You are currently viewing عارف باللہ مولانا عبد القیوم شاکر الاسعدی رحمہ الله، نقوش حیات

عارف باللہ مولانا عبد القیوم شاکر الاسعدی رحمہ الله، نقوش حیات

عارف باللہ مولانا عبد القیوم شاکرا لاسعدی رحمہ الله

نقوش حیات۔۔۔۔۔شاہکار رول

   از : قیام الدین القاسمی جنرل سکریٹری جمعية علماء ضلع بستی یوپی، خادم التدريس مدرسہ عربىہ اشرف العلوم ہٹوا بازار، بستى يوپى انڈيا

ابتدائی باتیں

علم اور اہل علم کا تذکرہ نویسی تاریخ اسلامی کا ایک ایسا اہم عنصر ہے، جن سے ہماری ملی تاریخی اثاثہ کے تحفظ کی ضمانت کے ساتھ ساتھ، آئندہ نئ نسلوں کے لئے تاریخی واقفیت کا معیاری مواد بھی ہے، چنانچہ امام اعظم، امام غزالی اور البیرونی جیسے علمی ہستیوں سے لیکر ابتک کے علماء حق کی  علمی سیاسی کاوشیں اور ان کے مجاہدانہ کارنامے جو دریائے نیل کی ساحلی پٹیوں سے ہوتے ہوئے سلطنت چائینہ کے تاریخی شہر کاشغر کی سرزمین پر پھیلے ہوئے ہیں وہ عالم اسلام کی تاریخ کا روشن باب ہىں ،اسی طرح  ہمارا ملک بھی صدیوں علم وہنر کا گہوارہ رہا ہے جس کا اثر و رسوخ بلاد وطنیہ کے چپہ چپہ پر آ ج بھی قائم ہے، اور  صوبہ اتر پردیش کی بھی ایک بڑی  علمی حیثیت  ہے   راقم کا اس وقت قلمی ہدف  دیارپورب  کی غیر منقسم ضلع بستی کی وہ سرزمین ہے جو ارباب علم و معرفت کی آ ماجگاہ ہے، جس کی شہادت حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ، علامہ سید سلیمان ندوی نور اللہُ مرقدہ ،محدث جلیل مولانا حبیب الرحمٰن الاعظمی علیہ الرحمہ، مفکر اسلام مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ وغیرہ اپنے اپنے کلماتِ تاثر میں دے چکے ہیں۔

چہره كھلى كتاب ہے عنوان جو بھى دو

جس رخ سے بھى پڑھو گے انہيں جان جاؤ گے

          اسی علاقہ سے منسلک ایک نمایاں نام مولانا عبد القیوم شاکرالاسعدی رحمہ الله ساکن” کَرْہِی” ایس کے نگر  سابق ناظم مدرسہ عربیہ اصلاح المسلمین جمداشاہی بستی یوپی کا ہے، جن کا شمار فضلائے مظاہر علوم کے مشاہیر علما میں کیاگیا ہے، مولانا شاکرالاسعدی بلاشبہ ایسے عبقری علمی انسان تھے جنہوں نے اپنے یقینِ محکم اور عملِ پیہم سے مدارس کی دنیا میں  تدریسی تنظیمی فرائض کی ادائیگی میں بلاشرکت دیگر مشاغل  بے لوث ہوکر اپنی پوری زندگی کا قیمتی سرمایہ وقف کردیا جہاں آ پ کے عقیدتمندوں اور شاگردوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو ملک اور بیرون ملک میں پھیلی ہوئی ہے  اس لئے  مولانا مرحوم کا  تعارف و تذکرہ نئى نسلوں کے لئے واقفیت کا سامان ہی نہیں بلکہ مرحوم کے حق میں  سچی خراج عقیدت کا اظہار بھی ہے۔

حضرت مرحوم  کے سامنے بندہ ناچیز گرچہ زانوئے تلمذ تہہ نہ کرسکا البتہ شرف حاضری سے مشرف ہوکر  آپ کی نشست و برخاست، کردار و گفتار اور ملفوظات سے شاگردوں جیسا  مستفید و متعارف ہوتا رہا، اور جمعية علما کے حوالہ سے بھی  گفت و شنید ہوتی رہی، بہر حال راقم  اسی تعارفی مواد   کچھ انٹریواور سوانحی اقتباسات کو سامنے رکھتے ہوئے  بنام:  “حضرت شاکرالاسعدی ٫ نقوشِ حیات و شاہکار رول” موضوع سخن بناکر  مرحوم کے حق میں خراج عقیدت پیش کرنے کی  جسارت کررہا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ سے  دعاگو ہے کہ عقیدت و محبت کے یہ الفاظ ومعانی مولانا کے حق میں صدقہ جاریہ بنائے اور انہیں  جوار رحمت میں جگہ عنایت فرمائے  آمین۔

ع:    خدا رحمت كند ايں عاشقانِ پاك طينت را

ولادت وسکونت‌

مولاناعبدالقیوم ابن محمد نعیم کی ولادت ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے غیر منقسم ضلع بستی کے مردم خیز خطہ تپہ اجیار کی دھرتی موضع کرہی پوسٹ اسرا شہید سنت کبیر نگر یوپی کے ایک بااثر زمیندار گھرانہ میں  یکم جنوری 1935ء مطابق 24/رمضان المبارک 1353ھ کو ہوئى،  مولانا مرحوم شروع ہی سے اپنی رہائش وسکونت آبائی گاؤں کرہی ہی کو بنائے رکھا جبکہ ایک دوسرے بھائی نے تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کرکے ملک پاکستان کواپنا مسکن بنالیا  لیکن مولانا نے اپنے وطن عزیز ہندوستان کو ترجیح دے کر اسی کو اپنا مستقل شہریت قرار دیا اور یہاں رہ کر ملی معاشرتی اور اصلاحی کارہائے نمایاں انجام دیئے  فراغت کے بعد  دیگر امور مشاغل سے فارغ البال ہوکر فقط تدریسی تنظیمی اور اصلاحی خدمات کے لئے مدرسہ عربیہ اصلاح المسلمین جمداشاھی کے حاضر باش ناظم رہے اور یہیں کے ہو کر پوری زندگی بسر کردی۔

خاندانی خاکہ

مولانا محمد عبدالقیوم شاکرالاسعدی صاحب کے والد محترم کانام محمد نعیم اوران کے داداکانام عظیم اللہ اورعظیم اللہ کے والد کانام ضیاءاللہ تھا۔

عظیم اللہ صاحب کے کل 9  / اولاد تھین، جن میں 7 ذکور اور 2 إناث۔

1 – سمیع اللہ 2 – محمد سلیم 3 – محمدنعیم 4 – محمد مصطفی 5 – محمدمسلم 6 – مولانافاروق احمد 7 – محمد منیر 8 –  علیم النساء 9 –  آس النساء

مولانا مرحوم کے والد بزرگوار  محمد نعیم صاحب کے 3/ اولاد ذکورتھی 1.عبدالرزاق 2. (الحاج)عبدالجبار 3. (مولانا)عبدالقیوم(شاکرالاسعدی)

عبدالرزاق صاحب پاکستان چلے گئے تھے۔ اور وہیں  دونوں میاں بیوی پیوند خاک ہوگئے ‌اور فی الحال مہاجر بھائی کی ایک بیٹی ہے جو اپنی فیملی کے ساتھ لطیف آباد حیدرآباد سندھ میں رہائش پزیر ہیں۔

الحاج عبدالجبار صاحب کے کل پانچ اولاد ہیں جس میں سے تین لڑکے:  1 (مولانا)ظہىرانوار(قاسمی جو ایک مدبر عالم دین اور دارالعلوم الاسلامیہ بستی کے مہتمم ہیں)  2 نصیرانوار انجینئرجوتقریبا20 سال سے سعودیہ عربیہ میں ہیں۔

3 – عمیراحمد بستی شہر میں تجارت کے پیشہ سے وابستہ ہیں۔

 4 – اور دو لڑکیاں ہیں۔

   جبکہ محمد نعیم صاحب کے اولاد میں سب سے چھوٹے فرزند مولانا محمد عبدالقیوم  شاکرالاسعدی صاحب تھے ، مولانا کی شادی  چچا زاد بہن صالحہ خاتون بنت مولانا فاروق احمد صاحب سے ہوئى تھی انکے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی  اہلیہ کا انتقال مولانا مرحوم کی زندگی کے آخری پڑاؤ میں ہوا۔

تعلیم و تربیت

مولانا نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آ غاز  اپنے گاؤں کرہی کے قدیم دینی ادارہ مدرسہ عربیہ جعفریہ ہدایت العلوم سےکیا، وہاں آ پ نے مکتب سے عالمیت کی ابتدائیہ تک اردو  حساب دینیات  عربی فارسی  فقہ  اصول فقہ اور بنیادی عربی قواعد صرف و نحو کی تعلیم حاصل کی،  مکتب تعلیم  کے اتالیق اساتذہ میں مولانا محمد شفاعت صاحب مظاہری ساکن کنڑجا، مولانا عبد الغفور صاحب مظاہری ساکن کولہوی ، ماسٹر محمد مظہر صاحب ساکن سمریاواں علیہم الرحمہ وغيرہ شامل ہىں۔

          درس نظامی میں جن اساتذہ کرام سےآ پ نے شرف تلمذ  حاصل کیا ان میں سے مولانا عبد الجلیل مظاہری  ساکن موضع پسائى،  مولانا انوار الحق صاحب ساکن کرہی، مولانا عبد الغفور صاحب ساکن کولہوی،  استاذ العلماء مولانا ہدایت علی صاحب مظاہری خلیفہ حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نور اللہُ مرقدھم کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

مظاہر علوم مىں داخلہ

 مادر علمی کرہی میں شرح جامی بحث فعل ،کنز الدقائق ، اصول الشاشی ، مرقات ، نفحت الیمن وغیرہ پڑھنے کے بعد مولانا مرحوم  نے   1370 ہجری میں متوسطات اور اعلیٰ تعلیم کے لئے جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کا رخ کیا، وہاں سے درس نظامیہ کی فضیلت کا کورس 1374ھ میں مکمل کیا  مولانا  جامعہ کے تعلیمی دورانیہ میں وقت کے علماء کبار خاص کر  شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی،مفتی اعظم مولانا سعید احمد، مولانا منظور احمد خانصاحب، پیر مرشد مولانا شاہ محمد اسعد اللہ صاحبان علیہم الرحمہ کے زیر تعلیم وتربیت رہ کر علوم نبویہ اور معرفتِ الٰہی سے فیضیاب ہوئے۔

احسان و سلوک كى منزليں

مولانا عبد القیوم شاکرالاسعدی کو جامعہ کی چار سالہ تعلیمی میقات میں اپنے مربی استاذ مکرم مولانا شاہ  محمد اسعد اللہ خلیفہ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللّٰہ کے نظام الاوقات اور نشست و برخاست کو بہت قریب سے دیکھنے کا سنہرا موقع ملا،  بلکہ احسان وسلوک کے وظائف اور شب و روز کی روداد سے خوب واقف رہے، اور شاہ صاحب کی فیض رسا تربیت سے معمور ہوئے، شاہ صاحب نے بھی مولانا کی سچی طلب اور والہانہ عقیدت کو نور بصیرت سے بھانپ لیا،  اور اپنا قلبی لگاؤ مولانا سے شئر کرتے رہے،  یہی وجہ تھی کی فراغت کے بعد مولانا مرحوم نے جب شاہ صاحب سے بیعت کرنے کی درخواست کی تو حضرت والا نے بغیر کسی تامل کے بیعت فرمالیا، اور اپنے خاص اصلاحی معمولات سے مکلف کیا جیسا کہ مولانا نے خود اسکے متعلق قلمبند فرمایا:

“بفضلہ تعالٰی مظاہر علوم کی چار سالہ طالب علمی کے زمانے میں مرشدی حضرت ناظم  مولانا شاہ اسعد اللہ صاحب کی قلبی توجہات کا مورد رہا دارالطلبہ قدیم کا کمرہ نمبر چار حضرت ناظم صاحب کے حجرہ کے بالکل قریب تھا اسلئے صبح وشام حاضری کی سعادت حاصل ہوتی رہی  عقیدت و محبت سے دل لبریز تھا اسلئے فراغت کے بعد جب بیعت کی درخواست کی گئی تو بغیر کسی ردوکد کے بیعت کرلیا”۔

(تاریخ مشاہیر علماء مظاہر علوم)

خلعتِ خلافت سے سرفرازى

مولانا نے موقع کو غنیمت جان کر شاہی علوم و معارف اور روحانی الطاف وعنایات کو فالو کرنے میں کوئى کسر باقی نہیں چھوڑی، اور تا حصولِ خلافت  روابط و شرائط کے پابند عہد رہے،  چنانچہ شاہ صاحب نے انہیں اصول و ضوابط کے پیشِ نظر مولانا شاکرالاسعدی کو 11/ جمادی الاولی 1391 ھ  مطابق 5/ جولائی 1971 ء کو اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا اور آ پ بالواسطہ حکیم الامت حضرت تھانوی  علیہ الرحمہ کے خلیفہ ہوئے، اور یہ سچ ہے کہ  مولانا  شاکرالاسعدی اپنے پیر و مرشد حضرت شاہ صاحب کے ارشادات وہدایات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے  حضرت تھانوی کے ملفوظات  ومکتوبات اور اصلاحی خطبات سے خوب مستفید اور متاثر ہوئے، اور اسی تاثر و عقیدت اور محبت سے  سرشار ہوکر  مولانا مرحوم نے  مدرسہ عربیہ اصلاح المسلمین جمداشاہی کے گراونڈ میں حضرت حکیم الامت کے یادگار میں ایک وسیع عریض اور پرشکوہ  لکچرس ہال  بنام ۔۔۔حکیم الامت ہال۔۔۔ تعمیر کروایا جو جدید تعمیراتی ڈیزائن کا پرتو ہے،  مولانا شاکرالاسعدی نے باضابطہ اپنا کوئى خاص اصلاحی خانقاہ قائم نہیں کیا تھا،  اور نہ ہی بیعت و ارشاد کا کوئى اہتمام رہا  جیسا کہ مولانا مرحوم نے فرمایا کہ:

“ہمارا مدرسہ خانقاہی مدرسہ ہونے کے باوجود  مدرسہ میں کوئ خانقاہ نہیں ہے نہ اس میں ذاکرین و شاغلین کے لئے الگ سے حجرے ہیں ہمارا تصوف فقیہانہ تصوف ہے اتباع شریعت اور پیرویِ سنت  اصل ہے بعض اللّٰہ کے نیک بندے پچھلے پہر بیدار ہوکر تہجّد پڑھکر دعا ومناجات اور ذکر واذکار میں لگ جاتے ہیں یہی خانقاہ ہے”۔ ( افکار خادم)

 بیعت وتلقین اور خلف الرشید

مولانا نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ:

“بندہ اگرچہ خود اس لائق نہیں ( کہ کسی کو خلافت دے) لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں نے عزیز مکرم مولانا امانت علی صاحب مظاہری مقیم حال محلہ رسول پور شہر گورکھپور کو توکلا علی اللّٰہ بیعت وتلقین کی اجازت دیدی ہے مجھے اللّٰہ تبارک و تعالٰی کی ذات سے امید قوی ہے کہ انکے ذریعہ مخلوق خدا کو نفع پہونچے گا، اور جو کام مجھ سے نہیں ہوسکا الله تعالیٰ ان کے ذریعہ کرائیگا ۔۔۔۔ اگر پدرنتواند __ پسرتمام کند”   (انٹریو)    جہاں تک معاملہ انتظامی خلف الرشید کا ہے تو اسکے لئے  مفتی سعید احمد مظاہری کو منصب نظامت پر فائز کیا گیاہے جو مولانا مرحوم کے زمانہ نظامت میں نائب ناظم بھی رہے  اوریہ نظامت   ہیئت حاکمہ ( سپرم پاؤر)  مجلسِ شوریٰ کے ماتحت ہے جس کے ممبران صاحب علم و فضل کے ساتھ تقوی امانت اور دیانت میں امتیازی شان رکھتے ہیں، امور مدرسہ کا تمام انتظام وانصرام اسی مجلس کے متعلق ہے اور اس مجلس کے صدر مولانا امانت علی صاحب مظاہری ہیں  بحمد اللہ یہ مدرسہ آج بھی بحسن و خوبی انتظام پزیر ہے، اور مفتی صاحب کے زیر نگرانی  شعبہ جات کی تمام ذمہ داریاں نوجوانوں کے سپرد ہیں انشاء اللہ اسطرح کے حسنِ انتظام سے  بہر طور بہتر پیش رفت ہوگی۔

تدریس ونظامت

مولانا مرحوم ہمہ جہتی خوبیوں کے ساتھ تدریسی صلاحیت کے بھی مالک تھے  چنانچہ عربی چہارم تک کی جو بھی معیاری کتابیں فقہ  اصول فقہ  نحو  بلاغت اور نسواں مدرسہ سے منسلک علیا درسیات  احادیث صحیحین وغیرہ  کی تھیں مولانا کو  تدریسی خدمات کا سنہرا موقع ملا، اور تلامذہ بھی مولانا کےخاص انداز تفہیم وتکلم اور ان کے تکئہ کلام سے خوب فیضیاب ہوئے،  اسی طرح داخل درس طلبہ کے علاوہ مولانا مرحوم کا اصلاحی علمی اور دعوتی فیضان ہر خاص و عام کو پہنچتا رہا اس لیے کہ مولانا نےمدرسہ اصلاح المسلمین کے پلیٹ فارم سے تعلیم و تربیت اور اصلاح امت کا ایسا نظام مرتب کیاکہ ان سے نئى نسلوں اور بڑے بوڑھوں نے خوب استفادہ کیا، اور اس تربیت گاہ کو مولانا نے اپنے دور نظامت میں تعلیمی تربیتی اور تعمیری ہراعتبار سے بام عروج تک پہنچایا  یہی وجہ ہے کہ اسے جغرافیائی اعتبار سے مشرقی اترپردیش میں بڑی پذیرائی حاصل ہوئی، اور اس کا شہرہ ملک کے مختلف خطوں میں سنائی دینے لگا، اور دھیرے دھیرے اضلاع سے نونہالان ملت اور تشنگانِ علوم نبوت جوق در جوق یہاں آ کر سیراب ہونے لگے،  بحمد اللہ یہاں کے فضلا کی تعداد اچھی خاصی ہوگئى جو ملک اور بیرون ملک میں آ باد ہیں بایں معنیٰ   آ پکا شمار کثیر التلامذہ مشاہیر علماء میں ہونےلگا اورآپ کی ان تمام خوبیوں کا تذکرہ ارباب مظاہر علوم سہارنپور نے اپنے مستند رکارڈس میں کیا ہے،اور مولانا کی زریں خدمات کو اکابرین ملت کی دعاؤں کا ثمرہ قرار دیا کہ:

 ” فراغت کے بعد آپ نے مدرسہ عربیہ اصلاح المسلمین جمدا شاہی ضلع بستی کو اپنی علمی و دینی محنت کا مرکز بناکر زندگی کے پچاس سال اسی ادارہ کی چہار دیواری میں پڑھنے پڑھانےاور اس کے ترقی واستحکام میں گذار دیئے جو یقیناً مولانا موصوف کے حق میں اپنے اسلاف واکابر کے دعاؤں توجہات کا نتیجہ اور موصوف کے حسنِ اخلاص کا ثمرہ ہے”

 علماء وعوام سے ارتباط باہمی کا گر

مولانا موصوف کی شخصیت علماء اور عوام کے درمیان سنگ میل کی حیثیت رکھتی تھی اور آ پ کی خمیر میں ارتباط باہمی کا ایسا گر تھا کہ اس سے اہل علم حضرات ، دانشورانِ ملت اور عامی حضرات  آ پ کے حسنِ اخلاق، پر تپاک خیر مقدم اور حسنِ انتظام سے متاثر ومعترف ہی نہیں بلکہ مرعوب بھی رہتے،  یہی وجہ رہی کہ آ پ ہر دلعزیز شخصیت کے مالک بنے رہے اور ہر باوقار تقاریب  نکاح،  افتتاح، سنگ بنیاد، اصلاحی اجلاس  اور مجلس دعائیہ میں بحیثیت مہمان خصوصی برسرِ اسٹیج براجمان رہتے، اور لوگ آ پ کی زیارت و ملاقات اور مصافحہ کو اپنے لئے باعثِ فخر و برکت سمجھتے   اسی طرح مدرسہ کی انتظامی وتعلیمی سرگرمیوں کا شہرہ سنکر  آ پکی دعوت پر ملک کی عظیم علمی ،ادبی اور روحانی ہستیوں کا ورود مسعود وقتاً فوقتاً  ہوتا رہا، چنانچہ  محی السنہ مولانا الشاہ ابرار الحق رحمہ الله، مفکر اسلام مولانا ابو الحسن علی ندوی نور اللہُ مرقدہ، عارف باللہ مولانا قاری سید صدیق احمد باندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ، فداےملت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہُ مرقدہ، ادیب زماں مولانا وحیدالزماں کیرانوی علیہ الرحمہ، جانشین مفکر اسلام  مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم، استاذ العلماء مولانا محمد اللہ نوراللّٰہ مرقدہ مظاہر علوم سہارنپور ، خادم القرآن مولانا غلام محمد وستانوی اکل کوا ، جانشین پیر ( مولانا محمد طلحہ رح ) مولانا سید محمد سلمان مظاہری رحمۃ اللّٰہ علیہ ناظم اعلیٰ مظاہر علوم سہارنپور جیسے مشاہیر علماء اور اکابرین ملت کی تشریف آوری اور ان کا تاثر یقیناً مدرسہ عربیہ اصلاح المسلمین جمداشاہی کے مضبوط و مستحکم نظام اور معیاری تعلیم وتعلم کے ساتھ ساتھ مولانا مرحوم کی امتیازی صفت   ارتباط باہمی  کی  زبردست شہادت ہے

دعوت و تبلیغ اور امور ملت کے تئیں حساس دل

مولاناعبدالقیوم شاکرالاسعدی دعوت و تبلیغ اور امور ملت کے تئیں حساس دل کے مالک تھے، دین اور ملت کی رضاکار تنظیموں اور دعوتی اصلاحی مشن سے منسلک افراد سے اپنائیت اور محبت کا  اظہار فرماتے، چنانچہ ملک کی سب سے بڑی متحرک اور فعال تنظیم جمعية علمائے ہند اور تبلیغی جماعت کی ملی کاوشوں اور ان کی کارگذاریوں کو خوب سراہتے اسی طرح  مجلس دعوت الحق ہردوئی کے زیر اہتمام ہونے والے تمام مقامی اجتماعات کی سرپرستی فرماتے جمعية علماءضلع بستی کے اراکین، تبلیغی جماعت  اور مجلس دعوت الحق کے احباب کا والہانہ استقبال کرتے اور ان کےلئے پر تکلف دسترخوان کا اہتمام بھی کرتے تبلیغی جماعت کے ایک ساتھی نے برسوں پہلے کی اپنی کارگزاری  ابھی حالیہ سناتے ہوئے بتایا کہ مقامی سطح پر دعوتی کام کرنےوالے جتنے احباب ہوتے مولانا مرحوم ان کا پرتپاک استقبال کرتے اور اپنی حسن ضیافت سے بھر پور اکرام کرتے اور ان کےلئے دعا خیر فرماتے  راقم خود  جمعية علماءضلع بستی کے زیر اہتمام ہونے والے مجوزہ پروگرام کے بابت مولانا سے صلاح و مشورہ لیتا، اور مولانا بطیب خاطر اصابت رائے سے نوازتے آ پ کے زیر صدارت جمعية علما نے کئ اہم میٹنگیں بھی کی ہیں جس میں ضلع اکائى کے تمام اراکین اور مندوبین حضرات شریک رہے اسیطرح امور ملت سے متعلق جتنے بھی شعبہ جات رہے مولانا انہیں حتی الامکان رو بعمل لانے کی بھرپور کوشش فرماتے رہے  احقر کو یاد ہے کہ دسمبر 2017  قومی یکجہتی اجلاس لکھنؤ کو کامیاب بنانے کے لئے پورے ضلع میں بیداری مہم چل رہی تھی ضلع کے ہر تحصیل میں ذمہ داران جمعية جنگی پیمانہ پر دورہ کررہے تھے تو حضرت والا نے بھی اس کے لئے مقامی سطح پر اپنے اساتذہ کرام کے تعاون سے مخصوص حضرات کی ہنگامی میٹنگ بلاکر قومی یکجہتی اجلاس کی اہمیت وافادیت کو حاضرین کے سامنے رکھتے ہوئے اس طرح انہیں بیدار کیا کہ درجنوں افراد نے شرکت اجلاس کے لئے اپنا نام پیش کردیا  حاضرین کے انقلاب آفریں جذبات دیکھ کر مولانا مرحوم کے حوصلے  خوب بلند رہے اور یہ حقیقت ہے کہ مولانا ذاتی مفاد سے بے غرض ہوکر فقط امور ملت ، تعلیم وتعلم اور دعوت و ارشاد کے لئے اپنے آ پ کو وقف کردیا تھا  واقعی مولانا اپنے وقت کے نابغہ روزگار شخصیت کے مالک اور علماء وقت کے لئے نمونہ تھے۔

ادبی وشاعرانہ ذوق

مولانا عبد القیوم شاکرالاسعدی رحمہ اللّٰہ علم و معرفت سے لیس ایک کہنہ مشق عالم دین اور مدبر مرد قلندر تھے تو وہیں ادیب و انشاپرداز اور پاکیزہ جذبات کے ساتھ ادبی وشاعرانہ زوق کے خوگر قادر الکلام شاعر اسلام بھی۔

شعر و سخن کا یہ ملکہ آپکو اپنے پیر و مُرشد شیخ شاہ مولانا محمد اسعد اللّٰہ نوراللّٰہ مرقدہ کے دامنِ فیض سے وابستگی کی وجہ سے حاصل ہوا   حمد ونعت اور دیگر اصلاحی  و سوانحی منظوم کلام تصحیح عقائد کے ساتھ ساتھ وحدانیت اورعظمت رسالت کی عقیدت و محبت سے معمور ہیں جو مدارس اسلامیہ کے طلبہ کے لئے بہترین منظوم تحفہ ہے۔

چنانچہ درج ذیل نظم ،  نغمئہ توحید  ، کے نام سے  مولانا شاکرالاسعدی رح نے نونہالان ملت کے لئے یہاں کے مخصوص ماحول کے پیش نظر تخلیق فرمائی تھی جو ہدیہ قارئین ہے ۔۔۔۔۔

دین اسلام کے گیت گائیں گے ہم * جام وحدت کا سب کو پلائیں گے ہم

شرک وبدعت سے دامن بچائیں گے ہم * اپنے اللّٰہ سے لو لگائیں گے ہم

ہر بلا  میں اسی کو  بلائیں  گے   ہم* سرنہ قبروں کے آگے جھکائیں گے ہم

ہرجگہ صرف اللّٰہ موجود ہے * صرف اللّٰہ ہی اپنا معبود ہے

صرف اللّٰہ ہی اپنا مسجود ہے * صرف اللّٰہ ہی اپنا مقصود ہے

اپنا مقصود اسی سے ہی پائیں گے ہم *سر نہ قبروں کے آگے جھکائیں گے ہم

میرے اللّٰہ نے قرآں میں فرمادیا *شرک ہے سارے ظلموں میں سب سے بڑا

مشرکوں کو نہ بخشے گا ہر گز خدا * ان کو دوزخ میں ڈالے گا روز جزا

مشرکوں سے نہ ناتا لگائیں    گے  ہم * سر نہ قبروں کے آگے جھکائیں گے ہم

احمد   مجتبیٰ  سرور   انبیاء  *  آپ ہی سارے عالم کے ہیں رہنما

صاف صاف آپ نے ہم کو بتلا دیا *  صرف اللّٰہ ہے سب کا حاجت روا

اس میں شاکر کبھی شک نہ لائیں گے ہم * سر نہ قبروں  کے آگے  جھکائیں گے   ہم

تعلیمی،تربیتی اور تعمیری امور میں شاہکار رول

الله تعالیٰ نےحضرت مولانا مرحوم کونظم ونسق اور انتظامی امور میں اعلیٰ ذوق عطا فرمایا تھا، اسی لئے  مدرسہ کے بنیادی اغراض ومقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے تعلیم وتربیت کو معیاری اورمستحکم بنانے میں آ پ کا رول شاہکار رہا ہے،چنانچہ پرائمری سیکشن، شعبئہ حفظ و تجوید ، شعبئہ اردو،فارسی ، شعبئہ عربی ، مدرسہ نسواں ،  شعبئہ دعوت وتبلیغ ، شعبئہ نشر واشاعت ، کمپیوٹر روم ،  کتب خانہ ، انجمن اصلاح البیان جیسے اہم ترین شعبہ جات کے قیام سے یقیناً آ پ کی اعلیٰ ذوقی پاکیزہ جذبات اور فریضہ خوشگوار کے ادائیگی کی روشن جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں، اور اس تربیتی آنگن کے ماحول کا جہاں تک سوال ہے  طلبئہ عزیز  اپنے شب و روز کے فرائض و وظائف  یعنی درس ومطالعہ،  نماز پنجگانہ، سحر خیزی اور اسلامی وضع قطع  نہایت ہی پابندی اور سلیقہ شعاری  کے ساتھ اساتذہ کرام کی نگرانی میں بحسن و خوبی بجالاتے ہیں،  یہی وجہ تھی کہ مشاہیر علما، مشائخِ عظام، اکابرینِ ملت اور دانشورانِ ملک وملت وغیرہ جو بھی یہاں تشریف فرما ہوئے ہر ایک یہاں کے تعلیمی و تربیتی ماحول سے نہ صرف مسرور ہوئے بلکہ اسے قابلِ رشک قرار دیا،  بہر حال تعلیم وتربیت کے تئیں عملی جد و جہد اور احساس ذمہ داری کے ناطے آ پ مرجع خلائق بن گئے، اور تشنگانِ علوم نبوت مہمانان رسول بغرض تحصیل علوم و معارف جوق در جوق آ نے لگے،  ایک وقت ایسا آ یا کہ  طلبہ کی روزافزں کثرتِ آ مد کیوجہ سے مدرسہ کی تعمیرات قدیمہ ناکافی پڑگئیں جس کے لئے مولانا مرحوم نے تحریک چلاکر مخیران واراکین مدرسہ کے مشورے سے مشرقی شاہراہ پر واقع ایک وسیع قطعہ آ راضی خریدنے میں زبردست کامیابی حاصل کی، بحمد اللہ آ ج جو بھی شاندار ، دیدہ زیب اور پر شکوہ عمارتیں بشکل مساجد  ، مدرسہ نسواں ، دارالقرآن ،عربی درسگاہیں ، کتب خانہ ، مہمان خانہ ، حکیم الامت ہال  وغیرہ۔  نظر آ رہی ہیں وہ سب مولانا مرحوم کی حسنِ اخلاص اور عزم و ہمت کا ثمرہ ہے۔

بہار اب جو گلشن میں آئی ہوئی ہے

یہ سب پود انہیں کی لگائی ہوئی ہے

فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور خدمتِ خلق کاجذبہ

مولانا مرحوم جس خطہ کے مسند اہتمام پر فائز ہوکر مرجع خلائق بنے رہے وہ خطہ بریلوی مسلک سے بے حد  متاثررہا اور یہاں جمداشاہی میں ان کا اپنا ادارہ بھی ہے جو اپنے سالانہ اجلاس کے موقع پر کبھی کبھار اپنے روایتی طرزِ عمل سے دیوبندیت کو ہدفِ ملامت بناتے رہتے ہیں، لیکن مولانا مرحوم اپنے ادارہ اصلاح المسلمین کے پلیٹ فارم سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی ،رواداری  اوراصلاحی مشن کے علاوہ کبھی بھی انتقامی اور منفی ردعمل کا شیوہ نہیں اپنایا، اور نہ ہی آپ اس کے لئے کبھی ایکشن لیا، بلکہ یک طرفہ کاروائی کر کے ماحول کو نارمل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے، حالانکہ اس کایہ مطلب نہیں کہ آپ شرک وبدعت کے مخالف نہ تھے بلکہ نہایت ہی لطيف پیرائہ کے  سنت و وحدت کے علمبردار  داعی اور مخلص مبلغ تھے، جیسا کہ آپ کے منظوم ملفوظات اسکے لئے شاہد وعادل ہیں، اور اسی طرح بریلوی مکتبہ فکر کے ایک مقامی بااثرعالم دین کے بزبان حال   گاؤں کے بیشتر بندے آ پ کے اثر و رسوخ، صالحیت وصلاحیت کے قائل ہی نہیں بلکہ ان سے اپنے مراسم کو استوار کرنے میں طبعی طور پر فخر محسوس کرتے، جسکی وجہ سے اوروں جگہ کی طرح یہاں کوئى تنازعہ ،تناؤ اور کشیدگی جاری نہیں رہی، ہاں اندرونِ خانہ  کشاکش کا شائبہ ہو تو اس سے مفر نہیں، یہی وجہ رہی کہ مولاناشاکرالاسعدی کے جنازہ میں بلا تفریق مسلک وملت خلق خدا کی اچھی خاصی تعداد موجود رہی اور سب شریک غم رہے۔

 مولانا کے اوصاف میں غمگساری اور خدمت خلق کا جذبہ غالب رہا کبھی حالات آ ے تو مولانا نے نہایت ہی فیاضی کے ساتھ دہانے کھول دیئے اسٹاف ہوں ، پڑوس ہوں یامستحق برادران وطن   ہر ایک کے ساتھ آ پنے ایسے موقع پر انسانیت ، ہمدردی کا مظاہرہ کیا۔

معتبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ قریب کے بستی میں دلتوں کی آبادی تھی جہاں پر ایک بھیانک آگ زنی حادثہ پیش آگیا، جس کی وجہ سے انہیں بڑا خسارہ اٹھانا پڑا، دانے دانے کے لالے پڑگئے ایسے کس مپرسی اور بیچارگی کے عالم میں مولانا کو جب اطلاع ملی تو انسانىت کی بنياد حسب ضرورت کفالت اور تعاون کاہاتھ بڑھاکر انہیں ڈھارس بندھائى  چنانچہ خدمت خلق کا یہ جذبہ دیکھ کر عوامی سطح پر آپ کے اس کارخیر کی بڑی پذیرائی ہوئى یقیناً آپ کی یہ خدمات ایک باکمال ناظم/ مہتمم کے لئے آئیڈیل ہیں۔

دیرینہ مراسم اور آ خری ملاقات اور حسرتِ آيات

واقعی مولانا شاکرالاسعدی رحمہ اللّٰہ اپنے مخیرانہ عزم و استقلال کی وجہ سے منفرد شخصیت کے مالک تھے راقم گرچہ آ پ کی شرف تلمذ سے محروم رہا لیکن احقر  آ پ کی مشفقانہ مربیانہ کردار و گفتار کا شہرہ سنکر متاثر رہا، اور بارہا آپ کے مخصوص بیٹھک (مسجد سے منسلک گوشوارہ) میں حاضری کا  موقع ملا اور  اس طرح مراسم استوار ہوتے رہے  کہ دیر زمانہ تک فیض یاب ہوتا رہا، چنانچہ انہیں دیرینہ مراسم نے آ پ کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع فراہم کیا، کہ ملی وملکی حالات حاضرہ پر آ پ گہری نظر رکھتے ہیں، خاص کر جمعية علماء ہند کی موجودہ خدمات کو سراہتے ہوئے ہم کارکنان جمعیت کی جم کر ہمت افزائی فرماتے، خصوصاً راقم الحروف کو دعاء عزم و ہمت سے نوازتے  متعدد بار ضلع جمعیت کے اجلاس میں بحیثیت سرپرست تشریف فرما ہوئے اور زبان حال وقال سے علماء اور عوام کو جمعیتی پیغام سے روشناس کرانے میں کوئ کسر باقی نہیں چھوڑتے، بلکہ آ پ اکابریں ملت کی تاریخ کے رسیا تھے آپ کے ذاتی کتبخانہ میں بحیثیت مراجع ومصادر  متعدد مستند کتابیں مجلات اور تعارفی فولڈر اور کتابچے موجود تھیں اور یہ باتیں اس وقت معلوم ہوئیں جب  انتقال سے ایک ماہ قبل  راقم نے استاذ مکرم مولانا عبد الحلیم قاسمی مظاہری رحمہ اللّٰہ ساکن چھپیا چھتونہ سنت کبیر نگر کی سنہ فراغت اور کچھ حصول مواد  کے بابت ،، مولانامرحوم  سے بذریعہ فون رابطہ کیا  تو آپ نے مطلوبہ مواد فراہم کیا، اور فرمایا کہ سب باتیں فون سے نہیں،  کیا اچھا ہوتا کہ براہ راست بات ہو،  بلکہ بروقت آ پ نے ملاقات کی  دعوت بھی  دی،  بہر حال مولانا حفیظ الرحمن قاسمی مہتمم مدرسہ بسوکا کی معیت میں غالباً 9/ذی الحجہ 1441ہجری کو مولانا کی خدمت میں حاضر ی کی سعادت نصیب ہوئى  حضرت  تبسم ریز مشفقانہ انداز وسلوک سے پیش آ ئے علیک سلیک کے ساتھ خیر وعافیت کا تبادلہ ہوا اور مقصد آمد اور موجودہ مسائل یعنی بڑے جانوروں کی قربانی کے پرمیشن سے متعلق دیر تک تفصیلی گفتگو ہوئى، اور حصول مواد میں کامیابی ملی،   لگے ہاتھوں آ پ کی بھی سوانحی خاکہ اور کچھ تعارفی انٹریو لینے کی اجازت ملی جنہیں اپنے خاص ریکارڈ فائل میں محفوظ کر لیا اس لئے کہ کیا خبر  کہ یہ ملاقات آخری ملاقات ہو،  ىا کبھی ہو کہ نہ ہو  ؟ اور یہ صاعقہ (آپکے وفات کی خبر ) 11/محرم الحرام 1442ہجری کو قلب سے ہوکر گذرے گى، اور سارے شہر کو خاموش کردے گى۔

جانے پھرتم سے ملاقات کبھی ہو کہ نہ ہو

کھل کےدکھ درد کی کچھ بات کبھی ہوکہ نہ ہو

عہد ماضی کے فسانے ہی سنا لیں تم کو

اتنی خاموش کوئی رات کبھی ہو کہ نہ ہو

انتقال پر ملال

اس میں کوئى شبہ نہیں کہ ایک عالم دین کی موت گویا پورے عالم کی موت ہے،مولانا کے ناگہانی انتقال پُرملال کی خبر سے علمی ادبی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی، جس نے  جہاں بھی سنا یقین نہ کیا اور دوسرے ذرائع سے تصدیق کی چاہت کا اظہار کیا، اس لئے کہ وفات سے پہلے آ پ کسی خاص موذی اور مہلک مرض میں مبتلا نہ تھے، بلکہ پیرانہ سالی کی وجہ سے ادھر کئى برسوں سے درد کمر، ضعف عضلات اور دیگر روایتی طبعی امراض وغیرہ سے متاثر رہے،  پھر بھی یہ امراض آ پ کے تدریسی ، تنظیمی مشاغل  اور دعوتی اسفار کے لئے  مانع نہ رہے، اور حسب معمول اپنے نظام الاوقات کے پابند عہد رہے۔

          ہوا یوں کہ مولانا کو کچھ گھنٹوں پہلے نظام انہضام سے متعلق پیٹ میں مروڑ ہوا، اور استطلاق بطن کی شکایت ہوئى جس کا دورانیہ قابل تشویش رہا،  اور بدن میں پانی اور رطوبت کی کمی سے نقاہت پیدا ہوگئ، اور کمزوری کا احساس ہونے لگا بروقت ابتدائی ضروری علاج ومعالجہ شروع ہوا کہ اسی روز  بتاریخ 11/ محرم الحرام 1442 ہجری  مطابق 31/ اگست 2020  بوقت بعد نماز ظہر   فرشتہ اجل نے چپکے سے کیا کہا کہ آ پ کی پرشور زندگی  یک لخت خاموش ہو گئ   اور  اپنے  پس ماندگان کو داغ مفارقت دے کر دار بقا کو سدھار گئے        ———————-اناللہ وانا الیہ راجعون ——————–

موت نے چپکے سے جانے کیا کہا

زندگی  خاموش   ہوکر  رہ  گئ

فی الفور تجہیز و تکفین کے لئے کاروائیاں شروع ہوگئیں، چنانچہ بعد نماز عشا مدرسہ عربیہ اصلاح المسلمین جمداشاہی بستی کے گراؤنڈ میں الحاج مولانا نثار احمد قاسمی صدر المدرسین دارالعلوم الاسلامیہ بستی کی اقتدا میں پہلی نماز جنازہ ادا کی گئی پھر وہاں سے آ پکا جنازہ آ بائى وطن کرہی لایا گیا جہاں پر آپ کے خلف الرشید مولانا ظہیر انوار قاسمی نے نماز جنازہ پڑھائی،   ناموافق حالات ( شوشل ڈسٹنسنگ )اور رات کے باوجود  بحمد اللہ جنازہ میں خلق خدا کی قابلِ رشک تعداد موجود رہی،  مرحوم کو مدرسہ عربیہ ہدایت العلوم کرہی کے عقب میں واقع مقامی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

فضل و کمال، علم و عمل سب ہوئے  یتیم

عالم کی موت واقعی عالم  کی  موت  ہے

پسماندگان

پس ماندگان  میں  جہاں تک آ پ کے ہزاروں علمی روحانی  وارثین  مختلف علاقوں پر پھیلے ہوئے ہیں تو وہیں مولانا مرحوم کے خاندانی، سسرالی رشتہ سے منسوب بھتیجے وغیرہ اپنے اولاد و احفاد سےآ باد وشاداب کنبوں کے ساتھ موجود ہیں، خاص کر مولانا ظہیر انوار قاسمی مہتمم دارالعلوم الاسلامیہ بستی، انجینئر نصیر احمد مقیم حال سعودیہ عربیہ ، عمیر احمد  سکونت پذیر شہر بستی  قابلِ ذکر ہیں۔

تعزیت ومغفرت

مولانا موصوف کے سانحہ ارتحال کے موقع پر علماء کرام، دانشورانِ ملت،  لیڈران قوم،  ارباب مدارس اور طلبائے عزیز نے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے تعزیت مسنونہ اور مرحوم کے حق میں ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کیں اور یہ سلسلہ کئى روز تک جاری رہا، جسے ملک کی  پرنٹ میڈیا روزنامہ راشٹریہ سہارا ممبئ، بنگلور گورکھپور، روزنامہ انقلاب  ممبئ، لکھنؤ ،گورکھپور  اور روزنامہ اردو انکشاف جھانسی نے  شائع کیا، اسی طرح الکٹرانک شوشل میڈیا  نوائے ملت، حق ٹائمس اور اردو نیوز ڈیسک کے علاوہ دیگر نیوز پورٹل شوشل میڈیا اور یوٹوب چینل نے بھی تعزیت ومغفرت کی خبروں اور منظوم مرثیہ کو اپنی اسکرین پٹیوں پر خوب چلایا، جمعية علماء ضلع بستی کے زیر اہتمام جامع مسجد رودھولی بستی میں ایک تعزیتی اجلاس منعقد ہوا  جس میں ضلع کی چاروں یونٹوں کے ذمہ داران حضرات آن لائن شریک رہے۔  نشست کا آغاز حافظ محمد عفان سلمہ ابن راقم الحروف کی تلاوتِ قرآنِ پاک سے ہوا نشست میں مولانا کی رحلت کو علمی ادبی اور انتظامی خسارہ گردانا گیا آ پ کی دینی دعوتی اصلاحی اور انتظامی خدمات کو سراہا گیا اور آ پ کی اس مشن کو نئى نسلوں کے لئے رہنما خطوط تسلیم کیا گیا، ملی امور اور ادارہ کی تعمیر وترقی کے تئیں آ پ کی پالیسی اور پروگرام کو شاہکار سے تعبیر کیا گیا،  آئند ہ کے لئے مولانا کے مشن کو مستحکم و برقرار رکھنا، مرحوم کے حق میں سچی خراج عقیدت پیش کرنے کے مترادف قرار دیا گیا،  اجلاس میں مولانا کی وفات کو ضلع جمعية علماء بستی کے لئے ناقابل فراموش سانحہ قرار دیا گیا اور یہ اعتراف کیا گیا کہ مولانا ہمیشہ ضلع جمعية بستی کے کاموں کو خوب سراہتے اور کارکنان کے حق میں دعائیں فرماتے  اپنے مدرسہ میں ضلع جمعیت کی میٹنگ کے انعقاد کا خواہشمند رہتے  جس کے لئے بہت مرتبہ آ پ کی نگرانی میں وہاں میٹنگیں بھی ہوئیں۔

اجلاس میں  آ پکے لئے دعائے مغفرت کا اہتمام اور نعم البدل کےلئے آرزو کا اظہار کیا گیا  پس ماندگان عقیدتمند گان بالخصوص مولانا مرحوم کے بھتیجے مولانا ظہیر انوار قاسمی صاحب کو تعزیت پیش کیا گیا  اسی طرح جمعية علمائے سدھارتھ نگر اور سنت کبیر نگر کیطرف سے بھی تعزیت پیش کیا گیا  اور الحمدللہ  آ ج بھی مولانا مرحوم کی مرقد مبارک پر  آ پ کے عقیدت مند ،متعلقین اور  چاہنے والوں کی حاضری کا سلسلہ جاری ہے،  جو دعائے مغفرت اور ایصالِ ثواب کے ذریعہ مولانا کی روح کے لئے باعث تسکین بنے ہوئے ہیں،  چنانچہ راقم کو  ابھی حالیہ بتاریخ 16/شعبان المعظم 1442ہجری مطابق 30/ مارچ 2021 عیسوی بروز منگل مدرسہ عربیہ ہدایت العلوم کرہی میں بحیثیت ممتحن جانا ہوا جہاں کام سے فراغت کے بعد ظہرانہ اور قیلولہ کے معمولات پر عمل پیرا ہوا، پھر بعد نماز ظہر مولانا مرحوم کی مرقد پر فاتحہ خوانی کے لئے حاضر ہوا بہت اچھا ہوا کہ ورثا نے قبرپر کتبہ لگا کر آ پکی حیات وفات کو مؤرخ اور مرقد مبارک کو موسوم کردیا کہ زائرین کو دقت نہ ہو اور با آسانی قبر تک پہونچ سکیں۔

          راقم فاتحہ خوانی کے بعد دعا گو ہوا  کہ اللّٰہ رب العزت مولانا مرحوم پر اپنی شفقتوں رحمتوں کی فروانی کرکے معفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین

ان پہ مالک شفقتوں کی اپنی ارزانی  کرے

مغفرت کی  اور رحمت کی   فروانی   کرے

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply