قسط پر گاڑی خریدنے کا حکم
سوال: قسط پر گاڑی خریدنا کیسا ہے؟
تفصیل یہ ہےکہ اگر نئی گاڑی ایجنسی پر ساٹھ ہزار کی ملتی اور کسی کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے توکیا وہ دس هزاردیکر گاڑی لےسکتا ہے جیساکہ آج کل ایسا ہوتا ہےاور باقی پیسہ قسط وار دیتے ہیں ایسی صورت میں کئی قسطوں پر گاڑی کی قیمت سے زیادہ دینا پڑتا ہے مثلا ساٹھ ہزار کا اسي ہزار دینا پڑتا ہے، آجکل ایجنسی پر اس طریقہ سے ٹو وہیلر گاڑی بکتی ہے اور اس میں مسلمانوں کی بھی اچھی تعداد ہے۔نیز اگر اسی طرح ایجنسی سے چار چکے کی گاڑی لی جائے تو شرعی لحاظ سےکیسا ہے؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔
المستفتی محمد خالد اعظمی مدارپور
الجواب باسم الملهم للصدق والصواب
شریعت کا یہ ضابطہ ہے کوئی سامان نقد کم قیمت میں اور ادھار زیادہ قیمت میں خریدنا بیچنا جائز ہے بشرطیکہ بائع ومشتری دونوں عقد کے وقت ایک قیمت پر رضامند ہوجائیں یعنی ادھار اور قسط وار زائد رقم کی تعیین ہوجائے کہ قسطواراتنی قیمت میں یہ چیز دی جائے گی، نیز اگر قسطوں کی ادائیگی میں اگر تاخیر ہو تو الگ سے اضافہ نہ ہو چونکہ آج کل قسطوں کی جو شکل رائج ہے اس میں تاخیر کی صورت میں مزید رقم ادا کرنی پڑتی ہے اس لئے شرعا یہ صورت ناجائز ہے البتہ اس میں جواز کی یہ شکل ہے کہ جتنے دن میں قسطوں کی ادائیگی کی امید ہو اس سے زیادہ مدت کا معاملہ کیا جائے تاکہ وقت سے پہلے قسطوں کی ادائیگی ہوجائے اس طرح یہ معاملہ ناجائز ہونے سے بچ جائے گا. واللہ اعلم بالصواب.
الدلائل:
قال اللہ: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ. [البقرة: 282].
نهی رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم عن بیعتین في بیعة، وقد فسر بعض أهل العلم قالوا: بیعتین في بیعة أن یقول أبیعک هذا الثوب بنقدٍ بعشرة، وبنسیئة بعشرین لا یفارقه علی أحد البیعین، فإذا فارقه علی أحدهما، فلابأس إذا کانت العقدة علی واحد منهما۔ (ترمذي شریف۱/۲۳۳).
وإذا عقد العقد علی أنه إلی أجل کذا بکذا، أوبالنقد بکذا، أوقال إلی أشهر بکذا، أو إلی شهرین بکذا، فهو فاسد؛ لأنه لم یعاطه علی ثمن معلوم-وهذا إذا افترقا علی هذا فإن کان یتراضیان بینهما و لم یتفرقا حتی قاطعه علی ثمن معلوم وإنما العقد علیه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد.(مبسوط سرخسي، بیروت۱۳/۸).
البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطه صحیح۔ (شرح المجلة۱/۱۲٤، رقم المادة: ۲٤۵).
رجل باع علی أنه بالنقد بکذا وبالنسیئة بکذا، وإلی شهر بکذا، وإلی شهرین بکذا لم یجز کذا في الخلاصة۔ (هندیة، کتاب البیوع، الباب العاشر في الشروط التي تفسد البیع والتي لاتفسدة، زکریا قدیم ۳/۱۳٦، جدید ۳/۱۳۷).
البیع لأجل أو بالتقسیط أجاز الشافعیة والحنفیة والمالکیة والحنابلة والجمهور بیع الشيء فی الحال لأجل أو بالتقسیط بأکثر من ثمنه النقدي إذا کان العقد مستقلا بهذا النحو، ولم یکن فیه جهالة بصفقة أو بیعة من صفقتین أو بیعتین … جاز البیع، وإن ذکر فی المساومة سعران سعر للنقد وسعر للتقسیط، ثم تم البیع في نهایة المساومة تقسیطا۔ (الفقه الإسلامي وأدلته، هدی انٹرنیشنل دیوبند ٤/ ۲٤۲، دارالفکر ۵/ ۳٤٦۱).
والله أعلم
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله
10/1/1330ه 21/9/2018م الجمعة
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.