(سلسلہ نمبر: 774)
سودی معاملہ کرنے والی کمپنی میں ملازمت کرنا
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلۂ ذیل کے بارے میں کہ زید دبئی کی ایک کمپنی میں ایچ آر ڈیپارٹمنٹ کے اندر کام کرتا ہے یعنی ان کی ذمہ داری کمپنی میں کام کرنے کے لیے مختلف ممالک سے ملازمین کو بلانا ہے اور وہ کمپنی دنیا کی مختلف کمپنیز وترقی پذیر ممالک کو سود کی مختصر شرح پر قرض دیتی ہے لیکن حالیہ دنوں میں کمپنی کا رجحان تبدیل ہوا ہے اور وہ سود کی طرف زیادہ توجہ دینے لگی ہے بلفظ دیگر آہستہ آہستہ وہ بینک کی طرف بڑھ رہی ہے۔
ادھر سعودی عرب کی ایک کمپنی نے زید کو اپنے یہاں ملازمت کی پیشکش کی ہے اور جب زید نے موجودہ کمپنی میں اپنا استعفی جمع کیا تو اس کمپنی نے زید کو نئی پیشکش سے زیادہ تنخواہ کی بات کہی تاکہ وہ وہیں رک جائے۔
کمپنی کے ایچ آر ڈیپارٹمنٹ میں ہونے کی وجہ سے زید کا انٹریسٹ اور سود کے کاموں سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس کا کام انٹرنیشنل ریکروٹمنٹ کا (کمپنی میں کام کرنے کے لیے مختلف ممالک سے ملازمین کو بلانا) ہے لیکن فکر ومزاج کے دینی ہونے کی وجہ سے زید اپنی ملازمت کے تئیں کشمکش اور تذبذب میں مبتلا ہے کہ وہ کیا کرے؟ آیا اپنی موجودہ ملازمت کو ترک کر کے سعودی عرب چلا جائے یا اسی کو مسلسل کرے؟ کیوں کہ دبئی سے سعودی عرب منتقل ہونا ایک مستقل اور پر مشقت کام ہے جو زید کے لیے آسان نہیں ہے اور اس نئی کمپنی میں تنخواہ بھی کم ہے۔
امید کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں مکمل ومدلل جواب عنایت فرمائینگے۔
المستفتی: ون آف دی بیسٹ فرینڈس آف زید۔
الجواب باسم الملہم للصدق والصواب: صورت مسئولہ میں اگر زید کا کام براہ راست سودی کاموں کے لکھنے پڑھنے اور حساب وکتاب کا نہیں ہے تو یہ ناجائز وحرام تو نہیں ہے مگر علماء نے لکھا ہے کہ اس قسم کے تعاون سے بھی بچنا چاہیے، جبکہ زید دینی مزاج کا حامل ہے تو اسے کمپنی میں ملازمت کو ترک کرنا ہی بہتر ہے تاکہ دوسرے لوگ غلط فہمی کا شکار نہ ہو، کمپنی چھوڑنے کی صورت میں زید کا جو وقتی نقصان نظر آرہا ہے ان شاء دوسرے راستے سے اس سے زیادہ فائدہ ہوجائے گا اور آخرت کا اجرو ثواب مزید بر آں۔
الدلائل
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (سورة المائدة، آیة: 2).
“لعن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم آكل الربوا وموكله وكاتبه وشاهديه و قال: هم سواء “. (صحيح مسلم، باب لعن آکل الربا وموکلہ، الرقم: 106).
إن المتوظف في البنوك الربوية لا يجوز فإن كان عمل الموظف في البنك ما يعين على الربا كالكتابة أو الحساب فذالك حرام لوجهين، الأول إعانة على المعصية والثاني أخذ الأجرة من مال الحرام؛ فان معظم دخل البنوك حرام مستجلب بالربا وأما اذا كان العمل لا علاقة له بالربا فإنه حرام لوجه الثاني فحسب، فإذا وجد بنك معظم دخله حلال جاز فيه التوظف للنوع الثاني من الأعمال. والله أعلم. (تكملة فتح الملهم: 1/ 619).
وكل ما أدى إلى ما لا يجوز لا يجوز. (الدر المختار رد المحتار: 6/ 360).
والله أعلم.
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.
13- 2- 1445ھ 1-8- 2023م الثلاثاء
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.