ترجمہ وتفسير سورہ مرسلات
مرتب: محمد ہاشم بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفرپور اعظم گڑھ
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے بہت مہربان ہے
وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا ﴿1﴾
قسم ہے ان (ہواؤں) کی جو ایک کے بعد ایک بھیجی جاتی ہیں۔
فَالْعَاصِفَاتِ عَصْفًا ﴿2﴾
پھر جو آندھی بن کر زور سے چلتی ہیں۔
وَالنَّاشِرَاتِ نَشْرًا ﴿3﴾
اور جو (بادلوں کو) خوب اچھی طرح پھیلا دیتی ہیں۔
فَالْفَارِقَاتِ فَرْقًا ﴿4﴾
پھر قسم ہے ان (فرشتوں) کی جو حق اور باطل کو الگ الگ کردیتے ہیں۔
فَالْمُلْقِيَاتِ ذِكْرًا ﴿5﴾
پھر نصیحت کی باتیں نازل کرتے ہیں۔
عُذْرًا أَوْ نُذْرًا ﴿6﴾
جو یا تو لوگوں کے لیے معافی مانگنے کا سبب بنتی ہیں یا ڈرانے کا۔
إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَوَاقِعٌ ﴿7﴾
جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے (قیامت) وہ ضرور واقع ہوگی۔
فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتْ ﴿8﴾
جب ستارے ماند پڑجائیں گے۔
وَإِذَا السَّمَاءُ فُرِجَتْ ﴿9﴾
اور جب آسمان میں شگاف پڑجائیں گے
وَإِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْ ﴿10﴾
اور جب پہاڑ ریزہ ریزہ کردیئے جائیں گے۔
وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ ﴿11﴾
اور جب پیغمبر معین وقت پر جمع کیے جائیں گے،
لِأَيِّ يَوْمٍ أُجِّلَتْ ﴿12﴾
کس دن کے لیے ان کا معاملہ ملتوی کیا گیا۔
لِيَوْمِ الْفَصْلِ ﴿13﴾
فیصلے کے دن کے لیے
وَمَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الْفَصْلِ ﴿14﴾
اور تمہیں کیا معلوم کہ فیصلے کا دن کیا چیز ہے؟
وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ ﴿15﴾
بڑی خرابی ہوگی اس دن ایسے لوگوں کی جو حق کو جھٹلاتے ہیں۔
أَلَمْ نُهْلِكِ الْأَوَّلِينَ ﴿16﴾
کیا ہم نے پہلے لوگوں کو ہلاک نہیں کیا ؟
ثُمَّ نُتْبِعُهُمُ الْآخِرِينَ ﴿17﴾
پھر پچھلوں کو بھی ہم انہی کے ساتھ کردیں گے ۔
كَذَٰلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِينَ ﴿18﴾
ہم مجرموں کے ساتھ اسی طرح (کا معاملہ) کرتے ہیں۔
وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ ﴿19﴾
اس دن جھٹلانے والوں کے لیے بڑی خرابی ہے۔
أَلَمْ نَخْلُقْكُمْ مِنْ مَاءٍ مَهِينٍ ﴿20﴾
کیا ہم نے تمہیں ایک بےقدر پانی سے نہیں بنایا ہے؟
فَجَعَلْنَاهُ فِي قَرَارٍ مَكِينٍ ﴿21﴾
پھر ہم نے اسے ایک وقت مقرر تک ایک محفوظ جگہ میں رکھا
إِلَىٰ قَدَرٍ مَعْلُومٍ ﴿22﴾
غرض ہم نے ایک اندازہ ٹھہرایا
فَقَدَرْنَا فَنِعْمَ الْقَادِرُونَ ﴿23﴾
اور ہم کیسے اچھے اندازہ ٹھہرانے والے ہیں،
وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ ﴿24﴾
بڑی خرابی ہے اس روز جھٹلانے والوں کے لئے
أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَاتًا ﴿25﴾
کیا ہم نے زمین کو سمیٹنے والی نہیں بنایا ؟
أَحْيَاءً وَأَمْوَاتًا ﴿26﴾
زندوں اور مردوں کو؟
وَجَعَلْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ شَامِخَاتٍ وَأَسْقَيْنَاكُمْ مَاءً فُرَاتًا ﴿27﴾
اور ہم نے اس میں اونچے اونچے پہاڑ ٹھہرا دیئے، اور ہم نے تمہیں میٹھا پانی پلایا
وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ ﴿28﴾
بڑی خرابی ہے اس روز جھٹلانے والوں کے لئے۔
انْطَلِقُوا إِلَىٰ مَا كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ ﴿29﴾
چلو تم اس (عذاب) کی طرف جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔
انْطَلِقُوا إِلَىٰ ظِلٍّ ذِي ثَلَاثِ شُعَبٍ ﴿30﴾
چلوتم تین شاخوں والے سائبان کی طرف۔
لَا ظَلِيلٍ وَلَا يُغْنِي مِنَ اللَّهَبِ ﴿31﴾
جو نہ سرد سایہ ہے اور نہ لپٹ سے بچاتا ہے
إِنَّهَا تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ ﴿32﴾
وہ آگ تو محل جیسے بڑے بڑے شعلے پھینکے گی۔
كَأَنَّهُ جِمَالَتٌ صُفْرٌ ﴿33﴾
گویا یہ زرد اونٹوں کی قطاریں ہیں
وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ ﴿34﴾
آج ان جھٹلانے والوں کی درگت ہے۔
هَٰذَا يَوْمُ لَا يَنْطِقُونَ ﴿35﴾
یہ ایسا دن ہے جس میں یہ لوگ بول نہیں سکیں گے۔
وَلَا يُؤْذَنُ لَهُمْ فَيَعْتَذِرُونَ ﴿36﴾
اور نہ انھیں اس بات کی اجازت ہوگی کہ وہ کوئی عذر پیش کرسکیں۔
وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ ﴿37﴾
بڑی خرابی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے،
هَٰذَا يَوْمُ الْفَصْلِ ۖ جَمَعْنَاكُمْ وَالْأَوَّلِينَ ﴿38﴾
یہ فیصلے کا دن ہے۔ ہم نے تمہیں اور پچھلے لوگوں کو اکٹھا کرلیا ہے۔
فَإِنْ كَانَ لَكُمْ كَيْدٌ فَكِيدُونِ ﴿39﴾
اب اگر تمہارے پاس کوئی داؤ ہے تو مجھ پر وہ داؤ چلا لو۔
وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ ﴿40﴾
بڑی خرابی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلَالٍ وَعُيُونٍ ﴿41﴾
جن لوگوں نے تقوی اختیار کیا، وہ بیشک سایوں اور چشموں کے درمیان ہوں گے ۔
وَفَوَاكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ ﴿42﴾
اور مرغوب میووں میں ہوں گے ۔
كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿43﴾
(ان سے کہا جائے گا کہ) مزے سے کھاؤ، اور پیو ان اعمال کی بدولت جو تم کیا کرتے تھے۔
إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿44﴾
ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔
وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ ﴿45﴾
اس دن جھٹلانے والوں کے لیے بڑی ہلاکت ہے۔
كُلُوا وَتَمَتَّعُوا قَلِيلًا إِنَّكُمْ مُجْرِمُونَ ﴿46﴾
(اے کافرو) کچھ وقت کھالو، اور مزے اڑا لو۔ حقیقت میں تم لوگ مجرم ہو
وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ ﴿47﴾
اس دن جھٹلانے والوں کے لیے بڑی ہلاکت ہے۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ارْكَعُوا لَا يَرْكَعُونَ ﴿48﴾
اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے آگے جھک جاؤ، تو یہ جھکتے نہیں ہیں۔
وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ ﴿49﴾
اس دن جھٹلانے والوں کے لیے بڑی ہلاکت ہے۔
فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ ﴿50﴾
اب اس کے بعد اور کون سی بات ہے جس پر یہ ایمان لائیں گے؟
خلاصه:
سورة المرسلات میں اصل خطاب منکرین قیامت سے ہے اسی ضمن میں دس مرتبہ (آیت) ﴿ویل یومئذ للمکذبین﴾ کا اعادہ کرکے یہ ظاہر کرنا بظاہر مقصود ہے کہ منکرین قیامت دس وجوہ سے ہلاکت و بربادی میں ہیں تو ہر وجہ کے وجہ کے پیش نظر ہلاکت و بربادی کی یہ وعید بیان فرما دی گئی جس کی تفصیل اس طرح سمجھ لی جائے کہ انسان میں قدرت خداوندی کی طرف سے تین قوتیں رکھی گئی ہیں جن کی اصلاح سے سعادت اور فلاح کا ترتب ہوتا ہے اور ان کے فساد سے شقاوت وبدبختی اور ہلاکت و بربادی ہے (١) اول قوت نظریہ جس پر ادراک صحیح اور اعتقادات کا دارومدار ہے کافروں اور منکرین قیامت نے اسکو بگاڑ رکھا تھا متعدد وجوہ سے اول ذات خداوندی کا شرک کرکے (٢) دوم صفات خداوندی میں بیہودہ اور لغو خیالات اور من گھڑت تصورات باطلہ قائم کرکے سوم فرشتوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنے کی وجہ سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں ہمارے کاروبار کے وہی مالک ومختار ہیں (٤) چہارم یہ کہ انسان کی زندگی بس دنیاہی تک محدود ہے نہ حشر ہے نہ بعث بعد الموت ، (٥) پنجم قضاء وقدر کا انکار اور مخلوقات کی اس میں شرکت، (٦) ششم انبیاء (علیہم السلام) اور کتب سماویہ کا انکار اور ان کے اوامر وہدایات سے سرتابی تو یہ چھ قسم کی خرابیاں تو منکرین قیامت میں قوت نظریہ کے فساد کی وجہ سے پائی جاتی ہیں۔
(٢) دوسری قوت شہویہ جس کی خرابی افراط وتفریط ہے افراط کے باعث انسان بہائم کی حد تک پہنچ جاتا ہے اور تفریط کی وجہ سے حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرلیتا ہے تو یہ دونوں عیب منکرین قیامت میں تھے (٣) تیسری قوت غضبیہ ہے اس میں بھی افراط انسان کو بہائم اور درندوں سے بڑھا دیتا ہے اور اس کی وجہ سے ظلم وتعدی کی کوئی حد نہیں رہتی اور تفریط انسان میں سے حمیت و غیرت کا وصف ختم کردیتی ہے نوبت یہاں ہوجاتی ہے کہ محارم الہیہ کی بےحرمتی اور گستاخی پر غصہ تو درکنار کان پر جوں تک نہیں رینگتی تو دو خرابیاں یہ ہوئیں اس طرح ظاہر ہوا کہ منکرین قیامت اور ایسے مجرمین ان دس خرابیوں میں مبتلا تھے تو ہر ایک خرابی کے بالمقابل ایک بار فرمادیا گیا (آیت) ” ویل یومئذ للمکذبین “ واللہ اعلم بالصواب
﴿والمرسلت غرفاً﴾ شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) لکھتے ہیں کہ ﴿المرسلت فالعصفت ، النشرت فالفرقت ، فالمقیت﴾ سے کسی نے ہوائیں مراد لی ہیں اور کسی نے فرشتے اور کسی نے پیغمبروں کو مراد لیا ہے اور بعض مفسرین نے پہلی چار آیات سے ہوائیں مراد لی ہیں اور فالملقیت سے فرشتے مراد لیے ہیں۔
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں بعض نے ﴿والمرسلت غرفاً﴾ سے مراد وہ ہوائیں لی ہیں جو بدن انسان کو بھلی معلوم ہوتی ہیں اور فالعصفت سے مراد وہ ہوائیں ہیں جو بدن کو نقصان پہنچاتی ہیں اور کشتیوں کو ڈبو ڈالتی ہیں۔ اور ” النشرت فالفرقت فالملقیت “ سے مراد وہ ہوائیں ہیں جو بادل کے ذریعے سے پانی برسانے پر مقرر ہیں بادل کو آسمان اور زمین کے درمیان پھیلاتی ہیں جب بادل سے بارش برس چکی ہوتی ہے تو وہ ہوائیں اس بادل کو پھاڑ کر منتشر کردیتی ہیں۔
اور اس کو ایک تفسیر حضرات صوفیائے کرام کرتے ہیں وہ کہتے ہیں ﴿والمرسلت عرفاً﴾ ربانی داعی اور الہامات مراد ہیں سالک کے نفع کے لیے اس کے دل پر آتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی راہ کی سلوک کی معاونت کریں اور ﴿فالعصفت﴾ سے جذب اور کشش کی ہوائیں مراد ہیں جو سالک کے دل سے اللہ تعالیٰ کے غیر کی محبت کو دور کرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے شوق کی آگ کو مزید بھڑکاتی ہیں اور ﴿النشرت﴾ سے مراد اشغال اور اذکار ہیں جو اپنے آثار اور انوارات کی بارش کو ذاکر اور شاغل کے تمام اعضاء جوارح میں منتشر کرتے ہیں اور ﴿فالفرقت﴾ سے مراد واردات الٰہیہ ہیں جو سالک کے دل پر پڑتی ہیں اور ﴿فالملقیت ذکراً﴾ سے وہ علوم اور معارف مراد ہیں جو سالک کو مرتبہ بقاء کے بعد حاصل ہوتے ہیں۔
اور اس کی ایک تفسیر علماء کرام کرتے ہیں وہ کہتے ہیں ان پانچ چیزوں سے فرشتوں کے وہ گروہ مراد ہیں جو کسی کام کو سر انجام دینے کے لیے بھیجے جاتے ہیں اور ﴿المرسلت﴾ سے رحمت کے فرشتے مراد ہیں اور ﴿فالعصفت﴾ سے عذاب کے فرشتے مراد ہیں جو کسی ملک یا لشکر یا کسی گھر کی بربادی کیلئے جاتے ہیں اور ﴿النشرت﴾ سے وہ فرشتے مراد ہیں جو وحی الہام اور احکام الٰہی کے آثار و انوار اور برکات تمام عالم میں صلحاء اور مومنین کے دلوں میں منتشر کرتے ہیں اور ’ ’ فالفرقت “ سے مراد وہ فرشتے ہیں جو حق و باطل کے درمیان سحر اور معجزہ میں فرق بیان کرتے ہیں اور ﴿فالملقیت ذکراً﴾ سے وہ فرشتے مراد ہیں جو انبیاء (علیہ السلام) کی طرف وحی لے آتے ہیں۔
﴿عُذْرًا اَوْ نُذْرًا﴾ حضرت شاہ عبد القادر (رح) لکھتے ہیں کہ ( وحی) سے کافروں کا الزام اتارنا منظور ہے کہ ( سزا کے وقت) نہ کہیں ہم کو خبر نہیں تھی اور جن کی قسمت میں ایمان ہے ان کو ڈر سنانا تاکہ ایمان لائیں ۔ شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) لکھتے ہیں وحی لانے والے فرشتے اور وحی پہنچانے والی ہوائیں شاہد ہیں کہ ایک وقت ضرور آنا ہے جب مجرموں کو ان کی حرکات پر ملزم کیا جائے اور خدا سے ڈرنے والوں کو مامون و بےفکر کروایا جائے۔ ( تفسیر عثمانی)
﴿اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ كِفَاتًا﴾ امام شبعی (رح) فرماتے ہیں کہ: اس کے معنی ہیں کہ ہم نے زمین کی پشت کو زندہ افراد کے لیے اور اس کی پیٹ ( باطن) کو مردوں کے لیے بنایا ہے۔
کفاءت کے معنی ہیں ملانے اور سمیٹنے والی۔ تو مقصد یہ ہوا کہ زمین زندہ اور مردوں دونوں حالتوں میں انسانوں کو ملانے اور سمیٹنے والی ہے۔ کیونکہ زندہ آدمی زمین پر زندگی بسر کرتا ہے اور مرنے کے بعد مردہ اسی زمین اور مٹی میں پہنچ جاتا ہے۔
امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ اس سے میت کو زمین میں دفن کرنے اور چھپانے کا وجوب معلوم ہوتا ہے کہ میت اور اس کے تمام اعضاء بال وغیرہ کا دفن کرنا لازم ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ میت کے بال یا جسم کے کسی دوسرے حصہ سے انتقاع حاصل کرنا یا اس میں غیر ضروری تصرف کرنا جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے دفن کو واجب قرار دیا ہے۔
قرآن کریم کی آیت سورة عبس ﴿ثم أماته فأقبرہ﴾ بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔ ( احکام القرآن ۔ جصاص : ٦٣٤٣)
﴿اِنْـطَلِقُوْٓا اِلٰى ظِلٍّ ذِيْ ثَلٰثِ شُعَبٍ ـ لَّا ظَلِيْلٍ وَّلَا يُغْنِيْ مِنَ اللَّهَبِ اِنَّهَا تَرْمِيْ بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِۚكَاَنَّهٗ جِمٰلَتٌ صُفْرٌ﴾ یہ تین شاخوں والا دھواں اس طرح ہوگا دائیں بائیں اور سر پر محیط گویا ہر طرف سے گھیرنے والا ہوگا بظاہر اس کی حکمت یہ ہوگی کہ عالم آخرت میں انسان کے اعمال عالم مثال میں حقائق موجودہ کی شکل میں رونما ہوتے ہیں تو یہ ان کے اعمال فاسدہ اور عقائد باطلہ کی تاریکی ہوگی جو ہر طرف سے ان کو محیط ہوگی اور دھوئیں کی شکل میں ظاہر ہورہی ہوگی۔
حضرات عارفین فرماتے ہیں کہ انسان کے اندر تین لطیفے ہیں جن کی اصلاح اسکو مقام ملکیت تک پہنچا دیتی ہے اور اس کا فساد اسکو شیاطین کے زمرے میں شامل کردیتا ہے ایک بائیں طرف جو لطیفہ قلب ہے جس کا فساد قوت غضبیہ کو حد سے بڑھا کر ظلم وسرکشی پر آمادہ کرتا ہے دوسرا دائیں طرف ہے جس کا فساد قوت شہویہ کو بڑھاتا ہے اور اس کی وجہ سے انسان فسق وفجور اور بدکاریوں میں پڑجاتا ہے کیونکہ جگر معدن خون ہے اور یہی شہوتوں کا سرچشمہ ہے تیسرا لطیفہ دماغ ہے جو قوت ادراکیہ کا خزانہ اور معدن ہے تو پہلے دو لطیفوں کا فساد عملی خرابیوں کا باعث ہے اور تیسرے لطیفہ کا فساد عقائد باطلہ کا سبب ہے اس طرح اعمال خبیثہ اور عقائد باطلہ ان لطائف کی خرابی پر مرتب ہوئے تو اس مناسبت سے یہ اعمال خبیثہ اور عقائد جہنم کے دھوئیں اور شعلوں سے ظاہر ہونے والے سایہ کی تین شاخوں کی شکل میں نمایاں ہوں گے واللہ اعلم بالصواب (روح المعانی، فتح المنان)
ایک طرف اشارہ کرکے کہا جائے گا دور سے ظاہر ہوگا کہ وہ ایک سایہ ہے جس کی تین شاخیں ہیں فرشتوں کے اس اعلان پر وہاں پہنچیں گے تو کچھ اور ہی پائیں گے نہ تو وہ سایہ ہوگا ڈھانکنے والا جس میں کوئی ٹھنڈک اور چین ہو اور نہ ہی وہ جہنم کی لپٹوں اور شعلوں سے بچانے والا ہوگا بلکہ وہ سایہ تو درحقیقت جہنم سے اٹھنے والا دھواں ہوگا اور قعر جہنم سے اٹھنے والے سیاہ شعلے ہوں گے جو پہاڑوں کی بلندی کی طرف اوپر کی جانب بلند ہوتے ہوں گے اور دور سے محسوس ہوگا کہ وہ کوئی سایہ ہے۔
اللہ کے سامنے تو نہیں جھکتے تھے اور کسی طرح خدا کے سامنے سرنگوں ہونے اور عبادت و بندگی کے لیے تیار نہ ہوئے جس کا یہ انجام دیکھ لیا بس ہلاکت و بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے قرآن حکیم نے کس قدر واضح دلائل بیان کردیئے جن کے بعد خدا اور آخرت پر ایمان لانے میں کوئی تردد ہی نہ رہنا چاہیے لیکن انکار کرنے والے اب بھی اگر ایمان نہیں لائے تو پھر اس کے بعد اور کون سی بات ہوگی جس پر وہ ایمان لائیں گے اور اس پر یقین کرکے آخرت کو مانیں گے نہ تو قرآن کے بعد اب کوئی کتاب نازل ہوگی اور جو دلائل وحقائق ذکر کئے گئے ان کے بعد احاطہ تصور میں مزید کسی دلیل اور تحقیق کا امکان نہیں اور نہ ہی خاتم الانبیاء والمرسلین جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اور کوئی نبی مبعوث ہوگا کہ یہ توقع کرلی جائے کہ شاید کسی اور پیغمبر کے کسی معجزہ کو دیکھ کر یا دلیل کو سن کر مان لیں اور ایمان لے آئیں بہرحال جو بدنصیب بھی ان قرآنی دلائل وحقائق کے باوجود ایمان سے محروم رہے تو اس کے بعد کوئی توقع نہیں کہ وہ کسی اور بات پر ایمان لاسکے گا۔
ویل یومئذ للمکذبین کے تکرار کی حکمت:
سورة المرسلات میں یہ آیت مبارکہ ﴿ویل یومئذ للمکذبین﴾ دس جگہ ارشاد فرمائی گئی تکرار آیات قرآنیہ کی حکمت سورة الرحمن میں ﴿فبأي الآء ربکما تکذبان﴾ میں بیان کردی گئی وہ تو ہر جگہ اور جو بھی آیات قرآن کریم میں بار بار ہیں ان پر منطبق ہوتی ہے یہاں یہ آیت دس بار مکرر ہے بعض عارفین کے کلام سے یہاں اس کے تکرار کی مزید ایک خاص حکمت بھی معلوم ہوتی ہے۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.