عبد الحفیظ رحمانی اور جمعیت

مولانا عبد الحفیظ رحمانی اور جمعیت علمائے ہند

مولانا عبد الحفیظ رحمانی اور جمعیت علمائے ہند

از: حضرت قيام الدين القاسمی جنرل سکریٹری جمعيت علما ضلع بستى یوپی

دارالعلوم دیو بند شیخ الہندا کیڈی کے سابق ریسرچ ڈائر یکٹر مولانا عبد الحفیظ رحمانی رحمہ اللہ ملى، معاشرتی اور علمی حلقوں کے لئے محتاج ِ تعارف نہیں، یقنا آپ کی وفات ایک عہدِ آفریں کا خاتمہ ہے جس کا بدل نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہے، خیر ….. رہروانِ عدم  کی روایات کے تناظر میں اس طرح کی عبقریت سے محرومی کوئی تعجب خیز نہیں اس لئے کہ یہ فانی دنیا کا دستور ہے جو آیا وہ گیا :

دنيا نے كس كا راہِ فنا ميں ديا ہے ساتھ

تم بھى چلے چلو جہاں تك چلى چلے

 ہاں کچھ نقوش و آثار اور ملی خدمات ہوتی ہیں جن کے ذریعہ وہ لقمہ اجل انسان بھی پسِ مرگ زندہ رہتا ہے اور حلقہ احباب میں اس كا ذكر ِخیر ہوتا رہتا ہے، وہ و موضوع  بحث اور یادگار بنا رہتا ہے،  انہیں میں سے حضرت مولانا رحمانی نور اللہ مرقدہ کی ذات اقدس ہے جنہوں نے ۱۹۳۹ء میں غیر منقسم ضلع بستی کے مشہور گاؤں لُہَرْ سَنْ Loharsan (موجودہ سنت كبير نگر)میں ایک معزز دینی اور صاحب نسبت گھرانہ میں آنکھ کھولی پھر درویش صفت والد بزرگوار حافظ فتح محمد مرحوم کی تربیت اور رہنمائی میں رفتہ رفتہ وقت کے بڑے بڑے صاحبان علم ومعرفت سے استفادہ کرتے ہوئے ایشیا کی عظیم دینی درسگاہ دارالعلوم دیو بند سے ۱۹۶۰ء میں سند فراغ حاصل کیا ،فراغت کے بعد مدارس عربیہ کی قلیل مدتی تدریسی خدمات کے باوجود آپکی رفتار زندگی کا بیشتر حصہ مقاصدِ مدارس سے ہم آہنگ اور علمائے ربانین کی تحریکات سے وابستہ رہا،  وابستگی کا  يہ خما رایسا رہا کہ مولانا آزاد انٹر کالج قادرآباد سدھارتھ نگر میں بحیثیت اردو لکچرر تھے، غیر مانوس روشن خیال ٹیچران اور خود مختار انتظامیہ سے متاثر ہوئے بغیر ہمیشہ اپنی فاضلانہ وضع قطع اور اکابرین کے طرز عمل کے ذریعہ مؤثر اور بارعب نظر آئے اور چند دنوں میں بلا تفریق مذہب وملت علاقہ کا سیاسی، سماجی اور دانشور طبقہ آپ کا گرویدہ ہو گیا اسی طرح آپ ملی معاشرتی اور عالمی سوز و گداز کے ساتھ ساتھ علمی قلمی اور طبیعی طور پر ممتاز و منفرد شخصیت کے مالک بنے رہے:

وہ كسى كى انجمن ہو وہ كسي كى بادشاہى   يہى

بانكپن ر هے گا يہى اپنى كج كلاہى

 یوں تو ہر آدمی منفردا کائی کی حیثیت رکھتا ہے اور اپنی الگ شناخت کے حوالے سے اپنی ساری کامیابیوں اور ناکامیوں کے ساتھ لاجواب ہوتا ہے لیکن مولانا رحمانی کی انفرادیت کچھ اور ہی تھی کہ کبھی کبھی اپنے طبعی، تاریخی اور قلمی تفردات (بانی دارالعلوم کے بابت تاریخ نویسی ، اقبالیات پر جرح ، کچھ تنظیموں تحریکوں پر بے باک ریمارک ا ور اپنے موقف پر اٹل رہنا وغیرہ) کے باعث معاصر علمائے کرام کی مجلسوں میں نقد و تبصرہ کى میز کی زینت بنے رہتے جن میں کچھ ناقدین نے اپنی تنقید میں بے جا غلو سے کام لیتے ہوئے حقایق سے منہ موڑ ليا،  یہاں تک کی مولانا رحمانی ” کے متعلق کسی بھی ملی ادبی اور تنظیمی خدمات کی نشان دہی کیا کرتے ؟ بلکہ منفی سوچ کے ساتھ سینہ سپر نظر آئے جب کہ راقم آثم کے نزدیک اس طرح کہ منفی سوچ کا مظاہرہ کرنا کسی بھی بیدار مغز صاحب علم و ادب کا شیوہ نہیں، حالانکہ اس طرح کے تفردات اور اجتہادات کو مجتہدانہ خطا اور صواب گردانتے ہوئے چشم پوشی پر محمول کیا جا سکتا ہے پھر بھی ان تفردات کے باوجود آپ علمائے  حق کی آوازمیں آواز ملا کرجمعیت علما ہند کے خطوط کا کوپیش نظر رکھ کربر وقت ملی تقاضوں کے لئے سرگرم نظر آتے رہے:

ميرے حق ميں دوستوں كا يہى فيصلہ ہے عاجز

كہ گناہ سے ہے بڑھ كر ترا جرم بے گناہى

سچ تو یہ ہے که سرگرمی اور خدمتِ ملت کا جذ بہ آپ کو ورثہ میں ملا تھا اس لئے کہ ۱۹۲۵ء ہی میں خود آپ کے والد مرحوم نے علمائے ہند کی مقامی شاخ قائم کرلی تھی، اور حضرات علمائے کرام  كى آمد و رفت کا سلسلہ اسی وقت سے جاری رہا جیسا کہ مولانا مرحوم کی خود نوشت تحریریں اس كى شاہد ہیں چنانچہ مولانا رحمانی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ:

” ۱۹۲۵ء میں والد ماجد رحمہ اللہ نے جمعہ کی شاخ قائم کرلی تھی اور اس کے اغراض و مقاصد کو بروئے کار لانے کے لئے ہر ممکن جد جہد میں مصروف تھے اور مرور ایام کے ساتھ کاموں کا دائرہ وسیع ہو گیا” (ماخوذ از خادم ملت حیات و خدمات )

مولانا رحمانی کالج کی تدریسی خدمات میں مصروف ہونے کے باوجود جمعیت علمائے ہند کے زیر اہتمام ہونے والے اجلاس، تحریکات اور دیگر امورِ ملت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ، یہاں تک کہ سن ۱۹۷۹ء میں جمعیت علمائے ہند کی تاریخ ساز انقلاب آفریں تحریک بنام :”ملک ملت بچاؤ تحریک “میں پوری بے با کی اولوالعزمی اور سرگرمی کیساتھ جیل بھرو آندولین میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی، اور فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی کی قیادت میں تیسرے جتھہ میں شریک ہو کر تہاڑ جیل کی آہنی سلاخوں میں پابندِ قید ہوئے ، اور اس تحريك سے حکومت کے ایوان میں زلزلہ آگیا اور تحریک کامیاب ہوگئی ۔ اس کے باوجود جمعیت علمائے ہند نے اپنے ہدف کے مطابق  ۱۷/ جھتے بھیجے اور۹ جولائی ۹۷۹ اء سے  24 جولائی ۱۹۷۹ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔

دائرہ کار کى وسعت کی وجہ سے بالآ خر ملت کا یہ وفا کیش خادم اپنی قلمی ، قیادتی لیاقت کیوجہ سے باضابطہ جمعیت علمائے ہند کی غیرمنقسم ضلع بستی اکائی کاضلع جنرل سکریٹری منتخب ہوا، اپنی تدریسی، تصنیفی اور دیگر امورملت کی مصروفیت کے باوجود ضلع صدر خادم ملت مولانا عبد الحمید صاحب  (پ: ۱۹۲۹ – ت: ۲۰۰۸ء) کی رفاقت و صدارت میں مقامی سطح سے لے کر صوبہ اور مرکز تک پوری ارتباط باہمی کے ساتھ امور جمعیت کی کامیابی کے لئے پیش پیش رہا۔

  آج بھی میرے حافظہ کے اسکرین پر یہ منظر سامنے ہے کہ جب ناچیز مدرسہ عربیہ اشرف العلوم ہوا باز ارضلع بستی یوپی میں عالمیت کورس ابتدائی درجات کا طالب علم تھا مر بی محترم مولانا عبد الحلیم مظاہری ثم قاسمی دامت برکاتہم (مولانا 2018 ميں مرحوم ہو چكے ہيں) کے زیر اہتمام مدرسہ ہٹوا بازار وترقی کے راہ پر گامزن تھا ، اس وقت حضرت مولانا رحمانی ” کبھی کبھار بموقع امتحانات مدرسہ میں تشریف فرما ہوتے تو ان كى گفتگو  اور مفکرانہ انداز تکلم سے مجھے اندازہ ہونے لگا کہ یہ کوئی بڑا عالم ہے جو بڑے کام کی باتیں کر رہا ہے اور اساتذہ کرام بگوش دل ساعت فرما رہے ہیں، خاص طور سے سیاسی سماجی جمعیتی ، جماعتی دیگر مسائل اور عالم اسلام کی صورت حال پر خوب باتیں کرتے چونکہ ہمارے مہتمم ( مولانا عبد الحلیم ) صاحب بھی ان مسائل سے باخبر اور خوب دل چسپی رکھتے تھے اس معنی کر دونوں حضرات میں جذبات و خیالات کی ہم آہنگی ایک دوسرے کی رعایت و پاس داری حد درجہ قائم رہی۔

ع  خوب گزرے گى جو مل بيٹھيں گے ديوانے دو

 اسی زمانے کی بات ہے کہ کچھ شر پسند ایرانیوں نے حرم شریف کے تقدس کو پامال کرنے کی ناپاک کوشش کی جس کیوجہ سے پورا عالم اسلام برافروختہ ہو گیا جگہ جگہ اس کی مذمت ہونے لگی ہندوستان میں بھی جمعیت علمائے ہند کے زیر اہتمام تحفظ حرم کا نفرنس کے عنوان سے شر پسند ایرانیوں کی مذمت کی گئی اور حرمین شریفین کے تقدس کو عالم اسلام کی شان قرار دی گئی اور پورے ملک میں اس کے لئے تحریک چلائی گئی جن میں اتر پردیش بھی اس تحریک میں پیش پیش رہا چنانچہ ۲۶ فروری ۱۹۸۸ء کو جمعیت علمائے ضلع بستی یوپی کے زیر اہتمام سرزمینِ سَمْرِياواں بازار، ضلع سنت كبير نگرميں بھی “تحفظ حرم کا نفرنس” کے عنوان سے ایک عظیم الشان اجلاس عام منعقد کیا گیا مہمان خصوصی فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی نو راللہ مرقدہ (پ: ۱۹۲۸ ت: ۲۰۰۶) تھے ، ضلع صدر مولانا عبد الحمید اور جنرل سکریٹری مولانا عبدالحفیظ رحمانی تھے ، کانفرنس کی کامیابی کے لئے مولانا رحمانی نے ضلع صدر کی قیادت اور ذمہ داران جمعیت علمائے  ضلع بستى کی معیت میں ضلع کے مختلف مقامات گاؤں اور مدارس کا دورہ کیا اور تحفظ حرم کا نفرنس کی اہمیت افادیت اور ضرورت کا مسلم معاشرہ میں احساس پیدا کیا۔

مجھے یاد ہے کہ ہٹوا بازار کے سماجی کارکن حاجی زین اللہ صاحب کو کانفرنس کی مجلس استقبالیہ کا صدر منتخب کیا گیا تھا اور بحیثیت نمائندہ صدر مولانا عبد الحلیم صاحب مہتم مدرسہ ہٹوا بازار نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا ضلع جنرل سکریٹری مولانا رحمانی نے اپنے افتتاحی خطاب میں بنائے کعبۃ اللہ، مکہ مکرمہ کی عظمت و برکت اور تحفظ حرم کی معنویت پر قرآن وحدیث کی روشنی میں عام فہم اور معلوماتی بیان فرمایا کہ مجھ جیسے ادنی طالب علم کو بھی مقاصد کا نفرنس سمجھنے میں دیر نہیں لگی اس طرح دیگر مندوبین علمائے کرام کی تقاریر و تجاویز اور “فدائے ملت مرد آہن مولانا مدنی ” کی کلیدی خطاب کے ذریعہ اجلاس بحسن و خوبی اختتام پذیر ہوالحمد لله کا نفرنس کی شہرت اور اس کی پذیرائی پورے پردیس میں ہوئی بلکہ ضلع صدر کی صدارت اور مولانا رحمانی کی سکریٹری شپ میں ذمہ داران کانفرنس کی فعالیت و سرگرمیوں کی وجہ سے جمعیت علمائے ہند ضلع بستی کی شاندار کار کر دگی کا شہرہ صوبہ اور مرکز تک سنائی دیا۔

 اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مولانا رحمانی دینی علوم میں رسوخ قلم کی برجستگی و سادگی اور منفرد لب ولہجہ حق گوئی و بے باکی جیسی خوبیوں اور صلاحیتوں کی وجہ سے جمعیتی احباب میں نمایاں نظر آنے لگے بلکہ ملکی سطح پر جمعیت علمائے ہند کے اکابرین سے دید و شنید کے مواقع میسر ہوئے اور ان سے محکم مراسم استوار ہو گئے گویا آپ اکابرین ملت میں شمار ہونے لگے۔

 میں یہاں صاف لفظوں میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ مولانا رحمانی کا فقط جمعیت ہی اوڑھنا بچھونا نہیں تھا بلکہ آپ نے اپنے قلمی، ادبی ذوق کی وجہ سے یکسوئی کے ساتھ مصروف بہ عمل ہو کر ملت کو تقریبا دو درجن سے زائد بیش بہا تصنیفی تحائف بھی پیش کیا۔ یعنی “بائیل اور نبی آخر الزماں” ،” توریت اور یہود اپنے آئینے میں”، ” آثار امام اعظم ابوحنیفہ”،  “الامام النانوتوی کے مجاہدانہ کارنامے”، “تحریک قیام مدارس کا تاریخی جائزہ”، “تصوف کی حقیقت اور اس کے مسائل “،” ذکر الہی کی شرعی حیثیت”، “غیر مقلدین کا آئینہ”، “غیر مقلدین کی خانہ تلاشی”، “رضا خانیوں کا فرار”، “مرزا غلام احمد قادیانی کے مراق نبوت کے خدو خال “، “سوانح حضرت شاہ عبدالحلیم جونپوری”، “سوانح حضرت مولانا زین الدین صاحب کاندھلہ”، “پسندیدہ مرشد”،” خادم ملت حیات و خدمات”،  “نقشہ آیات قرآنی”، “شخصیت اور شاعری”،  “عصر حاضر کا فکری بحران”، “اردو زبان کی ترویج” ، “طنزیات قرآنی”، “دارالعلوم دیوبند کا بانی کون؟” اور اس کے علاوہ دیگر مضامین و مرقومات ہیں، جو ملک کے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔

علاوہ ازیں دیگر خوبیوں کے ناطے علاقائی معاصرين علما اور دانشوروں ميں ممتاز اور مرجع بنے رہے، عصرى جامعات كے منتظمين، اور مدارس كے مہتممين اور سياسى سماجى كاركن حضرات مختلف مسائل كے حوالے سے مشورہ کرنے آتے اور اپنے مقاصد کے لئے سفارشی ، تو ثیقی اور تقریظی تحریریں بھی لینے آتے، تشنگان قلم و ادب بغرض اصلاح مضامین آپ کے سامنے زانوئے  تلمذ تہہ کرتے اور آپ ان کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے زبردست حوصلہ افزائی فرماتے اور نپى تلى اصلاح فرماتے، آپ اپنی علمی اور مشاورتی توانائی کو شیئر کرنے میں کوئی بخل نہیں کرتے جو آج کے مسابقت کی دنیا میں بہت بڑی بات ہے۔

 1990ء میں مولانا رحمانی کو جمعیت سے  ایسی بیزاری پیدا ہوئی کہ اس سے اعلانیہ مستعفی ہو گئے پھر بھی ہزار نقد و تبصرہ کے باوجود اپنے آپ کو جمعیت سے علاحدہ نہ کر سکے، اور حسب سابق جمعیت علمائے ہند کی ترجمانی اور اکابرین ملت کی تحریکوں کا فخر سے تذکرہ کرتے اور ضلعی جمعیت کی ہر اہم مجلس میں بصد انشراح شرکت فرماتے اور اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہے بقلم مولانا رحمانی کہ: جمعیت جیسے میرے تعاقب میں رہی اور حضرت مولانا عبد الحمید صاحب اپنی مجلسوں میں کہا کرتے تھے کہ: رحمانی صاحب اپنے آبا و اجداد کی میراث چھوڑ کر کہاں جائیں گے حالانکہ مولانا مرحوم ( مولانا عبد الحمید صاحب ) نے میرے خلاف اخباری بیان کا جواب بھی شائع کر دیا تھا اس کے باوجود فرماتے تھے کہ ان (رحمانی) صاحب  کو جمعیت ہی میں رہ کر سکون ملے گا اسی طرح مولانا رحمانی اپنے اور ضلع صدر مولا نا عبدالحمید صاحب کے مابین جمعیتی رفاقت اور استقامت کی بابت کچھ اس طرح رقم طراز ہيں:

” اس علاحدگى كے چند  مہينے گزرے ہوں گے كہ مولانا مرحوم (عبد الحميد) كى راقم الحروف (مولانا رحمانى)  غریب خانہ پر تشریف آوری ہوئی حسب سابق تحفے تحائف کے ساتھ ورود مسعود ہوا گھنٹہ ڈیڑ گھنٹہ جمعیت ہى کے کارناموں اور موجودہ ضروریات پر گفتگورہی، مولانا مرحوم اسطرح محو گفتگو تھے گویا میں جمعیت کا کوئی ذمہ دار شخص  ہوں میں نے ان کی بات چیت میں بہت جاذبیت اور کشش محسوس کی، نشست برخاست ہوئی تو سمریاواں آنے کی دعوت پیش فرمائی اور حسب معمول اخراجات سفر بھی ، چند دنوں کے بعد مولانا مرحوم کے درِ دولت پر حاضری دی تو اس قدر خوشی کا اظہار فر مایا گو یا کوئی متاع گم شدہ مل گئی ہو اس کے بعد حسب سابق جمعیہ کی ہر اہم مجلس میں شریک ہونے کی دعوت دیتے اور میں بصد انشراح مجلس میں شریک ہوتا اور مولانا مرحوم میرے مشوروں کو قبول فرما لیتے اس طرح مولانا کی پیش گوئی پوری ہو گئی کہ رحمانی صاحب اپنے آبا و اجداد کی میراث کہاں چھوڑ کر کہاں جائیں گے؟”۔

مولانا رحمانی آگے لکھتے ہیں کہ:

“میں نے حضرت مولانا فدائے ملت سید اسعد مدنی صدر جمعیت علمائے ہند سے ۱۹۹۵ء میں دہلی کے ایک ملاقات کے موقع پر  عرض کیا کہ نا چیز تو مولانا عبد الحمیدصاحب  کے شانہ بہ شانہ ہے مولانا مدنی نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ لڑتے رہئے اور کام کرتے رہئے” (ماخوذ از  خادم ملت حیات و خدمات )

بہر حال مولانا رحمانی اپنے جمعیتی موقف پر قائم رہے جمعیتہ علماء ہند کی ترقیاتی پالیسی اور پروگرام کو پوری مستعدی کے ساتھ بحسن و خوبی انجام دیتے رہے میرے حافظہ کی لوح پر آج بھی وہ لکیریں شاہد ہیں کہ ۲۰۰۰ء میں اتر پردیش کی برسراقتدار بی جے پی حکومت نے عبادت گاہوں اور مذہبی تعلیمی اداروں کے سلسلہ میں ایک بل پاس کیا تھا کہ جس میں یہ حکم تھا کہ بغیر ضلع مجسٹریٹ کی پرمیشن کے کوئی عبادت گاہ یا مذہبی تعلیمی اداروں کی تعمیر و تجدید نہیں کی جاسکتی اس بل کو تاریخ میں مذہبی مقامات ریگولیشن بل ۲۰۰۰ء کے نام سے جانا جاتا ہے واضح رہے کہ اس بل کے اصل نشانہ مسلمان ہی رہے جو ان کے مذہبی آزادی پر بلا واسطہ ضرب کاری تھی جمعیت علمائے اتر پردیش نے اس بل کے خلاف پورے پردیش میں مورچہ کھولا اور ضلع جمعیت کو احتجاجی اجلاس کے لئے سرکلر ارسال کیا جگہ جگہ مذمتی اور احتجاجی اجلاس ہونے لگے جمعیت علماء ضلع بستی وسنت کبیر نگر نے بھی ریگولیٹری بل کے خلاف ۲۰ فروری ۲۰۰۰ کو مدرسہ تعلیم القرآن سمر یاواں بازار کی جامع مسجد کے سامنے وسیع و عریض صحن میں ایک بڑا احتجاجی اجلاس کیا جس میں مند و بین علمائے کرام اور دانشوروں نے حاضرین کو سیاہ بل کے مضر نکات اور حکومتِ وقت کی تعصب آمیز رویوں سے آگاہ کیا چنانچہ بصدارت مولانا عبد الحمید صاحب اس وقت مولانا عبد الحفیظ رحمانی ” ہی پورے پروگرام کی کمانڈنگ کر رہے تھے اور نہایت ہی عزم و حوصلہ کیساتھ فلک شگاف احتجاجی نعرہ بلند کر نیوالے شرکائے اجلاس کی ہمت افزائی فرما رہے تھے مجھے اس کا احساس آپ کی قائدانہ رولنگ کے علاوہ اس لئے بھی ہوا کہ راقم نے حالات حاضرہ کے تناظر میں ایک مقالہ پیش کرنے کی خواہش ظاہر کی جس پر کچھ لوگوں نے وقت کی تنگئی داماں کا شکوہ کرتے ہوئے روک لگا دی ، جب مولانا رحمانی با خبر ہوئے تو بلا تردد  د مجھے بر سراسٹیج آنے کاحکم دیا اور ميں نے مقالہ پيش  کرنیکی جسارت کی۔

 یقین مانئے کہ واقعی جمعيت مولانا کے تعاقب میں ہمیشہ رہی اور یہ بھی انھیں کا نظر یہ تھا  كہ جمعيت علماء کادس نکاتی فارمولہ ملک وملت کی سالمیت كے ليے بہترین نسخہ ہے اور اس فارمولہ کی روشنی میں قوم وملت اتحاد کے زبردست حامی اور محرک رہے اور اس پر زور وکالت بھی کرتے رہے ابھی کچھ روز پہلے احقر اپنى  پرسنل آفس (الماری) میں فائل پیپرس کے حوالہ كالم  تلاشی کر رہا تھا کہ یکا یک نگاه بتاریخ ۱۸ نومبر ۲۰۱۲ء شدہ انقلاب اخبار کى اس شہہ سرخی پر پڑی جو دراصل اسکول رو دھولی بستی میں منعقدہ قومی یکجہتی کانفرنس زیرِ جمعیت علماء ضلع بستی کی پریس رپورٹنگ تھی، مہمان خصوصی عبد الحفیظ رحمانی ہی تھے، کانفرنس کی سرپرستی مولانا ظہیر انوار صاحب قاسمى  مہتمم دار العلوم الاسلامیہ بستی، اور صدارت مولانا  عبد القيوم  صاحب قاسمی صدر جمعیت علمائے بستى کی تھی جبکہ راقم نظامت كے فرائض پر مامور تھا اخبار نے خاص طور پر مولانا جس کلیدی خطبہ کو کوڈ کیا تھا اس میں مولانا کے جذبات كى پوری عکاسی ہو رہی ہے اور اخبار نے آپ کے اس نظریہ كو بڑے اچھے انداز میں پیش کیا کہ: قوم کی حیثیت سےملك کے ہندومسلمان ایک ہیں اور مذہبی اکائیاں الگ الگ ہيں اسى طرح مولانا رحمانی نے شرکائے اجلاس سے مخاطب ہو کر کہ ہندو مسلم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے والی جمعیت علمائے  ہند ملك کی پہلی تنظیم ہے۔

مولانا رحمانی نونہالوں کیلئے دینی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ مدارس عربیہ کے نظام کولیکر فکر مند رہتے، اور ارباب مدارس کو گاہے بگاہے انتظامی امور، طریقہ تدریس، تنخواہِ  مدرسین اور معیار تعلیم کی بابت اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہتے۔ چنانچہ ابھی کچھ برسوں پہلے بتاریخ 11 مارچ 2012ء كو جمعيت علمائے ضلع بستی اتر پردیش نے یتیم عمر ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹى بڑھيا سرد ہا بستی کے تعاون واشتراک سے مدرسہ دارالعلوم رشیدیہ پوکھر بھِٹْو ا سَلْٹَوّا بستی کی سرزمین پر اربابِ مدارس کا نفرنس منعقد کرنے کا اہتمام کیا تھا، جس کے کنوينرحاجی عبدالماجد صدر بیگم عمر ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی اور انتظامی امور اہتمام کے ناظم مولانا شبیر احمد مظاہری صدر رشیدیہ ریفارم سوسائٹی تھے،  جبکہ  بيگم عمر ایجوکیشن اینڈ ویلفیر سوسائٹی کے نائب صدر مولانا سیف الرحمان ندوی نے مہمانوں کا پرتپاک استقبال کیا۔ بحمد اللہ کانفرنس میں پرتاپ گڑھ، ٹانڈہ،  امبیڈ کرنگر، سدھارتھ نگر، سنت بیر نگر اور بستی سمیت دیگر اضلاع کی اہم علمی اور موقر شخصیات نے شرکت کیں۔ بڑے ہی فخر کی بات کی تھی کہ اس وقت کا نفرنس کے مہمان اعزازی مولانا عبد الحفیظ کو رحمانی نے اپنے توسیعی خطبہ سے کانفرنس کا افتتاح  کیا تھا، اور ملک انہوں نے اپنے افتتاحی خطاب میں تاریخی حوالوں سے ذہنى ارتداد  کی اٹھنے والی لہروں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ آج سے نہیں بہت پہلے سے یہودی عزائم اور عیسائی مشنریاں اسلامی تعلیمات و تہذیب کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ مولانا رحمانی نے شرکائے کا نفرنس کو مدارس و مکاتب کے تحفظ کیلئے تعلیمی و انتظامی معیار کو بلند اور مستحکم کرنے کی دعوتِ فکر دی اور کہا کہ: مکاتب کی تعلیم وتربیت سے ہی نونہالوں کا ایمان محفوظ اور مضبوط ہو سکتا ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ مولانا نے اپنی زندگی میں ایسے کتنے اجلاس، کانفرنس اور پروگرام فتح کئے کہ جن کے ذریعہ فرقہ وارانہ یگانگت اور آپسی بھائی چارہ کو فروغ ملا،  اور ارباب مدارس و مکاتب کو تعلیمی و انتظامی استحکام کیلئے حوصلہ افزا  اور راہنما مشورہ ملا۔ بہر حال اس طرح کسی بھی عبقری شخصیت کی عملی سرگرمیوں کو سراہنا، خوبیوں کو شمار کرنا اور ان کا ذکر خیر کرنا صحیح معنوں میں سچی خراج عقیدت کے ہم معنی اور ایک ذمہ دار مرد مومن کی مومنانہ شان ہے، آخر کار زندگی کے تقریبا اکیاسی (۸۱) سالہ مراحل کی امانت کا حامل یہ بے باک انسان آخری لمحہ تک اپنے جواہر پاروں کو بکھیرتے بکھیرتے ۲ ذیقعدہ ۱۳۳ھ بمطابق ۲ اگست ۲۰۱۶ء بروز شنبه تقریبا شام ۵ بجے بحالت مرض الوفات تسبیح پڑھتے ہوئے دارفانی سے دار بقا کو سدھار گیا اور نئی نسلوں کو عدم سے آشنا ہونے کا گر بھی سکھا گیا كہ:

جو ہرِ انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں

آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں

 دوسرے دن 7/  ا گست 2016 كو صبح ساڑھے دس بجے آبائی قبرستان میں تجہیز و تکفین کا عمل انجام پذیر ہوا، نماز جنازہ اور سپردخاک کرنے کے موقع جو رشک آميز  بھیڑ مَیں نے دیکھی وہ علماء، عوام، سیاسی سماجی برادران وطن اور ان کے احباب کی ان سے بے پایاں عقیدت و محبت کی واضح علامت تھی ، اس کے علاوہ عوامی سطح پر اتنا زبر دست از دہام تھا کہ مجمع کو کنٹرول کرنے کے لئے ارباب ولایت کو لاوڈ اسپیکر کا بھی انتظام کرنا پڑا ۔

 پس ماندگان میں بیوہ بیٹیوں کے علاوہ اولاد واحفاد سے ہرا بھرا کنبہ موجود ہے جو ان شاء اللہ مولا نا مرحوم کے حق میں صدقہ جاریہ ثابت ہوں گے دعا ہے کہ اللہ تعالی مولانا کو اپنے جوار رحمت میں اعلیٰ مقام اور پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے آمين۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply