ترجمہ اور مختصر تفسير سورہ تحريم
مرتب: محمد ہاشم قاسمى بستوى، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ
﷽
شروع اللہ کے نام سے جو بےحد مہربان نہایت رحم والا ہے
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴿1﴾
اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ نے جو چیزیں آپ کے لیے حلال کی ہیں آپ ان چیزوں کو اپنی (بعض) بیویوں کی خوشنودی کے لیے اپنے اوپر حرام کیوں کرتے ہیں ؟ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ ۚ وَاللَّهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ﴿2﴾
بیشک اللہ نے تمہارے لیے اپنی قسموں کو کھول دینے ( اور کفارہ ادا کرنے) کا ایک طریقہ مقرر کردیا ہے۔ اللہ تمہارا مالک ہے۔ وہی جاننے والا اور بڑی حکمت والا ہے۔
وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَكَ هَٰذَا ۖ قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ ﴿3﴾
اور جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں میں سے کسی بیوی سے (چپکے سے) رازداری کے ساتھ ایک بات کہی۔ پھر جب اس بیوی نے وہ راز کی بات دوسری سے کہہ دی اور اللہ نے ان کو (اپنے پیغمبر کو) اس کی اطلاع دیدی تو پیغمبر نے اس راز کھولنے والی بیوی کو بات کا کچھ حصہ تو جتا دیا اور کچھ کو نظرانداز کردیا۔ پھر جب (اللہ کے نبی نے ) اس بیوی کو بتایا تو وہ تعجب سے کہنے لگیں کہ میرا اس پوشیدہ بات کو ظاہر کردینا آپ کو کس نے بتا دیا۔ (نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ) کہا مجھے بڑے علم جاننے والے نے بتا دیا جو ہر بات کی خبر رکھتا ہے۔
إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ۖ وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ ﴿4﴾
اگر تم دونوں نے اللہ کے سامنے توبہ کرلی تو بہتر ہے کیونکہ تمہارے دل ( حق سے) مائل ہو رہے ہیں۔ اور اگر نبی کے مقابلے میں تم ایک دوسرے کی اسی طرح مددگار بنو گی تو (یاد رکھو) نبی کا رفیق اور مددگار اللہ ہے۔ جبرئیل، نیک اہل ایمان اور ان کے علاوہ فرشتے بھی ان کے مددگار ہیں۔
عَسَىٰ رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَيِّبَاتٍ وَأَبْكَارًا ﴿5﴾
اور اگر وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں طلاق دیدیں تو اللہ تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں ان کو دیدے گا۔ جو فرمان بردار، ایمان والیاں، اطاعت گذار، توبہ کرنے والیاں، عبادت کرنے والیاں، روزے رکھنے والیاں، کھچ بیوائیں اور کچھ کنواریاں ہوں گی۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ﴿6﴾
اے ایمان والو ! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی اس آگ سے بچاؤ جس آگ کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔
اس آگ پر طاقت و قوت والے فرشتے مقرر ہیں۔ اللہ انھیں جو بھی حکم دیتا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جس کا انھیں حکم دیا جاتا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ ۖ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿7﴾
(ان سے کہا جائے گا) اے کافرو ! آج کے دن تم کوئی عذر پیش نہ کرو۔ تمہیں ان ہی اعمال کی سزا دی جائے گی جو تم (دنیا میں) کیا کرتے تھے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ ۖ نُورُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿8﴾
اے ایمان والو ! تم اللہ کے سامنے سچی توبہ کرو۔ توقع ہے کہ تمہارا پروردگار تمہارے گناہ تم سے دور کردے گا اور تمہیں ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اور جو لوگ ایمان لائے ہیں انھیں رسوا نہ کرے گا۔ ان کا نور ان کے داہنے اور ان کے سامنے دوڑ رہا ہوگا۔ (اور وہ دعا کر رہے ہوں گے) اے ہمارے رب ! ہمارے لیے اس نور کو آخر تک رکھئے گا۔ ہمیں معاف کرد یجئے گا۔ بیشک آپ پر چیز پر قدررت رکھنے والے ہیں۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ﴿9﴾
اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے (آخر کار ) ان کا ٹھکانا جہنم ہی ہے جو بدترین ٹھکانا ہے۔
ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ ۖ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ ﴿10﴾
اللہ نے ان کافروں کے لیے لوط (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام) کی بیویوں کا حال بیان کیا ہے کہ وہ ہمارے خاص بندوں کے نکاح میں تھیں ان دونوں عورتوں نے ان دونوں بندوں کا حق ضائع کیا تو وہ دونوں بندے (حضرت لوط (علیہ السلام) اور حضرت نوح (علیہ السلام)) اللہ کے مقابلے میں ان کے ذرا بھی کام نہ آسکے۔ اور ان دونوں عورتوں کا حکم دیا جائے گا کہ وہ جہنم میں جانے والوں کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں۔
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿11﴾
اور اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں (کی تسلی) کے لیے فرعون کی بیوی (حضرت آسیہ) کا حال بیان کیا ہے۔ جب (حضرت آسیہ نے) دعا کی اسے میرے رب ! میرے واسطے جنت میں اپنے قرب میں مکان بنا دیجئے۔ اور مجھے فرعون (کے شر) سے اور اس کے (کافرانہ) اعمال سے محفوظ فرمائیے اور مجھے ظالم قوم سے نجات عطا فرمائیے۔
وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِنْ رُوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ ﴿12﴾
اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کی۔ پھر ہم نے ان کے (چاک گریباں میں) پھونک ماری۔ اور انھیں نے اپنے رب کے پیغامات اور کتابوں کی تصدیق کی اور وہ فرمان برداروں میں سے ہوگئیں۔
تشريح
اس سورت کی آیت ١ سے ٥ تک نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ازدواج مطہرات (رض) کے درمیان ایک واقعہ جس میں کسی چیز کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اوپر نہ استعمال کرنے کا فرما دیا لیکن اس میں نہ تو وہ چیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبیعت پر گراں تھی اور نہ ہی اس میں کوئی اور برائی تھی ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محض اپنی ازواج میں سے بعض کے اصرار پر اس کو ترک کرنے کا ارشاد فرمایا اور اس بات سے اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو روک دیا کہ اس طرح دوسروں کی خوشنودی کے باعث ایک جائز چیز کے ترک کا پہلو نکلتا ہے اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تردید فرما دیں ۔ پھر آیت ٦ ، ٧ میں تمام اہل ایمان کو مخاطب کر کے خود اور اپنے اہل و عیال کو اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ مسلمانوں کو جہنم کی آگ سے بچایا جائے ۔ پھر آیت ٨ اور ٩ میں مومنوں کی توبہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور جہاد کا حکم سنایا ہے ،سورت کے آخر میں حضرت نوح اور حضرت لوط (علیہما السلام) کی دو کافر بیویوں کا اور فرعون کی مومنہ بیوی آسیہ کا ذکر فرمایا : تاکہ لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ وہ ظاہری حال پر اعتماد نہ کریں کیونکہ نبی کی بیوی کافرہ ہوسکتی ہے اور کافر کی بیوی مومنہ ہوسکتی ہے، اور کوئی شخص رشتہ اور حسب و نسب پر اعتماد نہ کرے، اصل چیز اللہ تعالیٰ اور اس کے برحق رسول پر ایمان لانا اور اعمال صالحہ اور تقویٰ ہے اور اسی پر آخرت میں نجات کا مدار ہے۔
شان نزول
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عصر کی نماز کے بعد تھوڑی دیر کیلئے ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے جاتے تھے تھوڑا تھوڑا وقت ہر ایک کے پاس گزارتے تھے ایک دن حضرت زینب بنت جحش (رض) کے پاس تشریف لے گئے ان کے پاس شہد پی لیا حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں میں نے اور حضرت حفصہ (رض) نے آپس میں مشورہ کیا ہم میں سے جس کے پاس تشریف لائیں گے تو ہم کہہ دیں گیں کہ آپ نے ” مغافیر “ کھایا ہے۔ (یہ ایک گوند ہوتا ہے) چنانچہ آپ حضرت حفصہ (رض) کے پاس تشریف لے گئے تو انھوں نے وہی بات کہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا میں نے ” مغافیر “ تو نہیں کھایا بلکہ میں نے زینب جحش (رض) کے پاس شہد پیا ہے۔ اس پر آپ نے قسم کھائی کہ آج کے بعد میں ہرگز شہد نہیں پیوں گا۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئی۔ (بخاری شریف : ص : ٧٢٩: ج : ٢) ایک روایت کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حفصہ (رض) کے ہاں شہد پیا تھا جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے جبکہ ایک اور روایت کے مطابق حضرت سودہ بنت زمعہ (رض) کے ہاں پیا تھا اور بعض روایات میں ” لن اعودلہ “ کے بجائے ” واللہ لا اذوقہ “ کے الفاظ آئے ہیں۔
نمبر ٢: دوسرا واقعہ یہ نقل کیا گیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی مملوکہ باندی حضرت ماریہ قبطیہ (رض) سے حضرت حفصہ (رض) کے گھر میں قربت فرمائی تھی، جس سے انھیں ناگواری ہوئی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ کیا تم اس پر راضی نہیں کہ میں اسے (ماریہ کو) حرام کرلوں ؟ انھوں نے کہا : کیوں نہیں۔ تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں اپنے اوپر حرام فرما لیا اور حفصہ (رض) سے کہا کہ اس کا تذکرہ کسی سے مت کرنا۔ لیکن حضرت حفصہ (رض) نے حضرت عائشہ (رض) سے ذکر کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ بات بتلا دی اور پھر یہ آیت نازل ہوئی : (راوہ محمد بن اسحاق عن الزہری (رح) عن عبید اللہ بن عبدابن عباس عن عمر (رض) )
امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ : ممکن ہے یہ دونوں باتیں پیش آئی ہوں۔ یعنی شہد کی تحریم اور ماریہ (رض) کی تحریم۔ لیکن تحریم ماریہ (رض) والی روایت زیادہ راجح ہے اور آیت کا نزول اسی واقعہ میں ہوا۔ کیونکہ آیت کے الفاظ ” تبتغی مرضات اواجک “ بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ کیونکہ شہد کی تحریم و ترک میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کی رضا نہیں تھی بلکہ ماریہ (رض) سے قربت کے ترک میں ان کی رضا تھی۔ (احکام القرآن للجصاص : ج : ٣: ص : ٦٢١)
انسان نے اگر اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کردیا ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟ اس بارے میں صحابہ کرام (رض) اور حضرات سلف کے اقوال مختلف ہیں۔ حضرت ابوبکر، عمر، ابن مسعود، زید بن ثابت اور ابن عمر (رض) کے نزدیک یہ تحریم یمین (قسم) ہے۔ (لہٰذا اگر آئندہ بیوی کو حلال کرے گا یعنی اس سے محبت وغیرہ کرے گا تو کفارہ قسم واجب ہوگا) ۔ تابعین رحمۃ اللہ علیہم میں سے حضرت حسن بصری، سعید بن المسیب، جابر بن زید، عطاء بن ابی رباح اور طاؤس رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے بھی ایک روایت یہی ہے۔ جبکہ حضرت علی بن ابی طالب، حضرت ابوہریرہ اور تابعین کرام (رض) کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ یہ تین طلاقیں ہیں (اس تحریم کی وجہ سے بیوی ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی) ۔ فقہاء احناف رحمہم اللہ کا مذہب یہ ہے کہ اگر بیوی کو یوں کہا کہ : ” أنت علی حرام، یعنی تو میرے اوپر حرام ہے “۔ تو دیکھا جائے گا کہ نیت کیا ہے ؟
اگر اس نے طلاق کی نیت کی ہے تو ایک طلاق بائنہ واقع ہوجائے گی اور اگر اس نے طلاق کی نیت نہیں کی تو پھر یہ یمین (قسم) ہے اور ایسا کرنے والا مولی (ایلاء کرنے والا) ہے۔ اور ابن سمامہ (رح) کی روایت کے مطابق امام محمد (رح) کے نزدیک اس نے ظہار کی نیت کی ہو تو یہ ظہار ہوگا۔ امام شافعی (رح) کے نزدیک اگر اس نے طلاق کی نیت کی تو طلاق ہے جتنی طلاق کی بھی اس نے نیت کی ہو اور اگر اس نے بغیر طلاق کے محض تحریم کی نیت کی ہو تو اس پر کفارہ یمین واجب ہے لیکن وہ ایلاء نہیں ہے۔ (احکام القرآن للجصاص : ج : ٣: ص : ٦٢٣)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.