(سلسلہ نمبر: 689)
عاشوراء کے ساتھ ایک اور روزہ رکھنے والی حدیث کب کی ہے؟
سوال: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم جب مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے یہود کو یوم عاشورہ کو روزہ رکھتے دیکھا وجہ معلوم کی تو معلوم ہوا کہ اس دن بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملی تھی اس کے شکرانے میں روزہ رکھ رہے ہیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہم تم لوگوں کو مقابلے میں زیادہ حقدار ہیں کہ اس دن روزہ رکھیں۔
دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر اگلے سال زندہ رہا تو دس کے ساتھ ایک روزہ کا اضافہ کروں گا تاکہ یہود سے مشابہت نہ ہو۔
سوال یہ ہے کہ یہ دس محرم کیساتھ ایک روزہ کے اضافہ والی بات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے کب ارشاد فرمائی؟ شروع سے کیوں نہیں دس کیساتھ ایک روزہ کا اضافہ کیا؟
جب معلوم ہوگیا تھا کہ دس محرم کو یہود روزہ رکھتے ہیں تو اسی وقت مشابہت سے بچنے کیلئے کیوں نہیں ایک روزہ کا اضافہ کیوں نہیں کیا؟ بینوا و توجروا..
المستفتی: شیخ محمد خالد اعظمی ترجمان پاسبان علم وادب۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: یہ حدیث شریف حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال سے کچھ مہینہ پہلے ارشاد فرمائی تھی، شروع ہی سے آپ نے یہ اس لئے نہیں فرمایا کیوں کہ شروع شروع میں ان معاملات میں جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو کوئی حکم نہیں دیا گیا ہو اہل کتاب کی موافقت کو پسند فرماتے تھے تاکہ اہل کتاب اس موافقت کی وجہ سے اسلام سے قریب ہوں لیکن یہ بات ظاہر ہوگئی کہ اکثر اہل کتاب محض بغض وعناد کی وجہ سے اسلام قبول نہیں کررہے ہیں تو آپ نے اہل کتاب مخالفت کا حکم ارشاد فرمایا.
الدلائل
قال الحافظ رحمه الله في الفتح: ما رواه مسلم مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنِ ابن عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَالَ: لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ لَأَصُومَنَّ التَّاسِعَ. فَمَاتَ قَبْلَ ذَلِكَ فَإِنَّهُ ظَاهِرٌ فِي أَنَّهُ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- كَانَ يَصُومُ الْعَاشِرَ، وَهَمَّ بِصَوْمِ التَّاسِعِ, فَمَاتَ قَبْلَ ذَلِكَ, ثُمَّ مَا هَمَّ بِهِ مِنْ صَوْمِ التَّاسِعِ يَحْتَمِلُ مَعْنَاهُ أَنَّهُ لَا يَقْتَصِرُ عَلَيْهِ, بَلْ يُضِيفُهُ إِلَى الْيَوْمِ الْعَاشِرِ إِمَّا احْتِيَاطًا لَهُ, وَإِمَّا مُخَالَفَةً لِلْيَهُودِ وَالنَّصَارَى, وَهُوَ الْأَرْجَحُ, وَبِهِ يُشْعِرُ بَعْضُ رِوَايَاتِ مُسْلِمٍ, وَلِأَحْمَدَ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَن ابن عَبَّاسٍ مَرْفُوعًا: صُومُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ, وَخَالِفُوا الْيَهُودَ صُومُوا يَوْمًا قَبْلَهُ أَوْ يَوْمًا بَعْدَهُ. وَهَذَا كَانَ فِي آخِرِ الْأَمْرِ, وَقَدْ كَانَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ مُوَافَقَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ فِيمَا لَمْ يُؤْمَرْ فِيهِ بِشَيْءِ, وَلَا سِيَّمَا إِذَا كَانَ فِيمَا يُخَالِفُ فِيهِ أَهْلَ الْأَوْثَانِ, فَلَمَّا فُتِحَتْ مَكَّةُ وَاشْتُهِرَ أَمْرُ الْإِسْلَامِ أَحَبَّ مُخَالَفَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ أَيْضًا, كَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِيحِ, فَهَذَا مِنْ ذَلِكَ, فَوَافَقَهُمْ أَولا, وَقَالَ: نَحْنُ أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ. ثُمَّ أَحَبَّ مُخَالَفَتَهُمْ فَأَمَرَ بِأَنْ يُضَافَ إِلَيْهِ يَوْمٌ قَبْلَهُ وَيَوْمٌ بَعْدَهُ خِلَافًا لَهُم. انتهى۔ (فتح الباري: 4/ 288، الرقم: 1896).
والله أعلم.
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.
23- 4- 1443ھ 29- 11- 2021م الاثنين
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.