مصنوعی بال، مصنوعی دانت، مصنوعی اعضاء

مصنوعی بال، مصنوعی دانت، مصنوعی اعضاء كے شرعى احكام

  • Post author:
  • Post category:طہارت
  • Post comments:0 Comments
  • Post last modified:January 14, 2023
  • Reading time:2 mins read

مصنوعی بال، مصنوعی دانت، مصنوعی اعضاء كے شرعى احكام

مصنوعی بال:

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی۔ جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو۔

گنجے پن کو دور کرنے یابالوں کو گھنا اور لمبا ظاہرکرنے کے لیے مصنوعی بالوں کا استعمال کیا جاتا ہے، ان میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جو پیوست کردیے جاتے ہیں اور انہیں آسانی سے الگ کر دینا اور پھر عمل جراحی کے بغیردوبارہ لگادینا ممکن نہیں، ظاہر ہے کہ اس طرح کے بال اصل بال کے حکم میں ہوں گے۔

اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو آسانی سے الگ کیے اور لگائے جاسکتے ہیں، اس طرح کے بال اگرپورے سر پر لگے ہوئے ہوں تو وضو کے وقت مسح کے لیے انہیں الگ کرنا اور سر پر مسح کرنا ضروری ہے، کیونکہ مسح کے لیے ضروری ہے کہ پانی کی تری اصل بالوں یا سرتک پہنچ جائے۔

اور اگر پورے سر پر نہ لگے ہوں بلکہ سر کا چوتھائی حصہ کسی بھی طرف سے خالی ہو تو اس کو الگ کرنا ضروری نہیں بلکہ چوتھائی حصے پر مسح کرلینے سے فرضیت ساقط ہوجائے گی، البتہ پورے سر پر مسح کرنا سنت ہے اوراس سنت پر عمل کے لیے مصنوعی بالوں کو الگ کرنا ہوگا۔

اور غسل واجب میں مر د کے لیے بالوں سمیت پورے سر پر پانی بہانا ضروری ہے، اس لیے اگر مصنوعی بال ان تک پانی کے پہنچنے میں رکاوٹ ہوں تو انہیں الگ کرنا ضروری ہے ورنہ نہیں، اور عورتوں کے لیے اگر بال کے جوڑے بنے ہوئے ہوں تو بالوں کی جڑمیں پانی کا پہنچانا کافی ہے،اور اگر کھلے ہوئے ہوں تو جڑ اور پورے بال کو بھگونا ضروری ہےاس لیے ان بالوں کو الگ کیے بغیر بھی پانی جڑ اور پورے بال تک پہنچ جائے تو غسل درست ۔بصورت دیگر انھیں نکالنا ضروری ہوگا۔

واضح رہے کہ اس مقصد کے لیے انسانی بالوں کا استعمال ممنوع ہے خواہ انہیں مستقل طورپر لگایاجائے یا عارضی طریقے پر، اس لیے کہ حدیث میں ایسا کرنے والے پر لعنت کی گئی ہے، البتہ حیوانات یا مصنوعی بالوں کے استعمال کی اجازت ہے، چنانچہ حضرت عائشہؓ سے منقول ہے کہ انہوں نے بعض خواتین کو اونی دھاگا استعمال کرنے کی اجازت دی[1] اور حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ریشمی اور اونی دھاگا لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔[2]

  وإنما الرخصة فی غیرشعر بنی آدم تتخذہ المرأة لتزید في قرونھا وھو مروي عن أبي یوسف وفي الخانیة لاباس للمرأۃ أن تجعل في قرونھا وذوائبھا شیئًا من الوبر۔( رد المحتار 535/9)

مصنوعی دانت:

مصنوعی دانت دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو مستقل طور پر جبڑے میں فٹ کردیے جاتے ہیں، دوسرے وہ جو آسانی سے نکالے اور لگائے جاسکتے ہیں، پہلی صورت میں وہ اصل دانت کے حکم میں ہوں گے، چنانچہ بعض صحابہ کرام سے دانتوں کو سونے کے تار سے باندھنا منقول ہے ۔اور فقہاء نے بہ صراحت ٹوٹے ہوئے دانت کی جگہ بکری یا سونے، چاندی کے دانت کو لگانے اور ہلتے ہوئے دانت کو سونے، چاندی کے تار سے باندھنے کی اجازت دی ہے۔(ردالمحتار 521/9)

اگر یہ چیزیں غسل کے صحیح ہونے میں رکاوٹ ہوتیں تو ہرگز اس کی اجازت نہ دی جاتی، حالانکہ یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے دانتوں کی جڑوں تک پانی کا پہنچانا دشوار تر ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی موجودگی میں  جڑوں تک پانی پہنچانا ضروری نہیں ہے۔

دوسری صورت میں اگر اس کے ہوتے ہوئے مسوڑھوں تک پانی پہنچنا ممکن ہو تو پھر اسے نکالنے کی ضرورت نہیں اور اگر پانی نہ پہنچنے کا امکان ہو تو پھر غسل میں اس کا نکالنا ضروری ہے، کیونکہ غسل میں پورے منہ میں پانی پہنچانا ضروری ہے، اور وضو میں اس کا نکالنا ضروری نہیں ہے، کیوں کہ کلی کرنا وضو میں سنت ہے، البتہ سنت کی ادائیگی کے لیے اسے نکالنا ہوگا۔

مصنوعی اعضاء:

مصنوعی اعضا اگر جسم میں اس طرح فکس کر دیے جائیں کہ ان کے نکالنے اور لگانے میں ضرر اور نقصان ہو تو وہ پھر اصلی اعضا کی طرح ہوں گے اورغسل و وضو میں ان کے اوپر سے پانی بہادینا کافی ہوگا۔

اور اگر وہ جسم میں مستقل طورپر فٹ نہ ہوں بلکہ آسانی سے انہیں لگایا اورنکالا جاسکتا ہے تو اگر انہیں نکالے بغیر پورے جسم تک پانی کے نہ پہنچنے کا اندیشہ ہوتو پھر غسل واجب کے صحیح ہونے کے لیے انہیں نکالنا ہوگا اور اگر اس کے رہتے ہوئے بھی اصل جسم تک پانی پہنچ جائے تو پھر نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اور وضو میں دیکھا جائے گا کہ جن حصوں کو دھونا فرض ہے اگر ان کا کوئی بھی حصہ موجود ہے تو اس تک پانی کا پہنچانا ضروری ہوگا، مثلاً ہاتھ گٹے سے کٹ گیا ہے اورکلائی یا کلائی کا کوئی بھی حصہ موجود ہے تو اسے دھونا ضروری ہوگا، چنانچہ حدیث میں ہے کہ:

’’إذا أمرتکم بشيء فاتوا منه مااستطعتم‘‘ (صحیح مسلم:1337)

جب میں تمھیں کسی کام کا حکم دوں تو اپنی طاقت وسعت کے مطابق اسے انجام دینے کی کوشش کرو۔

اورفقہا لکھتے ہیں کہ:

’’ولو قطعت یدہ أورجله فلم یبق من المرفق والکعب شيء یسقط الغسل ولوبقی وجب‘‘ (البحر الرائق 29/1)

اگر کسی کا ہاتھ یا پیر کاٹ دیا گیا ہو اور کہنی اور ٹخنے کا کوئی حصہ نہیں بچا ہے تو اس کے دھونے کا حکم ساقط ہوگیا اور اگر کچھ بھی باقی ہے تو اسے دھونا ضروری ہے ۔

اوراگر اعضا ء وضو کا کوئی حصہ موجود نہیں ہے تو پھرمصنوعی اعضا کو نکالنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ اس سے جڑے ہوئے حصے تک پانی پہنچانے کی حاجت ہے۔ اور اعضا ء وضو کا کوئی حصہ موجود ہو یا نہ ہو، بہر صورت اس حالت میں مصنوعی اعضا کو دھونے یا اس پر مسح کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اورنہ ہی ایسا کرنا  مستحب یا  سنت ہے۔


حوالاجات

[1]   دیکھیے المعتصرمن المختصر:381/2

[2]  أخرجه أبو داود في سننه (4171) ولفظه: عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: «لَا بَأْسَ بِالْقَرَامِلِ»، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: «كَأَنَّهُ يَذْهَبُ إِلَى أَنَّ الْمَنْهِيَّ عَنْهُ شُعُورُ النِّسَاءِ»، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: كَانَ أَحْمَدُ يَقُولُ: الْقَرَامِلُ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ.  (لَا بَأْسَ بِالْقَرَامِلِ) جَمْعُ قَرْمَلٍ بِفَتْحِ الْقَافِ وَسُكُونِ الرَّاءِ نَبَاتٌ طَوِيلُ الْفُرُوعِ لَيِّنٌ وَالْمُرَادُ بِهِ هُنَا خُيُوطٌ مِنْ حَرِيرٍ أَوْ صُوفٍ يُعْمَلُ ضَفَائِرُ تَصِلُ بِهِ الْمَرْأَةُ شَعْرَهَا (كَأَنَّهُ يَذْهَبُ) أَيْ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ (أَنَّ الْمَنْهِيَّ عَنْهُ شُعُورُ النِّسَاءِ) أَيْ أَنَّ الْمَمْنُوعَ هُوَ أَنْ تَصِلَ الْمَرْأَةُ شَعْرَهَا بِشُعُورِ النِّسَاءِ وَأَمَّا إِذَا وَصَلَتْ بِغَيْرِهَا مِنَ الْخِرْقَةِ وَخُيُوطِ الْحَرِيرِ وَغَيْرِهِمَا فَلَيْسَ بِمَمْنُوعٍ. عون المعبود وحاشية ابن القيم (11/ 152)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply