hamare masayel

مسجد میں وعدہ کرکے پیسہ نہ دینا، وعدہ خلافی کرنا

مسجد میں وعدہ کرکے پیسہ نہ دینا

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں زید نے اپنا ایک لاکھ روپیہ مضاربت کے طور پر دے رکھا ہے اور اس سے دو ماہ منافع بھی حاصل کر چکاہےاس کے بعد اسکا یہ ارادہ ہوا کہ اس پیسے کو مسجد کی تعمیر کے لئے وقف کردے اور اس نے متولیان مسجد سے کہہ بھی دیا ہے کہ جب پیسے کی ضرورت ہو تو اسکو تعمیر میں استعمال کر لیں لیکن وہ پیسہ ابھی تاجر ہی کے پاس ہے اور اس سے منافع بھی آرہے ہیں تو کیا اس صورت میں یعنی جو منافع آرہے ہیں اسکو مسجد میں دینا ضروری ہے یا اسکو اپنے استعمال میں لایا جا سکتاہے اور اسی طرح اگر وہ پیسہ غریبوں کو دینا چاہے تو دے سکتا ہے یا نہیں؟

 امیدکہ مدلل جواب مرحمت فرمائینگے!

المستفتی: محمد شہرت مچھلی شہر جونپور

الجواب باسم الملهم للصدق والصواب

جب کوئی شخص اپنی کسی چیز کو وقف کرے تو صرف زبان سے کہتے ہی وقف تام ہوجائے گا یا جس کے لئے وقف کیا گیا اس کے حوالہ کرنا ضروری ہے؟ اس میں اختلاف ہے؛ امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے نزدیک جب تک قاضی اس کے وقف ہونے کا فیصلہ نہ کرے تب تک وقف تام نہیں ہوگا ، امام محمد رحمة اللہ علیہ کے نزدیک متولی کے حوالہ کرنا ضروری ہے اس کے بغیر وقف مکمل نہیں ہوگا؛ لیکن امام ابو یوسف رحمة اللہ علیہ کے نزدیک زبان سے کہتے ہی وقف تام ہوجاتا ہے اور حنفیہ کے نزدیک اس مسئلہ میں فتویٰ امام ابو یوسف رحمة اللہ علیہ کے قول پر ہے۔

صورت مسئولہ میں چونکہ زید نے ایک متعینہ رقم کے بارے مسجد والوں سے یہ کہا کہ جب ضرورت ہو لے لیں یعنی ابھی نہیں بلکہ جب ضرورت ہو تب لیجائیں اس سے بظاہر وقف نہیں بلکہ وعدہ معلوم ہوتا ہے؛ اس لئے اس روپیہ کو دوسرے غریب کو دینے کا جواز معلوم ہوتا ہے؛ لیکن ایک مسلمان کو وعدہ کرنے کے بعد پورا کرنا چاہئیے، وعدہ پورا نہ کرنا منافقین کی علامت ہے؛ اس لئے زید کے حق میں بہتر یہ ہے کہ جس دن سے اس رقم کو مسجد میں دینے کا وعدہ کیا ہے اس کے بعد کا فایدہ اور اصل رقم دونوں اسی مسجد کے ذمہ داروں کے حوالہ کردے، واللہ اعلم بالصواب۔

الدلائل

قال الله تعالى: ﴿لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ﴾ (البقرة: 177).

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله ﷺ: آية المنافق ثلاث: إذا حدَّث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان:؛ متفق عليه. (صحيح البخاري كتاب الْإِيمَانُ/ بَابُ عَلَامَةِ الْمُنَافِقِ. رقم الحديث: 33)   (صحيح مسلم، كِتَابٌ: الْإِيمَانُ/ بَابٌ: بَيَانُ خِصَالِ الْمُنَافِقِ، رقم الحديث: 59).

قال أبو حنيفة: لا يزول ملك الواقف عن الوقف إلا أن يحكم به الحاكم أو يعلقه بموته فيقول إذا مت فقد وقفت داري على كذا. وقال أبو يوسف: يزول ملكه بمجرد القول. وقال محمد: لا يزول حتى يجعل للوقف وليا ويسلمه إليه. (الهداية 15/3).

لَا يَزُولُ مِلْكُ الْوَاقِفِ عَنْ الْوَقْفِ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ إلَّا أَنْ يَحْكُمَ بِهِ حَاكِمٌ) يَعْنِي الْمَوْلَى أَمَّا الْمُحَكَّمُ فَفِيهِ خِلَافُ الْمَشَايِخِ وَالْأَصَحُّ أَنَّهُ لَا يَصِحُّ وَطَرِيقُ الْحُكْمِ فِي ذَلِكَ أَنْ يُسَلِّمَ الْوَاقِفُ مَا وَقَفَهُ إلَى الْمُتَوَلِّي ثُمَّ يُرِيدُ أَنْ يَرْجِعَ فِيهِ مُحْتَجًّا بِعَدَمِ اللُّزُومِ فَيَتَخَاصَمَانِ إلَى الْقَاضِي فَيَقْضِيَ بِلُزُومِهِ، وَكَذَا إذَا أَجَازَهُ الْوَرَثَةُ جَازَ؛ لِأَنَّ الْمِلْكَ لَهُمْ فَإِذَا رَضُوا بِزَوَالِ مِلْكِهِمْ جَازَ كَمَا لَوْ أَوْصَى بِجَمِيعِ مَالِهِ قَوْلُهُ (أَوْ يُعَلِّقَهُ بِمَوْتِهِ فَيَقُولُ إذَا مِتّ فَقَدْ وَقَفْت دَارٍ عَلَى كَذَا) ؛ لِأَنَّهُ إذَا عَلَّقَهُ بِمَوْتِهِ فَقَدْ أَخْرَجَهُ مَخْرَجَ الْوَصِيَّةِ وَذَلِكَ جَائِزٌ وَيُعْتَبَرُ مِنْ الثُّلُثِ؛ لِأَنَّهُ تَبَرُّعٌ عَلَّقَهُ بِمَوْتِهِ فَكَانَ مِنْ الثُّلُثِ كَالْهِبَةِ وَالْوَصِيَّةِ فِي الْمَرَضِ قَوْلُهُ (وَقَالَ أَبُو يُوسُفَ يَزُولُ بِمُجَرَّدِ الْقَوْلِ) ؛ لِأَنَّهُ بِمَنْزِلَةِ الْإِعْتَاقِ عِنْدَهُ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى. (الجوهرة النيرة: 333/1).

وَيَزُولُ مِلْكُهُ بِمُجَرَّدِ قَوْلِهِ وَقَفْتُ دَارِي هَذِهِ مَثَلًا وَلَا يَحْتَاجُ إلَى الْقَضَاءِ وَلَا إلَى التَّسْلِيمِ (عِنْدَ أَبِي يُوسُفَ) وَهُوَ قَوْلُ الْأَئِمَّةِ الثَّلَاثَةِ وَبِهِ يُفْتِي مَشَايِخُ الْعِرَاقِ لِأَنَّهُ إسْقَاطٌ لِلْمِلْكِ كَالْإِعْتَاقِ. (مجمع الأنهر:  733/1).

قَوْلُهُ: وَاخْتَلَفَ التَّرْجِيحُ) مَعَ التَّصْرِيحِ فِي كُلٍّ مِنْهُمَا بِأَنَّ الْفَتْوَى عَلَيْهِ لَكِنْ فِي الْفَتْحِ أَنَّ قَوْلَ أَبِي يُوسُفَ أَوْجَهُ عِنْدَ الْمُحَقِّقِينَ. (رد المحتار 351/4)

 والله أعلم

 تاريخ الرقم: 10/5/1440هـ 17/1/2019م الخميس

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply