surah mumtahina with urdu translation

Surah Mumtahina With Urdu Translation, Surah Mumtahina Meaning Urdu

ترجمہ اور تفسير سورہ ممتحنہ

مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ يوپى انڈيا

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ ۙ أَنْ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي ۚ تُسِرُّونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنْتُمْ ۚ وَمَنْ يَفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ ﴿1﴾

اے ایمان والو ! تم میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ کہ تم ان کو دوستی کے پیغام بھیجنے لگو۔ حالانکہ جو دین تمہارے پاس آیا ہے اس کا وہ انکار کرتے ہیں۔ وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور تمہیں صرف اس لیے (تمہارے گھروں سے) نکال چکے ہیں کہ تم اس اللہ پر ایمان لے آئے ہو جو تمہارا پروردگار ہے۔ (اے مومنو ! ) اگر تم میرے راستے میں جہاد کرنے کے لیے نکلے ہو اور میری رضا مندی چاہتے ہو تو تم ان کو دوستی کے پیغام نہ بھیجو۔ حالانکہ تم جو کچھ چھپا کر کرتے ہو یا کھلم کھلا کرتے ہو اسے میں خوب جانتا ہوں۔ اور تم میں سے جو بھی ایسا کرے گا تو (اس بات کو اچھی طرح جان لے کہ) وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا ہے۔

 إِنْ يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءً وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ ﴿2﴾

اگر انھیں تم پر دسترس ہوجائے تو اظہار عداوت کرنے لگیں، اور تم پر برائی کے ساتھ دست درازی اور زبان درازی کرنے لگیں اور وہ تو یہ چاہتے ہی ہیں کہ تم کافر ہوجاؤ۔

 لَنْ تَنْفَعَكُمْ أَرْحَامُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ ۚ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ﴿3﴾

تمہارے رشتہ دار اور تمہاری اولاد تمہارے کچھ کام نہ آئے گی قیامت کے دن (اللہ ہی) تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے۔

 قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ ۖ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ ﴿4﴾

(حضرت) ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کا ساتھ دینے والوں ( کے عمل میں) تمہارے لیے بہترین نمونہ زندگی ہے۔ جب انھوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ ہم تم سے اور جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہو ان سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم (تمہارے ہر عمل سے ) انکار کرتے ہیں۔ تمہارے اور ہمارے درمیان عداوت اور دشمنی ظاہر ہوگی جب تک کہ تم ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ گے۔

مگر (حضرت) ابراہیم (علیہ السلام) کی وہ بات کہ جب انھوں نے اپنے والد سے کہا تھا کہ میں تمہارے لیے مغفرت کی دعا کروں گا (اس سے الگ بات ہے) انھوں نے کہہ دیا تھا کہ میں اللہ کے مقابلے میں کسی چیز کا بھی مالک نہیں ہوں۔ اے ہمارے پروردگار ہم نے آپ پر بھروسہ کیا ہے اور آپ ہی کی طرف ہمیں لوٹنا ہے اور آپ کی طرف ہی ٹھکانا ہے۔

 رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿5﴾

اے ہمارے پروردگار ہمیں کافروں کا تختہ مشق نہ بنانا، اور اے ہمارے پروردگار ہمارے گناہ معاف کردے، بیشک تو ہی زبردست ہے، حکمت والا ہے۔

 لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ ۚ وَمَنْ يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ ﴿6﴾

بیشک ان لوگوں میں تمہارے لیے یعنی ایسے شخص کے لیے عمدہ نمونہ ہے جو اللہ اور قیامت کے دن کا اعتقاد رکھتا ہے، اور جو کوئی روگردانی کرے گا، سو اللہ تو (بالکل) بےنیاز ہے اور سزاوار حمد ہے۔

 عَسَى اللَّهُ أَنْ يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِينَ عَادَيْتُمْ مِنْهُمْ مَوَدَّةً ۚ وَاللَّهُ قَدِيرٌ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴿7﴾

عجب نہیں کہ اللہ تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان جن سے تم سے دشمنی ہے دوستی پیدا کردے، اللہ بڑا قدرت والا ہے اور اللہ بڑا مغفرت والا ہے بڑا رحمت والا ہے۔

 لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴿8﴾

اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ احسان و انصاف کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑتے۔ نہ انھوں نے تمہیں گھروں سے نکالا۔ بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

 إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَىٰ إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿9﴾

اللہ تو تمہیں صرف ان لوگوں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جو تم سے دین کے بارے میں لڑے اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں مدد کی اور جو کوئی دوستی کرے گا ان سے تو یہی لوگ تو ظالم ہیں۔

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ ۖ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ ۖ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ ۖ لَا هُنَّ حِلٌّ لَهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ۖ وَآتُوهُمْ مَا أَنْفَقُوا ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۚ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْأَلُوا مَا أَنْفَقْتُمْ وَلْيَسْأَلُوا مَا أَنْفَقُوا ۚ ذَٰلِكُمْ حُكْمُ اللَّهِ ۖ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿10﴾

اے ایمان والو ! جب تمہارے پاس مومن عورتیں (دار الحرب سے) ہجرت کرکے آئیں تو ان کو جانچ لیا کرو۔ اللہ ان کے ایمان (کی حقیت) کو کون جانتا ہے۔ پھر اگر تم ان کو واقعی مومن سمجھتے ہو تو ان کو کافروں کی طرف مت لوٹاؤ کیونکہ نہ تو وہ عورتیں ان کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ کافر ان عورتوں کے لیے حلال ہیں۔ اور جو (ان کے پہلے والے شوہروں نے ) مہر دیا ہو وہ ان کے خاوندوں کو واپس کردو۔ اور تمہیں ان ہجرت کرنے والی مومن عورتوں سے نکاح کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے جب کہ تم ان کو ان کے مہرادا کردو۔ اور تم ان کافرہ عورتوں سے زوجیت کا تعلق قائم نہ رکھو جو (دار الحرب میں رہ گئی ہیں) یا مرتد ہو کر واپس لوٹ گئی ہیں۔ البتہ جو مہر تم نے دیا ہو وہ کافروں سے واپس لے لو۔ اور اسی طرح جو مہر کافروں نے دیا تھا وہ اپنا دیا ہوا مہر تم سے واپس لے لیں۔ یہ اللہ کا حکم ہے۔ وہ تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور اللہ جاننے والا اور بڑی حکمت والا ہے۔

 وَإِنْ فَاتَكُمْ شَيْءٌ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ إِلَى الْكُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَآتُوا الَّذِينَ ذَهَبَتْ أَزْوَاجُهُمْ مِثْلَ مَا أَنْفَقُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي أَنْتُمْ بِهِ مُؤْمِنُونَ ﴿11﴾

اور اگر تمہاری بیویوں میں سے کوئی بیوی کافروں میں رہ جانے سے تمہارے ہاتھ نہ آئے، پھر (کافروں کو مہر دینے کی) تمہاری نوبت آئے، تو جن کی بیویاں ہاتھ سے نکل گئیں، جتنا (مہر) انھوں نے (ان بیویوں پر) خرچ کیا تھا، اس کے برابر تم ان کو دو ، اور اللہ سے ڈرتے رہو، جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔

 يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَنْ لَا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴿12﴾

اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مومن عورتیں آپ کے پاس آئیں تو ان سے ان باتوں پر بیعت لیجئے۔ (١) کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی۔ (٢) وہ چوری نہ کریں گی۔ (٣) نہ وہ زنا کریں گی۔ (٤) نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی۔ (٥) ۔ اور نہ کوئی ایسا بہتان لائیں گی جو اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان گھڑا گیا ہو۔ (٦) اور نہ کسی شرعی کام میں آپ کی نافرمانی کریں گی۔ تو آپ ان سے بیعت لی لیجئے۔ اور ان کے لیے دعائے مغفرت کیجئے۔ بیشک اللہ مغفرت کرنے والا مہربان ہے۔

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ ﴿13﴾

اے ایمان والو ! تم ان لوگوں سے دوستی نہ کرو جن پر اللہ نے غصہ اور غضب نازل کیا ہے۔ ان کا یہ حال ہے کہ وہ آخرت کے ثواب سے ایسے ناامید ہیں جیسے وہ کافر ناامید ہیں جو قبروں میں مدفون ہیں۔

تشريح

شان نزول

 مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان میں معاہدہ حدیبیہ دس سال کے لیے کیا گیا تھا، مگر مشرکین اسے ایک سال تک بھی نہ نباہ سکے اور اس کی خلاف ورزی شروع کردی چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان بدعہدوں کو سبق سکھانے کا ارادہ فرمایا اور اس بات کو لوگوں تک پہنچائے بغیر جنگ کی تیاری شروع فرما دی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش تھی کہ اچانک مکہ پر حملہ کردیا جائے تاکہ کفار کو تیاری کا موقع نہ مل سکے اس دوران آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک صحابی حاطب بن ابی بلتعہ (رض) سے ایک شدید غلطی ہوگئی حضرت حاطب (رض) جب ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو ان کے بیوی بچے مال و اسباب اور دیگر سازو سامان مکہ ہی میں رہ گئے تھے اکثر مہاجرین کے رشتے دار مکہ ہی میں تھے جو ان کے مکانات وغیرہ کی نگرانی کرتے تھے مگر حاطب (رض) کا کوئی رشتہ دار مکہ میں موجود نہیں تھا جو ان کی اولاد اور اسباب کی نگرانی کرتا چنانچہ انھوں نے قریش کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے ان کو مسلمانوں کے منصوبے کو خط کے ذریعے آگاہ کرنا چاہا اور ان دنوں بنو عبدالمطلب کی آزاد کردہ لونڈی مدینہ میں آئی ہوئی تھی جب وہ مکہ جانے لگی تو حضرت خاطب (رض) نے قریش مکہ کے نام خط لکھ کر بھیجا اس خط میں مسلمانوں کے بعض راز ظاہر ہوگئے۔

اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اپنے نبی کو اطلاع فرما دی چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) ، حضرت زبیر (رض) حضرت مقداد اور حضرت ابن مسعود (رض) کی اس عورت کے پیچھے جانے کا حکم دیا اور یہ بھی بتادیا کہ یہ عورت تمہیں ” روضہ خاخ “ کے مقام پر ملے گی اس سے وہ خط لے آؤ یہ حضرات گھوڑے دوڑاتے ہوئے اس عورت کے پاس پہنچے اور خط کا مطالبہ کیا لیکن اس عورت نے انکار کردیا حضرت علی (رض) نے سختی سے کہا اگر تو نے یہ خط خود بخود نہ دیا تو تیری جامہ تلاشی لینا پڑے گی وہ عورت خوف زدہ ہوگئی اس نے خط اپنے بالوں کے نیچے چھپایا تھا خط دے دیا جسے لا کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کیا گیا خط کا مضمون پڑھ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حاطب (رض) کو بلایا اور ان کے سامنے خط کھول کر رکھ دیا اور پوچھ گوچھ شروع فرما دی۔

 حضرت عمر (رض) نے فرمایا اے اللہ کے نبی آپ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس منافق کا سر قلم کر دوں مگر آپ نے فرمایا حضرت حاطب (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے نبی جلدی نہ کیجئے بلکہ پہلے میری بات سن لیں اس کے بعد جو حکم ہو کردیں حضرت حاطب (رض) نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے عرض کیا جب سے میں اسلام لایا ہوں آج تک اسلام کے خلاف کوئی بات نہیں سوچی نہ میں کافر ہوں اور نہ میں مشرک ہوں اور نہ ہی مرتد ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ کے دین پر مکمل طور پر ایمان رکھتا ہوں، بات یہ ہے کہ قریش مہاجرین کے تو مکہ میں عزیز و اقارب تھے جن کی وجہ سے مکہ والے ان کا لحاظ کرتے تھے مگر میرا تو وہاں کوئی عزیز نہیں ہے جس کی بناء پر مجھے خطرہ ہے کہ وہ میرے بچوں کو وہاں پر کوئی نقصان نہ پہنچائیں میں نے مکہ والوں کو ممنون احسان بنانے کیلئے یہ خط لکھا ہے وگرنہ مجھے اسلام یک حقانیت پر نہ کوئی شبہ ہے اور نہ میں نے کیا ہے بلکہ یہ میری بھول ہے آپ میری خطا کو معاف فرمائیے۔

چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی بیانیہ صفائی کو قبول فرمایا چونکہ یہ بدری صحابی تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے میں نے ان کی خطائیں معاف کردیں، اس پر حضرت عمر (رض) نے کوئی تعارض نہ کیا اس واقعہ کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے صحابی کو سخت ڈانٹ پلائی اور کفار کے ساتھ دوستی کرنے سے منع فرمایا چاہے کسی کی نیت ٹھیک ہو یا نہ ہو قرابت داری کی وجہ سے ایمان کمزور نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایمان کو ہر چیز پر مقدم کرنا چاہیے۔   (صحیح البخاری رقم الحدیث :3007, 4274 صحیح مسلم رقم الحدیث :2494 سنن ابو داؤد رقم الحدیث :2650 سنن ترمذی رقم الحدیث :3305 السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث :11521)  ( معالم العرفان فی دروس القرآن : ص ٢٩٨ تا ٣٠٠: ج : ١٨)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے ایمان والو ! میرے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ، تم ان کی طرف دوستی کا پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ وہ اس حق کا کفر کرتے ہیں جو تمہارے پاس آ چاک ہے، وہ رسول کو اور تمہیں اس وجہ سے نکالتے ہیں کہ تم اپنے رب اللہ پر ایمان لائے ہو، اگر تم میرے راستہ میں جہاد کرنے اور میری رضا طلب کرنے نکلے ہو (تو ان سے دسوتی نہ رکھو) تم ان کی طرف دسوتی کا خفیہ پغیام بھیجتے ہو، اور میں خوب جانتا ہوں جس کو تم نے چھپایا اور جس کو تم نے ظاہر کیا اور تم میں سے جو ایسا کرے گا وہ راہ راست سے بھٹک گیا۔ اگر وہ تم پر قابو پالیں تو وہ تمہارے کھلے دشمن ہوں گے اور وہ برائی کے ساتھ تمہارے خلاف دست درازی اور زبان درازی کریں گے اور وہ یہ تمنا کریں گے کہ کاش ! تم کافر ہو جاؤ۔ تمہاری رشتہ داریاں اور تمہاری اولاد قیامت کے دن ہرگز تمہیں نفع نہیں دیں گی (اللہ) تمہارے درمیان جدائی کر دے گا اور اللہ تمہارے تمام کاموں کو خوب دیکھنے والا ہے۔ (الممتحنہ : ٣۔١)

وہ عورت کون تھی جس کے ہاتھ حضرت حاطب نے خط روانہ کیا تھا ؟

علامہ بدر الدین عینی حنفی متوفی 855 ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

الممتحنہ : ١ حضرت حاطب بن ابی بلتعتہ کے متعلق نازل ہوئی ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ ابو عمرو بن صیفی کی باندی سارہ مکہ سے مدینہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی، اس وقت آپ فتح مکہ کی تیاری کر رہے تھے، آپ نے اس سے پوچھا کہ تم کیوں آئی ہو؟ اس نے کہا، مجھے ایک کام ہے، وہ ایک گانے والی عورت تھی، آپ نے پوچھا کہ مکہ کے جوانوں نے تم کو کیسے چھوڑ دیا ؟ اس نے کہا، واقعہ بدر کے بعد مجھ سے کوئی چیز طلب نہیں کی گئی، آپ نے اس کو کپڑے وغیرہ دیئے، اس عورت کے پاس حضرت حاطب آئے اور اہل مکہ کے نام اس کو ایک خط دیا اور اس کو دس دینار دیئے، اس خط میں لکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر حملہ کرنے والے ہیں، تم اپنی حفاظت کا انتظام کرلو، پھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ کو اس کی خبر دی تو آپ نے اس کے تعاقب میں حضرت علی، حضرت عمار، حضرت عمر، حضرت زبیر، حضرت طلحہ اور حضرت مقداد بن اسود کو بھیجا اور فرمایا : تم روضہ خاخ (مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام) پر جاؤ، وہاں پر ایک مسافرہ کے پاس مشرکین مکہ کے نام ایک خط ہوگا، اس سے وہ خط لے کر اس کو چھوڑ دو ، اگر وہ خط نہ دے تو اس کی گردن اڑا دینا۔

حضرت حاطب سے مواخذہ کیوں نہیں کیا گیا اور اہل بدر کی عام مغفرت کی توجیہ ؟

حضرت حاطب نے کفار کے لیے جاسوسی کی اور مسلمانوں کی جنگی راز کفار کو بتائے، اس کے باوجود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو کوئی سزا نہیں دی، بلکہ حضرت عمر نے جو فرمایا تھا : مجھے اجازت دیں، میں اس منافق کی گردن اڑا دوں، ان کو منع فرمایا اور ان کا عذر قبول فرما لیا، اس کی توجیہ اس حدیث میں ہے :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حدود کے سوا معزز لوگوں کی لغزشوں سے درگذر کرو۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٤٣٧٥، مسند احمد ج ٦ ص ١٨١ سنن بیہقی ج ٨ ص ٢٦٧ مشکوۃ رقم الحدیث : ٣٥٦٩ )

اور آپ نے فرمایا، حاطب بدری ہے اور اصحاب بدر کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ان کے گزشتہ گناہوں کو بخش دیا ہے اور اگر ان سے پھر گناہ ہوگئے تو اللہ تعالیٰ ان کو پھر بھی بخش دے گا، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فی الفور ان کے آئندہ ہونے والے گناہ بخش دیئے، بلکہ ان میں یہ صلاحیت ہے کہ آئندہ ان سے ہونے والے گناہ بھی بخش دیئے جائیں اور یہ بشارت والے اس سے بےخوف نہیں ہیں کہ ان سے مواخذہ کیا جائے گا، پھر اللہ نے اپنے رسول کی دی ہوئی خبر کے صدق کو ظاہر فرمایا اور اصحاب بدر اپنی وفات تک اہل جنت کے اعمال پر قائم رہے اور اگر ان میں سے کسی سے کوئی گناہ سر زد ہوگیا تو اس نے توبہ کرلی۔

جاسوس کا شرعی حکم اور حدیث مذکور کے دیگر مسائل

اس حدیث سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ جاسوس کا پردہ چاک کرنا چاہیے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، جب کہ اس میں مصلحت ہو، اور اس کا حال چھپانے میں خرابی ہو۔ امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ اس کو سزا دی جائے اور اگر وہ معزز شخص ہو اور اس کا عذر صحیح ہو تو اس کو حضرت حاطب کی طرح معاف کردیا جائے۔ امام ابوحینفہ کا مذہب یہ ہے کہ اس کو سزا دی جائے اور لمبی قید میں رکھا جائے اور امام مالک سے یہ منقول ہے کہ اگر وہ توبہ نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے، اور اصبغ نے کہا کہ حربی جاسوس کو بھی قتل کردیا جائے اور مسلم اور ذمی جاسوس کو سزا دی جائے، ماسوا اس کے کہ انھوں نے اسلام کے خلاف مدد کی ہو، پھر ان کو قتل کردیا جائے گا اور اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اگر ضرورت ہو تو عورت کے کپڑے اتار دینا جائز ہے اور علاہم ابن جوزی نے کہا : جو شخص کسی تاویل سے ممنوع کام کا ارتکاب کرے اس کا حکم اس سے مختلف ہے جو بغیر تاویل کے حلال جان کر ممنوع کام کا ارتکاب کرے اور یہ کہ جو شخص کسی ممنوع کام میں تاویل کا دعویٰ کرے تو اس کی تاویل قبول کی جائے گی خواہ اس کی تاویل خلاف ظاہر ہو۔ (عمدۃ القاری ج ١٤ ص 353-356 ملحضاً و موضحاً و مخرجاً دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢١ ھ)

کفار سے مولات (دوستی) کی ممانعت میں قرآن مجید کی آیات

ان آیت کے علاوہ کفار سے دوسری رکھنے کی ممانتع میں حسب ذیل آیات ہیں :

(آل عمران :28) مومنین مومنین کے سوا کافروں کو دوست نہ بنائیں۔

(آل عمران :118) اے ایمان والو ! تم ایمان والوں کے سوا کسی کو اپنا راز دار نہ بناؤ۔

(المائدہ : ٥١) اے ایمان والو ! یہود اور نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ۔

(ھود : ١١٣) اور ظالموں سے میل جول نہ رکھو ورنہ تمہیں بھی دوزخ کی آگ جلائے گی۔

کفار سے موالات صوری اور مجرد معاملہ کرنے کا شرعی حکم

(المجادلہ : ٢٢) تو نہ پائے گا ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں، اللہ اور قیامت پر کہ دوستی کریں اللہ و رسول کے مخلافوں سے اگرچہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبے والے ہوں۔

مواصلات صوریہ کے احکام

حتیٰ کہ صوریہ کو بھی شرع مطہر نے حقیقیہ کے حکم میں رکھا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

(الممتحنہ : ١) اے ایمان والو ! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم تو ان کی طرف محبت کی نگاہ ڈلایت ہو اور وہ اس حق سے کفر کر رہے ہیں جو تمہارے پاس آیا۔

یہ موالات قطعاً حقیقیہ نہ تھی کہ نزول کریمہ دربار سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ احد اصحاب البدر (رض) و عنہم ہے کما فی الصحیح البخاری و مسلم (جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم میں ہے) تفسیر علامہ ابو السعود میں ہے :

فیہ زجر شدید للمومنین عن إظھار صورۃ الموالاۃ لھم وإن لم تکن موالاۃ في الحقیقة، (تفسیر أبي سعود ج ٢ ص 48 داراحیاء التراث العربی، بیروت) ۔ اس آیتہ کریمہ میں مسلمانوں کو سخت جھڑکی ہے اس بات سے کہ کافروں سے وہ بات کریں جو بظاہر محبت ہو اگرچہ حقیقت میں دوستی نہ ہو۔

مگر صوریہ ضرور یہ خصوصاً باکراہ، قال تعالیٰ :

﴿إلا إن تتقوا منھم تقات﴾ (آل عمران : ٢٨) مگر یہ کہ تمہیں ان سے واقعی پورا ڈر ہو۔

وقال تعالیٰ : (النحل : ١٠٦) مگر وہ جو پورا مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو۔

مجرد معاملت کا حکم

اور معاملت مجردہ سوائے مرتدین ہر کافر سے جائز ہیجب کہ اس میں نہ کوئی اعانت کفر یا معصیت ہو نہ اضرار اسلام و شریعت، ورنہ ایسی معاملت مسلم سے بھی حرام ہے، چہ جائیکہ کافر۔ قال تعالیٰ :

﴿ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان﴾ (المائدہ ٢) گناہ ظلم پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔

غیر قوموں کے ساتھ جواز معاملت کی مجمل تفصیل اس فتویٰ میں آپ ملاحظہ فرما چکے، ہر معاملت کے ساتھ وہ قید لگا دی ہے جس کے بعد نقصان دین کا احتمال نہیں، ان احکام شرعیہ کو بھی حالات دائرہ نے کچھ نہ بدلا، نہ یہ شریعت بدلنے والی ہے :

(حم السجدہ : ٤٢) باطل نہیں آسکتا نہ اس کے آگے نہ اس کے پیچھے سے، اتارا ہوا حکمت والے سرا ہے گئے کا۔ (فتاویٰ رضویہ ج ١٤ ص 432-434 رضا فاؤنڈیشن، لاہور 1419 ھ)

اور غیر ذمی سے بھی خریدو فروخت، اجارہ و استیجار، رہبہ و استیہاب بشر و طہا جائز اور خریدنا مطلقاً ہر مال کا کہ مسلمان کے حق میں متقوم ہو اور بچینا ہر جائز چیز کا جس میں اعانت حرب اور اہانت اسلام نہ ہو، اسے نوکر رکھنا جس میں کوئی کام خلاف شرع نہ ہو، اس کی جائز نوکیر کرنا جس میں مسلم پر اس کا استعلانہ ہو، ایسے ہی امور میں اجرت پر اس سے کام لینا یا اس کا کام کرنا بمصلحت شرعی اسے ہدیہ دینا جس میں کسیرسم کفر کا اعزاز نہ ہو، اس کا ہدیہ قبول کرنا جس سے دین پر اعترضا نہ ہو، حتیٰ کہ کتابیہ سے نکاح کرنا بھی فی نفسہ حلال ہے، وہ صلح کی طرف جھکیں تو مصالحت کرنا مگر وہ صلح کہ حلال کو حرام کرے یا حرام کو حلال، یونہی ایک حد تک معاہدہ و موادعت کرنا بھی اور جو جائز عہد کرلیا اس کی وفا فرض ہے اور غدر حرام الٰہی غیر ذلک من الاحکام، درمختار میں ہے :

والمرتدۃ تجس أبدا و تجالس ولا تواکل حتی تسلم ولا تقتل، قلت: وھو العلة فإنھا تبقی ولا تفنی و قد شملت المرتد في أعصارنا و أمصارنا لامتناع القتل. (در مختارج ١ ص 360 مطیع مجتبائی، دہلی)

مرتد عورت دائم الجس کی جائے گی اور نہ اس کوئی بیٹھے نہ اس کے ساتھ کوئی کھائے یہاں تک کہ وہ اسلام لائے اور قتل نہ کی جائے گی۔ میں کہتا ہوں یہی ان احکام کا سبب ہے کہ وہ باقی چھوڑ دی جاتی ہے اور فنا نہیں کی جاتی، اور اب اس ملک میں یہ سب مرتد کو بھی شامل ہوگیا کہ قتل نہیں کیا جاسکتا ہے۔

﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا جَاۗءَكُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُهٰجِرٰتٍ﴾ الخ

مہاجر خواتین سے امتحان لینے کی کیفیت

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : آزمانے کی کیفیت یہ تھی کہ جو خاتون مسلمان ہو کر آپ کے پاس آتی، آپ اس سے اس پر حلف لیتے کہ وہ اپنے خاوند سے بغض کی وجہ سے نہیں آئی ہے یا مدینہ کے کسی مسلمان کے ساتھ عشق اور محبت کی وجہ سے نہیں آئی ہے اور نہ ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ کی طرف منتقل ہونے اور آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے آئی ہے اور نہ کسی آفت اور مصیبت کی وجہ سے ائٓی ہے اور نہ دنیا کی طلب میں آئى ہے، بلکہ وہ صرف اسلام کی طرف رغبت کی وجہ سے آئی ہے اور اللہ اور اس کے رسول سے محبت کی وجہ سے آپ کے پاس آئی ہے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سبیعہ بنت الحارث سے اس پر حلف لیا اور جب انھوں نے اس پر حلف اٹھا لیا تو پھر آپ نے ان کو واپس نہیں کیا اور ان کے مشرک خاوند کو اس کا دیا ہوا مہر جو اس کا ان پر خرچ کیا ہوا تھا وہ دے دیا، پھر ان سے حضرت عمر بن خطاب (رض) نے نکاح کرلیا اور مکہ اس کا دیا ہوا مہر جو اس کا ان پر خرچ کیا ہوا تھا وہ دے دیا، پھر ان سے حضرت عمر بن خطاب (رض) نے نکاح کرلیا اور مکہ اس کا دیا ہوا مہر جو اس کا ان پر خرچ کیا ہوا تھا وہ دے دیا، پھر ان سے حضرت عمر بن خطاب (رض) نے نکاح کرلیا اور مکہ اس کا دیا ہوا مہر جو اس کا ان پر خرچ کیا ہوا تھا وہ دے دیا، پھر ان سے حضرت عمر بن خطاب (رض) نے نکاح کرلیا اور مکہ سے جو مرد آپ کے پاس آتے تھے آپ ان کو واپس کردیتے تھے اور جو خواتین آتی تھیں ان کا امحتان لینے کے بعد ان کو روک لیتے تھے اور ان کے کافر شوہر کو ان کو دیا ہوا مہر واپس کردیتے تھے۔

مسلم خواتین ہجرت کر کے مدینہ میں آئیں یا مدینہ سے مسلم عورتیں مرتد ہو کر کفار کی طرف جائیں، اختلاف دارین سے نکاح سابق منقطع ہوجائے گا

نیز اس آیت میں فرمایا : اور ان مومنات سے نکاح کرنے میں تم پر کوئی حرج نہیں ہے جب کہ تم ان کے مہر انھیں ادا کردو۔

یعنی اللہ تعالیٰ نے ان ہجرت کرنے والی مسلمان خواتین سے تمہارا نکاح مباح کردیا ہے، خواہ ان کے سابقہ شوہر دارالکفر میں ہوں کیونکہ اسلام نے ان کے اور ان کے کافر شوہروں کے درمیان تفریق کردی۔

اس کے بعد فرمایا : ﴿ولاتمسکوا بعصم الکوافر﴾ ولاتمسکوا  کا معنی ہے : مت روکو اور ” العصم العصمت “ کی جمع ہے، اس کا معنی ہے : جو عقد نکاح یا نسب کے رشتہ کی وجہ سے محفوظ ہو اور ” الکوافر، کافرۃ “ کی جمع ہے اور اس جملہ کا معنی ہے : اور تم نکاح شدہ کافر عورتوں کو مت روکے رکھو اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس سے منع کردیا کہ وہ کافرہ کے ساتھ نکاح پر قائم رہیں، یعنی جس مسلمان کا مکہ میں کسی کافرہ کے ساتھ نکاح تھا اور وہ مسلمان اب ہجرت کر کے مدینہ منورہ آچکا ہے تو اس مسلمان کا نکاح بھی اس کافرہ سے اختلاف دارین کی وجہ سے اس طرح منقطع ہوگیا جس طرح مسلمہ مہاجرہ کا نکاح مکہ میں رہنے والے کافر سے منقطع ہوگیا۔

مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آنے والی مسلم خواتین

زہری نے کہا : اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ حضرت عم ربن الخطاب (رض) کی مکہ میں دو بیویاں تھیں اور وہ دونوں مشرکہ تھیں، سو حضرت عمر کی ہجرت کے بعد ان کا ان مشرکہ بیویوں سے نکاح منقطع ہوگیا، پھر بعد میں معاویہ بن ابی سفیان نے مکہ میں ان مشرکہ عورتوں میں سے ایک کے ساتھ نکاح کرلیا اور دوسری ام کلثوم بنت عمرو تھی، اس سے ابوجہم بن حذافہ نے نکاح کرلیا۔ (امام بخاری نے اس کو تعلیقاً روایت کیا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٧٣٣)

شعبی نے کہا، حضرت زینب بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں ابو العاص بن الربیع کے نکاح میں تھیں، وہ مسلمان تھیں اور ہجرت کر کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آگئیں اور ابوالعاص مکہ میں مشرک رہے، پھر وہ مدینہ میں آ کر اسلام لے آئے تو آپ نے حضرت سیدہ زینب (رض) کو انھیں واپس کردیا۔

اس کے بعد فرمایا : اور جو مت نے ان کے مہر میں خرچ کیا ہے وہ کافروں سے طلب کرلو، اور کافروں نے جو خرچ کیا وہ وہ تم سے طلب کرلیں۔

یعنی اے مسلمانوں اگر کوئی عورت اسلام سے مرتد ہو کر کافروں سے جا ملی ہے تو تم نے اس کے مہر وغیرہ پر جو خرچ کیا ہے وہ کافروں سے وصول کرلو اور کافروں کی جو عورت مسلمان ہو کر تمہارے پاس آگئی ہے تو اس شوہر نے اس کے مہر وغیرہ پر جو خرچ کیا ہے وہ تم سے وصول کرلے ( یہ رقم اس سے نکاح کرنے والا مسلمان ادا کرے گا ورنہ بیت المال سے ادا کی جائے گی۔ )

﴿وَاِنْ فَاتَكُمْ شَيْءٌ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ اِلَى الْكُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَاٰتُوا الَّذِيْنَ ذَهَبَتْ اَزْوَاجُهُمْ مِّثْلَ مَآ اَنْفَقُوْا  ۭ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْٓ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ﴾

الممتحنہ : 11  میں فرمایا : اور اگر تمہاری بیویوں میں سے کوئی بیوی چھوٹ کر کافروں کی طرف چلی جائے پھر (تم کفار سے) مال غنیمت حاصل کرلو تو (مال غنیمت میں سے) ان مسلمانوں کو اتنا مال دے دو جتنا انھوں نے ان بیویوں پر خرچ کیا تھا، جو کفار کی طرف چلی گئیں۔ الایۃ

مدینہ سے اسلام کو ترک کر کے کفار کی طرف جانے والی عورتیں

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ چھ مسلم اور مہاجر خواتین کفار کے پاس چلی گئی تھیں : (١) ام الحکم بنت ابی سفیان، یہ حضرت عیاض بن شداد فہری کے نکاح میں تھی (٢) فاطمہ بنت ابی امیہ، یہ حضرت عمر بن خطاب کے نکاح میں تھی (٣) بروع بنت عقبہ، یہ حضرت شماس بن عثمان کے نکاح میں تھی (٤) عزہ بنت عبدالعزیز، یہ حضرت عمرو بن عبدود کے نکاح میں تھی (٥) ھند بنت ابی جہل، یہ حضرت ہشام بن العاص بن وائل کے نکاح میں تھی (٦) ام کلثوم بنت جرول، یہ حضرت عمر بن خطاب کے نکاح میں تھی، یہ سب عورتیں اسلام سے مرد ہوگئی تھیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے مسلمان شوہروں کو مال غنیمت سے ان عورتوں کے مہر پر خرچ ہونے والی رقوم ادا کردیں۔

رفیقین کے سابق شوہروں کو ان کے دیئے ہوئے مہر کی رقم دینا آیا اب بھی واجب ہے یا نہیں ؟

اس میں اختلاف ہے کہ ان عورتوں کے سابق شوہروں کو ان کے مہر کی رقم واپس کرنا اب بھی واجب ہے یا نہیں ؟ بعض علماء نے کہا، اب یہ حکم واجب نہیں ہے اور یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے اور بعض علماء نے کہا، یہ حکم غیر منسوخ ہے اور اب بھی واجب العمل ہے۔ امام ابوبکر رازی حنفی نے کہا ہے کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اب منسوخ ہوچکا ہے اور اس حکم کی ناسخ یہ آیت ہے :

(البقرہ : ١٨٨) اور تم ایک دوسرے کا مال ناحق ذریعہ سے نہ کھاؤ۔

اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشادبھی اس کے لیے ناسخ ہے : کسی مسلمان شخص کا مال اس کی مرضی کے بغیر لینا حلال نہیں ہے۔ (احکام القرآن للجصاص ج ٣ ص ٤٤١) (معالم التنزیل ج ٥ ص 72-75، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

علامہ علی بن محمد الماوردی الشافعی المتوفی ١٤٥٠ ھ علامہ ابوبکر احمد بن علی رازی جصاص حنفی متوفی ١٣٧٠ ھ اور امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ نے بھی ان آیتا کی تفسیر اسی طرح کی، جس طرح علامہ بغوی نے مذکور الصدر تفسیر کی ہے۔ (النکت و العیون ج ٥ ص 520-523 احکام القرآن ج ٣ ص 438-441 تفسیر کبیرج ١٠ ص 521-523)

ہجرت کر کے دارالاسلام میں آجائے اس کے متعلق امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا مذہب یہ ہے کہ اس کا اپنے کافر شوہر سے نکاح فی الفور منقطع ہوجائے گا جیسا کہ الممتحنہ : ١٠ میں اس کی واضح تصریح ہے، اس کے برخلاف صاحبین اور ائمہ ثلاثہ کا مذہب یہ ہے کہ اس کے نکاح کا انقطع اس کی عدت ختم ہونے پر موقوف ہے، اگر عدت ختم ہونے تک اس کا کافر شوہر اسلام نہ لایا تو اس کا نکاح اس کافر سے منقطع ہوجائے گا اور اگر عدت ختم ہونے سے پہلے اس کا، کافر شوہر مسلمان ہوگیا تو ان کا نکاح برقرار رہے گا۔ سطور ذیل میں ہم ان فقہاء کے مذاہب ان کی کتابوں سے پیش کر رہے ہیں۔

جو عورت مسلمان ہو کر دارالحرب سے ہجرت کر کے دار الاسلام میں آئی اس کے نکاح سابق کے متعلق فقہاء احناف کا مسلک

علامہ برھان الدین محمود بن صدر الشریعہ ابن مازہ البخاری الحنفی المتوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

جب زوجین میں سے کوئی ایک دارالحرب چھوڑ کر مسلمان ہو کر دار الاسلام میں آجائے اور دوسرا فریق دارالحرب میں بہ دستور کافر ہو تو ہمارے نزدیک ان دونوں میں فالفور تفریق ہوجائے گی اگر دارالاسلام میں آنے والا فریق شوہر ہو تو اس کی بیوی پر بالاتفاق عدت نہیں ہے اور اگر دارالاسلام میں آنے والی فریق عورت ہو تو صرف امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس پر عدت نہیں ہے اور صاحبین کا اس میں اختلاف ہے۔ (المحیط البرھانی ج ٤ 194، ادارۃ القرآن، کراچی، 1424 ھ)

ہجرت کر کے دارالاسلام میں آنے والی خاتون کے نکاح سابق کے انقطاع میں ففقہاء شافعیہ کا مذہب

عالمہ ابوالحسن علی بن محمد الماوردی الشافعی المتوفی ٤٥٠ ھ لکھتے ہیں :

اگر بیوی بت پرست ہو یا بیوی مسلمان ہوجائے اور شوہر اہل کتاب میں سے ہو یا بت پرست ہو تو ہر صورت میں ان میں سے کسی ایک کے مسلمان ہونے کے بعد نکاح میں جمع رہنا حرا ہے اور ان میں سے کسی ایک کے اسلام کو دیکھا جائے تو اگر مباشرت سے پہلے ان میں سے کوئی ایک اسلام لایا ہو تو نکاح باطل ہوجائے گا اور مباشرت کے عبد کوئی ایک اسلسام لایا ہو تو پھر نکاح عدت پوری ہونے پر موقوف رہے گا، اگر عدت ختم ہونے سے پہلے ان میں سے کوئی ایک شرک کو ترک کر کے اسلام لے آیا ہو تو وہ دونوں نکاح پر برقرار رہیں گے اور اگر عدت پوری ہونے تک ان میں سے کوئی بھی اسلام نہیں لایا تو نکاح باطل ہوجائے گا، خواہ شوہر پہلے اسلام لایا ہو یا بیوی پہلے اسلام لائی ہو اور خواہ ان دونوں میں سے کوئی ایک دارالحرب میں اسلام لایا ہو یا دارالاسلام میں اسلام لایا ہو۔ (الحاوی الکبیرج ١١ ص ٣٥٤، دارالفکر بیروت)

ہجرت کر کے دارالاسلام میں آنے والی مسلمان خاتون کے نکاح سابق کے انقطاع میں فقہاء حنبلیہ کا مذہب

علامہ موفق الدین عبداللہ بن قدامہ مقدسی حنبلی متوفی ٦٢٠ ھ لکھتے ہیں :

اگر شوہر اور بیوی معاً اسلام لائے ہوں تو وہ اپنے نکاح پر برقرار رہیں گے، خواہ وہ مباشرت سے پہلے اسلام لائے ہوں یا مباشرت کے بعد اسلام لائے ہوں، کیونکہ اس پر اجماع ہے اور اگر ان میں سے کوئی ایک پہلے اسلام لایا ہو اور وہ اہل کتاب بیوی کا شوہر ہو، تب بھی ان کا نکاح برقرار رہے گا، کیونکہ ابتداء ان کا نکاح بھی جائز ہے اور اگر عورت پہلے اسلام لائی ہو یا شوہر اور بیوی دونوں بت پرست ہوں اور مباشرت سے پہلے بیوی اسلام لائی ہو تو ان کا نکاح منقطع ہوجائے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

لاھن حل لھم ولاھم یحتون لھن (الممتحنہ : ١٠) نہ وہ مومنات کافر کے لیے حال ہیں اور نہ وہ کفار ان مومنات کے لیے حلال ہیں۔

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

﴿ولا تمسکوا بعصم الکوافر (الممتحنہ : ١٠) ۔ اور (اے مسلمانو ! ) تم بھی کافر عورتوں کو روکے نہ رکھو

اور ان دونوں میں سے جو بھی پہلے اسلام لے آئے گا تو نکاح منقطع ہوجائے گا، کیونکہ اس سے دونوں کے دین میں اختلاف ہوجائے گا اور اگر دونوں میں سے کوئی ایک مباشرت کے بعد اسلام لایا ہے تو اس میں دو قول ہیں، ایک قول یہ ہے کہ اس صورت میں بھی فی الفور نکاح منقطع ہوجائے گا (جیسا کہ امام ابوحنیفہ کا قول ہے) اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہ نکاح عدت گزرنے پر موقوف ہے، اگر عدت پوری ہونے سے پہلے دوسرا فریق مسلمان ہوگیا تو ان کا نکاح برقرار رہے گا اور اگر عدت پوری ہنے کے بعد تک دوسرا فریق مسلمان نہیں ہوا تو پھر ان کا نکاح منقطع ہوجائے گا اور اس عورت کو مہر مثل دینا ہوگا، کیونکہ ابن شبرمہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں مرد، عورت سے پہلے مسلمان ہوجاتا تھا اور عورت مرد سے پہلے مسلمان ہوجاتی تھی اور جو بھی عورت کی عدت پوری ہونے سے پہلے مسلمان ہوجاتا تو اس کا نکاح برقرار رہتا تھا اور اگر عورت کی عدت گزرنے کے بعد اسلام لاتا تھا تو اس کا نکاح منقطع ہوجاتا تھا۔

اور یہ معلوم نہیں ہوا کہ جب شوہر اور بیوی ایک ساتھ اسلام لائے ہوں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے درمیان تفریق کی ہو، جب کہ مردوں کی ایک جماعت اپنی بیویوں سے پہلے اسلام لائی، جیسے ابوسفیان بن حرب اور مردوں کی دوسری جماعت سے پہلے ان کی بیویاں اسلام لے آئی تھیں، جیسے صفوان بن امیہ، عکرمہ اور ابوالعاص بن الربیع، اور جو ترفیق ان کے درمیان واقع ہوئی وہ نکاح کا فسخ ہونا تھا۔ (الکافی ج ٣ ص 50-51 دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٤ ھ)

ہجرت کر کے دارالاسلام میں آنے والی خاتون کے نکاح سابق کے انقطاع میں فقہاء مالکیہ  کا مذہب

علامہ سحنون بن سعید التنوخی امام مالک سے روایت کرتے ہیں :

راوی نے کہا : اگر شوہر اور بیوی دونوں مجوسی ہوں یا دونوں نصرانی ہوں یا دونوں یہودی ہوں ڈ علامہ سحنون نے کہا : امام مالک کے نزدیک ان سب کا حکم ایک ہے، امام مالک نے کہا، اگر خاوند اس عورت کی عدت میں اسلام لے آئے تو وہ اس عورت کا مالک ہے، اور اگر اس کی عدت پوری ہوچکی ہو تو پھر خاوند کا اس پر کوئی اختیار نہیں ہے، خواہ وہ اس کے بعد اسلام لے آئے، میں نے پوچھا : جب ان میں تفریق ہوگئی تو آیا یہ تفریق نکاح کا فسخ ہوگی یا طلاق ؟ امام مالک نے کہا : یہ فسخ نکاح ہے، طلاق نہیں ہے۔

ابن شہاب بیان کرتے ہیں کہ ہمیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں عورتیں اپنی سر زمین میں اسلام لے آتی تھیں اور ہجرت نہیں کرتی تھیں اور ان کے شوہر اس وقت کافر ہوتے تھے، جیسے ولید بن مغیرہ کی بیٹی، صفوان بن امیہ کے نکاح میں تھیں، وہ فتح مکہ کے دن مسلمان ہوگئیں اور صفوان اسلام سے بھاگ کر سمندر میں سوار ہوگئے تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے غم و زاد و ہب بن عمیر کو ان کے پیچھے امان کے پیغام کے ساتھ بھیجا اور نشانی کے طور پر اپنی چادر دی اور فرمایا، تم اسلام لے آؤ اور تم کو غور و فکر کے لیے دو ماہ کی مہلت ہے، پھر جب وہ آئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو چار ماہ کی مہلت دے دی اور وہ حالت کفر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ ہوازن میں رہے اور غزوہ طائف میں رہے اور اس دوران ان کی بیوی مسلمان رہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے اور ان کی بیوی کے درمیان تفریق نہیں کی، حتیٰ کہ صفوان اسلام لے آئے اور ان کی بیوی اسی نکاح سے ان کے ساتھ رہیں۔ ابن شہاب نے کہا، صفوان اور ان کی بیوی کے اسلام لانے کے درمیان ایک ماہ کا عرصہ تھا۔ (موطاء امام مالک ج ٢ ص 93 رقم احلدیث :1178، دارالمعرفتہ، بیروت، 1420 ھ)

نیز ابن شہاب بیان کرتے ہیں کہ ام حکیم بنت الحارث بن ہشام فتح مکہ کے دن اسلام لے آئیں اور ان کے شوہر عکرمہ بن ابی جہل اسلام سے بھاگ کر یمن چلے گئے، پھر حضرت ام حکیم (رض) ان کے ساتھ یمن گئیں اور ان کو اسلام کی دعوت دی اور عکرمہ مسلمان ہوگئے (رض) پھر وہحضرت عکرمہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے کر آئیں، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے، ان کو گلے لگایا اور ان کو بیعت کرلیا۔ (موطا امام مالک ج ٢ ص 94 رقم الحدیث :1180، دارالمعرفتہ، بیروت)

امام مالک نے کہا، ہمیں یہ خبر نہیں پہنچی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عکرمہ اور ان کی بیوی کے درمیان تفریق کی ہو اور وہ اسی نکاح کے ساتھ حضرت عکرمہ کے ساتھ رہیں۔

عطاء بن ابی رباح بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیدہ زینب بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوالعاص بن الربیع کے نکاح میں تھی، وہ اسلام لے آئیں اور ہجرت کر کے مدینہ میں آگئیں اور ان کے خاوند نے اسلام کو نپاسند کیا اور تجارت کے لیے شام چلے گئے، وہاں چند انصاریوں نے ان کو قید کرلیا، پس سیدہ زینب نے کہا، مسلمانوں کا ادنیٰ فرد بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے، آپ نے پوچھا : کس کو ؟ سیدہزینب نے کہا، ابو العاص کو، آپ نے فرمایا : جس کو زینب نے پناہ دی اس کو ہم نے پناہ دی، پھر ابوالعاص مسلمان ہوگئی اور ابھی سیدہ زینب عدت میں تھیں اور وہ اپنے نکاح پر برقرار رہیں۔

امام مالک نے کہا، ہمیں یہ خبر نہیں پہنچی کہ کسی عورت کا خاوند عدت کے اندر ہجرت کر کے آگیا ہو پھر بھی اس کا نکاح فسخ کردیا گیا ہو۔ (المدونتہ الکبریٰ ج ٢ ص 298-300 ا ارحیاء التراث العربی، بیروت)

ائمہ ثلاثہ کے دلائل کے جوابات

علامہ کمال الدین محمد بن عبدالواحد ابن ھمام حنفی متوفی 861 ھ، ائمہ ثلاثہ کے دلائل کے جواب میں لکھتے ہیں :

صوفان بن امیہ اور عکمہ بن ابی جہلم کا جواب یہ ہے کہ وہ مکہ کی حدود سے باہر نہیں نکلے تھے، اس لیے آپ نے ان کا نکاح ان کی بیویوں سیب رقرار رکھا، باوسفیان اور ھند کا بھی یہی جواب ہے۔ اور سیدہ زینب کے شوہر ملک شام چلے گئے تھے اس لیے ان کا نکاح برقرار نہیں رہا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا نکاح سیدہ زینب سے دوبارہ پڑھایا تھا جیسا کہ اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے۔ (فتح القدیر ج ٣ ص ٤٠٠ بیروت)

عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی صاحب زادی حضرت زینب (رض) کو حضرت ابوالعاص بن الربیع کی طرف نکاح جدید اور مہر جدید کے ساتھ لوٹا دیا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١١٤٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٠١٠، شرح معانی الآثار ج ٣ ص ٢٥٦ المسدترک ج ٣ ص ٦٣٩ مسند احمد ج ٢ 207-208 طبقات الکبریٰ ج ٨ ص ٢١ )

خلاصہ یہ ہے کہ جو عورت دارالکفر سے ہجرت کر کے دار الاسلام میں آ کر مسلمان ہوجائے، اس کے متعلق ائمہ ثلاثہ یہ کہتے ہیں اس کا سابق نکاح اس کی عدتم ختم ہونے تک موقوف رہے گا، اگر اس کا مشرک شوہر عدت پوری ہونے تک مسلمان نہیں ہوا تو اس کا نکاح مقنطع ہوجائے گا اور اگر وہ عدت پوری ہونے سے پہلے مسلمان ہوگیا تو اس مہاجرہ ممسلمہ کا نکاح اس کے ساتھ برقرار رہے گا اور امام ابوحنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ جیسے ہی وہ عورت ہجرت کر کے اسلام لائی اس کا اپنے کافر شوہر سے سابق نکاح فی الفور منقطع ہوجائے گا اور قرآن مجید کے موافق امام ابوحنیفہ (رح) ہی کا قول ہے، کیونکہ قرآن مجید میں ہے :

(اللمتحنہ : ١٠) اے ایمان والو ! جب تمہارے پاس ایمان والی عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو ان کو آزما لیا کرو، پھر اگر تم کو ان کے ایمان کا یقین ہوجائے تو پھر ان کو کفار کی طرف مت لوٹاؤ، نہ وہ مومنات کفار کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ کفار ان مومنات کے لیے حلال ہیں۔

امام اعظم کا مذہب اس آیت کے صراحتہ مطابق ہے کیونکہ اس آیت میں ان کے نکاح کو عدت پر موقوف کرنے کی کوئی قید نہیں ہے۔

﴿يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَاۗءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَكَ عَلٰٓي اَنْ لَّا يُشْرِكْنَ بِاللّٰهِ شَـيْـــــًٔــا﴾  الخ

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسلام لانے والی خواتین سے احکام شرعیہ کی اطاعت پر بیعت لینا

امام ابوالحسن مقاتل بن سلمیان متوفی ٥٠ ھ الممتحنہ : ١٢ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

یہ فتح مکہ کے دن کا واقعہ ہے، جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مردوں کو بیعت کرنے سے فارغ ہوگئے توا پٓ نے عورتوں کو بیعت کرنا شروع کیا، اس وقت آپ صفا پہاڑ پر بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت عمر بن خطاب (رض) اس پہاڑ کے نیچے تھے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں تم سے اس پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گی، اس وقت ابوسفیان کی بیوی ھند بنت عتبہ نقاب ڈالے ہوئے خواتین کے ساتھ کھڑی تھی، اس نے سر اٹھا کر کہا، اللہ کی قسمچ آپ ہم سے اسی چیز پر بیعت لے رہے ہیں جس پر آپ نے مردوں سے بیعت لی ہے، ہم نے آپ سے اس پر بیعت کرلی، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اور تم چوری بھی نہیں کرو گی، ھند نے کہا، اللہ کی قسم ! میں ابوسفیان کے مال سے خرچ کرتی ہوں، مجھے نہیں معلوم کہ وہ مال میرے لیے حلال ہے یا نہیں، ابوسفیان نے کہا، ہاں ! اس سے پہلے تم نے مضای میں میرا جو مال لیا ہے وہ حلال ہے اور اس کے علاوہ بھی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا، تم ھند بنت عتبہ ہو ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! آپ میرے گزشتہ قصور معاف فرما دیں، اللہ آپ کو معاف فرمائے گا، آپ نے فرمایا : اور تم زنا بھی نہیں کرو گی، ھند نے کہا، کیا آزاد عورت زنا کرتی ہے ؟ آپ نے فرمایا اور تم اپنی اولاد کو قتل بھی نہیں کرو گی، اس نے کہا، ہم نے اپنی اولاد کو بچپن میں پالا اور جب وہ بڑے ہوگئے تو تم نے ان کو قتل کردیا، یہ سن کر حضرت عمر بہت ہنسے اور ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے، آپ نے فرمایا : اور نہ اپنے ہاتھوں اور پیروں کے سامنے کسی پر بہتان لگاؤ گی، بہتان یہ ہے کہ عورت کسی اور کے بچے کو اپنے خاوند کی طرف منسبو کرے اور کہے کہ یہ تمہارا بچہ ہے حالانکہ وہ اس کا بچہ نہ ہو۔ ھند نے کہا، اللہ کی قسمچ بہتان بہت بری چیز ہے اور آپ اچھے اخلاق اور اچھی خصلتوں کا حکم دیتے ہیں، پھر آپ نے فرمایا : اور تم دستور کے موافق کسی کام میں نافرمانی نہیں کرو گی، یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں کو نوحہ کرنے سے اور کپڑے پھاڑنے اور بال نوچنے سے منع کیا اور فرمایا : تم شہر میں کسیمسافر کے ساتھ خلوت میں نہیں رہو گی اور بغیر محرم کے تین دن سے زیادہ سفر نہیں کرو گی۔ ھند نے کہا، ہم ان چیزوں میں سے کسی کی مخالفت نہیں کریں گی، تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آپ ان کی بیعت کر لیجیے اور اللہ سے ان کے لیے مغفرت طلب کیجیے، بیشک اللہ بہت مغفرت فرمانے والا، بےحد رحم فرمانے والا ہے۔ (تفسیر مقاتل بن سلیمان ج ٣ ص 353-354 دارالکتب العلمیہ، بیروت ١٤٢٤ ھ)

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیعت لینے کی کیفیت

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جو عورتیں ہجرت کر کے آتی تھیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کا امتحان لیتے تھے، جیسا کہ الممتحنہ : ١٢ میں اس کا حکم ہے اور جو مومن عورتیں اس آیت کی شرائط کا اقرار کرلیتیں تو ان سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں : میں نے تم کو بیعت کرلیا اور اللہ کی قسمچ بیعت کرتے وقت آپ کے ہاتھ نے کسی عورت کے ہاتھ کو مس نہیں کیا، آپ ان کو صرف اپنے کلام سے بیعت کرتے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٩١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٦٦، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٢٩٤١ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٣٠٦ مسند احمد ج ٦ ص 114-270 سنن بیہقی ج ٨ ص 148 صحیح ابن حبان رقم الحدیث :5581)

﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَىِٕسُوْا مِنَ الْاٰخِرَةِ كَمَا يَىِٕسَ الْكُفَّارُ مِنْ اَصْحٰبِ الْقُبُوْرِ﴾

الممتحنہ : 13 میں فرمایا : اے ایمان والو ! ان لوگوں سے دسوتی نہ کرو جن پر اللہ نے غضب فرمایا ہے، بیشک وہ آخرت سے مایوس ہوچکے ہیں جیسا کہ کفار قبر والوں سے مایوس ہوچکے ہیں۔

یہود کے ساتھ دوستی رکھنے کی ممانعت

مقاتل بن حیان اور مقاتل بن سلیمان نے کہا ہے کہ فقراء مسلمین یہود کو مسلمانوں کی خبریں پہنچاتے تھے اور ان سے ملاپ رکھتے تھے اسی وجہ سے یہود ان کو پھل وغیرہ دیتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان مسلمانوں کو اس سے منع فرمایا۔

اس آیت میں فرمایا ہے کہ یہود آخرت سے مایوس ہوچکے ہیں، کیونکہ یہود نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کی حالانکہ ان کو آپ کے صدق کا علم تھا اور ان کو یقین تھا کہ آپ برحق رسول ہیں، اس کے باوجود انھوں نے عناداً آپ کی رسالت کا انکار کیا، اس وجہ سے وہ آخرت میں اپنی جات سے مایوس ہیں۔ جس طرح جو کافر مر کر قبروں میں پہنچ چکے ہیں وہ آخرت میں اپنی نجات سے مایوس ہیں، ان کو معلوم ہوچکا ہے کہ ان کے لیے اجر وثواب میں سے کوئی حصہ نہیں ہے۔ مجاہد نے کہا، اس سے وہ کافر مراد ہیں جو آخرت کے عذاب کا معائنہ کرچکے ہیں۔ (الوسیط ج ٤ ص 289 دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)

مقاتل بن سلیمان متوفی 150 ھ لکھتے ہیں :

کافروں کے میاسو ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب کافر کو قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو اس کے پاس شدید ڈانٹ ڈپٹ کرنے والا فرشتہ آتا ہے، وہ اس کو بٹھا کر اس سے سوال کرتا ہے : تیرا رب کون ہے تیرا دین کیا ہے ؟ اور تیرا رسول کون ہے کافر کہتا ہے : میں نہیں جانتا، فرشتہ کہتا ہے : اے اللہ کے دشمنچ دیکھ ! اللہ نے تیرے لیے قبر میں کیسا عذاب تیار کر رکھا ہے، فرشتہ کہتا ہے : اے اللہ کے دشمن ! یہ عذاب تیرے لیے ہے، اگر تو ایمان لے کر آتا تو تجھے جنت میں داخل کردیا جاتا، پھر اس کو جنت دکھائے گا، کافر پوچھے گا : یہ جنت کس کے لیے ہے فرشتہ کہے گا : یہ جنت اس کے لیے ہے جو اللہ پر ایمان لایا، پھر کافر پر حسرت طاری ہوگی اور اس کی امیدیں مقنطع ہوجائیں گی اور اس کو یقین ہوجائے گا کہ اس کی آخرت میں نجات نہیں ہوگی اور اس کے لیے آخرت میں کوئی اجر وثواب نہیں ہے، سو اس وجہ سے فرمایا کہ کافر اپنی آخرت سے مایوس ہوچکے ہیں کیونکہ کافر نے قبر میں اپنی آخرت کا معئانہ کرلیا ہے۔ (تفسیر مقاتل بن سلیمان ج ٣ ص 354، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢٤ ھ)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply