نكاح وشادى كا کارڈ  چھپوانے كى شرعى حيثيت

نكاح وشادى كا کارڈ  چھپوانے كى شرعى حيثيت

  • Post author:
  • Post category:نکاح
  • Post comments:0 Comments
  • Post last modified:January 16, 2024
  • Reading time:1 mins read

 نكاح وشادى كا کارڈ  چھپوانے كى شرعى حيثيت:

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی، انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو۔

شادی کے موقع پر لوگوں کو مدعو کرنے کے لئے کارڈ چھپوانے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ یہ بھی اطلاع اور دعوت کی ایک شکل ہے البتہ سادگی کا لحاظ بہتر اور فضول خرچی سے اجتناب ضروری ہے۔

اور عام طور پر بیش قیمت کارڈ بنانے میں ناموری اور دکھاوے کے جذبے کا اظہار ہوتا ہے اور فضول خرچی کے دائرے میں آجاتا ہے ۔

اور ریاکاری و فضول خرچی سے کتاب و سنت میں منع کیا گیا ہے ۔حکم ربانی ہے :

{يَابَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ } [الأعراف: 31]

اے آدم کے بیٹو اور بیٹیو ! جب کبھی مسجد میں آؤ تو اپنی خوشنمائی کا سامان (یعنی لباس جسم پر) لے کر آؤ، اور کھاؤ اور پیو، اور فضول خرچی مت کرو۔ یاد رکھو کہ اللہ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔(سورۃ الأعراف: 31)

اور ایک‌دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے :

{وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا (26) إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا} [الإسراء: 26، 27]

اور رشتہ دار کو اس کا حق دو ، اور مسکین اور مسافر کو (ان کا حق) اور اپنے مال کو بےہودہ کاموں میں نہ اڑاؤ۔یقین جانو کہ جو لوگ بےہودہ کاموں میں مال اڑاتے ہیں، وہ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔( سورہ الاسراء : 26- 27)

  قرآن کریم نے یہاں ” تبذی “ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ عام طور سے تبذیر اور اسراف دونوں کا ترجمہ فضول خرچی سے کیا جاتا ہے۔ لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ اگر جائز کام میں خرچ کیا جائے۔ لیکن ضرورت یا اعتدال سے زیادہ خرچ کیا جائے تو وہ اسراف ہے اور اگر مال کو ناجائز اور گناہ کے کام میں خرچ کیا جائے تو وہ تبذیر ہے اسی لیے یہاں ترجمہ ” بیہودہ کاموں میں مال اڑانے “ سے کیا گیا ہے۔(آسان ترجمہ ۔از مفتی محمّد تقی عثمانی)

  اور حضرت ابو صالح کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

۔۔۔  ويسخط لكم قيل و قال و إضاعة المال و كثرة السوال.

اللہ تعالیٰ قیل و قال کرنے ،مال ضائع کرنے[1] ،اور بکثرت بے فائدہ سوال پوچھنے سے ناراض ہوتے ہیں ۔(المؤطا:2833)


حاشيہ

[1]  و إضاعة المال. و قد قال الجمهور: إن المراد به السرف في إنفاقه. (فتح الباري.كتاب الاستقراض.120/3)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply