hamare masayel

اگركان ميں اذان دينے سےقبل بچہ انتقال كر جائے، نو مولود کے کان میں اذان

اگر اذان سے پہلے بچہ انتقال کر جائے تو

سوال: بچہ پیدا ہوا ایک ہفتہ زندہ رہا لیکن اسکے کان میں اذان اور تکبیر نہیں کہی گئی اور وہ فوت ہوگیا اب کیا حکم ہے؟ اسے غسل دیا جاے نماز جنازہ پڑھی جاے یا نہیں؟

المستفتی:  بندہ خدا۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

اگر بچہ ولادت کے بعد کچھ دیر زندہ رہا اور پھر کانوں میں اذان واقامت کہے جانے سے پہلے انتقال کرگیا تو اب انتقال کے بعد اس کے کانوں میں اذان واقامت نہیں کہی جائے گی۔ (جامع الفتاوی 5/ 279، بحوالہ فتاویٰ مفتاح العلوم غیر مطبوعہ)

اس لئے حدیث شریف میں اذان کا جو مقصد بیان کیا گیا ہے (یعنی سب سے پہلے کان میں اللہ کا نام پڑے، اسی طرح ام الصبیان (بچوں کی مرگی کی بیماری) اور شیطان سے حفاظت وغیرہ) وہ فوت ہوچکا ہے۔

 البتہ ایسے بچے کا نام رکھا جائے گا، غسل دیا جائے گا اور نماز جنازہ بھی پڑھی جائے گی۔

نوٹ: بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جو بچہ یا بچی زندہ پیدا ہو، اور اس کے کان میں اذان دینے سے پہلے ہی وہ مرجائے، تو اس کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی، اُن کا یہ خیال صحیح نہیں ہے، بلکہ شریعتِ اسلامیہ کا حکم یہ ہے کہ جو بچہ یا بچی زندہ پیدا ہو، خواہ اس کے کان میں اذان دی گئی یا نہیں، اس کے مرنے پر اس کا نام بھی رکھا جائے، غسل بھی دیا جائے، اور اس پر نمازِ جنازہ بھی پڑھی جائے، اور اگر کسی کو بغیر نمازِ جنازہ پڑھے دفن کردیا گیا، تو اس کے پھولنے پھٹنے سے پہلے اس کی قبر پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب۔

الدلائل

رُوِيَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ قَالَ: إذَا اسْتَهَلَّ الْمَوْلُودُ سُمِّيَ وَغُسِّلَ وَصُلِّيَ عَلَيْهِ. (بدائع الصنائع 1/ 302)

ومن استهل بعد الولادة سمى وغسل وصلي عليه؛ لقوله ﷺ: إذا استهل المولود صلي عليه وإن لم يستهل لم يصل عليه. (الهداية 1/ 91)

قال السنوي: فیرفع المولود عند الولادة علی یدیه مستقبل القبلة ویؤذن في أذنه الیمنی ویقیم في الیسری، ویلتفت فیهما بالصلاة لجہة الیمین وبالفلاح لجہة الیسار. (تقریرات رافعي علی الشامي کراچی1/ 45، زکریا 2/45)

عن حسین بن علی رضی الله عنہما قال قال رسول الله ﷺ: من ولد له مولود فأذن في أذنه الیمنی و أقام في أذنه الیسری لم یضرہ أم الصبیان. (عمل الیوم واللیلة لإبن السني، باب ما یعمل بالولد إذ ولد، مؤسسة علوم القرآن 1/578، رقم: 623، مسند أبي یعلی الموصلي، دار الکتب العلمیة بیروت 6/32، رقم: 6747، وهکذا فی المعجم الأوسط، دار الفکر 6/414، رقم: 2950، مصنف عبد الرزاق، المجلس العلمي 4/336، رقم: 7985، شرح السنة للبغوی بیروت  11/273، رقم: 2822، شعب الإیمان، دار الکتب العلمیة بیروت 6/389، حاشیة مشکاة 2/363)

فیرفع المولود عند الولادة علی یدیه مستقبل القبلة ویؤذن في أذنه الیمنی ویقیم في الیسری ویلتفت فیہا بالصلاة لجہة الیمین وبالفلاح لجہة الیسار وفائدة الأذان في أذنه أنه یدفع أم الصبیان عنه. (تقریرات رافعي، زکریا 2/45، کراچی 1/45، مرقات، امدادیہ ملتان 8/160)

قال النووي في الروضة: ويستحب أن يقول في أذنه: {وإني أعيذها بك وذريتها من الشيطان الرجيم} [آل عمران: 36]. قال الطيبي: ولعل مناسبة الآية بالأذان أن الأذان أيضاً يطرد الشيطان؛ لقوله ﷺ: “إذا نودي للصلاة أدبر الشيطان له ضراط حتى لايسمع التأذين”. مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 2691)

یسن الأذان فی أذن المولود حین یولد. (الموسوعة الفقهیة 2/373)

ذوالله أعلم

تاريخ الرقم: 26- 5- 1441ھ 22- 1 2020م الأربعاء.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply