعنی گفتگو بھی شیطان کے لیے بہت دروازے کھول دیتی ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ بن جبل (رض) سے اسی بناء پر فرمایا تھا کہ : ھل یکب الناس علی مناخرھم فی النار الا حصائد السنتھم۔ آدمی کو اندھے منہ جہنم میں جھونکنے والی چیز انسانوں کی وہ کھیتیاں ہیں جو انھوں نے اپنی زبانوں سے کاٹی ہیں۔

یہی معاملہ بلاضرورت کھانے اور زائد از ضرورت کھانے پینے میں اشتغال کا ہے۔ یہ بھی بہت سے شرور اور خرابیوں کی جڑ ہے، کثرت طعام سے اعضاء وجوارح میں ہیجان اور شہوانی حرکات پیدا ہوتی ہیں اور کم از کم اللہ عزوجل کے ذکر سے تو غفلت ہی ہی جاتی ہے۔ اسی بناء پر بعض روایات میں ہے کہ : ضیقوا مجاری الشطان بالصوم۔ روزہ رکھ کر شیطان کے سرایت کرنے کے راستوں کو تنگ کر دو ۔ رہا کثرت اختلاط مع الانام، تو یہ ایک سخت بیماری اور ہر شر کے لیے داء عضال کا درجہ رکھتا ہے۔ بہرکیف ! ان چاروں مذکورہ امور سے حتیٰ الامکان اجتناب اور پہلے ذکر کردہ نو اسباب حرز کو جس نے حرز جان بنایا اس نے اپنے اوپر جہنم کے دروازے توفیق الٰہی سے بند کر لیے اور رحمت و مغفرت کے دروازے کھول لئے۔ واللہ الموفق (انتھی کلام ابن القیم ملخصا)

لغات

الوسواس: مصدر بمعنی اسم فاعل ہے : دل میں برا خیال ڈالنے والا  الخناس : اسم مبالغہ، خنس (ن) خنوسا : پیچھے ہٹنا  الجنة: یا تو جن جمع ہے یا تاء مبالغہ کے لئے ہے اور جن اور جنة  ایک ہیں۔)

تشريح

شیطان جن و انس سے اللہ کی پناہ

یہاں اس پناہ اور حفاظت کا ذکر کیا جا رہا ہے جس کی ضرورت انسان کو اس وقت محسوس ہوتی ہے جب وہ سخت مشکل یا پریشانی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ تو ایسے میں اللہ کی پناہ سے بڑھ کر کون سی پناہ گاہ ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اللہ ہی وہ عظیم الشان ‘ مضبوط بلندو برتر ہستی ہے کہ خلقت کا رب ہے پالنے والا ہے۔ ذرا غور کریں چرند پرند ‘ انسان و حیوان اپنے انتہائی ابتدائی مراحل سے کس قدرت ‘ مہارت اور بہترین نظام کے تحت خوراک حاصل کرتے ہیں۔ مثلاً وہی پوشیدہ ہاتھ جو اپنی قدرت سے مادہ کے رحم میں بچے کی پرورش کرتے ہیں۔ اور جب دنیا میں وارد ہوتا ہے تو کس قدرت اور حکمت سے ماں کے دودھ سے اس کی پرورش ہوتی ہے۔ یہ صرف انسان ہی نہیں بلکہ چھوٹے سے چھوٹے کیڑے مکوڑے سے لے کر بڑے سے بڑے جانور ‘ چرند پرند کی خوراک کا بند و بست اس کی حفاظت کا بند و بست اس کی ضروریات کے عین مطابق کردیا گیا ہے۔ اور یہ تمام انتظامات پالنے پوسنے کے کون کر رہا ہے ؟ رب العلمین ہی کر رہا ہے کیونکہ یہ سب اسی کی ملکیت اسی کی ذمہ داری اور اس کی نگہداشت میں پل بڑھ رہے ہیں۔ کیونکہ وہی پالنہار ہے وہی مالک و آقا ہے اس لیے اسی کی بندگی ہم پر فرض ہے۔

 کیا یہ نمک حرامی اور انتہائی نافرمانی ‘ بد عہدی اور بےوفائی نہیں کہ کھائیں تو الہ العٰلمین کا دیا ہوا اور بندگی کریں کسی اور کی جو خود اللہ کا ہی محتاج اور اللہ کا ہی غلام ہو ؟ جو کسی صورت بھی نہ تو خود کا پالنہار ہو نہ خود کا مالک یعنی نہ اپنی مرضی سے مر سکے نہ اپنی مرضی سے جی سکے اور نہ اس کون و مکان سے باہر اپنا کوئی ٹھکانا بنا سکے۔ تو پھر کیا یہ بےوقوفی اور حد درجہ حماقت نہیں کہ کسی بھی دوسری چیز کی فرمان برداری کی جائے اور اس کو معبود برحق کے مقابلہ میں رکھ کر پوجا جائے ؟ اس قسم کے غلط خیالات ‘ اعتقادات اور منصوبے کچھ تو خود ہماری اپنی کمزوری یعنی خود پر پورا کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔

ہمارا عقیدہ ایمان اور نفس اس قدر کمزور ہوتا ہے کہ ہم خود کو کسی مضبوط راستے پر چلانے کے قابل ہی نہیں ہوتے اور جب معاملہ ایسا ہو تو پھر باہر سے ہم پر حملے ہوتے ہیں۔ کچھ تو شیطان فطرت لوگوں کے ذریعے کچھ شیطان فطرت جنوں کے ذریعے اور کچھ بذات خود شیطان کے ذریعے۔ یہ حملے انسان کی ذاتی مضبوطی اور کردار کی کمی بیشی کے لحاظ سے اکثر و بیشتر ہوتے رہتے ہیں۔ کیونکہ جو شخص ذکر و فکر کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کئے ہوئے ہوتا ہے اس پر نہ تو اس کے نفس کی طرف سے حملے ہوتے ہیں اور نہ ہی باہر جن و انس اور شیطان کو ہی اس پر حملے کرنے کی جرات ہوتی ہے۔

اور جو شخص خود اپنے کردار میں جس قدر کمزور ہوتا ہے اس پر وقتاً فوقتاً بار بار حملے ہوتے رہتے ہیں اور یوں پہلے اس کے تصور میں برائی آتی ہے پھر عمل میں آنے لگتی ہے۔ پہلے چھوٹی برائی سرزد ہوتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ برائی کی اہمیت ختم ہونے لگتی ہے اور پھر بالآخر وہ برائی ‘ برائی لگتی ہی نہیں بلکہ وہی اچھی لگنے لگتی ہے۔ اور یوں انسان گناہ کو خوبصورت سمجھ کر گناہوں کی دلدل میں غرق ہونا شروع کردیتا ہے۔ اسے نہ برائی بری لگتی ہے اور نہ برے دوست برے لگتے ہیں اور نہ ہی حرام و حلال کی تمیز باقی رہتی ہے اور پھر وہ مکمل طور پر برے لوگوں برے جنوں اور شیاطین کی گرفت میں جکڑ لیا جاتا ہے۔

 تو ہر انسان کو ہر وقت چوکنا ‘ مضبوط اور دین اسلام کی طرف رغبت رکھنی چاہیے اور جونہی ان کی طرف سے یعنی غلط لوگ اور شیاطین کی طرف سے حملہ ہونے لگے یعنی دل میں ذرا بھی کوئی غلط اندیشہ آنے لگے تو فوراً اپنے اس رب کی پناہ مانگو۔ جو سب کا رب ہے پالنہار ہے۔ جو ہر مخلوق کا رازق ہے۔ چاہے وہ زمین کے اوپر ہو زمین کے اندر ہو ‘ پتھر کے اندر ہو ‘ پانی کے اندر ہو یا فضا میں ہو۔ غرض جہاں بھی ہو اس کا رزق اس کو مل جاتا ہے۔

جو مالک الملک بادشاہوں کا بادشاہ اور سب سے برتر و اعلیٰ معبود حقیقی الہ العٰلمین وحدہ لا شریک ‘ عظیم بلند وبالا اور قادر مطلق ہے۔ انسان تو ہر وقت ہر صورت کئی گمراہ کن موجودات میں گھرا رہتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ خود کو مضبوط بناؤ اور خود کو مضبوط ترین سہارے کی پناہ میں دئیے رکھو۔ اور وہ پناہ ہمیں اللہ کے پاس ہی مل سکتی ہے۔ جس کے حصول کا طریقہ قرآن پاک میں معوذتین کی صورت میں انسانوں کو دیا گیا ہے۔ یہ ایک مضبوط ترین ڈھال ہے جو ہمیں اندرونی خدشات ‘ گمراہ کن خیالات اور شیطان فطرت جن و انس اور شیطان کے حملوں سے ہمیشہ بچائے رکھنے کے کام آسکتا ہے۔

قرآن پاک کے فرمان کے مطابق نیکی کی اس قدر اہمیت اور فضیلت ہے کہ اگر دشمن بھی کر رہا ہو تو اس کی تعریف کرو اور اس نیکی کو اپناؤ۔ القرآن۔

” جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو۔ اور گناہ کے کاموں میں ہرگز کسی سے تعاون مت کرو۔ اللہ سے ڈرتے رہو کچھ شک نہیں کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔۔ (المائدہ : 2)

اصل میں تمام سماجی برائیاں پیدا ہی اس لیے ہوتی ہیں۔ کہ انسان ہر معاملہ کو انسان کی نظر سے دیکھتا ہے بجائے اللہ کی نظر سے دیکھنے کے۔ جو لوگ ہر معاملے کو اللہ کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنے عمل و ارادہ میں مضبوط ہوتے ہیں تو وہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرتے کرتے اپنے درجات میں دن بدن اضافہ ہوتے دیکھ لیتے ہیں اور یہ راستہ ہے جو ذاتی محنت ‘ عبادت اور خلوص نیت سے طے کیا جاتا ہے۔ اور بندہ اسی راستے سے کمال کے درجے کو پہنچ سکتا ہے۔

اور مقرب الٰہی بن سکتا ہے۔ اس درجے میں وہ لوگ شامل ہیں جو پیدائشی مسلمان نہیں ہوتے بلکہ علم و عرفان سے اللہ کی ذات کو پہچان کر اس کی راہ اختیار کرتے ہیں اور ایمان و یقین سے ان کے دل منور ہوجاتے ہیں۔ ایک دوسرا درجہ ہے انسانوں کا جو پیدائشی مسلمان ہوتے ہیں۔ ان کے اندر اللہ کی وحدانیت کا تصور تو ضرور ہوتا ہے مگر تلاش و جستجو اور تحقیق و تجسس کی کمی کی وجہ سے وہ ایک متوسط درجہ کے مسلمان ہوتے ہیں۔ اور وہ تقویٰ و عبادت گزاری میں بھی متوسط سا درجہ رکھتے ہیں۔ ان میں سے جو لوگ اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایت پر توجہ دیتے ہیں اس پر عمل کرنے کی جد و جہد کرتے ہیں۔ معرفتِ الٰہی ‘ اس کی محبت اور اس کے اخلاص میں ڈوب جاتے ہیں۔ دنیا و آخرت کو اپنی اپنی جگہ پر رکھ کر زندگی گزارتے ہیں۔ تو یہ لوگ اللہ کی بندگی اور اللہ کے خوف سے دلوں کو بھرے رکھتے ہیں۔ زندگی کے ہر موڑ پر اللہ کے ذکر و فکر سے دل و دماغ کو خالی نہیں رکھتے تو ایسے لوگ مومنین صادقین کے درجہ کو حاصل کرلیتے ہیں۔

 جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ انبیاء ورسل منتخب کرلیتا ہے وہ معرفت و برکت کے بلند ترین درجات کو حاصل کرلیتے ہیں۔ جو کہ آسان کام نہیں۔ ان کے اندر ایمان توحید ‘ آخرت ‘ خوف خدا ‘ استقامت ‘ صبر و برداشت ‘ ذکر و فکر ‘ بندگی اور اطاعت و محبت الٰہی غرض تمام اخلاقی ‘ ذہنی ‘ بدنی اور روحانی صلاحیتیں اور کردار کی پختگی بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔ اور ایسے ہی لوگوں کو رب العزت درجات عالی عطاء کرتا ہے اور انھیں اپنے مقدس ترین کام کے لیے منتخب کرلیتا ہے۔ اور اللہ اپنی خاص عنایات سے اپنے خاص فضل و کرم اور مہربانی سے ان کو فہم و فراست اعلی درجہ کی اور یقین و آخرت کی دولت سے مالا مال کردیتا ہے ‘ اور ایسے لوگوں کو انبیاء ورسل کے مقدس گروہ میں شامل کرلیتا ہے۔

 یہاں چار درجات کے لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ جو بنیادی طور پر اللہ کے بنائے ہوئے بندے ہیں۔ مگر اپنی لاپرواہی نافرمانی سے نچلے درجہ پر رہے اور اپنی ریاضت و عبادت سے بلند سے بلند ترین درجات حاصل کرتے چلے گئے۔ تو ان تمام مراحل میں شیطان اپنی اصلی شکل میں کبھی انسان کی شکل میں اور کبھی جن کی شکل میں مسلسل حملہ آور ہوتا رہتا ہے تو اس کے حملوں سے پناہ دینے والا صرف خالق ومالک الہ العٰلمین اللہ وحدہ لا شریک ہی ہے۔ لہٰذا خود کو وساوس سے ہمیشہ بچانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے کبھی بھی کسی چھوٹے سے چھوٹے گناہ یا لغزش کو چھوٹا سمجھ کر اپنانا نہیں چاہیے۔ کیونکہ یہی بڑے گناہوں کی بنیاد بنتے ہیں۔ اس لیے مدداستغفارصبر اور اللہ کی پناہ ہر وقت اللہ سے مانگتے رہنا چاہیے۔ جیسا کہ قرآن کی ابتداء میں سورة الفاتحہ میں سبق دیا گیا ہے۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔ (سورة فاتحہ : 5)

 اور پھر قرآن کے اختتام پر مدد مانگنے کا بہترین نسخہ معوذتین کی صورت میں بتا دیا۔ سیدنا عباس (رض) کو اسی کی تلقین کرتے ہوئے رسول رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” جب مانگو تو اللہ سے مانگو ‘ اور جب مدد طلب کرو تو اللہ سے مدد طلب کرو ”۔۔ (ترمذی)

یہ دونوں سورتیں جو معوذتین کہلاتی ہیں اللہ سے پناہ اور دعا مانگنے کے لیے بہترین سورتیں ہیں اس کا ذکر احادیث میں بھی آچکا ہے۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply