کمپنی میں لگی ہوئی رقم پر زکوة
سوال: ہمارے ایک دوست ہیں انھوں نے ایک کمپنی میں چار لاکھ روپئے لگائے ہیں جس سے اس کو ماہانہ دس پندرہ ہزار روپئے ملتے ہیں، اب اس کو زکوة نکالنی ہے تو کیا صرف آمدنی کی زکوة دینی ہوگی یا اس رقم کی بھی جو کمپنی میں لگی ہے؟
المستفتی: منصور احمد قاسمی پوٹریاں جون پور۔
الجواب باسم الملهم للصدق والصواب:
صورت مسئولہ میں جس کمپنی میں آپ نے رقم لگائی ہے اگر وہ آپ کی رقم سے آلات تجارت (مثلا سامان لانے لیجانے کے لئے گاڑیاں یا عمارت کی تعمیر کے لئے پھاوڑے وغیرہ) خرید کر استعمال کرتی ہے تو صرف آمدنی کی زکوة دینی ہوگی۔
اور اگر سامان تجارت کی خرید و فروخت کرتی ہے تو سال گزرنے کے بعد اصل رقم اور آمدنی دونوں کی زکوة ادا کرنی ہوگی۔
اور اگر یہ معلوم نہ ہوسکے کہ کمپنی ہماری رقم کو آلات تجارت اور سامان تجارت میں سے کس میں استعمال کر رہی ہے تو آمدنی کی زکوة کے ساتھ احتیاطاً اصل رقم کی بھی زکوة ادا کرنی چاہئے۔
الدلائل
عن سمرة بن جندب، قال أمابعد! فإن رسول الله ﷺ کان یأمر نا أن نخرج الصدقة من الذي نعد للبیع. (سنن أبي داود، الزکاة، باب العروض إذا کانت للتجارة هل فیها من زکاة ، النسخة الهندیة 1/218، دارالسلام رقم: 1562).
وفی عرض تجارة قیمته نصاب من ذهب أو ورق مقوما بأحدهما إن استویا فلو أحدهما، أروج تعین التقویم به. (تنویر الابصار مع الدر المختار ، کتاب الزکاة، باب زکاة المال زکریادیوبند 3/ 228- 229، کراچی 3/ 298- 299).
عن عبد الله بن أبي سلمة: أن أباعمرو بن حماس أخبره: أن أباه حماسا کان یبیع الأدم والجعاب، وأن عمر قال له: یاحماس أد زکاة مالک، فقال: والله مالي مال، إنما أبیع الأدم والجعاب، فقال: قوّمه وأد زکاته. (المصنف لابن أبي شیبه، کتاب الزکاة، ماقالوا في المتاع یکون عند الرجل یحول علیه الحول، مؤسسه علوم القرآن جدید6/535، رقم: 10557).
ومنها فراغ المال عن حاجته الأصلية فليس في دور السكنى… زكوة وكذا….. وآلات المحترفين كذا في السراج الوهاج، هذا في الالات التي ينتفع بنفسها ولا يبقى أثرها في المعمول. (الفتاوى الهندية 172/1 رشيدية) وكذا في رد المحتار 265/2 سعيد) وكذا في فتح القدير 164/2 مصر).
والله أعلم
تاريخ الرقم: 28 – 9 – 1439ھ 13 – 6 – 2018 م الأربعاء
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.