ترجمہ اور تفسير سورہ نجم
مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ يوپى انڈيا
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے
وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ ﴿1﴾
قسم ہے ستارہ کی جب وہ ڈوبنے لگے ،
مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ ﴿2﴾
تمہارا ساتھی نہ بھٹکا ہے اور نہ گمراہ ہوا ہے
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿3﴾
اور وہ اپنے جی سے نہیں بولتے،
إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿4﴾
(ان کا کلام تو) تمام تر وحی ہی ہے جو ان پر بھیجی جاتی ہے۔
عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ ﴿5﴾
انھیں بڑی قوت والا (فرشتہ) سکھاتا ہے۔
ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىٰ ﴿6﴾
پیدائشی طاقتور پھر وہ اصلی صورت پر اصلی صورت پر ظاہر ہوا۔
وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىٰ ﴿7﴾
جب کہ وہ آسمان کے بلند کنارے پر تھا۔
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ﴿8﴾
پھر وہ نزدیک ہوا، اور زیادہ نزدیک ہوا۔
فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ﴿9﴾
یہاں تک کہ وہ کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی کم
فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ﴿10﴾
پھر (اللہ نے) اپنے بندہ پر وحی نازل کی جو کچھ کہ نازل کیا۔
مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ ﴿11﴾
قلب نے کوئی غلطی نہیں کی، دیکھی ہوئی چیز میں۔
أَفَتُمَارُونَهُ عَلَىٰ مَا يَرَىٰ ﴿12﴾
تو کیا ان (پیغمبر) سے ان چیزوں میں نزاع کرتے ہو جو ان کی دیکھی ہوئی ہیں۔
وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ﴿13﴾
اور انھوں نے اس (فرشتہ) کو ایک بار اور بھی دیکھا ہے
عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَىٰ ﴿14﴾
سدرۃ المنتہی کے قریب۔
عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ ﴿15﴾
کہ اس کے قریب جنت الماوی ہے
إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَىٰ ﴿16﴾
اس وقت اس (سدرۃ المنتھی) کو ڈھانپ رکھا تھا جس نے بھی ڈھانپ رکھا تھا۔
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ ﴿17﴾
ان (پیغمبر) کی نگاہ نہ تو ہٹی اور نہ بڑھی۔
لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىٰ ﴿18﴾
انھوں نے اپنے پروردگار (کی قدرت) کے بڑے بڑے عجائبات دیکھے،
أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّىٰ ﴿19﴾
بھلا تم نے لات اور عزی،
وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَىٰ ﴿20﴾
اور تیسرے منات کے حال میں بھی غور کیا ہے۔
أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْأُنْثَىٰ ﴿21﴾
کیا تمہارے لیے تو بیٹے ہوں اور اللہ کے لیے بیٹیاں؟
تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَىٰ ﴿22﴾
یہ تو بڑی ہی بےڈھنگی تقسیم ہے۔
إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ ۚ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنْفُسُ ۖ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدَىٰ ﴿23﴾
یہ تو نرے نام ہی نام ہیں جو تم نے، اور تمہارے باپ دادوں نے ٹھہرا لیے ہیں اللہ نے تو اس پر کوئی دلیل اتاری نہیں ہے۔ یہ لوگ نرے اٹکل پر اور اپنے نفس کی خواہش پر چل رہے ہیں، درآنحالیکہ ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف سے ہدایت آچکی ہے۔
أَمْ لِلْإِنْسَانِ مَا تَمَنَّىٰ ﴿24﴾
بھلا کہیں انسان کو ہر وہ چیز مل جاتی ہے جس کی وہ تمنا کرتا ہے؟
فَلِلَّهِ الْآخِرَةُ وَالْأُولَىٰ ﴿25﴾
( نہیں بلکہ ہر تمنا) اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے آخرت (کی بھی) اور دنیا (کی بھی) ۔
وَكَمْ مِنْ مَلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِنْ بَعْدِ أَنْ يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَرْضَىٰ ﴿26﴾
اور بہت سے فرشتے آسمانوں میں ہیں کہ ان کی سفارش ذرا بھی کام نہیں آسکتی مگر ہاں، بعد اس کے کہ اللہ اجازت دے دے جس کے لیے وہ چاہے اور اس کی رضاہو۔
إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ لَيُسَمُّونَ الْمَلَائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثَىٰ ﴿27﴾
بیشک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے وہ فرشتوں کو عورتوں کے جیسے نام دیتے ہیں
وَمَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ ۖ وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ﴿28﴾
حالانکہ ان کے پاس کوئی بھی دلیل نہیں، یہ لوگ محض اٹکل پر چل رہے ہیں، اور اٹکل حق کے مقابلہ میں ذرا بھی کام نہیں دیتی۔
فَأَعْرِضْ عَنْ مَنْ تَوَلَّىٰ عَنْ ذِكْرِنَا وَلَمْ يُرِدْ إِلَّا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ﴿29﴾
تو آپ اس کی طرف سے خیال ہی ہٹا لیجئے جو بے پروائی اختیار کئے ہوئے ہے ہماری نصیحت کی طرف سے اور اس کا کوئی مقصود ہی نہیں بجز دنیوی زندگی کے۔
ذَٰلِكَ مَبْلَغُهُمْ مِنَ الْعِلْمِ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اهْتَدَىٰ ﴿30﴾
ان لوگوں کے علم کی رسائی کی حد بھی بس یہی ہے، آپ کا پروردگار ہی بیشک خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے بھٹکا ہوا ہے، اور وہی اس کو بھی خوب جانتا ہے جو راہ راست پر ہے۔
وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى ﴿31﴾
جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ اسی کی ملکیت ہے تاکہ وہ ان لوگوں کو بدلہ دے جنہوں نے گناہ (برائی ) کی ہے اور جنہوں نے اچھے کام کئے ہیں ان کو بہترین بدلہ عطا کرے۔
الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ ۚ هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ۖ فَلَا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَىٰ ﴿32﴾
(یہ وہ لوگ ہیں) جو کبیرہ گناہوں سے اور بےحیائیوں سے بچتے ہیں سوائے اس کے کہ ان سے کوئی معمولی گناہ ہوجائے۔ بلاشبہ آپ کا پروردگار بہت زیادہ وسیع مغفرت کرنے والا ہے۔ وہ تمہیں جانتا ہے۔ جب اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا تھا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے سے تھے۔ لہٰذا تم زیادہ پاک باز بننے کی کوشش نہ کرو۔ وہ خوب جانتا ہے کہ کون پرہیز گار ہے۔
أَفَرَأَيْتَ الَّذِي تَوَلَّىٰ ﴿33﴾
بھلا آپ نے اس شخص کے حال پر نظر کی ہے، جس نے روگردانی کی،
وَأَعْطَىٰ قَلِيلًا وَأَكْدَىٰ ﴿34﴾
اور مال قلیل دیا اور (اب) بند کردیا۔
أَعِنْدَهُ عِلْمُ الْغَيْبِ فَهُوَ يَرَىٰ ﴿35﴾
کیا اس کے پاس علم غیب ہے کہ وہ اس کو دیکھ رہا ہے
أَمْ لَمْ يُنَبَّأْ بِمَا فِي صُحُفِ مُوسَىٰ ﴿36﴾
کیا اسے خبر نہیں پہنچی اس (مضمون) کی جو موسیٰ (علیہ السلام) کے صحیفوں میں تھى،
وَإِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّىٰ ﴿37﴾
اور ابراہیم (علیہ السلام) کے بھی، جنہوں نے (احکام کی) پوری بجاآوری کی
أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ﴿38﴾
وہ یہ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا
وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ﴿39﴾
اور انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی اس نے جدوجہد کی ہے۔
وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ ﴿40﴾
اور بیشک انسان اپنی کوشش اور جدوجہد کو بہت جلد دیکھ لے گا۔
ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَىٰ ﴿41﴾
پھر اس کو پورا بدلہ جائے گا
وَأَنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ الْمُنْتَهَىٰ ﴿42﴾
اور یہ کہ (سب کو) آپ کے پروردگار کے پاس ہی پہنچنا ہے۔
وَأَنَّهُ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَىٰ ﴿43﴾
اور یہ کہ وہی ہنساتا اور رلاتا ہے،
وَأَنَّهُ هُوَ أَمَاتَ وَأَحْيَا ﴿44﴾
اور یہ کہ وہی مارتا اور جلاتا ہے،
وَأَنَّهُ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَىٰ ﴿45﴾
اور بیشک اسی نے نر اور مادہ جوڑے پیدا کئے
مِنْ نُطْفَةٍ إِذَا تُمْنَىٰ ﴿46﴾
اس نطفہ سے جب وہ (رحم میں) ڈالا جاتا ہے
وَأَنَّ عَلَيْهِ النَّشْأَةَ الْأُخْرَىٰ ﴿47﴾
اور یہ کہ دوسری زندگی دینے کا بھی اسی نے ذمہ لیا ہے۔
وَأَنَّهُ هُوَ أَغْنَىٰ وَأَقْنَىٰ ﴿48﴾
اور یہ کہ وہی غنی کرتا ہے اور (سرمایہ) باقی رکھتا ہے۔
وَأَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشِّعْرَىٰ ﴿49﴾
اور وہی شعری (ستارے کا نام ہے) کا پروردگار ہے (جس کی اہل عرب پرستش کرتے تھے)
وَأَنَّهُ أَهْلَكَ عَادًا الْأُولَىٰ ﴿50﴾
اور یہ کہ اسی نے قوم عاد اول کو ہلاک کیا،
وَثَمُودَ فَمَا أَبْقَىٰ ﴿51﴾
اور ثمود کو بھی (اسی طرح ہلاک کیا) اور ان میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑا۔
وَقَوْمَ نُوحٍ مِنْ قَبْلُ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا هُمْ أَظْلَمَ وَأَطْغَىٰ ﴿52﴾
اور ان سے پہلے نوح کی قوم کو (ہلاک کیا) بیشک وہ اور بھی بڑھے ہوئے ظالم و سرکش تھے،
وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَىٰ ﴿53﴾
اور الٹی ہوئی بستیوں کو بھی پھینک مارا تھا،
فَغَشَّاهَا مَا غَشَّىٰ ﴿54﴾
پھر ان بستیوں کو گھیر لیا، جس چیز نے کہ گھیر لیا۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكَ تَتَمَارَىٰ ﴿55﴾
سو تو اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں میں شک کرتا رہے گا؟
هَٰذَا نَذِيرٌ مِنَ النُّذُرِ الْأُولَىٰ ﴿56﴾
یہ ڈرانے والے (پیغمبر) بھی پہلے ڈرانے والوں میں سے ہیں،
أَزِفَتِ الْآزِفَةُ ﴿57﴾
قریب آپہنچی قریب آنے اولی (گھڑی)
لَيْسَ لَهَا مِنْ دُونِ اللَّهِ كَاشِفَةٌ ﴿58﴾
اللہ کے سوا کوئی اس کو ٹالنے والا نہیں ہے۔
أَفَمِنْ هَٰذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ ﴿59﴾
کیا پھر بھی تم اس بات (قرآن مجید) میں تعجب کرتے ہو
وَتَضْحَكُونَ وَلَا تَبْكُونَ ﴿60﴾
اس پر ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو
وَأَنْتُمْ سَامِدُونَ ﴿61﴾
اور تم تکبر اور غرور کرتے ہو۔
فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا ۩ ﴿62﴾
پھر تم اللہ کو سجدہ کرو اور اسی کی عبادت و بندگی کرو۔
سورة النجم کے متعلق احادیث
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ میں سورة النجم کی تلاوت فرمائی اور آپکے ساتھ وہاں موجود سب لوگوں نے سجدہ کیا، سو ایک بوڑھے شخص کے، اس نے کچھ کنکریاں یا مٹی ہاتھ میں لی اور ان کو اٹھا کر اپنی پیشانی پر رکھ لیا، اور کہا : مجھے یہ کافی ہے، پھر میں نے اس شخص کو دیکھا وہ کفر کی حالت میں قتل کیا گیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٠٦٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٧٦، سنن نسائی رقم الحدیث : ٩٥٩، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ١٤٠٦)
علامہ بدر الدین عینی نے لکھا ہے کہ اس بوڑھے شخص کا نام امیہ بن خلف تھا، یہ جنگ بدر میں کافروں کی طرف سے لڑتا ہوا مارا گیا تھا، امام ابو سحاق نے ” سیرت ابن اسحاق “ میں لکھا ہے کہ اس کا نام الولید بن المغیرہ تھا، لیکن اس پر یہ اعتراض ہے کہ اس کو قتل نہیں کیا گیا تھا۔ ( عمدۃ القاری ج ٧ ص ١٣٧، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢١ ھ)
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة النجم پڑھی اور اس میں سجدہ کیا، اس وقت ہاں پر جتنے بھی لوگ تھے سب نے سجدہ کیا، سو ایک شخص کے، اس نے کچھ کنکریاں یا مٹی اٹھا کر اپنے چہرے پر رکھ لی اور کہا : مجھے یہ کافی ہے۔ بعد میں، میں نے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت میں قتل کیا گیا۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٠٧٠)
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة النجم کا سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ مسلمانوں اور مشرکوں نے اور جن و انس نے سجدہ کیا۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٠٧١)
علامہ بدر الدین عنیی حنفی، ” صحیح البخاری “ رقم الحدیث : ١٠٧٠ کی شرح میں لکھتے ہیں :
مخرمہ بن نوفل نے روایت کیا ہے کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام اہل مکہ کے سامنے اسلام کا اظہار کردیا تھا، اور یہ نماز کے فرض ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے، حتیٰ کہ جب آپ سجدہ تلاوت کی آیت تلاوت کرتے تو مسلمان سجدہ کرتے تھے حتیٰ کہ رش کی وجہ سے بعض اوقات مسلمان سجدہ نہ کرسکتے، قریش کے سرداروں میں سے الولید بن مغیرہ اور ابو جہل بن ہشام وغیرھما اس وقت طائف میں تھے، جب وہ مکہ میں آئے تو انھوں نے مسلمانوں سے کہا : تم اپنے آباء و اجداد کے دین کے چھوڑ رہے ہو۔ ( المعجم الکبیر ج ٢٠ ص ٥۔ رقم الحدیث : ٢)
نیز علامہ عینی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
علامہ ابن بطلال نے کہا ہے کہ اکثر مفسرین نے یہ ذکر کیا ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ پڑھا : ” اَفَرَئَ یْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰی۔ وَمَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰی. “ (النجم : ١٩۔ ٢٠) اور مشرکین نے اپنے خداؤں کا ذکر قرآن میں سنا تو انھوں نے یہ گمان کیا کہ یہ ان کے خداؤں کی مدح ہے اس لیے انھوں نے بھی سجدہ کرلیا اور بعض روایات میں یہ مذکور ہے کہ ان آیات کے بعد مشرکین نے یہ سنا :
تلک الغرانیق العلیٰ وإن شفاعتھن لترتجی یہ مرغان بلند بانگ ہیں اور بیشک ان کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے۔
ایک قول یہ ہے کہ خود مشرکین نے یہ کا تھا، انھیں یہ خطرہ تھا کہ کہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے بتوں کے ذکر کے بعد ان کی مذمت نہ کریں، اس لیے انھوں نے بتوں کے ذکر کے بعد فوراً یہ کلمات پڑھے۔ دوسرا یہ ہے کہ خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ کلمات پڑھے تھے اور ابلیس نے آپ کی زبان سے یہ کلمات کہلواک دیئے تھے اور یہ قول قطعاً باطل ہے، اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر شیطان کو مسلط کر دے جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ابلیس وغیرہ سے معصوم رکھا ہے، اسی طرح یہ قول بھی باطل ہے کہ ابلیس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز کے مشابہ آواز میں یہ کلمات کہے، کیونکہ جب شیطان نیند میں آپ کی مشابہت اختیار نہیں کرسکتا، جیسا کہ حدیث صحیح میں ہے : جس نے مجھ کو خواب میں دیکھا، اس نے مجھ ہی کو دیکھا ہے، کیونکہ شیطان میرے مشابہ نہیں ہوسکتا اور نہ میری مثل بن سکتا ہے، حالانکہ نیند میں انسان مکلف نہیں ہوتا تو وہ بیداری میں آپ کی آواز کے مشابہ آواز کیسے بنا سکتا ہے ؟ اور یہ چیز اتنی محال ہے کہ مومت کا قلب اس کو قبول نہیں کرسکتا اور اس روایت کی تمام اسانید منقطع اور معلوم ہیں اور اس حدیث کی کوئی سند صحیح نہیں ہے۔
ان روایات پر جرح کرنے کے بعد علامہ عینی لکھتے ہیں :
قاضی عیاض نے کہا ہے کہ اس روایت کو کسی صحیح اور ثقہ راوی نے روایت نہیں کیا، اس کو ان مؤرخین اور مفسرین نے ذکر کیا ہے جو صحیح اور ضعیف چیز کا ذکر کردیتے ہیں ان لوگوں میں غلط اور صحیح میں تمیز کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، یہ لوگ اندھیرے راستوں میں بھٹکتے رہتے ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عصمت پر اجتماع منعقد ہے اور اس پر بھی کہ اس قسم کی رذیل بات سے آپ منزہ ہیں اور اگر ایسا ہوا ہوتا تو قریش مسلمانوں پر زبردست طعن وتشنیع کے حملے کرتے اور یہود اس کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف حجت بنا لیتے جیسا کہ منافقین کی عادت اور مشرکین کے عناد سے ظاہر ہے، کیا واقعہ معراج کی بناء پر اعتراض نہیں کیے گئے تھے، حتیٰ کہ بعض ضعیف مسلمان اس وجہ سے مرتد ہوگئے تھے۔ ( عمدۃ القاری ج ٧ ص ١٤٦۔ ١٤٣، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢١ ھ)
” نحم “ کے معانی
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں۔
نجم اصل میں طلوع ہونے والے ستارے کو کہتے ہیں اس کی جمع نجوم ہے اور نجم زمین پر پھیلنے والی بیل کو بھی کہتے ہیں، وقت کے ایک مقررحصہ اور قسط کو بھی نجم کہتے ہیں، ستاروں کے علم میں غور و فکر کرنے کو بھی نجم کہتے ہیں اسی سے منجم ( نجومی) بنا ہے، نجم ستارے کے طوع ہونے کو بھی کہتے ہیں، عرب ثریا کو بھی نجم کہتے ہیں ۔ (المفردات ج ٢ ص ٦٢٥، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)
علامہ مجدد الدین المبارک بن محمد المعروف ابن الاثیر الجزری المتوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :
نجم کا معنی کسی چیز کا ظہور اور خروج ہے، حضرت حذیفہ (رض) نے یہ حدیث بیان کی: سراج من النار یظھر في أکنافھم حتی ینجم في صدورھم. آگ کا شعلہ منافقین کے کندھوں میں ظاہر ہوگا اور ان کے سینوں سے نکلے گا۔(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠، مسند احمد ج ٤ ص ٣٢٠ طبع قدیم)
نجم کا معنی ستارہ ہے اور اس کی جمع نجوم ہے اور کبھی اس سے مراد ثریا ہوتا ہے اور عرب ثریا کو ستاروں کا علم ( نام) قرار دیتے ہیں اور جب وہ مطلقاً نجم کہیں تو اس سے مراد ثریا ہوتا ہے، درج ذیل حدیث میں ثریا کا اطلاق اسی معنی پر ہے۔
ما طلع النجم قط و فی الارض عاھۃ الا رفعت جب بھی ثریا طلوع ہوتا ہے تو زمین سے پھلوں کی آفت اٹھالی جاتی ہے۔ ( مسند احمد ج ٢ ص ٣٨٨ طبع قدیم، مشکل الآثار ج ٣ ص ٩٢)
اور اس کا معنی قسطوں میں کسی چیز کا دینا ہے، حضرت سعد (رض) نے کہا :واللہ لا أزیدک علی أربعة آلاف اللہ کی قسم ! میں تم کو قسط وار چار ہزار سے زیادہ نہیں دوں گا۔ (النہایہ ج ٥ ص ٢٠۔ ٢١، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٨، ١٤ ھ)
” النجم “ کے معانی اور محامل میں مفسرین کے اقوال
حضرت ابن عباس اور مجاہد نے کہا : ” والنجم اذا ھوی “ کا معنی ہے : ثریا کی قسم ! جب وہ فجر کے وقت نیچے اترے اور عرب ثریا کو نجم کہتے ہیں، ہرچند کہ وہ تعداد میں کئی ستارے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ سات ستارے ہیں، ان میں سے چھ ظاہر ہیں اور ایک مخفی ہے، اس سے لوگوں کی آنکھوں کی آزمائش ہوتی ہے۔ قاضی عیاض نے ” شفاء “ میں لکھا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثریا میں گیارہ ستارے دیکھے تھے۔
مجاہد سے یہ بھی روایت ہے کہ اس کا معنی ہے : اور قرآن کی قسم ! جب وہ نازل ہوا، کیونکہ قرآن مجید قسط وار بہ تدریج نازل ہوا ہے۔
ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ ستارے ہیں جن کے ساتھ شیاطین کو رجم کیا جاتا ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ کی ولادت سے پہلے بہ کثرت ستارے ٹوٹنے لگے، پس بہت عرب خوف زدہ ہوگئے، ان کے ہاں ایک نابینا کاہن تھا وہ گھبرا کر اس کے پاس گئے، جو ان کو مستقبل کی خبریں بتاتا تھا، اس نے کہا : بارہ برج کو دیکھو اگر ان میں سے کوئی برج ٹوٹ گیا ہے تو اب دنیا ختم ہونے والی ہے، اور اگر ان میں سے کوئی برج نہیں ٹوٹا ہے تو دنیا میں ایک بہت بڑا واقعہ ہوگا، سو تم دیکھو کیا رونما ہوتا ہے، پھر جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوگئے تو انھوں نے سمجھ لیا کہ یہی وہ امر عظیم تھا اور اللہ تعالیٰ نہ یہ آیت نازل فرمائی : ” والنجم اذا ھوی “ یعنی یہ ستارہ ہے جو نیچے اترا ہے یہ ستارہ اس نبوت کا ہے جو اب ظاہ ہوئی ہے۔
اور جعفر بن محمد بن علی بن حسین (رض) نے کہا : اس کا معنی ہے : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قسم ! جب وہ شب معراج کو آسمان سے زمین پر آئے۔
حضرت عروہ بن زبیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ عتبہ بن ابی لہب جس کے نکاح میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحب زادی تھیں، اس نے شام کی طرف جانے کا ارادہ کیا اور کہا : میں ضرور ( سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤں گا اور ان کو ایذاء پہنچاؤں گا، اس نے کہا : اے محمد ! میں ” والنجم اذا ھوی “ اور ” دنی فتدلی “ کا انکار کرتا ہوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ اقدس پر تھوک دیا اور آپ کی صاحب زادی آپ کی طرف بھیج کر ان کو طلاق دے دی، تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی : اے اللہ ! اس پر اپنے کتوں میں سے ایک کتا مسلط کر دے، اس موقع پر ابو طالب تھی تھے، انھوں نے غم گین ہو کر کہا : اے بھیجتے ! اس دعا سے آپ کو کیا فائدہ ہوگا ؟ عتبہ نے جا کر اپنے باپ کو یہ خبر دی، پھر وہ شام کی طرف چلے گئے اور ایک جگہ ٹھہرے، ان کے پاس گر جا سے ایک راہب آیا اور کہا : اس زمین میں درندے آتے ہیں، ابو لہب نے اپنے اصحاب سے کہا : اے قریش کی جماعت ! ہماری مدد کرو کیونکہ آج رات مجھے اپنے بیٹے پر (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کے ضرر کا خطرہ ہے، پھر انھوں نے اپنے ارد گرد اپنے اونٹوں کو بٹھا لیا اور عتبہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا، پھر شیرآ کر سب کے چہروں کو سونگھتا رہا حتیٰ کہ عتبہ پر حملہ کر کے اس کو قتل کردیا۔ ( دلائل النبوۃ لابی نعیم رقم الحدیث : ٣٨٣۔ ٣٨١، تفسیر امام عبد الرزاق ج ٢ ص ٢٠٢۔ رقم الحدیث : ٣٠٢١، دارالمعرفۃ، بیروت، تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٢٧٣، دارالفکر، الکشف والبیان ج ٩ ص ١١٣٥، جامع البیان رقم الحدیث : ٢٥٠٩٤، الجامع الاحکام القرآن جز ١٧ ص ٧٨، الدرالمنثور ج ٧ ص ٢٦٣، الکشاف ج ٤ ص ٤١٩، روح البیان ٩ ص ٢٤٩، السنن الکبریٰ ج ٥ ص ٢١١، حضرت حسان بن ثابت (رض) نے اس واقعہ کو اشعار میں نظم کیا ہے جس کو تفصیل سے ” الکشف “ اور ” الجامع الاحکام القرآن “ میں ” دلائل النبوۃ “ رقم الحدیث : ٢٢٠ کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ )
علامہ آلوسی نے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ بھی جائز ہے کہ ” اذا ھوی “ سے یہ مراد ہو کہ شب معراج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عروج لا مکان تک ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی قسم کھا کر یہ بتایا کہ آپ راہ راست سے گم ہونے اور راہ راست کے بغیر چلنے کے شائبہ سے بھی مبرا، منزہ اور پاک ہیں۔ ( روح المعانی جز ٢٧ ص ٧٠، دارالفکر بیروت، ١٤١٧ ھ)
مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰى
ضلال کے متعدد معانی
اس آیت میں ”ضل“ کا لفظ ہے یہ ”ضلال“ سے مآخوذ ہے، علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ اس کے معنی کے بیان میں لکھتے ہیں : ” ضلال “ کا معنی ہے : راہ راست سے تجاوز کرنا، قرآن مجید میں ہے :
فَمَنِ اھْتَدٰی فَاِنَّمَا یَھْتَدِیْ لِنَفْسِہٖج وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْھَا ج (یونس : ١٠٨) جو شخص راہ راستہ پر چلے تو اس کا یہ چلنا اسی کے لیے مفید ہے اور جو شخص راہ راست سے تجاوز کرے تو اس کے اس تجاوز کا وبال اسی پر ہے۔
راہِ راست سے ہر قسم کے تجاوز کو ضلال کہا جاتا ہے، خواہ یہ تجاوز عمداً ہو یا سہواً ، معمولی تجاوز ہو یا زیادہ کیونکہ وہ سیدھا راستہ جو پسندیدہ اور مرغوب اور محبوب ہو، اس پر چلنا بہت مشکل اور دشوار ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :
استقیموا ولا تحصوا. تم ہر معاملہ میں راہ راست پر رہو اور تم ہر معاملہ میں راہ راست کا احاطہ نہ کرسکو گے۔ ( مسند احمد ج ٥ ص ٤٧٧، سنن کبریٰ ج ١ ص ٨٢، الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٩٩٤، اس حدیث کی سند صحیح ہے)
انبیاء علہیم السلام کی طرف ضلال کی نسبت کرنے کے معانی اور محامل
اور جب کہ ضلال کا معنی ہے : راہ راست کو ترک کرنا خواہ یہ ترک عمداً یا سہواً ، کم دفعہ ہو یا زیادہ دفعہ تو جس شخص سے بھی خطاء ہو، اس کے لیے ضلال کا لفظ استعمال کرنا صحیح ہے، اسی وجہ سے ضلال کی نسبت انبیاء (علیہم السلام) کی طرف بھی کی گئی ہے۔ اور کفار کی طرف بھی، ہرچند کہ دونوں کے ضلال میں زمین اور آسمان کا فرق ہے، اسی وجہ سے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق فرمایا :
ووجدک ضالا فھدی (الضحی : ٧) آپ کو از خودراہ راست پر نہ پایا سو آپ کو راہ راست پر گامزن کیا۔
( اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ بعض امور میں آپ کو سہو اور نسیان سے راہ راست پر نہ پایاسو آپ کو راہ راست پر چلایا، جیسے امت کی تعلیم اور تشریع کے لیے آپ کو ظہر یا عصر کی نماز میں سہو ہو اور آپ نے چار رکعت کی بجائے دو رکعت نماز پڑھا دی۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٢٢٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٧٠) اور ایک مرتبہ ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھا دی۔
” غوی “ کے معنی
”الغي“ کا معنی ہے : اعتقاد فاسد کی وجہ سے جاہل ہونا، کبھی انسان جاہل محض ہوتا ہے، اس کا کوئی اعتقاد صحیح ہوتا ہے نہ اعتقاد فاسد ہوتا ہے اور کبھی وہ اعتقاد فاسد کی وجہ سے جاہل ہوتا ہے، اس دوسری قسم کو ” الغی “ کہتے ہیں۔
واخوانہم یمدونہم فی الغی (الاعراف : ٢٠٢) شیاطین کے بھائی کافروں کو فاسد اعتقاد ( گمراہی) میں گھسیٹتے ہیں۔
فسوف یلقون غیا۔ (مریم : ٥٩) سو وہ عنقریب عذاب میں داخل ہوں گے ۔
اس آیت میں ”الغي“ کا اطلاق عذاب پر کیا گیا ہے کیونکہ عذاب ”الغي“ کا اثر ہے۔
اللہ ُ یُرِیْدُ اَنْ یُّغْوِیَکُمْ (ھود : ٣٤) ( اے کافرو ! ) بیشک اللہ تمہیں تمہارے فاسد اعتقاد کی سزا دینا چاہتا ہے۔
وَعَصٰٓی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی. (طہ : ١٢١) آدم نے بظاہر معصیت کی پس وہ غوی ہوئے۔
اس آیت میں ”فغوی“ کا معنی ہے : پس آپ نے نا واقفیت کا کام کیا، ایک قول ہے : پس آپ نے نقصان اٹھایا، ایک قول ہے : پس آپ کا عیش اور آپ کی پر لطف عشرت جاتی رہی۔
(”غوی“ کے جتنے معنی ہیں اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ”مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی“ (النجم : ٢) میں ان سب کی نفی کردی۔ ( المفردات ج ٢ ص ٤٧٨، مکتبہ نزار مصطفی، بیروت، ١٤١٨ ھ)
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى
”ھوی“ کے معنی
”الھوی“ کا معنی ہے : نفس کا شہوت کی طرف مائل ہونا، اس کا اطلاق عموماً اس شخص پر کیا جاتا ہے جس کا نفس شہوت کی طرف مائل ہو، ”الھاریہ“ دوزخ کو کہتے ہیں کیونکہ ”ھوی“ کی اتباع کے نتیجہ میں انسان دوزخ میں جا گرتا ہے ” الھوی “ کا معنی ہے : بلندی سے نیچے گرنا، ”فأمه ھاویة“ ( القارعہ : ٩) اس کا ٹھکانا دوزخ ہے، اس کا معنی خالی بھی ہے۔ ( المفردات ج ٢ ص ٧١٢، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)
حضرت داؤد (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
ولا تبع الھوی (ص : ٢٦) اور آپ خواہش نفس کی پیروی نہ کریں۔
اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا :
وما ینطق عن الھوی ( النجم : ٣) اور آپ خواہش نفس سے کلام نہیں کرتے۔
آپ کا نفس باطل شہوات کی طرف مائل نہیں تھا، آپ کے نفس کی اپنی کوئی خواہش نہیں تھی، آپ وہی چاہتے تھے جو اللہ چاہتا تھا، آپ کی رضا اللہ کی مرضی تھی اور اللہ کی رضا آپ کی مرضی تھی۔
اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى
وحی کا لغوی معنی ہے : لکھنا، اشارہ کرنا اور کلام خفی، اور وحی کا اصطلاحی معنی ہے : اللہ تعالیٰ کا وہ کلام جس کو وہ اپنے نبیوں اور رسولوں پر نازل فرماتا ہے۔
اس آیت میں ان مشرکین کا رد ہے جو قرآن مجید اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلام کو شعر و شاعری کہتے تھے، اللہ تعالیٰ نے بتایا : یہ قرآن اور آپ کا کلام اللہ تعالیٰ کی وحی ہے، شعر و شاعری نہیں ہے اور وحی عام ہے خواہ وحی جلی ہو یا وحی خفی ہو، اور وحی خفی میں احادیث بھی داخل ہیں۔
علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :
ابو علی جبائی اور اس کا بیٹا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کے قائل نہیں ہیں، وہ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ آپ نے جو کچھ بھی نطق کیا وہ وحی ہے اور جو اجتہاد سے ہو وہ وحی نہیں ہوتا، پس وہ آپ کا نطق اور آپ کا کہا ہوا نہیں ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اجتہاد کو جائز قرار دیا ہے اس لیے آپ کا اجتہاد بھی وحی ہے، یعنی وحی خفی ہے اور آپ کا اپنی خواہش سے کلام نہیں ہے، اس پر یہ اعتراض ہے کہ اگر اجتہاد بھی وحی ہوتا ہے تو مجتہدین جو اپنے قیاس سے مسائل استنباط کرتے پھر وہ بھی وحی کہلائیں گے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ آپ اجتہاد کریں اور دوسرے مجتہدین کی طرف یہ وحی نہیں کی گئی۔ قاضی بیضاوی نے اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ پھر آپ کا اجتہاد وحی کے سبب سے ہوگا خود وحی نہیں ہوگا، صاحب الکشف نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے گویا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ فرمایا : جب تمہارے ظن کے مطابق کوئی حکم ہو تو وہ میرا حکم ہے، یعنی ہر وہ چیزجس کو میں تمہارے دل میں ڈالوں وہ میری مراد ہے، پھر آپ کا اجتہاد حقیقۃً وحی ہوگا۔
علامہ آلوسی لکھتے ہیں : میرے نزدیک ”وما ینطق عن الھوی“ ( النجم : ٣) اپنے عموم پر ہے، کیونکہ امام یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کے قائل ہیں وہ نہیں کہتے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اجتہاد سے جو حکم دیتے ہیں وہ اپنی خواہش سے دیتے ہیں، آپ کی شان اس سے بہت بلند ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ آپ کا اجتہاد وحی کے واسطے سے ہوتا ہے۔ ( روح المعانی جز ٢٧ ص ٧٢، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد میں مذاہب فقہاء
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :
امام شافعی (رض) نے کہا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام میں وہ امور بھی داخل ہیں جو اجتہاد سے صادر ہوئے اور یہی امام ابو یوسف (رح) کا قول ہے۔
معتزلہ میں سے ابو علی اور ابو ہاشم نے کہا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجتہاد سے عبادت نہیں کرتے تھے۔
( الاحکام للاعدی ج ٤ ص ١٣٤)
بعض معتزلہ نے کہا : آپ کے لیے جنگوں میں اجتہاد کرنا جائز تھا اور دین کے احکام میں اجتہاد کرنا جائز نہیں تھا۔
جو ائمہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کے قائل ہیں ان کے دلائل حسب ذیل ہیں :
(١) اللہ تعالیٰ نے بالعموم فرمایا ہے :
فاعتبروا یاولی الابصار. ( الحشر : ٢) پس اے بصیرت والو ! قیاس کرو۔
اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے زیادہ صاحب بصیرت تھے اور آپ سب سے زیادہ قیاس کی شرائط پر مطلع تھے اور اس کو جانتے تھے کہ قیاس میں کیا چیزیں واجب ہیں اور کیا جائز ہیں، پس آپ دوسروں کی بہ نسبت قیاس کرنے میں اگر راجح نہیں تو کم از کم مساوی ضرور ہیں، لہٰذا آپ بھی قاس کرنے کا حکم میں داخل ہیں، سو آپ بھی قیاس کرنے والے ہیں ورنہ آپ کی عصمت پر حرف آئے گا۔
(٢) جب آپ کا ظن غالب یہ ہو کہ اصل میں حکم کسی وصف ( علت) پر مبنی ہے اور جب آپ کو علم ہو کہ فرع میں وہ وصف موجود ہے تو ضروری ہے کہ آپ یہ گمان کریں کہ فرع میں بھی اصل کی طرح اللہ کا حکم ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ آپ قیاس پر عمل کریں۔ ( النہایہ ج ١ ص ٤٢٢، الاسرار المرفوعۃ رقم الحدیث : ٢٠٨، المقاصد الحسنۃ ص ٨٩، کشف الخشفاء ص ١٥٥ )
اور اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجتہاد پر عمل نہ کریں جب کہ آپ کی امت نے اجتہاد پر عمل کیا ہے تو اس باب میں امت آپ سے افضل ہوگی اور یہ جائز نہیں ہے۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اس دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اجتہاد پر ہی عمل کریں کیونکہ یہ افضل ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اجتہاد کی شرط یہ ہے کہ اجتہاد اس وقت کیا جائے جب اس مسئلہ میں نص موجود نہ ہو، اس لیے ہر مسئلہ اور ہر معاملہ میں اجتہاد نہیں ہوسکتا، دوسرا جواب یہ ہے کہ وحی کا درجہ اجتہاد سے اعلیٰ ہے، لہٰذا جب آپ کے لیے وحی کا حصول ممکن ہے تو آپ کے لیے حصول وحی کی صورت میں اس پر عمل کرنا افضل ہے۔
(٤) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : العلماء ورثة الأنبیاء. علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ ( سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٣٦٤١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٢٣، مسند احمد ج ٥ ص ١٩٦)
پس ضروری ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجتہاد کیا ہو، ورنہ مجتہدین اور مفتیان کرام اجتہاد میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وارث نہیں ہوں گے ۔
(٥) بہ کثرت احکام اور سنن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب ہیں ( جیسے وضو میں کلی کرنا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈالنا وغیرہ اسی طرح نماز میں تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرنا، قیام میں ہاتھ باندھنا، سورة فاتحہ پڑھنے کے بعد آمین کہنا، زکوۃ میں نصاب کی مقدار اور حج میں تلبیہ پڑھنا، طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کرنا اور اسی طرح حدود اور قصاص اور روزوں اور دیگر احکام شرعیہ کی تفصیلات ہیں) اگر تمام احکام وحی سے ثابت ہوں اور آپ کے اجتہاد سے کوئی حکم ثابت نہ ہو تو پھر بعض احکام آپ کی سنت کس طرح قرار پائیں گے؟ (المحصول ج ٤ ص ١٣٦٦، موصحاً و مخرجاً ، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد میں فقہاء احناف کا نظریہ
علامہ ابن امیر الحاج المتوفی ٨٧٩ ھ، علامہ ابن ھمام حنفی المتوفی ٨٦١ ھ کی ”التحریر“ کی شرح میں لکھتے ہیں :
متأخرین فقہاء احناف کا مختار مذہب یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی پیش آمدہ مسئلہ میں پہلے وحی نازل ہونے کا انتظار کریں اور جب انتظار کی مدت ختم ہوجائے اور وحی نازل نہ ہو تو پھر آپ اس میں اجتہاد کریں اور آپ اجتہاد سے جو حکم دیں گے وہ وحی کی طرح قطعی ہوگا۔ اس کے بر خلاف دوسرے مجتہدین کے اجتہاء سے جو حکم ثابت ہو وہ ظنی ہوتا ہے کیونکہ ان کا اجتہاد خطاء کا احتمال رکھتا ہے اور آپ کا اجتہاد خطاء کا احتمال نہیں رکھتا اور اگر بالفرض اس میں خطاء ہو تو آپ کو اس پر برقرار نہیں رکھا جائے گا، بلکہ متنبہ کردیا جائے گا۔ ( التفریر والخیرج ٣ ص ٣٩٢، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
عَلَّمَهٗ شَدِيْدُ الْقُوٰى
تمام مفسرین کی تصریح کے مطابق اس سے مراد حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) ہیں۔ حضرت جبرائیل امین کی شدت اور قوت کا یہ علم تھا کہ انھوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیوں کو اپنے اپک پر کے اوپر اٹھا لیا پھر ان بستیوں کو اٹھا کر آسمان تک لے گئے، حتیٰ کہ آسمان والوں نے مرغوں کی بانگ اور کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنیں، پھر ان تمام بستیوں کو پلٹ کر زمین پر پھینک دیا اور ان کی شدت کی یہ کیفیت تھی کہ انھوں نے دیکھا کہ ابلیس، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ارض مقدسہ کی کسی گھاٹی میں کلام کر رہا ہے انھوں نے اپنے پر سے پھونک مار کر سر زمین ہند کے دور دراز پہاڑ پر پھینک دیا، اور ان کی شدت کا یہ عالم تھا کہ قوم ثمود جو بہت جسیم اور بہت طاقتور تھی ان کی ایک چیخ سے وہ ہلاک ہوگئی اور یہ ان کی قوت تھی کہ وہ آسمان سے انبیاء (علیہم السلام) پر نازل ہوتے اور پلک جھپکنے سے پہلے واپس آسمان پر پہنچ جاتے اور ان کی عقل کی عظمت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو تمام انبیاء (علیہم السلام) کی وحی پر امین بنایا۔ ( الجامع الاحکام القرآن جز ١٧ ص ٨٠۔ ٧٩)
ذُوْ مِرَّةٍ ۭ فَاسْتَوٰى
ربیع بن انس، فزاء، سعید بن مسیب اور سعید بن جبیر نے یہ کہا ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک علم پہنچانے کے بعد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آسمان کے بلند مقام پر پہنچے اور پھر اپنی صورت میں قائم ہوگئے جس صورت میں اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا تھا۔
حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو ان کی اصل صورت میں صرف دوباردیکھا ہے، اس مرتبہ اس وقت جب آپ نے ان سے ان کی اصل صورت میں دیکھنے کا سوال کیا تو انھوں نے آسمان کے کنارے کو بھر لیا اور دوسری بار اس وقت جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ آسمان پر چڑھے اس وقت وہ افق اعلیٰ پر تھے۔ ( المعجم الکبیر رقم الدیث : ١٠٥٤٧، مسند احمد ج ١ ص ٤٠٧، کتاب العظمۃ ج ٢ ص ٧٩١)
وَهُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰى
علامہ علی بن حبیب ماوردی متوفی ٤٥٠ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
اس آیت کی تفسیر میں دو قول ہیں :
(١) سدی نے کہا : اس سے مراد یہ ہے کہ حضرت جبرائیل نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آسمان کے سب سے اونچے کنارے پر دیکھا۔
(٢) عکرمہ نے کہا : اس کا معنی یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو آسمان کے سب سے اونچے کنارے پر دیکھا۔
اور ” افق اعلیٰ “ کی تفسیر میں تین قول ہیں : (١) مجاہد نے کہا کہ اس سے مراد آفتاب کے طلوع ہونے کی جگہ ہے (٢) قتادہ نے کہا : اس سے مراد صبح کے طلوع ہونے کی جگہ ہے (٣) ابن زید نے کہا : اس سے مراد آسمان کے کناروں میں سے کوئی ایک کنارہ ہے۔ (النکت والعیون ج ٣٩٢٥، دارلکتب العلمیہ، بیروت )
ابو وائل بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرائیل کو اصل صورت میں دیکھا اور ان کے چھ سو پر تھے، ہر پر نے افق کو بھر لیا تھا اور ان سے موتی، یاقوت اور جواہر جھڑ رہے تھے (مسند احمد ج ١ ص ٣٩٥، تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٢٧٣، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى
” دنا فتدلی “ کی ضمیروں کے مرجع کے مفسرین کے اقوال
اس آیت میں ”دنا“ اور ” فتدلی “ کے الفاظ ہیں ” دنا “ کے معنی ہیں : قریب ہوئے اور ” فتدلیٰ “ کے متعلق ابن قتیبہ نے کہا ہے : اس کا معنی بھی ہے قریب ہوئے، کیونکہ ” تدلی “ قرب کے لیے وضع کیا گیا ہے اور الزجاج نے کہا : ” دنا “ کا معنی ہے : قریب ہوئے اور ” فتدلیٰ “ کا معنی ہے : پس زیادہ قریب ہوئے اور دوسرے ائمہ نے کہا : ” تدلی “ کا اصل معنی ہے : کسی چیز کے قریب نازل ہونا، پس اس کو قرب کے لیے وضع کیا گیا ہے۔
” دنا “ اور ” فتدلی “ کی ضمیروں میں اختلاف ہے کہ کون کس کے قریب ہوا ؟ علامہ ابن جوزی متوفی ٥٩٧ ھ لکھتے ہیں :
مقاتل نے کہا : رب العزت عزوجل شب معراج سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب ہوا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ سے دو کمانوں کی مقدار قریب ہوگئے، پھر زیادہ قریب ہوئے۔
حضرت ابن عباس (رض) اور قرظی نے کہا : سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب عزوجل کے قریب ہوئے۔
حسن بصری اور قتادہ نے کہا : حضرت جبرائیل جب زمین سے افق اعلیٰ پر مستوی ہوگئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف نازل ہوئے۔
مجاہد نے کہا : حضرت جبرائیل اپنے رب عزوجل کے قریب ہوئے، پس وہ دو کمانوں کے قریب بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ہوئے۔
علامہ ابن جوزی نے کہا : ان اقوال میں قول مختار مقاتل کا ہے کیونکہ اس کی تائید میں ” صحیح بخاری “ اور ” صحیح مسلم “ کی حدیث ہے۔ ( زاد المسیر ج ٨ ص ٦٦۔ ٦٥، مکتب اسلامی، بیروت، ١٤٠٧ ھ)
علامہ ابن جوزی نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے :
ودنا الجبار رب العزۃ فتدلی حتی کان منہ قاب قوسین او ادنی. اور جبار رب العزت آپ کے قریب ہوا حتی کہ وہ آپ سے دو کمانوں کی مقدار قریب، بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوا۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٥١٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٢ )
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ عزوجل کے قریب ہونے کے محمل کے متعلق محدثین اور مفسرین کی تصریحات
حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی متوفی ٨٥٢ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
علماء نے اس حدیث سے اشکال کو زائل کیا ہے، قاضی عیاض نے ” الشفاء “ میں لکھا ہے کہ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی طرف جو قریب ہونے کی اضافت کی گئی ہے اس سے زمان اور مکان اور جگہ کا قرب مراد نہیں ہے اس سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عظیم مرتبہ اور آپ کے شرف والے درجہ کو ظاہر کرنا مراد ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خود سے مانوس کرنا اور آپ کا اکرام کرنا مراد ہے، اور اس کی وہی تاویل کی جائے گی جو درج ذیل احادیث میں کی گئی ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے یعنی اترتا ہے، جب تہائی رات باقی رہ جاتی ہے اور فرماتا ہے : کون مجھ سے دعا کرتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں اور کون مجھ سے سوال کرتا ہے کہ میں اس کو عطاء کروں اور کون مجھ سے استغفار کرتا ہے کہ میں اس کی مغفرت کر دوں ؟ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٥٨، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ١٣١٤، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٤٩٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٦٦، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٧٧٦٨ )
علامہ ابو الحسن علی بن خلف المعروف بابن بطال مالکی متوفی ٥٤٩ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
اہل بدعت نے اس حدیث پر یہ اعتراض کیا ہے کہ نازل ہونا اور اترنا جسم ہونے کا تقاضا کرتا ہے سو اس حدیث سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا جسم ہو، اس کا جواب یہ ہے کہ اس قسم کی آیات تو قرآن مجید میں بھی ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَّجَآءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا (الفجر : ٢٢) آپ کا رب خود آجائے گا اور فرشتے صف بہ صف آجائیں گے۔
ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلآَّ اَنْ یَّاْتِیَہُمُ اللہ ُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ ( البقرہ : ٢١٠)
وہ صرف اس کا انتظار کر رہ ہیں کہ ان کے پاس اللہ خود ابر کے سائے بانوں میں آجائے اور اس کے فرشتے آجائیں۔
فَاَتَی اللہ ُ بُنْیَانَہُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ (النحل : ٢٦) پس اللہ ان عمارتوں کی بنیادوں پر آیا۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی طرف آنے کی نسبت ہے اور آنے اور اترنے دونوں میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے کہ آنا اور اترنا دونوں انتقال اور حرکت کا تقاضا کرتے ہیں جو جسم کے خواص میں سے ہے، پس ان آیات میں آنے کا وہی معنی کیا جائے گا جو اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے اور وہ ہے متوجہ ہونا، اس طرح جس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی طرف اترنے کی نسبت ہے، اس کا معنی بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ ( شرح صحیح البخاری لا بن بطلال ج ٣ ص ١٣٩۔ ١٣٧، ملخصاً ، مکتبہ الرشید، ریاض، ١٤٢٠ ھ)
اسی طرح یہ حدیث ہے:
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے : میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، اگر وہ میرا تنہائی میں ذکر کرے تو میں اس کا تنہائی میں ذکر کرتا ہوں اور اگر وہ میرا جماعت میں ذکر کرے تو میں جماعت میں اس کا ذکر کرتا ہوں اور جو میرے ایک بالشت قریب ہو تو اس کے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ میرے ایک ہاتھ قریب ہو تو میں اس کے چار ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور جو میرے پاس چلتا ہوا آئے تو میں اس کے پاس دوڑتا ہوا آتا ہوں۔ ( مسند احمد ج ٢ ص ٤١٣ طبع قدیم، مسند احمد ج ١٥ ص ٢٠٥۔ ٢٠٤۔ رقم الحدیث : ٩٣٥١، طبع مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢٠ ھ
نیز حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں :
کہ ” ثم دنا “ سے مراد قرب معنوی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ یہ ظاہر فرمائے کہ اس کے نزدیک اپنے نبی (علیہ السلام) کا کتنا عظیم مرتبہ ہے اور ” تدلی “ کا معنی زیادہ قرب کو طلب کرنا ہے اور ” قاب قوسین “ کا معنی ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لطیف محل عطاء کرنا اور اللہ تعالیٰ کی معرفت کی وضاحت کرنا، آپ کی دعا کو قبول کرنا اور آپ کے درجہ کو بلند کرنا۔ ( فتح الباری ج ١٥ ص ٤٥٦، ملخصاً و موضحاًو مخرجاً ، دارالفکر، بیروت، ١٤٢٠ ھ)
علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
اس حدیث میں جبار رب العزت کے قریب ہونے سے مراد قرب معنوی ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک جو آپ کا مرتبہ ہے اس کو ظاہر کرنا ہے، اور ” تدلیٰ “ کا معنی ہے : زیادہ قرب کو طلب کرنا اور ” قارب قوسین “ سے مراد آپ کی دعاؤں کو قبول کرنا اور آپ کے د رجہ کو بلند کرنا ہے۔ ( عمدۃ القاری ج ٢٥ ص ٢٥٩، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢١ ھ)
علامہ شہاب الدین احمد القسطلانی نے بھی اس حدیث کی یہی تاویل کی ہے اور الماوردی سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عباس نے ” ثم دنا “ کی تفسیر میں فرمایا کہ رب سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قریب ہوا اور ” فتدلی “ کی تفسیر میں فرمایا کہ آپ کی طرف اپنے احکام نازل کیے۔ ( النکت والعیون للماوردی ج ٥ ص ٣٩٣، دارالکتب العلمیہ، بیروت) ( ارشاد الساری ج ١٥ ص ٥٦٥، دارالفکر، بیروت، ١٤٢١ ھ)
قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی اندلسی متوفی ٥٤٤ ھ لکھتے ہیں :
حضرت انس (رض) سے ” صحیح بخاری “ میں یہ حدیث مروی ہے : الجبار رب العزت قریب ہوا، پس زیادہ قریب ہوا حتیٰ کہ آپ اللہ سے دو کمانوں کی مقدار بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ہوئے۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٥١٧)
محمد بن کعب سے روایت ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کے قریب ہوئے پس دو کمانوں کی مقدار ہوگئے۔
جعفر بن محمد نے کہا کہ آپ کو آپ کے رب نے خود سے قریب کیا حتیٰ کہ آپ اپنے رب سے دو کمانوں کی مقدار قریب ہوگئے۔
اور جعفر بن محمد نے کہا : اللہ کے قریب کی کوئی حد نہیں ہے اور بندوں کا قرب محدود ہے، نیز انھوں نے کہا : کیا تم نے دیکھا کہ حضرت جبرائیل اللہ کے قرب سے کیسے حجاب میں تھے اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے قریب ہوئے حتیٰ کہ آپ کے دل میں معرفت اور ایمان کو رکھا گیا، پھر آپ سکون قلب سے وہاں تک قریب ہوئے جہاں تک اللہ نے آپ کو قریب کیا اور آپ کے دل سے ہر قسم کا شک اور تردد زائل ہوگیا۔
قاضی عیاض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے یا آپ کو اپنی طرف قریب کرنے کا معنی اس طرح نہیں ہے جو جگہ اور مسافت کا قرب ہو بلکہ جیسا کہ ہم نے امام جعفر صادق سے نقل کیا ہے اللہ کے قرب کی کوئی حد ( تعریف) نہیں ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اللہ تعالیٰ سے قریب ہونے کا معنی یہ ہے کہ آپ کے عظیم مرتبہ، بلند درجہ، آپ کی معرفت کے انوار اور اللہ تعالیٰ کے غیب اور اس کی قدرت کے اسرار کے مشاہدہ کو ظاہر کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کے آپ سے قریب ہونے کا معنی یہ ہے کہ آپ کو مانوس کیا جائے اور آپ کا اکرام کیا جائے۔
اور آپ اللہ سے دو کمانوں کی مقدار بلکہ اس سے زیادہ قریب ہوئے، اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو انتہائی قرب اور لطیف محل عطاء کیا، آپ کو واضح معرفت عطاء کی اور محبت سے آپ کی دعاؤں کو قبول کیا اور آپ کے مطالبہ کو پورا کیا۔ ( الشفاء ج ١ ص ١٥٩۔ ١٥٨، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ سید محمد آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :
حسن بصری حلف اٹھا کر کہتے تھے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے اور اللہ تعالیٰ جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب ہوا، اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ سبحانہٗ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام اپنے نزدیک بلند کیا اور ” تدلیٰ “ کا معنی یہ ہے کہ اس نے آپ کو بالکلیہ جانب قدس میں جذب کرلیا اور اسی کو اللہ تعالیٰ کی ذات میں فنا ہونا کہتے ہیں۔
ہم نے جو ” دنا “ کی ضمیر اللہ کی طرف لوٹائی ہے یعنی اللہ آپ کے قریب ہوا، اس کی دلیل ” صحیح بخاری “ کی وہ حدیث ہے کہ جبار رب العزت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب ہا۔ ( روح المعانی جز ٢٧ ص ٨٠، ملخصاً ، دارالفکر، بیرو ت، ١٤١٧ ھ)
نیز علامہ آلوسی لکھتے ہیں :
معظم صوفیہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ سبحانہٗ جو آپ کے قریب ہوا یا آپ اس کے قریب ہوئے اس سے قرب کا وہ معنی مراد ہے جو اللہ تعالیٰ اور آپ کی شان کے لائق ہے۔ ( روح المعانی جز ٢٧ ص ٨٣، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى
” فکان قاب قوسین “ کا معنی اور قریب ہونے والے کے مصداق میں مفسرین کا اختلاف اور قول مختار کا تعین
اس آیت میں ہے : ”قاب قوسین“ ”قاب“ کا معنی ہے : مقدا اور ”قوسین“ : ”قوس“ کا تثنیہ ہے، ”قوس“ کا معنی ہے: کمان اور اس میں تین مضاف مخذوف ہیں اور اس کا معنی ہے : وہ دو کمانوں کی مقدار کی مسافت کی مثل قریب ہوگئے، یہ اس کا ظاہری معنی ہے اور اس سے مراد ہے : اللہ کا اپنے نبی کو انتہائی قرب عطاء کرنا ہے اور اس سے قرب مسافت مراد نہیں ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن جز ١٧ ص ٨٤۔ ٨٣، ملخصاً )
اور اس میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ کون کس کے قریب ہوا ؟ علامہ الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ نے لکھا ہے کہ اس مسئلہ میں تین اقوال ہیں :
(١) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : حضرت جبرائیل امین اللہ عزوجل کے قریب ہوئے۔
(٢) محمد بن کعب نے کہا : سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کے قریب ہوئے۔
(٣) حضرت جبرائیل امین سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب ہو۔ ( النکت والعیون ج ٥ ص ٣٩٣، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
امام فخر الدین رازی متوفی ٦٠٦ ھ، قاضی بیضاوی متوفی ٦٨٥ ھ اور علامہ اسماعیل حقی متوفی ٩١١ ھ کا مختار یہ ہے کہ حضرت جبرائیل سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب ہوئے ( یعنی ان کا مختار تیسرا قول ہے) ۔ ( تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٢٣٩، تفسیر بیضاوی مع الخفاجی ج ٩ ص ٧۔ ٦، روح البیان ج ٩ ص ٢٥٧ )
علامہ قرطبی مالکی متوفی ٦٦٨ ھ نے لکھا ہے :
سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب عزوجل کے یا حضرت جبرائیل امین کے قریب ہوئے ( ان کا مختار دوسرا قول ہے)
( الجامع الاحکام القرآن جز ١٧ ص ٨٣، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ نے بھی دوسرے قول کو اختیار کیا ہے اور لکھا ہے کہ حسن بصری کی روایت ہے کہ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے دو کمانوں کی مقدار قریب ہوگئے۔ ( روح المعانی جز ١٧ ص ٨٠، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
حافظ عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ، علامہ عینی متوفی ٨٥٥ ھ، علامہ قسطلانی متوفی ٩١١ ھ اور قاضی عیاض اور متوفی ٥٤٤ کا بھی یہی مختار ہے، جیسا کہ ان کی تصریحات گزر چکی ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ اکثر مفسرین اور محدثین کا مختار دوسرا قول ہے۔
امام رازی نے لکھا ہے کہ یہ آیت محاورہ عرب کے موافق ہے کیونکہ دوسردار جب ایک دوسرے سے معاہدہ کرلیتے ہیں تو وہ اپنی دونوں کمانوں کو ملاتے ہیں اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کے ہتھیار ایک ہیں، اگر کوئی ان پر حملہ کرے گا تو وہ دونوں اس کے خلاف ہتھیار اٹھائیں گے۔ ( تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٢٣٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰى
”فاوحیٰ الی عبدہ ما اوحی“ کی تفسیر میں مفسرین کے اقوال
علامہ عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزی المتوفی ٥٩٧ ھ لکھتے ہیں :
اس آیت کی تفسیر میں تین قول ہیں :
(١) شب معراج اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بالمشافہ اور بلا واسطہ وحی کی۔
(٢) حضرت ابن عباس نے فرمایا : حضرت جبرائیل نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف وہ وحی کی جو ان کی طرف اللہ نے وحی کی تھی۔
(٣) حضرت عائشہ (رض) ، حسن بصری اور قتادہ نے کہا : اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل کی طرف وحی کی جو بھی وحی کی۔ ( زاد المسیر ج ٨ ص ٦٧، مکتب اسلامی، بیروت، ١٤٠٧ ھ)
علامہ الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ نے مؤخر الذکر دو قول بیان کیے ہیں۔ ( النکت والعیون ج ٥ ص ٣٩٣)
امام رازی المتوفی ٦٠٦ ھ نے بھی مؤخر الذکر دو قول بیان کیے ہیں۔ ( تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٢٤١ )
قاضی بیضاوی متوفی ٦٨٥ ھ نے صرف دوسرا قول ذکر کیا ہے۔ ( تفسیر بیضاوی مع الخفا جی ج ٩ ص ٧ )
علامہ قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ نے تینوں قول ذکر کیے ہیں اور علامہ ابن جوزی کی طرح پہلے قول کو مقدم رکھا ہے۔ ( الجامع الاحکام القرآن جز ١٧ ص ٧٥)
علامہ اسماعیل حقی متوفی ١٣٧ ھ نے صرف دوسرا قول ذکر کیا ہے۔ ( روح البیان ج ٩ ص ٢٥٧ )
حافظ ابن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ نے لکھا ہے کہ حضرت جبرائیل نے آپ کی طرف وحی کی یا اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل کے واسطے سے آپ کی طرف وحی کی۔ ( تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٢٧٢)
علامہ ابو الحیان اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ نے پہلے دو قول ذکر کیے ہیں اور مقدم پہلے قول کو رکھا ہے۔ ( البحر المحیط ج ١٠ ص ١١)
علامہ الحسین بن مسعود بغوی متوفی ٥١٦ ھ نے بھی پہلے دو قول ذکر کیے ہیں اور مقدم پہلے قول کو رکھا ہے۔ (معالم التنزیل ج ٤ ص ٣٠٣)
علامہ ابن جریر متوفی ٣١٠ ھ نے بھی پہلے دو قول ذکر کیے ہیں اور مقدم پہلے قول کو رکھا ہے۔ ( جامع البیان جز ٢٧ ص ٦٣ )
ان اقوال میں ہمارا مختارپہلا قول ہے اور علامہ آلوسی کا بھی یہی مختار ہے، وہ لکھتے ہیں : علامہ طیبی نے کہا کہ اس آیت کو اس پر محمول کرنا کہ حضرت جبرائیل نے اللہ کے مقدس بندے پر وحی کی، اس سے ذوق سلیم انکار کرتا ہے کیونکہ یہ وحی بالواسطہ ہے اور دوسری وحی بلاواسطہ ہے جو تعظیم اور تکریم کی جہت سے ہے اور اس وحی سے آپ کو ایک مقام سے ترقی حاصل ہوگی۔
امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ جب اللہ کے حبیب، اللہ سے غایت قریب میں پہنچے تو آپ پر بہت زیادہ ہیبت طاری ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے ازالہ کے لیے آپ پر انتہائی لطف و کرم فرمایا اور وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے :
فَاَوْحٰٓی اِلٰی عَبْدِہٖ مَآ اَوْحٰی (النجم : ١٠) پھر اللہ نے اپنے مقدس بندے کی طرف وحی فرمائی جو بھی وحی فرمائی۔
گویا جو ہونا تھا وہ ہوا اور حبیب نے اپنے حبیب سے وہ کہا جو ایک حبیب دو سے حبیب سے کہتا ہے اور آپ سے وہ راز کی باتیں کیں جو راز ایک حبیب اپنے حبیب سے کہتا ہے پس دونوں نے اس راز کو مخفی رکھا اور ان کے راز و نیاز پر کوئی بھی مطلع نہیں ہوا۔ ( روح المعانی جز ٢٧ ص ٨٣، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى
شب معراج آپ نے اپنے رب کو سر کی آنکھوں سے دیکھا یا قلب سے ؟ اس مسئلہ میں متعدد اقوال اور قول مختار
علامہ ابو الحسن علی ابن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
اس آیت میں ” الفواد “ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے : دل اور دل کی تفسیر میں دو قول ہیں :
(١) دل سے مراد ہے، صاحب دل، دل والا اور جہنم کو دل سے اس لیے تعبیر فرمایا ہے کہ دل جسم کا قطب ہے اور اسی پر مدار حیات ہے۔
(٢) اس سے مراد تو دل ہے ( یعنی ذہن اور دماغ) کیونکہ وہی تمام افکار، نظریات اور معتقدات کا محل ہے۔
اور قلب کی تکذیب نہ کرنے کی تفسیر میں دو قول ہیں:
(١) آنکھوں نے جو کچھ دیکھادماغ نے اس کے خلاف وہم پیدا نہیں کیا، جیسا کہ انسان دور سے ریگستان میں دوپہر کو چمکتی ہوئی ریت کو دیکھتا ہے تو دماغ میں یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ یہ پانی ہے، حالانکہ وہ محض سراب ہے۔
(٢) آنکھوں نے جو کچھ دیکھا دماغ نے اس کا انکار نہیں کیا۔ اور آنکھوں نے جو کچھ دیکھا اس کی تفسیر میں پانچ قول ہیں :
(١) حضرت ابن عباس نے فرمایا : سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج کو بیداری میں اپنے رب کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا۔
(٢) سدی نے کہا : آپ نے خواب میں اپنے رب کو دیکھا جیسا کہ ’ ’ سنن ترمذی “ میں یہ حدیث ہے :
” نعست فاستقلت نوما قرأیت ربي في أحسن صورۃ. الحدیث “مجھے نیند آئی، پھر گہری نیند آگئی، پھر میں نے اپنے رب کو بہت حسین صورت میں دیکھا۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢٣٤۔ ٣٢٣٣، مسند احمد ج ١ ص ٣٦٨ )
(٣) محمد بن کعب نے کہا : ہم نے سوال کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! میں نے اپنے رب کو اپنے سر کی آنکھوں سے دو مرتبہ دیکھا ہے، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : ” ما کذاب الفواد ماری۔ “ ( النجم : ١١)
حضرت ابن عباض (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو اپنے دل سے دیکھا۔ ( جامع البیان جز ٢٧ ص ٦٥، دارالفکر، بیرو ت، ١٤١٥ ھ)
(٤) حسن بصری نے کہا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کے جلال کو دیکھا اور ابو العالیہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : میں نے دریا کو دیکھا اور میں نے دریا کو پار حجاب کو دیکھا اور میں نے حجاب کے پار نور کو دیکھا، میں نے اس کے سوا نہیں دیکھا۔
(٥) حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا : آپ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو ان کی اصل صورت میں دوباردیکھا۔
حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس حضرت جبرائیل کو دیکھا، ان کے چھ سو پر تھے اور ان کے پر سے جواہر، موتی اور یاقوت جھڑ رہے تھے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٥١٣٤، مسند احمد رقم الحدیث : ٣٧٤٨، الدار المنثور ج ٧ ص ٥٦٥ )
علامہ ابن الجوزی متوفی ٥٩٧ ھ نے اس کی تفسیر میں صرف پہلا اور پانچواں قول نقل کیا ہے۔ ( زاد المسیر ج ٨ ص ٦٨ )
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
آپ نے جو دیکھا اس کی تفسیر میں تین قول ہیں : (١) آپ نے اپنے رب کو دیکھا (٣) آپ نے حضرت جبرائیل کو دیکھا (٣) آپ نے اپنے رب کی نشانیاں دیکھیں۔
امام رازی اس آیت کی تفسیر کے آخر میں لکھتے ہیں :
پھر نصوص اس پروارد ہیں کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو اپنے دل سے دیکھا ہے، پس آپ کی بصر آپ کے دل میں رکھ دی گئی تھی یا آپ نے اپنے رب کو اپنی بصر سے دیکھا اور آپ کا دل آپ کی بصر میں رکھ دیا گیا تھا اور یہ کیوں نہیں ہوسکتا کیونکہ اہل سنت کا مذہب ہے کہ بندہ کا دیکھنا اللہ کے ارادہ سے ہوتا ہے، بندہ کی قدرت سے نہیں ہوتا، پس جب اللہ تعالیٰ بصر کے ذریعہ سے کسی چیز کا علم پیدا کرتا ہے تو اس کو رؤیت کہتے ہیں اور جب وہ کسی چیز کا علم دل کے ذریعہ سے پیدا کرتا ہے تو اس کو معرفت کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ کسی چیز کے علم کے لیے بصر میں مدرک پیدا کر دے جیسے وہ اس پر قادر ہے کہ کسی چیز کے علم کے لیے وہ قلب میں مدرک پیدا کر دے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو سر کی آنکھوں سے دیکھا تھا یا نہیں ؟ اس مسئلہ میں صحابہ کا اختلاف ہے اور ان کا اختلاف اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان کا اس پر اتفاق ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنے رب کو سر کی آنکھوں سے دیکھنا ممکن ہے۔ ( تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٢٤٢۔ ٢٤١، ملخصاً و موضحاً ، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی مالکی متوفی ٦٦٨ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے آپ کو بصر کو آپ کے قلب میں رکھ دیا، حتیٰ کہ آپ نے اپنے رب تعالیٰ کو دیکھ لیا اور اس کی رؤیت قرار دیا اور ایک قول یہ ہے کہ یہ رؤیت بصر سے حاصل ہوئی اور پہلا قول حضرت ابن عباس (رض) کا ہے اور ” صحیح مسلم “ میں ہے کہ آپ نے اپنے رب کو اپنے قلب سے دیکھا۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٥) اور حضرت ابوذر (رض) اور صحابہ کی ایک جماعت کا بھی یہی قول ہے اور دوسرا قول حضرت انس (رض) اور صحابہ کی ایک اور جماعت کا ہے۔
نیز حضرت ابن عباض (رض) فرماتے ہیں : کیا تم اس پر تعجب کرتے ہو کہ حضرت ابراہیم خلیل ہوں، حضرت موسیٰ کلیم ہوں اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کی رؤیت حاصل ہو ؟ اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : ہم بنو ہاشم یہ کہتے ہیں کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دو بار دیکھا ہے۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢٧٨)
حضرت ابو ذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا : کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ نور ہے میں نے اس کو جہاں سے بھی دیکھا، وہ نور ہی نور ہے۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٨)
اور دوسری روایت میں ہے : میں نے نور کو دیکھا۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٨) ( الجامع الاحکام القرآن جز ١٧ ص ٨٧۔ ٨٦، دارالفکر، بیروت، ٤١٥ ھ)
اس مسئلہ میں ہمارا مختار یہ ہے کہ آپ نے شب معراج اپنے رب کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا اور آپ کے دل نے آپ کی آنکھوں سے دیکھنے کی تکذیب نہیں کی بلکہ تصدیق کی۔
عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى
سدرۃ المنتہیٰ کی تعریف، اس کے متعلق احادیث اور اس کی وجہ تسمیہ میں اقوال
” سدرۃ “ بیری کا ایک درخت ہے اور اس کی جڑیں چھٹے آسمان میں ہیں اور اس کا تنا ساتویں آسمان میں ہے اور سدرۃ آسمان اور اس سے اوپر والوں کے درمیان برزخ ہے، نیچے سے جو چیزیں اوپڑ چڑھتی ہیں وہ سدرہ سے اوپر نہیں جا سکتیں، اوپر سے جو چیزیں نیچے اترتی ہیں وہ سدرہ سے نیچے نہیں جاسکتی اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شب معراج جاتے ہوئے سدرہ سے اوپر گئے اور واپسی میں سدرہ سے نیچے بھی آئے، اس سے معلوم ہوا کہ ہر مخلوق کی ایک حد ہے اور تمام مخلوق میں صرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسے ہیں جن کی کوئی حد نہیں ہے، آپ جب نیچے سے اوپر گئے تو نیچے والوں کی حد توڑدی اور جب اوپر سے نیچے آئے تو اوپر والوں کی حد توڑدی۔ علامہ بوصیری نے کہا :
فإن رسول الله لیس له حد فیعرب عنه ناطق بفسم. بےشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کمالات کی کوئی ایسی حد نہیں ہے جس کو کوئی بتانے والا اپنے منہ سے بتا سکے ( الزبدۃ العمدۃ ص ٥٩، جمعیت علماء، سکندریہ، سندھ، خیر پور)
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب مجھے اوپر کی طرف لے جایا گیا تو وہاں ساتویں آسمان پر سدرۃ المنتہیٰ تھی جس پر مقام ہجر کے مٹکوں کے برابر بیر تھے اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر تھے اور اس کے تنے سے دو ظاہری در یا نکل رہے تھے اور دو باطنی، میں نے جبرائیل سے پوچھا : یہ کیسے دریا ہیں ؟ انھوں نے کہا : وہ باطنی دریا تو جنت میں ہیں اور دو ظاہری دریا فرات اور دجلہ میں ہیں۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٤، سنن دارقطنی رقم الحدیث : ٢٩ )
حضرت اسماء بنت ابی بکر (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنےسدرۃ المنتہیٰ کا ذکر کیا گیا تو میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ سدرہ کی ایک شاخ کے سائے میں ایک سوار سو سال تک سفر کرتا رہے گا یا ایک سو سوار اس کے سائے میں ہوں گے ۔ امام ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن ہے۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٥٤١ )
علامہ ابو عبداللہ قرطبی نے کہا ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ کی وجہ تسمیہ میں نو اقوال ہیں :
(١) حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا : نیچے کی تمام چیزوں کی انتہاء اس درخت پر ہوتی ہے اور اوپر کی تمام چیزوں کی انتہاء بھی اس درخت پر ہوتی ہے۔
(٢) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : تمام نبیوں کے علوم کی انتہاء سدرہ پر ہوجاتی ہے اور اس کے پار کی چیزوں کا علم ان سے غائب ہے۔
(٣) ضحاک نے کہا کہ اعمال کے اوپر چڑھنے کی انتہاء سدرہ پر ہوتی ہے اور یہاں سے ان کو وصول کرلیا جاتا ہے۔
(٤) کعب نے کہا کہ ملائکہ اور عام انبیاء کی انتہاء سدرہ پر ہے۔
(٥) ربیع بن انس نے کہا کہ ارواح شہدا کی انتہاء سدرہ پر ہے
(٦) قتادہ نے کہا کہ ارواح مؤمنین کی انتہاء سدرہ پر ہے۔
(٧) حضرت علی (رض) نے فرمایا : سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت اور آپ کے منہاج کے موافق چلنے والے ہر شخص کی انتہاء سدرہ پر ہے۔
(٨) کعب کا دوسرا قول ہے کہ اس درخت کی بلند شاخوں کی انتہاء حاملین عرش کے سروں کے اوپر ہے اور وہیں مخلوق کے علوم کی انتہاء ہوتی ہے، جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے کہ اس درخت کی جڑیں چھٹے آسمان میں ہیں اور اس کا تنا ساتویں آسمان میں ہے۔
(٩) جو سدرہ تک پہنچ گیا وہ اپنے کمالات کی انتہاء تک پہنچ گیا۔ ( الجامع الاحکام القرآن جز ١٧ ص ٨٩، دارلفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰى
جنت الماویٰ کے متعلق اقوال
(١) حسن بصری نے کہا : یہ وہ جنت ہے جس میں متقین جائیں گے۔
(٢) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : یہ وہ جنت ہے جس میں ارواح شہداء ٹھہرتی ہیں۔
(٣) ایک قول یہ ہے کہ وہ جنت ہے جس میں حضرت آدم (علیہ السلام) ٹھہرے تھے حتیٰ کہ آپ وہاں سے زمین پر آئے اور یہ جنت ساتویں آسمان میں ہے۔
(٤) ایک قول یہ ہے کہ وہ جنت ہے جس میں تمام مؤمنین کی ارواح ٹھہرتی ہیں اور اس کو جنت الماویٰ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ ارواح مومنین کا مسکن ہے اور یہ عرش کے نیچے ہے، پس وہ روحیں جنت کی نعمتوں سے بہرہ اندوز ہوتی ہیں اور اس کی خوشبو سے شاد کام ہوتی ہیں۔
(٥) ایک قول یہ ہے کہ وہ جنت حضرت جبرائیل اور میکائل کا مسکن ہے۔ ( الجامع الاحکام القرآن جز ١٧ ص ٩٠)
اِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشٰى
سدرہ کو ڈھانپنے والی چیزوں میں متعدد اقوال
(١) حضرت ابن عباس، حضرت ابن مسعود (رض) ، ان کے اصحاب اور ضحاک نے کہا : وہ سونے سے بنے ہوئے پروانے ہیں، جیسا کہ ” صحیح مسلم “ میں حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سدرہ پر پہنچے تو اس کو سونے کے بنے ہوئے پروانوں نے ڈھانپ رکھا تھا، وہاں آپ کو تین چیزیں دی گئیں : آپ کو پانچ نمازیں دی گئیں، سورة بقرہ کی آخری آیات دی گئیں اور آپ کی امت میں سے ہر اس شخص کو بخش دیا گیا جس نے شرک نہیں کیا۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٣)
(٢) حسن بصری نے کہا : سدرہ کو رب العٰلمین کے نور نے ڈھانپاپس وہ روشن ہوگئی۔ ( تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٢٧٧)
(٣) القشیری نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ کس چیز نے سدرہ کو ڈھانپ لیا ؟ آپ نے فرمایا : سونے کے پروانوں نے، یعنی سونے کی دھات سے بنے ہوئے پر اونوں نے، بیہقی کی ایک روایت میں ہے کہ سدرہ کو اللہ کے نور نے ڈھانپ لیا حتیٰ کہ اب کوئی اس کی طرف دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ (الجامع الاحکام القرآن جز ١٧ ص ٩٠)
(٤) ربیع بن انس نے کہا : سدرہ کو رب العٰلمین کے نور نے ڈھانپ لیا اور اس پر فرشتے ہیں جیسے پرندے درخت پر ہوتے ہیں اور ابن زید نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے دیکھا کہ سدرہ کو سونے سے بنے ہوئے پروانوں نے ڈھانپ رکھا ہے اور میں نے دیکھا کے ہر پتے پر ایک فرشتہ کھڑا ہوا اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اذا یغشی السدرۃ ما یغشی۔ “ ( تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٢٧٨)
(٥) مجاہد نے کہا کہ اس سے مراد سبز رنگ کا تخت ہے، ان سے دوسری روایت ہے کہ رفرف کو سبز پرندوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔
(٦) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ سدرہ اللہ تعالیٰ کے امر نے ڈھانپ رکھا ہے۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٩٢)
اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے امر کی تعظیم ہے گویا اللہ تعالیٰ کے ملکوت کے دلائل نے سدرہ کو ڈھانپ رکھا ہے، اگر یہ سوال کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے امر کے لیے سدرہ کو کیوں خاص کیا گیا، کسی اور درخت کو کیوں نہیں اختیار کیا گیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سدرہ میں تین اوصاف ہیں : (١) اس کا سایہ بہت لمبا ہے (٢) اس کا ذائقہ بہت لذیذ ہے (٣) اس کی خوشبو بہت نفیس ہے، پس یہ ایمان کے مشابہ ہے جو قول، عمل اور نیت کا جامع ہے، اس کا سایہ بہ منزلہ ایمان لانے کے بعد اعمال صالحہ ہیں، اس کا سایہ ایمان لانے کے بعد اعمال صالحہ کی نیت ہے اور اس کی خوشبو ایمان لانے کے بعد اس کا قول اور اظہار ہے۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٣٩٦)
امام ابو داؤد نے حضرت عبداللہ بن حبشی (رض) سے روایت کیا ہے کہ جس شخص نے بیری کے درخت کو کاٹ ڈالا، اللہ تعالیٰ اس کے سر کو جہنم میں نیچے کر دے گا۔ ( سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٥٤٣٩)
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى
”مازاغ البصر“ کا معنی ہے : آپ کی نظر منحرف نہیں ہوئی، ابن بحر نے کہا : آپ کی نظرکم نہیں ہوئی، ” وما طغٰی “ کا معنی ہے : آپ کی نظر حق سے متجاوز نہیں ہوئی، آپ کی نظر حد سے بڑھی نہیں، یعنی آپ کی نظر ادراک کرنے سے عاجز نہیں ہوئی اور نہ اس کی تخیل سے واقع کے خلاف زیادہ وہم کیا۔ ( النکت والعیون ج ٥ ص ٣٩٧)
یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر دائیں بائیں نہیں ہوئی اور نہ زیادہ ہوئی اور نہ متجاوز ہوئی۔ ( زاد المسیر ج ٨ ص ٧١۔ ٧٠)
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ نے فرمایا :
ظہور نور کے وقت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر ادھر ادھر ہٹی، نہ نور سے متجاوز ہوئی، اس کے بر خلاف جب کوئی شخص سورج کو دیکھتا ہے تو اس کی نظر بےاختیار ادھر ادھر ہوجاتی ہے اور آپ نے اتنے عظیم نور کو دیکھا اور آپ کی نظر ادھر ادھر نہیں ہوئی۔ ( تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٢٤٦، داراحیاء التراث العربی، ١٤١٥ ھ)
علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر جنت اور اس کی زیب وزینت کی طرف مڑی اور نہ دوزخ اور اس کے ہول ناک عذاب کی طرف گئی، بلکہ آپ صرف اللہ عزوجل کی ذات کو دیکھنے میں محو اور مستحق رہے۔
سہل بن عبداللہ تستری نے کہا : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر شب معراج اپنی ذات میں الوہیت کے دلائل کی طرف متوجہ ہوئی نہ اس رات کی عظیم نشانیوں کی طرف ملتفت ہوئی، بلکہ آپ صرف اپنے رب کی ذات کا مشاہدہ کرتے رہے اور اپنے رب کی صفات کا مطالعہ کرتے رہے۔ ( روح المعانی جز ٢٧ ص ٨٣، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
علامہ اسماعیل حقی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :
اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو بیداری میں سر کی آنکھوں سے دیکھا تھا کیونکہ اگر آپ نے اپنے رب کو اپنے قلب سے دیکھا ہوتا تو اللہ تعالیٰ یوں فرماتا
ما زاغ قلب محمد وما طغی محمد کا قلب نہ بہکانہ کج ہوا۔
اس کے بر خلاف اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آپ کی بصر نہ بہکی اور نہ کج ہوئی اور بصر سر کی آنکھ کو کہتے ہیں، اس سے واضح ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیداری میں اپنے سر کی آنکھ سے اپنے رب کو دیکھا۔
البقلی (رح) نے کہا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج اپنے رب کو دوبارہ دیکھا ہے اور یہ دوسری بار دیکھنے کا ماجرا ہے کیونکہ جب آپ نے پہلی بار اپنے رب کو دیکھا تو وہاں اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا اور کچھ نہ تھا اس لیے وہاں یہ نہیں فرمایا کہ ” ما زاع البصر و ما طغی۔ “ (النجم : ١٧) آپ کی بصر ادھر متوجہ ہوئی اور نہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو دیکھنے سے متجاوز ہوئی بلکہ اسی کی ذات کو دیکھنے میں محو اور مستغرق رہی اور جب آپ نے دوسری بار واپسی کے بعد اللہ تعالیٰ کو دیکھا تو آپ کے سامنے جنت، دوزخ اور دیگر عجیب و غریب نشانیاں بھی تھیں لیکن آپ اور کسی طرف متوجہ نہیں ہوئے بلکہ صرف اسی کی ذات کو ٹکٹکی باندھ کر لگاتار دیکھتے رہے۔ ( روح المعانی ج ٩ ص ٢٦٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٠ ھ)
لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى
جن نشانیوں کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج دیکھا
اپنے رب کی نشانیوں کے متعلق حسب ذیل اقوال ہیں :
(١) حضرت ابن مسعود نے کہا : آپ نے دیکھا کہ سونے سے بنے ہوئے پروانوں نے سدرہ کو ڈھانپ لیا تھا۔
(٢) حضرت ابن مسعود کا دوسرا قول ہے کہ آپ نے حضرت جبرائیل کو ان کی اصل صورت میں دیکھا کہ انھوں نے اپنے پروں سے افق کو گھیر لیا تھا۔ ( النکت والعیون ج ٥ ص ٣٩٧)
(٣) حضرت ابن مسعود (رض) کا تیسرا قول ہے کہ آپ نے جنت کے رفرف ( سبز رنگ کے تخت) کو دیکھا۔ ( زاد المسیرج ٨ ص ٧١)
علامہ اسماعیل بن محمد حنفی قونوی متوفی ١١٩٥ ھ لکھتے ہیں :
آپ نے شب معراج ان علامات اور دلائل کو دیکھا جو اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت اور اس کی دوسری بلند صفات پر دلالت کرتی ہیں اور جن کو دیکھ کر دیکھنے والا متعجب ہوتا ہے، یعنی عالم ملک اور شہادت اور عالم الغیب اور جبروت۔ ( حاشیۃ القونوی علی البیضاوی ج ١٨ ص ٢٨١، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢٢ ھ)
امام رازی کے استدلال پر علامہ اسماعیل حقی کا تبصرہ
علامہ اسماعیل حقی حنفی متوفی ١١٣٧ ھ فرماتے ہیں :
فقیر یہ کہتا ہے کہ ان نشانیوں کو دیکھنا اللہ تعالیٰ کے دیکھنے پر مشتمل ہے جیسا کہ شیخ کبیر (رض) نے ” الفلوک “ میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنا صرف اس وقت مشکل ہے جب اللہ تعالیٰ کی ذات کو اس کے مظاہر اور اضافات سے صرف نظر کر کے دیکھا جائے لیکن مظاہر میں اور حجابات مراتب میں اس کو دیکھنا ممکن ہے، جیسے آفتاب کو بالمشافہ دیکھنا مشکل ہے لیکن اس کو رقیق بادل کی اوٹ سے دیکھنا ممکن اور آسان ہے ( ان کی عبارت ختم ہوئی)
علامہ اسماعیل حنفی فرماتے ہیں : رہا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو دکھانا، اللہ تعالیٰ کو دکھانے پر مشتمل ہے، سو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ آیات ملکوتیہ آیات ملکیہ پر فائق ہیں ( یعنی اس کی صفات فرشتوں سے بلند ہیں) اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ تمام مشاہد دکھائے تاکہ تمام مراتب اور مشاہد میں مکمل ہوجائے اور یہ محال ہے کہ ایک کریم دوسرے کریم کو دعوت دے اور ایک حبیب دوسرے حبیب کو اپنے محل میں بلائے اور خود اپنے حبیب سے چھپ جائے اور اس کو اپنا چہرہ نہ دکھائے۔ ( روح البیان ج ٩ ص ٢٧٢، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٠ ھ)
وه احادیث جن میں یہ تصریح ہے کہ شب معراج ميں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو سر کی آنکھوں سے دیکھا
عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا ہے، میں نے کہا : کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا : لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُز وَہُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَج (الانعام : ١٠٣) آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں اور وہ آنکھوں کو دیکھتا ہے۔
حضرت ابن عباس نے فرمایا : یہ اس وقت ہوگا جب وہ اپنے اس نور سے تجلی فرمائے گا جو اس کا خاض نور ہے ( یعنی متناہی نور) آپ نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ہے ( ایک بار رب کے پاس جاتے ہوئے اور ایک بار آتے ہوئے) ۔( سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢٧٩، مسند احمد ج ١ ص ٢٢٣، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١١٦١٩)
طبرانی کی روایت میں یہ الفاظ ہیں : یہ اس وقت ہوگا جب وہ اس کیفیت کے ساتھ تجلی فرمائے گا جس کے سامنے کوئی بصر قائم نہیں رہ سکتی۔ ( المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١١٦١٩)
عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کی طرف نظر سے دیکھا۔ عکرمہ کہتے ہیں : میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہا : آیا سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو نظر سے دیکھا ؟ انھوں نے کہا : ہاں !ٖاللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خلیل ہونے کے ساتھ خاص کیا اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نظر سے دیکھنے کے ساتھ خاص کیا۔ ( المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٩٣٩٤، مکتبہ المعارف، ریاض، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٩٣٩٦، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
اس کی سند میں حفص بن عمر میمون ضعیف راوی ہے، لیکن فضائل اور مناقب میں ضعیف الاسانید روایات معتبر ہوتی ہیں خصوصاً اس صورت میں کہ اس حدیث کی تائید میں قرآن مجید کی آیات اور ” صحیح مسلم “ اور ” سنن ترمذی “ کی احادیث ہیں :
حضرت ابو ذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا : کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ نور ہے جس نے اس کو جہاں سے بھی دیکھا وہ نور ہی نور ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٨، الرقم المسلسل : ٢٩١، سنن ترمذی رقم الحدیث، ٣٢٨٢)
عبداللہ بن شقیق بان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ذر (رض) سے کہا : اگر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کی ہوتی تو میں آپ سے ضرور سوال کرتا، حضرت ابو ذر نے کہا : تم کس چیز کے متعلق کرتے ؟ انھوں نے کہا : میں آپ سے یہ سوال کرتا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ حضرت ابو ذر نے کہا : میں نے آپ سے یہ سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا : میں نے نور کو دیکھا۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٨، الرقم المسلسل : ٢٩٢)
امام ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
امام طبرانی اور امام ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دوبارہ دیکھا ہے ایک مرتبہ آنکھوں سے اور ایک مرتبہ دل ہے۔ (الدر المنثور ج ٧ ص ٥٦٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢ ھ)
شبِ معراج ميں رویت باری تعالى ميں صحابہ كا اختلاف
صحابہ کرام کا اس میں اختلاف رہا ہے کہ آیاشب معراج رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جاگتے میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ؟ حضرت ابن عباس (رض) اور ان کے موافقین صحابہ کا مؤقف ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے اور حضرت عائشہ (رض) ، حضرت ابن مسعود اور ان کے موافقین کا مذہب یہ ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا، البتہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ان سب کے نزدیک جائز ہے اور معتزلہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا مطلقاً انکار کرتے ہیں۔ ہم پہلے معتزلہ کے دلائل ذکر کر کے ان کا رد کریں گے، پھر ام المؤمنین حضرت عائشہ (رض) کے دلائل کا جواب ذکر کریں گے :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے، وہ نہایت باریک بین اور بہت با خبر ہے۔ (الانعام : ١٠٣)
رویت باری کے متعلق فقہاء اسلام کے نظریات
تقریباً ہر دور کے علماء اسلام کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رؤیت ( اس کا دکھائی دینا) دنیا اور آخرت میں ممکن ہے یا نہیں ؟ بعض علماء نے اس کا انکار کیا اور جمہور علماء اسلام کا مؤقف یہ ہے کہ دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رؤیت ممکن ہے اور دنیا میں یہ رؤیت صرف سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے معراج کی شب واقع ہوئی اور آخرت میں تمام انبیاء (علیہم السلام) اور مؤمنین کے لیے رؤیت واقع ہوگی، میدان محشر میں بھی اور جنت میں بھی۔
منکرین رؤیت کے دلائل اور ان کے جوابات
معتزلہ اور دیگر منکرین رؤیت کی ایک دلیل یہ ہے کہ جو چیزدکھائی دے، وہ دیکھنے والے کی مقابل جانب میں ہوتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ دے تو اس کے لیے ایک جانب اور جہت کا ہونا لازم آئے گا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پھر تمہیں چاہیے کہ تم اللہ تعالیٰ کے دیکھنے کا بھی انکار کردو، کیونکہ دیکھنے والا بھی دکھائی دینے والی چیز کی جانب مخالف میں ہوتا ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ دیکھنے اور دکھائی دینے کا یہ قاعدہ ممکنات اور مخلوقات کے اعتبار سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کے دیکھنے کے لیے جانب اور مقابلہ کی شرط ہے، نہ دکھائی دینے کے لیے۔
منکرین رؤیت کی دوسری دلیل یہ آیت ہے جس کا معنی وہ یہ کرتے ہیں کہ آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں سلب عموم اور نفی شمول ہے عموم السلب اور شمول النفی نہیں ہے۔ یعنی ہر ہر آنکھ کے دیکھنے کی نفی نہیں ہے، نہ ہر ہر زمانہ میں دیکھنے کی نفی ہے، نہ ہر ہر مواقع پر دیکھنے کی نفی ہے، بلکہ بعض زمانہ میں بعض مواقع پر بعض لوگوں کے دیکھنے کی نفی ہے، سو دنیا میں دیکھنے کی نفی ہے اور آخرت کے بعض مواقع میں جب اللہ تعالیٰ غضب اور جلال میں ہوگا، اس وقت اس کو دیکھنے کی نفی ہے اور کفار اور منافقین کے دیکھنے کی نفی ہے۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج میں جو اللہ تعالیٰ کو دیکھا اور محشر میں اور جنت میں دیگر انبیاء (علیہم السلام) اور جملہ مؤمنین کے دیکھنے کی نفی نہیں ہے۔
منکرین رؤیت کی تیسری دلیل یہ ہے کہ جن بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا مطالبہ کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کے اس مطالبہ کو بہ طور مذمت نقل کیا ہے اور اس مطالبہ پر عذاب نازل کیا: وَاِذْ قُلْتُمْ یٰـمُوْسٰی لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللہ جَہْرَۃً فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ ۔ (البقرہ : ٥٥) اور جب تم نے کہا : اے موسیٰ ! ہم آپ پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے، حتیٰ کہ ہم اللہ کو کھلم کھلا دیکھ لیں تو تم کو ( بجلی کی) کڑک نے پکڑ لیا اور تم ( اس منظر کو) دیکھ رہے تھے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ان پر عذاب نازل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے اور ان کی باتوں پر یقین کرنے کو از راہ عناد اور سرکشی اللہ تعالیٰ کے دیکھنے پر معلق کردیا تھا، اس وجہ سے نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور شوق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو دیکھنا چاہتے تھے۔
منکرین رؤیت کی چوتھی دلیل یہ حدیث ہے : امام مسلم بن حجاج قشیری متوفی ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں :
مسروق بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ صدیقہ ام المؤمنین (رض) کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : اے ابو عائشہ (رض) ! جس شخص نے تین باتوں میں سے ایک بات بھی کہی، اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔ میں نے پوچھا : وہ کون سی باتیں ہیں ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : جس شخص نے یہ زعم کیا کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے، اس نے اللہ پر بہت جھوٹ باندھا۔ مسروق نے کہا : میں ٹیک لگائے ہوئے تھا، میں سنبھل کر بیٹھ گیا۔ میں نے کہا : اے ام المؤمنین ! مجھے مہلت دیں اور جلدی نہ کریں، کیا اللہ عزوجل نے یہ نہیں فرمایا :
ولقدراہ بالافق المبین ( التکویر : ٢٣) اور بیشک انھوں نے اسے روشن کنارے پر دیکھا۔
ولقد راہ نزلۃ اخری ( النجم : ١٣) اور بیشک انھوں نے اسے دوسری بار ضرور دیکھا۔
حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : میں اس امت میں وہ سب سے پہلی خاتون ہوں جس نے ان آیتوں کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تھا، آپ نے فرمایا : اس سے مراد حضرت جبرائیل ہیں، حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو جس صورت پر پیدا کیا گیا، میں نے اس صورت پر ان کو صرف دوباردیکھا ہے۔ میں نے ان کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا، ان کی عظیم خلقت نے آسمان سے زمین تک جگہ کو بھر لیا تھا۔ حضرت عائشہ (رض) نے ( مسروق سے) فرمایا : کیا تم نے قرآن مجید کی یہ آیتیں نہیں سنیں :
لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُز وَہُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ (الانعام : ١٠٣) آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں اور وہ آنکھوں کو دیکھتا ہے۔
وَمَاکَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللہ ُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَآئُ ط (الشوریٰ ٥١ ) اور کسی بشر کے لائق نہیں کہ وہ اللہ سے کلام کرے، مگر وحی سے یا پردے کے پیچھے سے یا وہ کوئی فرشتہ بھیج دے جو اس کے حکم سے جو کچھ اللہ چاہے، پہنچا دے۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٥٥۔ ٤٦١٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٣٢، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٠٦٨، مسند احمد رقم الحدیث : ٢٦٠٩٩، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ١١١٤٧ )
اس حدیث کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام (رض) کا اس مسئلہ میں اختلاف تھا، جیسا کہ ہم انشاء اللہ عنقریب بیان کریں گے۔ حضرت عائشہ (رض) اس بات کی قائل نہیں تھیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے، لیکن وہ آخرت میں رؤیت باری کا انکار نہیں کرتی تھیں۔ حضرت ابن عباس (رض) شب معراج میں اللہ تعالیٰ کے دیدار کے قائل تھے اور جمہور علماء اسلام ان کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ (رض) نے سورة الانعام کی جس زیر بحث آیت سے استدلال کیا ہے، اس کا جواب ہم دے چکے ہیں کہ اس کا معنی یہ ہے کہ آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں، نہ یہ کہ آنکھیں اس کا مطلقاً ادراک نہیں کرسکتیں۔
اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کے متعلق قرآن مجید کی آیات
وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ۔ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ (القیامہ : ٢٢۔ ٢٣ ) کتنے ہی چہرے اس دن تر و تازہ ہوں گے ۔ اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے ۔
اس آیت میں آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کی تصریح ہے: کَلَّآ اِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ ۔ (المطففین : ١٥) بےشک وہ اس دن اپنے رب کے دیدار سے ضرور محروم ہوں گے ۔
اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ قیامت کے دن اپنے رب کے دیدار سے محروم ہوں گے اور یہ چیز ان کے لیے اسی وقت باعث حرمان ویاس ہوگی جب مسلمان اس دن اپنے رب کا دیدار کر رہے ہوں، کیونکہ اگر ان کو بھی اللہ تعالیٰ کا دیدار حاصل نہ ہو اور نہ کافروں کو، تو پھر یہ چیز ان کے لیے باعث افسوس نہیں ہوگی۔
لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ ز (الانعام : ١٠٣) آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں۔
یہ آیت اللہ تعالیٰ کی مدح میں ہے اور یہ آیت اللہ تعالیٰ کی مدح میں اسی وقت ہوسکتی ہے جب اللہ تعالیٰ کا دکھائی دینا ممکن ہو، کیونکہ اسی چیز کی نفی وجہ کمال ہوتی ہے جس کا ثبوت ممکن ہو، مثلاً ہوا، خوشبو اور آواز کا دکھائی دینا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے ان کی مدح اور تعریف میں یہ نہیں کہا جاتا کہ ہوا، خوشبو اور آواز کو آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں، تو اس آیت میں جو یہ فرمایا ہے کہ آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں، یہ اللہ تعالیٰ کی مدح اور تعریف اسی وقت ہوگی جب اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ممکن ہو۔ سو یہ آیت بھی اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کی دلیل ہے :
قال رب أرني أنظر إلیک (الاعراف : ١٤٣) موسیٰ نے عرض کیا : اے میرے رب ! مجھے اپنی ذات دکھا میں تجھے دیکھوں۔
اگر دنیا میں اللہ تعالیٰ کا دکھائی دینا ممکن نہ ہوتا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ سوال نہ کرتے۔
وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ (حم السجدہ : ٣١) اور تمہارے لیے اس جنت میں ہر وہ چیز ہے جس کو تمہارا دل چاہے اور تمہارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جس کو تم طلب کروگے۔
نیک اور صاف دل لوگ جنت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار طلب کریں گے اور اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ جنت میں ان کی ہر خواہش پوری فرمائے گا، سو یہ آیت جنت میں اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کی دلیل ہے۔
آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کے متعلق احادیث
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت جریر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اچانک آپ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا۔ آپ نے فرمایا : تم عنقریب اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہ ہو۔ تمہیں اس کو دیکھنے سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی، پس اگر تم یہ کرسکتے ہو کہ طلوع آفتاب سے پہلے نماز پڑھنے سے مغلوب نہ ہو اور غروب آفتاب سے پہلے نماز پڑھنے سے مغلوب نہ ہو تو اس طرح کرو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٤٣٦۔ ٥٥٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٠٧، سنن ابو داؤدب رقم الحدیث : ٤٧٢٩، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٦٠، سنن کبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٤٦٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٧٧ مسند احمد رقم الحدیث : ١٩٢ طبع جدید، مسند احمد ج ٢ ص ٣ طبع قدیم)
امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ (یونس : ٢٦ ) جن لوگوں نے نیک کام کیے ان کے لیے اچھی جزاء ہے اور اس سے بھی زیادہ۔
آپ نے فرمایا : جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے تو ایک منادی نداء کرے گا کہ اللہ کے پاس تمہارا ایک وعدہ ہے، وہ کہیں گے : کیا اللہ تعالیٰ نے ہمارے چہرے سفید نہیں کیے اور ہم کو دوزخ سے نجات نہیں دی اور ہم کو جنت میں داخل نہیں کیا ؟ وہ کہیں گے : کیوں نہیں ! آپ نے فرمایا : پھر حجاب کھول دیا جائے گا، آپ نے فرمایا : جنتیوں کے نزدیک اس سے زیادہ محبوب کوئی چیز نہیں ہوگی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھیں۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٤٢، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٥٦١، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١١٢٣٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٨٧، مسند احمد ج ٤ ص ٣٣٣۔ ٣٣٢ طبع قدیم)
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اہل جنت کا ادنیٰ درجہ یہ ہوگا کہ وہ اپنی جنتوں، اپنی بیویوں اور اپنی نعمتوں اور اپنے خادموں اور اپنی باندیوں کی طرف ایک ہزار سال کی مسافت سے دیکھے گا اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مکرم وہ ہوگا جو صبح اور شام اس کے چہرے کی زیارت کرے گا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت کی : وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ، اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ۔ (القیامہ : ٢٢۔ ٢٣ ) کتنے ہی چہرے اس دن ترو تازہ ہوں گے ۔ اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے ۔
امام ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن، صحیح، غریب ہے۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٥٦٣ )
حضرت ابوبکر بن عبداللہ بن قیس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ جنتیں چاندی کی ہیں، ان کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے چاندی کا ہے اور دو جنتیں سونے کی ہیں۔ ان کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے، سونے کا ہے اور ان لوگوں اور ان کے رب کے دیدار میں صرف اللہ کی کبریائی کی چادر ہے جو جنت عدن میں اس کے چہرے پر ہے۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٧٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٤١، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٣٦، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٧٧٦٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٨٦، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٤٦١١، مسند احمد رقم الحدیث : ٨٤٢٧، طبع جدید، مسند احمد ج ٢ ص ٣٣٩۔ ٣٣٥، طبع قدیم، المستدرک ج ١ ص ٨٠)
شب معراج اللہ تعالیٰ کے دیدار کے متعلق علماء امت کے نظریات
علامہ ابو لعباس احمد بن عمر بن ابراہیم مالکی قرطبی متوفی ٦٥٦ ھ ” صحیح مسلم “ کی شرح میں لکھتے ہیں :
متقدمین اور متاخرین کا اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے میں اختلاف رہا ہے۔ اکثر مبتد عین دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کا انکار کرتے ہیں اور اہل السنہ اور اہل السنف دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کے جو از اور وقوع کے قائل ہیں۔ پھر اس میں بھی متقدمین اور متاخرین کا اختلاف ہے کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے یا نہیں ؟ حضرت عائشہ (رض) ، حضرت ابوہریرہ ، مشہور روایت کے مطابق حضرت ابن مسعود، سلف صالحین اور متکلمین اور محدثین کی ایک جماعت نے اس کا انکار کیا ہے اور سلف صالحین کی ایک عظیم جماعت نے یہ کہا ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا بھی یہی مسلک ہے۔ انھوں نے کہا : حضرت موسیٰ کلام کے ساتھ خاص کیے گئے۔ حضرت ابراہیم خلت کے ساتھ اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رؤیت کے ساتھ خاص کیے گئے، حضر ابو ذر، کعب، حسن بصری اور امام احمد بن حنبل کا یہی نظریہ ہے اور حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابن مسعود سے بھی ایک یہی روایت ہے۔ امام ابو الحسن اشعری اور ان کے اصحاب کی ایک جماعت سے بھی یہی منقول ہے۔ مشائخ کی ایک جماعت نے توقف کا قول کیا ہے۔ انھوں نے کہا : اس کی نفی اور اثبات پر کوئی قطعی دلیل نہیں ہے، لیکن یہ عقلاً جائز ہے اور یہی صحیح ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنا عقلاً اور نقلاً جائز ہے، عقلی دلائل علم کلام میں ہیں اور نقلی دلائل میں ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا رؤیت کا سوال کرنا ہے، کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کو دیکھنا محال ہوتا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کا سوال نہ کرتے۔ نیز احادیث متواتر و سے یہ ثابت ہے کہ مؤمنین آخرت میں اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے۔ (المعجم ج ١ ص ٤٠٢۔ ٢٠١ مطبوعہ دارالسنن بیروت، ١٤١ ھ)
امام ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی مالکی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :
عبداللہ بن الحارث نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس اور حضرت ابن ابی بن کعب (رض) کی ملاقات ہوئی۔ حضرت ابن عباس نے کہا : ہم بنو ہاشم یہ کہتے ہیں کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ہے۔ پھر حضرت ابن عباس نے کہا : کیا تم اس پر تعجب کرتے ہو کہ خلت حضرت ابراہیم کے لیے ہو اور کلام حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے اور دیدار سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہو ؟ پھر حضرت ابی بن کعب نے بہت بلند آواز سے کہا : اللہ اکبر ! حتیٰ کہ پہاڑ گونج اٹھے۔ پھر حضرت ابن عباس نے کہا : اللہ تعالیٰ نے رؤیت اور کلام کو سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت موسیٰ علی نبینا و (علیہ السلام) کے درمیان تقیم کردیا ہے اور امام عبد الرزاق نے روایت کیا ہے کہ حسن بصری اللہ کی قسم کھا کر کہتے تھے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے اور ابو عمر الطلمن کی نے اس قول کو عکرمہ سے روایت کیا ہے اور بعض متکلمین نے اس قول کو حضرت ابن مسعود سے بھی روایت کیا ہے اور امام ابن اسحاق نے روایت کیا ہے کہ مردان نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سوال کیا کہ کیا سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ انھوں نے کہا : ہاں ! اور نقاش نے امام احمد بن حنبل سے روایت کیا ہے، انھوں نے کہا : میں حضرت ابن عباس کی حدیث کے مطابق کہتا ہوں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھا ہے۔
وہ بار بار کہتے رہے کہ آپ نے اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھا ہے حتیٰ کہ امام احمد کا سانس منقطع ہوگیا۔ شیخ ابو الحسن اشعری اور ان کے اصحاب کا بھی یہی نظریہ ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ حضرت انس، حضرت ابن عباس، عکرمہ، ربیع اور حسن بصری کا بھی یہی نظریہ ہے۔ امام ابو العالیہ، قرطی اور ربیع بن انس کا یہ قول ہے کہ آپ نے اپنے رب کو اپنے دل سے دیکھا ہے۔ حضرت ابن عباس اور عکرمہ سے بھی یہ قول منقول ہے۔ علامہ ابن عبدالبرنے امام احمد سے بھی اس قول کی حکایت کی ہے۔ امام مالک بن انس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں نہیں دکھائی دیتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ باقی ہے اور فانی آنکھوں سے باقی کو نہیں دیکھا جاسکتا اور جب مسلمان آخرت میں پہنچیں گے تو ان کو باقی رہنے والی آنکھیں دی جائیں گی تو پھر باقی آنکھوں سے باقی ذات کو دیکھ لیں گے۔ قاضی عیاض نے کہا : یہ عمدہ کلام ہے۔ اس دلیل کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنا محال ہے، بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ دیکھنے والوں کی اس دنیا میں قدرت ضعیف ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے، اتنی قدرت عطاء فرمادے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دیدار کا بوجھ اٹھا سکے تو اس کے حق میں اللہ تعالیٰ کی رؤیت ممتنع نہیں ہے۔ ( الجامع الاحکام القرآن جز ٧ ص ٥٢۔ ٥١، مطبوعہ دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
حضرت عائشہ (رض) کے انکار رؤیت کے جوابات
علامہ یحییٰ بن شرف نووی متوفی ٦٧٦ ھ ” صحیح مسلم “ کی شرح میں لکھتے ہیں :
صاحب تحریر کا مختاریہ ہے کہ ہماری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے۔ انھوں نے کہا : اس مسئلہ میں بہت دلائل ہیں، لیکن ہمارا استدلال اس قوی حدیث سے ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : کیا تم اس پر تعجب کرتے ہو کہ خلت حضرت ابراہیم کے لیے ہو اور کلام حضرت موسیٰ کے لیے ہو اور رؤیت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہو ؟ عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا : کیا سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ تو انھوں نے کہا : ہاں ! ایک معتمد سند کے ساتھ حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا : سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے اور اس مسئلہ میں دلیل حبر الامت حضرت ابن عباس (رض) کی حدیث ہے۔ صحابہ کرام مشکل مسائل میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔ حضرت عمر (رض) نے بھی اس مسئلہ میں ان سے رجوع کیا ہے اور ان سے یہ سوال کیا کہ کیا سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ انھوں نے کہا : ہاں ! دیکھا ہے، اور اس مسئلہ میں حضرت عائشہ (رض) کی مخالفت سے کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ حضرت عائشہ (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت نہیں کیا کہ آپ نے فرمایا ہے : میں نے اپنے رب کو نہیں دیکھا، بلکہ انھوں نے خود قرآن مجید کی دو آیتوں سے اس مسئلہ کا استنباط کیا ہے اور جب صحابی کا قول کسی دوسرے صحابی کے قول کے خلاف ہو تو اس کا قول حجت نہیں ہوتا اور جب حضرت ابن عباس (رض) سے صحیح سند کے ساتھ رؤیت ثابت ہے تو اس روایت کو قبول کرنا واجب ہے کیونکہ یہ مسئلہ محض عقل سے نہیں جانا جاسکتا اور اس میں ظنی دلائل کافی ہیں اور حضرت ابن عباس (رض) کے متعلق یہ گمان کرنا جائز نہیں ہے کہ انھوں نے اپنے ظن اور اجتہاد سے یہ کہا ہے کہ آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے اور معمر بن راشد نے کہا ہے کہ ہمارے نزدیک حضرت عائشہ (رض) علم میں حضرت ابن عباس (رض) سے زائد نہیں ہیں اور حضرت ابن عباس نے ایک چیز کو ثابت کیا ہے جس کی دوسروں نے نفی کی ہے اور مثبت روایت نافی پر مقدم ہوتی ہے۔ ( صاحب تحریر کا کلام ختم ہوا) ۔
خلاصہ یہ ہے کہ اکثر علماء کے نزدیک راجح یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب ِ معراج سر کی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھا ہے، کیونکہ اس کو حضرت ابن عباس (رض) نے بیان کیا ہے اور یہ انھوں نے صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن کر ہی بیان کیا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) کا استدلال صرف آیتوں سے ہے، پس سورة الانعام کی آیت : ١٠٣ کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں ادراک بہ طور احاطہ کی نفی ہے اور سورة شوریٰ کی آیت : ٥١ سے جو انھوں نے استدلال کیا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی بلا حجاب رؤیت کی نفی نہیں ہے، بلکہ بلا حجاب کلام کی نفی ہے اور رؤیت کلام کو مستلزم نہیں ہے اور ہوسکتا ہے کہ آپ نے صرف اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا ہو اور دیدار کے وقت کلام نہ کیا ہو۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں عام قاعدہ بیان کیا ہے اور عام مخصوص البعض ہے اور دو سے دلائل سے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس عام قاعدہ سے مخصوص اور مستثنیٰ ہیں۔ ( صحیح مسلم مع شرح النووی ج ١ ص ٩٨٣۔ ٩٨٦، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفی، ریاض، ١٤١٧ ھ)
اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰى، وَمَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى
لات، عزیٰ اور منات کی تحقیق
علامہ محمود بن عمر زمخشری خوارزمی متوفی ٥٣٨ ھ ان اسماء کی لفظی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
لات، عزیٰ اور منات اس کے بتوں کے نام ہیں اور یہ مؤثنات ہیں، پس لات قبیلہ ثقیف کی دیوی کا بت ہے، اس کی طائف میں پرستش کی جاتی تھی اور ایک قول یہ ہے کہ اس کی نخلہ ( مکہ اور مدینے کے درمیان ایک مقام) میں پرستش کی جاتی تھی اور لات کا لفظ ” لوی “ سے بنا ہے، لات کا لفظ اصل میں ” لویۃ “ تھا، واو متحرک ما قبل مفتوح اس کو الف سے بدل دیا اور یا خلاف قیاس کرگئی تو یہ لات ہوگیا، ” لوی “ کا معنی ہے : کسی کی پرستش کرنا اور اس پر آسن جما کر بیٹھنا، یا کسی چیز کے گرد طواف کرنا، وہ اس دیوی کے بت کے پرستش کرتے تھے، اس کے پاس دھرنامار کر بیٹھتے تھے، اس لفظ کو لام کی تشدید کے ساتھ ” اللات “ بھی پڑھا گیا ہے اور ان کا زعم یہ تھا کہ ” اللات “ ایک شخص کا نام تھا جو ستو میں گھی ملا کر حجاج کو پلاتا تھا ( مگر ازروئے قرآن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ لات کسی مرد کا نام نہیں، دیوی کا نام ہے۔ ) جب وہ مرگیا تو انھوں نے اس کی قبر کی پرستش کرنی شروع کردی، پھر اس کا بت بنا لیا اور اس کی پرستش شروع کردی۔
اور عزیٰ اعز کی تانیث ہے، یہ ببول کا درخت تھا، مقام نخلہ میں قبیلہ غطفان کے لوگ اس کی پرستش کرتے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ طائف کے درمیان مقام نخلہ میں ببول کے تین درخت تھے ان پر گنبد بنا ہوا تھا، اور چادریں چڑھی ہوئی تھیں، ان میں ایک حنبہ ہوئی تھی۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد بن ولید کو اسے مسمار کرنے کے لیے بھیجا، حضرت خالد نے یہ درخت کاٹ ڈالے اور گنبد مسمار کردیا اور واپس آ کر آپ کو اس کی اطلاع دی، آپ نے فرمایا : تم نے کچھ نہیں کیا، دوبارہ جاؤ، حضرت خالد جب دوبارہ گئے تو وہاں کے محافظوں اور خادموں نے بہت شور و غل کیا اور ” یا عزی یا عزی “ کہہ کر اس کے نام کی دہائی دی، حضرت خالد نے دیکھا وہاں ایک برہنہ عورت ہے جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور وہ اپنے سر پر مٹی ڈال رہی ہے، آپ نے تلوار مار کر اس کا کام تمام کردیا، آپ نے فرمایا : یہی عزیٰ تھی، اب اس کی کبھی پرستش نہیں ہوگی۔ ( الطبقات الکبریٰ ج ٢ ص ١١١۔ ١١٠، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١١٥٤٧، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٩٠٢، دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٥ ص ٧٧)
اور منات ایک بت تھا، یہ مشلل کی طرف سمندر کے کنارے قدید میں تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو مسمار کرنے کے لیے حضرت ابو سفیان (رض) کو بھیجا تھا جنہوں نے اس کو ریزہ ریزہ کردیا، قبیلہ ہذیل اور خزاعہ اس کی پرستش کرتے تھے، اس کو منات اس لیے کہتے ہیں کہ منٰی قربانی کرنا ہے اور مشرکین اس کے استھان پر اس کا تقرب حاصل کرنے کے لیے جانوروں کی قربانی کرتے تھے اور اس سے بارش طلب کرتے تھے اور لات کو مسمار کرنے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت مغیرہ بن (رض) کو اور حضرت ابو سفیان صخر بن حرب (رض) کو بھیجا تھا۔ ( الکشاف ملخصاً و موضحاًو مخرجاً ، ج ٤ ص ٤٢٤، تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٢٨٠۔ ٢٧٨، ملخصاً )
اَلَّذِيْنَ يَجْتَنِبُوْنَ كَبٰۗىِٕرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ
اس آیت میں ”لمم“ کا ذکر ہے، اس سے مراد گناہ صغیرہ ہیں۔ علامہ راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :
”لمم“ کا معنی ہے : معصیت کے قریب جانا اور اس کو گناہ صغیرہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، ” المام “ کا معنی ہے، کسی چیز کے پاس آنا، اس کے قریب جانا اور کسی چیز کی قلت کو بھی ” المام “ کہتے ہیں۔ ( المفردات ج ٢ ص ٥٨٥، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)
علامہ محمد بن ابی بکررازی حنفی متوفی ٦٦٠ ھ لکھتے ہیں :
” لم الله شعثه “ کا معنی ہے : اللہ نے اس کے منتشر اور پراگندہ امور کی اصلاح کردی اور ان کو مجتمع کردیا۔ سو اس کا معنی جمع کرنا اور اصلاح کرنا ہے۔ ” المام “ کا معنی ہے : کسی کے پاس جانا ” ملتم “ اس لڑکے کو کہتے ہیں جو بلوغت کے قریب ہو، حدیث میں ہے :
”وان مما ینبت الربیع یقتل أو یلم“ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤٦٥) موسم بہار میں ایسی گھاس بھی اگتی ہے جو ہلاک کردیتی ہے یا ہلاکت کے قریب کردیتی ہے۔ اور ’ ’ لمم “ صغیرہ گناہوں کو کہتے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ ” المام “ کا معنی ہے : معصیت کے قریب جانا اور معصیت کا ارتکاب نہ کرنا۔ اخفش نے کہا : گناہوں کے قرب کو ” لمم “ کہتے ہیں۔ ازہری نے کہا : ” الاللمم “ کا معنی ہے : مگر وہ جو گناہ صغیرہ کے متقارب ہو۔ ( مختار الصحاح ج ٣٥١۔ ٣٥٠، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)
امام فخر الدین محمد بن رازی متوفی ٦٠٦ ھ نے ” اللمم “ کی تعریف میں حسب ذیل اقوال نقل کیے ہیں :
(١) وہ گناہ جس کو انسان قصداً نہ کرے اور نہ اس کو مؤکدکرے اور نہ اس کا عزم کرے۔
(٢) وہ جس کو کرنے کے بعد انسان فوراً نادم ہو۔
(٣) گناہ صغیرہ، وہ گناہ جو کسی بےحیائی کے کام پر مشتمل نہ ہو۔ ( تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٢٦٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
امام رازی نے گناہ کبیرہ کی حسب ذیل تعریفات کی ہیں :
(١) گناہ کبیرہ وہ گناہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے صراحۃً عذاب کی وعید سنائی ہو۔
(٢) کبیرہ وہ گناہ ہے جس کو حلال جان کر کرنا کفر ہے۔
(٣) اصل یہ ہے کہ ہر معصیت کبیرہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بہت ہیں اور منعم کی مخالفت بہت بڑی برائی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی خطا اور نسیان کو معاف کردیا ہے کیونکہ وہ ترک تعظیم پر دلالت نہیں کرتیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بندوں میں بہت ہوتی ہیں، جیسے ایک آدھ بار جھوٹ بولنا یا ایک دو مرتبہ غنیمت کرنا یا ایک دو بار اجنبی عورت کو دیکھنا، اسی طرح وہ برے کام جن کے برے ہونے میں شبہ ہے اور ہر زمانے میں ان سے اجتناب کرنے والے بہت کم ہیں، اسی وجہ سے ہماری اصحاب نے کہا ہے کہ موسیقی سننا فسق ہے اور اگر شہر والے عادۃً موسیقی نہ سنیں تو یہ فسق نہیں ہے، سو اگر ارباب عقول اس کو ترک تعظیم نہ قرار دیں تو یہ گناہ کبیرہ نہیں ہے، اسی طرح اوقات کے مختلف ہونے سے بھی احکام مختلف ہوجاتے ہیں جیسے نماز کے وقت کھیلنا کبیرہ ہے اور دوسرے وقت کھیلنا کبیرہ نہیں ہے، اسی طرح اشخاص کے مختلف ہونے سے بھی احکام مختلف ہوجاتے ہیں مثلاً متقی عالم جب کسی اجنبی عورت کا پیچھا کرے گا یا بہت زیادہ کھیل میں مشغول ہوگا تو یہ کبیرہ ہے۔ اور جب دلال یا باندیاں فروخت کرنے والا یا فارغ شخص ایسا کرے گا تو وہ کبیرہ نہیں ہے، اس بناء پر ہر گناہ کبیرہ ہے مگر جس گناہ کے متعلق مکلف کو یہ علم یا ظن ہو کہ وہ اللہ کے فضل سے اس گناہ سے نکل جائے گا یا اللہ اس کو معاف فرمادے گا۔ ( تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٢٧٠، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ تَوَلّٰى
آيت کے شان نزول کے متعلق اقوال
امام ابو اسحاق احمد بن ابراہیم الثعلبی المتوفی ٤٢٧ ھ لکھتے ہیں :
مجاہد اور ابن زید نے کہا : یہ آیت الولید بن المغیرہ کے متعلق نازل ہوئی ہے، اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین کی اتباع کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا، تو بعض مشرکوں نے اس کو عار دلایا اور ملامت کی اور کہا : کیا تم اپنے آباؤ اجداد کے دین کو چھوڑ رہے ہو اور ان کو گم راہ قرار دے رہے ہو اور یہ گمان کر رہے ہو کہ وہ دوزخ میں ہوں گے ، حالانکہ تم پر لازم تھا کہ تم ان کے دین کی مدد کرتے۔ ولید نے کہا : اگر میں نے اپنا ارادہ بدل دیا تو مجھے اللہ کے عذاب کا خطرہ ہے، اس شخص نے کہا : اگر تم پر عذاب ہوا تو اس کو میں برداشت کروں گا بشرطیکہ تم مجھے اس قدر مال دو ، ولید نے کہا : میں تم کو اتنا مال دوں گا، اس کے عوض تم میرا عذاب برداشت کرلینا، پھر ولید اپنے شرک پر برقراررہا، پھر ولید نے اس سے جتنے مال کا وعدہ کیا تھا اس میں سے کچھ مال اس کو دیا اور پھر بخل کیا اور باقی مال دینے سے رک گیا، تو اس کی مذمت میں یہ آیتیں نازل ہوئیں۔
یعنی اس نے اسلام لانے سے پیٹھ پھیری اور جتنا مال دینے کا وعدہ کیا تھا بخل کی وجہ سے وہ رک گیا اور اس نے جو سمجھا تھا کہ وہ مال دے کر عذاب سے بچ جائے گا تو کیا اس کے پاس علم غیب سے جو وہ اپنی نجات کو دیکھ رہا تھا۔
عطاء بن یسار نے کہا : یہ آیت اس شخص کے متعلق نازل ہوئی ہے جس نے اپنے گھر والوں سے کہا : میں اس شخص کے پاس جا کر اسلام لاتا ہوں جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے، جب وہ روانہ ہوا تو اسکو ایک کافر ملا اور اس نے پوچھا : کہاں جا رہے ہو ؟ اس نے کہا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس، شاید مجھے اس اقدام سے خیر ملے گی، اس کافر نے کہا : مجھے یہ سامان دے دو ، اس کے عوض اسلام نہ لانے سے تمہیں جو عذاب ہوگا اس کو میں برداشت کروں گا، وہ شخص مان گیا پھر اس نے اس کافر کو کچھ سامان دیا اور باقی سامان دینے سے بخل کیا اور رک گیا۔
محمد بن کعب القرظی نے کہا : یہ آیت ابو جہل کے متعلق نازل ہوئی ہے، اس نے کہا تھا کہ ( سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکارم اخلاق کا حکم دیتے ہیں، پھر اس نے آپ کے بعض اوصاف کریمہ بیان کیے، پھر بخل کی وجہ سے باقی اوصاف بیان کرنے سے رک گیا۔
سدی اور کلیب نے بیان کیا کہ یہ آیت حضرت عثمان (رض) کے متعلق نازل ہوئی ہے، انھوں نے اپنا مال خیرات کرنے کا ارادہ کیا پھر اپنے ماں شریک بھائی عبداللہ بن ابی شرح کے منع کرنے سے رک گئے۔ ( ہوسکتا ہے یہ ان کے اسلام لانے سے پہلے کا واقعہ ہو) ۔ (الکشف والبیان ج ٩ ص ١٥١۔ ١٥٠، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ نے اس روایت کا ذکر کر کے اس کا رد کردیا ہے اور فرمایا ہے : یہ قول باطل ہے کیونکہ یہ متواتر ہے نہ مشہور ہے اور حضرت عثمان (رض) کی جو دو سخا اس کے خلاف ہے، اس روایت کا ذکر کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ ( تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٢٧٢، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
وَاَعْطٰى قَلِيْلًا وَّاَكْدٰى
”اکدی“ کا معنی ہے : وہ پتھر کی طرح سخت نکلا، یہ لفظ ” کدیہ “ سے بنا ہے، اس کا معنی ہے : سخت زمین، جب کنواں کھودا جائے اور اس میں کوئی ایسا پتھر نکل آئے جو کھودنے سے عاجز کر دے تو اس وقت کہتے ہیں : ” قد اکدی “ پھر اس کا استعمال اس شخص کے متعلق ہونے لگا جو کچھ مال دے کر رک جائے اور پورا مال نہ دے۔ فتراء نے کہا : اس کا معنی ہے : دینے سے رک جانا اور عطاء کو منقطع کردینا۔ زیر تفسیر آیت میں یہی معنی مراد ہے۔ ( لسان العرب ج ١٣ ص ٣٦، القاموس المحیط ص ١٣٢٧، مختار الصحاح ص ٣٢٩ )
اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے ایک شخص کو دوسرے کے گناہ میں پکڑ لیا جاتا تھا اور ایک شخص کو اپنے باپ اور اپنے بیٹے اور اپنے بھائی اور اپنے چچا اور اپنے ماموں اور اپنے غم زاد، اور اپنے رشتہ دار اور اپنی بیوی کے قتل کرنے کے بدلہ میں قتل کردیا جاتا تھا اور ان کے جرائم کے بدلہ میں اس کو سزا دی جاتی تھی تب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کو یہ حکم پہنچایا کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ( الکشف والبیان ج ٩ ص ١٥١، التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)
علامہ علی بن محمد الماوری المتوفی ٤٥٠ ھ نے لکھا ہے کہ حضرت نوح اور حضرت ابراہیم (علیہما السلام) کے درمیان کے زمانہ میں یہی ہوتا تھا کہ باپ کے جرم میں بیٹے کو اور ایک رشتہ دار کو جرم میں دوسرے کو پکڑ لیا جاتا تھا تاآنکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مبعوث ہو کر اس چلن کو ختم کردیا۔ ( النکت والعیون ج ٥ ص ٤٠٣، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
کہا جاتا ہے کہ ایک حدیث اس آیت کے خلاف ہے :
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت تک جس شخص کو بھی ظلماًقتل کیا جائے گا اس کے خون کے عذاب میں سے ایک حصہ آدم (علیہ السلام) کے پہلے بیٹے (قابیل) کو بھی دیا جائے گا کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے قتل کے طریقہ کو ایجاد کیا۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٣٣٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٧٧، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٦٧٣، سنن نسائی رقم الحدیث : ٣٩٨٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٦١٦)
اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ قیامت تک ہونے والی قتل کی تمام وارداتوں کے بوجھ کا ایک حصہ قابیل پر بھی ہوگا اور یہ اس حدیث کے خلاف ہے۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جن لوگوں نے کسی برائی اور گناہ کو ایجاد کیا تو قیامت تک جتنے لوگ اس برائی پر عمل کریں گے تو ان کے گناہوں کی سزا میں اس برائی کے ایجاد کرنے والے کا بھی حصہ ہوگا، کیونکہ وہ ان سب لوگوں کے لیے اس برائی کے ارتکاب کا سبب بنا تھا اور بعد کے لوگوں کی سزا میں کوئی کمی نہیں ہوگی، جیسا کہ اس حدیث میں ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی تو اس کو ہدایت پر تمام عمل کرنے والوں کے برابر اجر ملے گا اور ان متبعین کے اجروں میں سے کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے کسی گمراہی کی دعوت دی، تو اس کو اس گمراہی پر تمام عمل کرنے والوں کے برابر سزا ملے گی اور ان متبعین کی سزاؤں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٧٤، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٦٠٩، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٦٨٣، مؤطا امام مالک رقم الحدیث : ٥٠٧، مسند احمد رقم الحدیث : ٩١٧١)
” کوئی شخص دوسرے کے جرم کی سزا نہیں پائے گا “ اس قاعدہ کے بعض مستثنیات
” کسی شخص کو دوسرے کے گناہ کی سزا نہیں ملے گی “ یہ قاعدہ اس صورت میں ہے جب وہ شخص دوسروں کو اس گناہ سے منع کرتا رہے، لیکن اگر کوئی خود نیک ہو اور اس کے سامنے دوسرے گناہ کرتے رہیں اور وہ ان کو منع نہ کرے تو اس نیک شخص کو اس لیے عذاب ہوگا کہ اس نے ان دوسروں کو برائی سے نہیں روکا۔ قرآن مجید میں ہے: کَانُوا لَا یَتَنَا ھَونَ عَن مُّنکَرٍ فَعَلُوہُط لَبِئسَ مَا کَانُوا یَفعَلُونَ (المائدہ : ٧٩) وہ ایک دوسرے کو ان برے کاموں سے نہیں روکتے تھے جو انھوں نے کیے تھے البتہ وہ بہت برا کام کرتے تھے
حضرت زینب بنت جحش (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیند سے یہ فرماتے ہوئے بیدار ہوتے۔ ” لا الہ الا اللہ “ عرب کے تباہی ہو، اس شر سے جو قریب آپہنچا، یاجوج ماجوج کی رکاوٹ کے ٹوٹنے سے، آج روم فتح ہوگیا۔ سفیان نے اپنے ہاتھ سے دس کا عقد بنایا، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا ہم ہلاک ہوجائیں گے، حالانکہ ہم میں نیک لوگ موجودہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! جب برائیاں زیادہ ہوجائیں گی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث ٣٣٤٦، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧١٠٢، سنن التزمذی رقم الحدیث : ٢١٩٤، مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث : ٢٠٧٤٩، مسند الحمیدی رقم الحدیث : ٣٠٨، مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ١٩٠٦١، مسند احمد رقم الحدیث : ٢٧٤٨٦، سنن کبریٰ ، للبیقہی ج ١٠ ص ٩٣)
اسی طرح اس قاعدہ سے بعض احکام بھی مستثنیٰ ہیں، مثلاً اگر کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو خطاء قتل کر دے یا اس کا قتل شبہ عمدہو (قتل شبہ عمد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کو سزا دینے کے قصد سے لاٹھی، کوڑے یا ہاتھ سے ضرب لگائے اور اس کا قصد قتل کرنا نہ ہو) تو اس کی دیت عاقلہ پر لازم آتی ہے، تاکہ اس کا خون رائیگاں نہ ہو، اب یہاں جرم تو ایک شخص نے کیا ہے اور اس کا تاوان اس کے عاقلہ ادا کریں گے۔ عاقلہ سے مراد مجرم کے باپ کی طرف سے راشتہ دار ہیں جن کو عصبات کہتے ہیں، حدیث شریف میں ہے :
حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنی سوکن کو خیمہ کی ایک چوب سے مارا اور آں حالیکہ وہ مضروبہ حاملہ تھی اور ( اس ضرب سے) اس کو ہلاک کردیا۔ ان میں سے ایک عورت بنو لحیان کی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قاتلہ کے عصبات ( باپ کی طرف سے رشتہ دار) پر مقتولہ کی دیت لازم کی، اور اس کے پیٹ کے بچے کے تاوان میں ایک باندی یا ایک غلام کا دینا لازم کیا۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٣١٤۔ ١٦٨٢۔ ٣٧، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٥٦٨، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٤١٥، سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٨٤٢۔ ٤٨٣٧۔ ٤٨٣٦۔ ٤٨٢٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٦٣٣)
وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى
امام ابو جعفر محمد بن جریرطبری متوفی ٣١٠ ھ نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ اس آیت کا حکم منسوخ ہوچکا ہے۔
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” وَاَن لَّیسَ لِلاِنسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی “ (النجم : ٣٩) کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: وَالَّذِینَ اٰمَنُوا وَاتَّبَعَتہُم ذُرِّیَّتُہُم بِاِیمَانٍ اَلحَقنَا بِہِم ذُرِّیَّتَہُم (الطور : ٢١ ) اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان لانے میں ان کی پیروی کی ہم ان کی اولاد کو جنت میں ان کے ساتھ ملا دیں گے۔
پس اللہ تعالیٰ آباء کی نیکیوں کے سبب سے ان کی اولاد کو جنت میں داخل کر دے گا اور آباء کی سعی سے اولاد کو فائدہ ہوگا اور یوں النجم : ٣٩ کا حکم الطور : ٢١ سے منسوخ ہوگیا۔
اور جن دیگر مفسرین نے یہ کہا کہ النجم : ٣٨ منسوخ ہے، ان کی تفصیل درج ذیل ہے:
علامہ ابو اسحاق احمد بن ابراہیم الثعلبی المتوفی ٢٢٧ ھ لکھتے ہیں :
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ النجم : ٣٩، الطور : ٢١ سے منسوخ ہے کیونکہ اس میں ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آباء کی نیکیوں سے ابناء کو جنت میں داخل کردیا اور عکرمہ نے کہا کہ ’ ’ ان لیس للانسان الا ما سعی “ کا حکم حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ (علیہما السلام) کی قوموں کے لیے تھا اور رہی یہ امت تو اس کو اپنی سعی سے بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے اور دوسروں کی سعی سے بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
اور اس سلسلہ میں یہ احادیث ہیں :
اور ربیع بن انس نے کہا کہ النجم : ٣٩ کا حکم کافر کے لیے ہے اور رہا مومن تو اس کو اپنی سعی سے بھی فائدہ ہوتا ہے اور دوسروں کی سعی سے بھی ہوتا ہے اور ایک قول یہ ہے کہ کافر کے لیے آخرت میں کوئی خیر نہیں ہے، اس کو اس کے اعمال کا اجر صرف دنیا میں ملتا ہے، اور روایت ہے کہ عبداللہ بن ابی نے حضرت عباس (رض) کو قمیص پہنائی تھی تو جب عبداللہ بن ابی مرگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے قمیص بھجوا دی تاکہ آخرت کے لیے اس کی کوئی نیکی نہ رہے جس پر ثواب عطاء کیا جاسکے۔ (الکشف والبیان ج ٩ ص ١٥٣، داراحیاء التراث، العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)
ایصال ِ ثواب کے متعلق احادیث
(١) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ میری ماں اچانک ہوگئی اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ بات کرتی تو کچھ صدقہ کرتی، پس اگر میں اس کی طرف سے کچھ صدقہ کروں تو کیا اس کو کوئی اجر ملے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٧٦٠۔ ١٣٨٨، صحیح مسلم الحدیث : ١٠٠٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٧١٧)
(٢) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ (رض) کی ماں کا انتقال ہوگیا، وہ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے۔ پھر وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میری ماں کا انتقال ہوگیا اور میں اس وقت موجود نہیں تھا، اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کروں تو کیا ان کو اس کا نفع پہنچے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! انھوں نے کہا : پس بیشک میں آپ کو گمراہ کرتا ہوں کہ میرا مخراف نام کا کھجوروں کا باغ ان پر صدقہ ہے۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٧٦٢۔ ٥٦ ٢٧، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٦٦٩، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٢٨٨٢)
(٣) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ ان کی ماں فوت ہوگئی اور انھوں نے ایک نذر مانی ہوئی تھی، آپ نے فرمایا : تم ان کی طرف سے ان کی نذر ادا کرو۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٧٦١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٣٨، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٣٣٠، سنن نسائی رقم الحدیث : ٣٨١٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢١٣٢)
(٤) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت فضل بن عباس سواری پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، قبیلہ خشعم کی ایک عورت آئی تو حضرت فضل اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ عورت حضرت فضل کی طرف دیکھنے لگی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فضل کے چہرے کو دوسری طرف کردیا، اس عورت نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حج کرنا فرض کردیا ہے اور میرا باپ بہت بوڑھا ہے، وہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتا، کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! اور یہ حجۃ الوداع کا موقع تھا۔
( صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٥١٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٣٣٤، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ١٨٠٩، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٦٤١ )
وَاَنَّهٗ هُوَ اَضْحَكَ وَاَبْكٰى
عطاء بن ابی مسلم نے اس کی تفسیر میں کہا : یعنی اس نے لوگوں کو خوش کیا اور غم زدہ کیا۔
حسن بصری نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کو جنت میں ہنسایا اور اہل دوزخ کو دوزخ میں رلایا۔
ضحاک نے کہا : اللہ تعالیٰ نے زمین میں سبزہ اگا کر اس کو خوش کیا اور آسمان کو بارش برسا کر رلایا۔
ذوالنون مصری نے کہا : مومنین اور عارفین کو اپنی معرفت کے سورج سے ہنسایا اور کافروں اور بدکاروں کو ان کے گناہوں کی ظلمت سے رلایا۔
سہل بن عبداللہ نے کہا : اطاعت گزاروں کو اپنی رحمت سے ہنسایا اور نافرمانوں کو اپنے غضب سے رلایا۔ (الکشف وا لبیان ج 9 ص 156، داراحیاء التراث العربی، بیروت 1422 ھ)
وَاَنَّهٗ هُوَ اَغْنٰى وَاَقْنٰى، وَاَنَّهٗ هُوَ رَبُّ الشِّعْرٰى
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی مالکی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں :
ابو زید سے روایت ہے کہ جس کو سو بکرے دیئے گئے اس کو ” القنیٰ “ دی گئی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جس کو سکونت دی گئی اس کو اللہ نے غنی کردیا ، سلیمان تیمی نے کہا ” اغنی و اقنی “ کا معنی ہے : اللہ نے اس کو غنی کردیا اور مخلوق کو اس کا محتاج کردیا۔ سفیان نے کہا : اس کا معنی ہے : اس کو قناعت سے غنی کردیا اور اس کو راضی کردیا اور اخفش نے کہا : ” اقنیٰ “ کا معنی ہے، اس کو فقیر اور محتاج کردیا، ابن کیسان نے کہا : اس کو صاحب اولاد کردیا۔ (الجامع الاحکام القرآن جز 17 ص 110، دارالفکر، بیروت 1425 ھ)
”شعریٰ“ کا معنی اور مصداق
مجاہد نے کہا : شعریٰ ایک ستارہ ہے جو الجوزاء کے عقب میں ہے، زمانہ جاہلیت میں مشرکین اس کی عبادت کرتے تھے۔ (جامع البیان رقم الحدیث :25259، دارالفکر بیروت 1415 ھ )
علامہ زمخشری نے لکھا ہے: ”الشعریٰ“ ایک ستارہ ہے جو الجوزاء کے عقب سے طلوع ہوتا ہے، الغمیصاء اور العبود دو ستارے ہیں ان میں سے ایک ”الشعریٰ“ میں ہے، اس کا کلب الجبار ہے، قبیلہ خزاعۃ اس کی عبادت کرتا تھا، ان کا سردار ابو کبشہ تھا، اس نے اس ستارے کی عبادت کا طریقہ ایجاد کیا تھا اور قریش رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابو کبشہ کی مشابہت کی وجہ سے ابن ابی کبشہ کہتے تھے کہ جس طرح ابو کبشہ نے بتوں کی عبادت کے بجائے ستارہ ” شعریٰ “ کی عبادت کا طریقہ ایجاد کیا تھا اسی طرح سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین کے طریقہ کی مخالفت کر کے، اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کا طریقہ ایجاد کیا۔ (الکشاف ج 429، داراحیاء التراث، العربی، بیروت 1417 ھ)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.