سنگ مرمر میں زکاۃ
زمین سے برآمد ہونے والے معدنیات کو فقہاء حنفیہ نے تین زمروں میں تقسیم کیا ہے، ایک وہ جو جامد ہوں اور انہیں عام طور پر پگھلایا اور مختلف سانچوں میں ڈھالا جاتا ہو جیسے: سونا، چاندی، لوہا، پیتل وغیر ہ، دوسرے وہ جو جامد ہوں لیکن انہیں پگھلا یا نہ جاسکتا ہو، جیسے سرمہ، چونا یا مختلف قسم کے پتھر، تیسرے وہ جو جامد نہ ہوں بلکہ سیال ہوں، جیسے پٹرول وغیر ہ۔
پہلی قسم کے دستیاب ہونے پر اس کا پانچواں حصہ حکومت کو دینا ہوتا ہے، گویا اس کی حیثیت زکاۃ کی نہیں بلکہ مال غنیمت کی ہے اور اس کے مصارف بھی وہی ہیں جو مال غنیمت کے ہیں اور اس پر سال گزرنا بھی شرط نہیں۔
اور بقیہ دونوں قسموں پر کچھ نہیں ہے اور ان کا شمار اموالِ زکاۃ میں نہیں ہے الا یہ کہ ان کی تجارت کی جائے۔ لہذا سنگ مرمر میں کوئی زکاۃ نہیں ہے الا یہ کہ تجارت مقصود ہو تو اس میں زکاۃ واجب ہوگی اور اس کا نصاب وہی ہے جو مال تجارت کا ہے ۔
ہیرے، جواہرات کی زکوٰۃ
زکوٰۃ ایک عبادت ہے اور عبادت میں قیاس ورائے کا کوئی دخل نہیں ہوتا ہے، بلکہ شریعت کی طرف سے جس کیفیت کے ساتھ ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح سے ادا کرنا ضروری ہے، زکاۃ کے معاملے میں شریعت نے ان اموال کی تحدید و تعیین کردی ہے جن کی زکوٰۃ نکالی جائے گی، جن میں ہیرے جواہرات شامل نہیں ہیں، اس لیے ان کی مالیت جو بھی ہو ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی مگر یہ کہ ان کی تجارت مقصود ہو تو مال تجارت ہونے کی حیثیت سے زکاۃ فرض ہوگی، چنانچہ علامہ حصکفی لکھتے ہیں:
(لا زكاة في اللآلئ والجواهر) وإن ساوت ألفا اتفاقا (إلا أن تكون للتجارة) الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 273)
’’بہ اتفاق موتی اور جواہرات میں زکات نہیں ہے گرچہ وہ ہزاروں درہم کے برابر ہوں مگر یہ کہ وہ تجارت کے لئے ہوں‘‘۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.