اسلام كے پانچ بنيادى اركان

اسلام كے پانچ بنيادى اركان

اسلام كے پانچ بنيادى اركان

بقلم: محمد ہاشم بستوى

مذہبِ اسلام ميں پانچ چيزيں بہت اہم ہيں، ان كو اسلام كے اركان كہا جاتا ہے، اسلام كى عمارت انہيں پانچ اراكين پر كھڑى ہے، قرآن وحديث ميں ان پانچ اراكين پر بہت زياده زور ديا گيا ہے، ايك مومن كى زندگى ميں يہ پانچو اركان كا بہت  بڑا رول ہے، در حقيقت يہى پانچ اركان ايك مومن كى شناخت ہيں، اور اسى كو اسلام كہا جاتا ہے، ان پر عمل كرنے سے آدمى كى آخرت كى زندگى سنور جاتى ہے، اور ان پر عمل نہ كرنے سے آدمى كى آخرت كى زندگى تباہ  وبرباد ہو جاتى ہے، اور ان ميں سے كسى ايك كے انكار كرنے سے آدمى اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔

اب وہ پانچ اركان كيا ہيں؟ اس كى وضاحت صحيح مسلم ميں مذكور حضرت عبد الله بن عمر كى روايت سے ہوتى ہے جس كے الفاظ يہ ہيں:

«بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ، شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَحَجِّ الْبَيْتِ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ» رواه مسلم في صحيحه (16)

حديث كا مفهوم يہ ہے كہ: اسلام كى بنياد پانچ چيزوں پر ركھى گئى ہے (1) اس بات كى  گواہى دينا كہ الله كے سوا كوئى عبادت كے لائق نہيں اور اس بات كى بھى گواہى دينا كہ حضرت محمد صلى الله عليه وسلم الله كے بندے اور اس كے رسول ہيں، (2) نماز پڑھنا (3) زكاة دينا (4) حج كرنا (5) روزه ركھنا۔

اس مضمون ميں ہم انہيں پانچ اركان كے بارے ميں قرآن وحديث كى روشنى ميں بات كرنے والے ہيں:

اسلام كا پہلا ركن گواہى اور شهادت ہے:

شہادت اور گواہى اسلام ميں داخلے كا دروازہ ہے، اس كو اسلام كا كلمہ بھى كہا جاتا ہے: جس كے الفاظ يہ ہيں:

أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله:

اس كا مطلب يہ ہے كہ: ميں دل سے مانتا ہوں اور زبان سے اقرار كرتا ہوں كہ ايك اللہ كے سوا كوئى عبادت كے لائق نہيں اور حضرت محمد صلى الله عليه وسلم الله كے بندے اور اس كے رسول ہيں۔

شہادت اور گواہى اسلام كا سب سے اہم ركن ہے اس كے بغير كوئى بھى آدمى مسلمان نہيں ہو سكتا، يہ گواہى دل اور زبان دونوں سے ضرورى ہے، يہ سب سے اہم اور اساسى ركن ہے، اور آخرت كى زندگى ميں نجات اور كاميابى دارومدار اسى ركن پر ہے، قرآن كريم ميں اسى مضمون تقريبا 36 جگہوں پر بيان كيا گيا ہے۔

قرآن كريم ميں ايك جگہ الله تعالى كا ارشاد ہے:

{إِنَّمَا إِلَهُكُمُ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا} [طه: 98]

يقينا تمهارا معبود صرف ايك ہى معبود ہے جو ہر جيز كو باريك بينى سے جاتنا ہے،

قرآن ميں ايك اور جگہ الله تعالى كا ارشاد ہے:

{شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ} [آل عمران: 18]

الله تعالى گواہى ديتا ہے كہ الله كے علاوہ كوئى اور عبادت كے لائق نہيں ہے۔

اسى طرح بے شمار حديثوں ميں وحدانيت كے بارے ميں بتايا گيا ہے، صحيح مسلم حضرت ابو ذر غفارى سے مروى ہے جس كے الفاظ يہ ہيں:

” مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، ثُمَّ مَاتَ عَلَى ذَلِكَ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ ” (صحيح مسلم: 94) يعنى جو بندہ صدق نيت سے الله كے ايك ہونے كى گواہى اور شہادت دے دے اور پھر اس كا انتقال ہو جائے وہ ضرور جنت ميں جائے گا۔

اسى طرح صحيح مسلم ميں حضرت عثمان بن عفان سے مروى ہے كہ:

«مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، دَخَلَ الْجَنَّةَ» (صحيح مسلم: 26)

 يعنى جس آدمى كا انتقال ہو جائے اور وہ دل اور زبان سے وحدانيت كا قائل ہو تو وہ جنت ميں جائے گا۔

بہر حال وحدانيت اور اس كى گواہى اسلام كا اہم ستون ہے بلكہ اسلام ميں داخلے كا دروازہ ہے، اس كے بغير كوئى بھى انسان اسلام ميں داخل نہيں ہو سكتا۔

  اسلام كا دوسرا ركن نماز ہے

اسلام ميں داخل ہونے كے بعد ايك مسلمان كے ليے جو سب سے اہم اور ضرورى چيز ہے وہ ہے نماز، نماز ہر مسلمان عاقل بالغ پر فرض ہے، يہ اسلام كا شعار ہے، اور دين كا دوسرا اہم ركن ہے، نماز كسى بھى حالت ميں معاف نہيں ہے، نماز كے فضائل اور اس كے چھوڑنے پر سخت وعيديں آئى ہيں:

قرآن كريم ميں ايك جگہ الله تعالى كا ارشاد ہے:

{ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا} [النساء: 103]

بيشك نمازمسلمانوں پر مقررہ وقتوں ميں فرض ہے۔

ايك اور جگہ الله تعالى كا ارشاد ہے:

{إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ} [العنكبوت: 45]

بيشك نماز بے حيائى اور برى باتوں سے روك ديتى ہے۔

صحيح مسلم ميں حضرت جابر بن عبد الله سے مروى ہے:

«بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ». (صحيح مسلم: 82)

آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا: آدمى اور كفر كے درميان صرف نماز كا فاصلہ ہے، اور كوئى شخص نماز نہ پڑھے جان بوجھ كر چھوڑ دے تو اس كے كفر ميں داخل ہونے ميں زيادہ وقت نہيں لگتا۔

اسى طرح نماز كى فضيلت ميں بخارى اور مسلم كى ايك روايت ميں آيا ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهَرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا، مَا تَقُولُ: ذَلِكَ يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ ” قَالُوا: لاَ يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ شَيْئًا، قَالَ: «فَذَلِكَ مِثْلُ الصَّلَوَاتِ الخَمْسِ، يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الخَطَايَا». رواه البخاري: 528، ومسلم: 667)

حضرت ابو ہريرہ سے روايت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’اگر تمہارے گھر کے سامنے کوئی نہر بہتی ہو تو تم میں سے کوئی ہر روز پانچ بار اس میں غسل کرے تو کیا اس کے بدن پر کوئی میل کچیل باقی بچے گا‘‘؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: نہیں! اس کے بدن پر کوئی میل نہیں ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے گناہوں کو مٹا دیتا ہے‘‘۔ (صحيح البخارى: 528، صحيح مسلم: 667)

بہر حال نماز ہر مسلمان كے ليے دن ميں پانچ بار فرض ہے، صبح كے وقت، دوبہر كے بعد، سورج ڈوبںے سے ايك ڈيڑھ گھنٹہ پہلے، سورج ڈوبںے كے قورا بعد، اور سورج ڈوبںے كے ايك گھنٹہ كے بعد، ان كو مسلمان فجر، ظہر، عصر، مغرب، اور عشاء كے نام سے جانتے ہيں۔

  اسلام كا تيسرا ركن زكاة ہے

اسلام كا يہ ركن بہت اہم ہے، زكاة كا مطلب مال كى پاكى اور صفائى، مسلمانوں ميں جو مالدار ہوں ان كو شريعت كى طرف حكم ہے كہ وه اپنے مال سے ڈھائى پرسينٹ نكال غريب مسلمانوں كو ديں، زكاة دينے كے ليے مالدارى كا معيار يہ كہ جس مسلمان كے پاس 612 گرام چاندى يا 87 گرام سونا ہو، يا اسى كى مقدار ميں روپيہ پيسہ ہو،  اور اس ضرورتِ اصليہ اور رزو مرہ كى ضروريات سے بچ جائے، اور اس پورا سال گزر جائے اس كے اوپر زكاة دينا ضرورى ہے، قرآن وحديث ميں زكاة كے فضائل اور زكاة نہ دينے كى صورت ميں بہت سخت وعيديں آئى ہيں۔

قرأن كريم ميں زكاة كى فضيلت ميں  ايك جگہ الله تعالى كا ارشاد ہے:

{ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ} [البقرة: 277]

جو لوگ الله برايمان لائے، اور اچھے كام كئے، اور نماز قائم كى اور اپنے مال كى زكاة دى، ان كے ليے ان كے رب كے پاس بڑا اجر ہے، اور كل قيامت كے دن نہ ہى ان كو كوئى خوف ہوگا اور نہ ہى وہ لوگ رنجيدہ اور پريشان ہوں گے۔

دوسرى طرف زكاة نہ دينے والوں كے ليے بڑے سخت الفاظ ميں الله تعالى فرماتے ہيں:

{وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ} [التوبة: 34]

اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو اس دن (قيامت كا دن) کے دردناک عذاب کی خبر سنا دو۔

اسى طرح حضرت معاذ بن جبل كو جب آپ صلى الله عليه وسلم نے يمن كا حاكم اور گورنر بنا كر بھيجا تھا توان كو بہت سى باتوں كى ہدايت دى تھى ان سے ايك ہدايت زكاة كے بارے ميں بھى تھى، چنانچہ حديث كے الفاظ ہيں:

“فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ” (صحيح البخاري: 1395، صحيح مسلم: 19)

آپ صلى الله عليه وسلم نے حضرت معاذ سے كہا اے معاذ!  جب یمن کے لوگ توحید ورسالت كا اقرار كر كے نماز پڑھنے لگيں پھرتم ان كو بتاؤ  کہ اللہ تعالیٰ نے ان كے مال ميں زكاة كو فرض كيا ہے، جو ان كے مالداروں سے لى جائے گى اور غريبوں ميں تقسيم كى جائے گى۔ (صحیح بخاری: 1395، صحیح مسلم: 19)

بہر حال زكاة سے مال كى صفائى ہو جاتى ہے، اور اس سے غريب مسلمانوں كى مدد بھى ہو جاتى ہے، اس سے ايك دوسرے كا تعاون ہو جاتا ہے۔

اسلام كا چوتھا ركن حج ہے

حج اسلام چوتھا اہم ركن ہے، يہ اسلامى طاقت كا مظاہرہ ہے، سارے مسلمانوں كى اجتماع گاہ ہے، يہ ہر اس شخص پر فرض ہے جو مكہ معظمہ تك آنے جانے كى استطاعت ركھتا ہو، اس كى روز مره كى ضروريات كو چھوڑ كر اس كے پاس اتنا پيسہ ہو جس سے مكہ تك آنے جانے كا خرچ اٹھا سكے، اگر كسى كے پاس اتنا پيسہ ہو تو زندگى ميں ايك بار ايسے شخص پر حج فرض ہے، قرآن وحديث ميں حج كے بھى بڑے فضائل اور مناقب ہيں:

ايك جگہ الله تعالى كا ارشاد ہے:

{وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا } [آل عمران: 97]

اور لوگوں میں سے جو لوگ اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں ان پر اللہ کے لیے اس گھر کا حج کرنا فرض ہے۔

حج كى فضيلت ميں ايك حديث ميں آيا ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ حَجَّ هَذَا البَيْتَ، فَلَمْ يَرْفُثْ، وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ» (رواه البخاري في صحيحه: 1820، ومسلم في صحيحه: 1350)

حضرت ابوہریرہ  بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  جس نے حج کیا اور اس میں کوئی گناہ نہیں کیا وہ گناہوں سے اس طرح (پاک) لوٹے گا جس طرح اپنی ماں کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔ (صحیح بخاری: 1820، صحیح مسلم: 1350)

حج كى استطاعت اور اس كا سارا خرچ برداشت كرنے صلاحيت كے باوجود جو لوگ حج نہيں كرتے ان كے ليے بڑا گناہ ہے، اور حضور صلى الله عليه وسلم كى طرف سے بڑى سخت وعيد ہے۔

عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ مَلَكَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلَى بَيْتِ اللهِ وَلَمْ يَحُجَّ فَلاَ عَلَيْهِ أَنْ يَمُوتَ يَهُودِيًّا، أَوْ نَصْرَانِيًّا، وَذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ يَقُولُ فِي كِتَابِهِ: {وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ البَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً} (رواه الترمذي في سننه: 812)

آپ نے فرمایا کہ جو شخص قدرت کے باوجود حج نہ کرے، مجھے اس سے غرض نہیں کہ وہ یہودی بن کر مرے یا عیسائی، (سنن الترمذى: 812)

بہر حال جس شخص كو الله تعالى نے مال ودولت سے نوازہ ہو اس كو جلد از جلد يہ فريضہ پورا كر لينا چاہئے۔

اسلام كا پانچواں ركن رمضان كا روزہ ہے

دوسرے اركان كے ساتھ  ساتھ روزہ بھى مسلمانوں پر فرض ہے، ہر وہ آدمى جو مسلمان ہو، عاقل وبالغ اور صحت مند ہو اس پر روزہ ركھنا فرض ہے روزہ خالص بدنى عبادت  ہے، دنيا كے سارے مسلمان اسلامى مہينے كے اعتبار سے رمضان كے مہينے ميں روزہ ركھتے ہيں، روزہ ميں شريعت كے حكم پر عمل كے ساتھ ساتھ جسمانى فوائد بھى ہيں،  روزہ كى فرضيت كے بارے ميں الله تعالى فرماتے ہيں:

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ} [البقرة: 183]

اے ايمان والو! دوسرى قوموں كى طرح تم پر بھى روزے فرض كئے تاكہ تم متقى  اور پرہيزگار بن جاؤ۔

روزے كى افاديت اور اس كى اہميت كے بارے ميں بخارى  شريف كى ايك روايت ميں حضرت ابو ہريرہ سے مروى ہے:

قَالَ اللَّهُ: كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ، إِلَّا الصِّيَامَ، فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ، وَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلاَ يَرْفُثْ وَلاَ يَصْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ، فَلْيَقُلْ إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ ” (صحيح بخارى: 1904)

حضرت ابوہریرہ كہتے ہيں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : روزے کے سوا ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہوتا ہے ، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا  اور بدلہ دوں گا،  روزہ ڈھال ہے اور جب تم میں سے کوئی شخص روزہ سے ہو تو وہ شور وشغب اور بيہودہ گوئى نہ کرے ،اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا اس سے لڑے تو وہ یہ کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ! روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے ، روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی افطار کے وقت، اور دوسرى خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت ہوگی اس وقت وہ اپنے روزہ سے خوش ہوگا۔

روزے كے مہينے ميں مسلمان اپنے اندر اپنے گھر ميں ايك خاص قسم كى تبديلى اور بركت محسوس كرتا ہے، رمضان ميں گناہوں ميں كمى ہوتى ہے، لوگ نيكى  كى طرف زيادہ مائل ہوتے ہيں۔

بہر حال  روزہ الله كى طرف سے مسلمانوں كے ليے بہت بڑا انعام ہے، اس ميں جہاں الله كے حكم كى تعميل ہوتى ہے وہيں روزے سے جسمانى اور روحانى فائدے بھى ہوتے، جو لوگ پورے رمضان كا روزہ ركھتے ہيں وہ صحت مند رہتے ہيں جلدى بيمار نہيں ہوتے۔

الله تعالى ہم سب كو اسلام كے ان پانچ اركان پر صحيح نيت كے ساتھ عمل كى توفيق دے آمين۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply