hamare masayel

باہر ممالک رہنے والوں اور ان کے بچوں کا فطرہ

 (سلسلہ نمبر: 645)

باہر ممالک رہنے والوں اور ان کے بچوں کا فطرہ

سوال: جو لوگ باہر ممالک رہتے ہیں وہ اپنا فطرہ باہر ممالک کے حساب سے ادا کریں گے یا اپنے ملک کے حساب سے؟ اسی طرح اپنے بچوں کا فطرہ کس اعتبار سے ادا کریں گے؟

المستفتی: عبد الحلیم، منجیرپٹی، اعظم گڑھ۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: صدقۂ فطر میں اگر اصل جنس اَدا کی جائے، مثلاً نصف صاع گیہوں یا ایک صاع جو یا کشمش وغیرہ، تو اُس میں ہر طرح جائز ہے، خواہ مالک اپنے مقام پر ادا کرے یا دوسری جگہ ادا کرے؛ لیکن اگر ان اشیاء کی قیمت ادا کرنا چاہے تو اس شخص کی جگہ کا اعتبار کیا جاتا ہے جہاں وہ ادائیگی کے وقت موجود ہو، اسی طرح جن لوگوں کے صدقہ فطر کی ادائیگی شرعاً اس کے ذمہ ہو یعنی غلام باندی، نابالغ بچے اور بالغ مجنون بچے، ان کے بارے میں بھی امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اسی کے جائے قیام کا اعتبار ہوگا گرچہ بچے وغیرہ دوسری جگہ مقیم ہوں، (اسی قول کو اکثر کتابوں میں مفتی بہ قرار دیا گیا ہے)، مثلا کوئی ہندوستانی شخص دبئی میں مقیم ہے اور اس کے بچے ہندوستان میں ہیں تو یہ شخص اپنا اور اپنے نابالغ اور بالغ مجنون بچوں کا صدقہ فطر دبئی کے حساب سے ادا کرے گا، لیکن امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہ شخص تو اپنا فطرہ باہر ملک کے حساب سے ہی ادا کرے گا البتہ اپنے بچوں کا صدقہ ان کے جائے قیام کے حساب سے ادا کرے گا، (بعض کتابوں میں اس قول کو بھی مفتی بہ کہا گیا ہے) معلوم ہوا کہ مسئلہ مختلف فیہ ہے اور جب مسئلہ مختلف فیہ ہو تو گنجائش نکل آتی ہے، اس لئے باہر ممالک رہنے والوں کے لئے بہتر یہی ہے اپنا اور اپنے نابالغ بچوں کا صدقہ باہر کے حساب سے نکالیں لیکن اگر کوئی اپنے بچوں کا صدقہ فطر ہندوستان کے حساب سے بھی ادا کردے تب ادا ہو جائے گا۔

نوٹ: اگر ایسا شخص اپنے والدین اور بیوی اور عقل مند بالغ بچوں کا صدقہ فطر ان کی اجازت سے ادا کرنا چاہے تو ہندوستان کے حساب سے ادا کرے گا۔

الدلائل

 ویعتبر مکانه لنفسه، الخ وعلیه الفتوی. (الدر المنتقی: 1/ 226).

(عن نفسه) متعلق بيجب وإن لم يصم لعذر (وطفله الفقير) والكبير المجنون …..  (لا عن زوجته) وولده الكبير العاقل، ولو أدى عنهما بلا إذن أجزأ استحسانا للاذن عادة. (الدر المختار: 3/ 367، كوئته).

وفي صدقة الفطر يعتبر مكانه لا مكان أولاده الصغار وعبيده في الصحيح، كذا في التبيين، وعليه الفتوى، كذا في المضمرات. (الفتاوى الهندية: 1/ 190، كوئته).

بخلاف صدقة الفطر حيث يعتبر فيها مكان الفاعل، وهو المؤدي، لأنها لا تسقط بهلاك المال بعد ما طلع الفجر من يوم الفطر، فحينئذ يعتبر مكان صاحب الذمة وهو المؤدي. (البناية شرح الهداية، كتاب الاضحية: 11/ 27، 28، كوئته).

تنبيه: المعتبر في الزكاة فقراء مكان المال ، وفي الوصية مكان الموصي ، وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد ، وهو الأصح لأنّ رؤسهم تبع لرأسه. (الدر المختار: 3/ 536).

(وهو الأصح) بل صرح في النهاية والعناية بأنه ظاهر الرواية كما في الشرنبلالية وهو المذهب كما في البحر، فكان أولى مما في الفتح من تصحيح قولهما باعتبار مكان المؤدى عنه. قال الرحمتي: وقال في المنح في آخر باب صدقة الفطر: الأفضل أن يؤدي عن عبيده وأولاده وحشمه حيث هم عند أبي يوسف، وعليه الفتوى، وعند محمد: حيث هو اه‍ تأمل. قلت: لكن في التاترخانية: يؤدي عنهم حيث هو، وعليه الفتوى وهو قول محمد، ومثله قول أبي حنيفة، وهو الصحيح. (رد المحتار: 2/ 355، مكة المكرمة).

ويؤدي صدقة الفطر من نفسه حيث هو، وعن عبيده حيث هم. (فتاوى قاضي خان: 1/ 231).

والله أعلم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.

17- 9- 1442ھ 30- 4- 2021م الجمعة.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply