hamare masayel

قبرستان کے جنگلی درختوں کو مفت میں دینا

(سلسلہ نمبر: 551)

قبرستان کے جنگلی درختوں کو مفت میں دینا

سوال: مفتی صاحب میرے یہاں قبر ستان میں کچھ جنگلی درخت ہیں، جنکی کوئی قیمت نہیں ہے، اسے اگر کاٹ کر لوگوں کو لےجانے کی اجازت دیدی جائے توکیا یہ درست ہے؟ کیونکہ اگر قیمت دیکر کٹوایا جائے تو پیسہ ضائع ہوگا، اور قبرستان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

المستفتی: محمد امجد امبیڈکر نگر۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: اگر یہ درخت ہرے بھرے ہیں اور ان کی وجہ سے کوئی دشواری نہیں ہے، تو انہیں کاٹا نہ جائے اس لئے کہ قبرستان کے پودوں اور درختوں کو بلا وجہ کاٹنا جائز نہیں ہے، اور اگر سوکھ گئے ہیں یا اتنے زیادہ ہیں کہ قبر تیار کرنے اور تدفین وغیرہ میں دشواری ہوتی ہے تو صورت مسئولہ میں مفت دے سکتے ہیں، اس لئے قبرستان کا اسی میں دائرہ ہے۔

الدلائل

يكره أيضا قطع النبات الرطب والحشيش من المقبرة دون اليابس كما في البحر والدرر وشرح المنية وعلله في الإمداد بأنه ما دام رطبا يسبح الله – تعالى – فيؤنس الميت وتنزل بذكره الرحمة اهـ ونحوه في الخانية. (رد المحتار: 2/ 245).

وإن نبتت الأشجار فیها بعد اتخاذ الأرض مقبرۃ، فإن علم غارسها کانت للغارس، وإن لم یعلم الغارس فالرأي فیها للقاضي أن یبیع الأشجار، ویصرف ثمنها إلی عمارۃ المقبرۃ فله ذلك، ویکون في الحکم کأنها وقف. (الفتاوى الخانیة علی الهندیة: 3/ 311).

وقد صرح صاحب الحاوي القدسي بأنه يفتي بكل ما هو أنفع للوقف. (رد المحتار: 4/ 344).

والله أعلم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.

23- 4- 1442ھ 9- 11- 2020م الأربعاء.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply