سولر ہیٹر کے ذریعے گرم کیے ہوئے پانی سے وضو کرنا
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی۔ جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو۔
سولر ہیٹر (Solar Heaters) سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرکے پانی وغیرہ کو گرم کردیتا ہے، کیا اس طرح کے گرم پانی سے وضو، غسل وغیر ہ درست ہے یا نہیں؟
سورج کی حرارت کے ذریعے گرم کیے گئے پانی کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے، شافعیہ اور مالکیہ کے نزدیک ایسے پانی کااستعمال مکروہ تنزیہی ہے اور بعض حنفی فقہا ء نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، شافعیہ کے نزدیک اس کی کراہت کے لیے شرط ہے کہ علاقہ گرم ہو، برتن کا میٹریل ایسا ہو کہ اسے پگھلایاجاسکے، جیسے کہ دھات، وغیرہ کا برتن، اسے وضو یا غسل میں استعمال کیاجائے، کپڑا وغیر ہ کے دھونے میں کوئی کراہت نہیں،گرم ہونے کی حالت میں استعمال کیاجائے، ٹھنڈا ہونے کے بعد مکروہ نہیں، ان حضرات کی دلیل وہ احادیث و آثار ہیں جن میں سورج کی تپش سے گرم کیے ہوئے پانی کے استعمال سے منع کیا گیا ہے، اور کہا گیا ہے کہ اس سے برص کی بیماری پیداہوتی ہے۔
اس کے برخلاف حنابلہ، جمہور حنفیہ، بعض مالکیہ اور بعض شافعیہ جیسے کہ امام نووی وغیرہ کے نزدیک اس میں کوئی کراہت نہیں ہے، (دیکھئے الموسوعة الفقہیة 363/39)کیونکہ اس سلسلے میں وارد حدیث یا کسی صحابی کا قول صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، جیسے کہ حضرت عائشہؓ سے منقول ہے کہ:
عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ سَخَّنْتُ مَاءً فِي الشَّمْسِ , فَقَالَ: «لَا تَفْعَلِي يَا حُمَيْرَا فَإِنَّهُ يُورِثُ الْبَرَصَ». قال الدارقطني: غَرِيبٌ جِدًّا، خَالِدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ مَتْرُوكٌ. (سنن الدارقطني: 86)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کے لئے میں نے دھوپ کے ذریعے پانی گرم کیا تو آپ نے فرمایا: حمیرا ! ایسا مت کیا کرو،اس سے برص کی بیماری ہوتی ہے۔
اس روایت کو ابن عدی نے موضوع قرار دیا ہے۔ (الکامل في ضعفاء الرجال:3/ 475)، اس ميں ايك راوى خالد بن اسماعيل ہيں وه متروك ہيں۔
اور حضرت عمرؓ سے منقول ہے کہ:
«لَا تَغْتَسِلُوا بِالْمَاءِ الْمُشَمَّسِ , فَإِنَّهُ يُورِثُ الْبَرَصَ». (سنن الدارقطني: 88)
سورج کے ذریعے گرم پانی سے غسل نہ کرو کیونکہ اس سے برص کی بیماری پیدا ہوتی ہے ۔
امام نووی کہتے ہیں کہ: یہ اثر ضعیف ہے، (الخلاصة 69/1) اورعقیلی کہتے ہیں کہ دھوپ سے گرم پانی کے متعلق کچھ بھی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، (الضعفاء 176/2)اور اما م شافعی فرماتے ہیں کہ: وَلَا أَكْرَهُ الْمَاءَ الْمُشَمَّسَ إلَّا مِنْ جِهَةِ الطِّبِّ (الأم للشافعي: 1/ 16) یعنی ان کے نزدیک بھی اس سلسلے کی روایتیں صحیح نہیں ہیں، البتہ طبی اعتبار سے مرض کا سبب ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے، حاصل یہ ہے کہ اگر جدید سائنس کے ذریعہ اس کا نقصان دہ ہونا ثابت ہوجائے تو بچنا چاہیے ورنہ تو شرعی اعتبار سے اس میں کوئی کراہت نہیں۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.