لباس اور زینت

لباس اور زینت سے متعلق نئے مسائل

لباس اور زینت سے متعلق نئے مسائل

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی۔ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.

1- ٹائی لگانا:

موجودہ زمانے میں ٹائی لگانا غیر مسلموں کے ساتھ خاص نہیں ہے، نہ تو ان کا مذہبی شعار شمار ہوتا ہے اور نہ قومی؛ اس لیے اس کا استعمال جائز ہے، البتہ چونکہ ایک زمانے میں عیسائیوں کا شعار رہا ہے اور انہی کے ذریعے اس کا رواج ہوا ہے اس لیے اس کے لگانے سے احتیاط کرنا چاہیے۔

کچھ لوگ ٹائی کو صلیب کی یاد گار قرار دیتے ہیں لیکن یہ محض افواہ ہے اور اسے صلیب کا متبادل قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔شیخ الاسلام ،مفتی محمد تقی عثمانی کہتے ہیں کہ لباس کی ابتداء کی تاریخ لکھنے والوں میں سے کسی نے بھی اسے صلیب کا متبادل قرار نہیں دیا ہے ۔(دیکھئے:درس ترمذی 629/5)

2- پینٹ پہننا:

پینٹ شرٹ بھی کسی غیر قوم کے ساتھ خاص نہیں ہے؛ اس لیے اس کے پہننے کی گنجائش ہے چنانچہ مفتی کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں:

“من تشبه بقوم فهو منهم” سے مراد یہ ہے کہ کسی قوم کی ایسی مشابہت اختیار کی جائے جو اس قوم کے ساتھ مخصوص ہو یا اس کا خاص شعار ہو تو ایسی مشابہت ناجائز ہے۔(کفایت المفتی 160/9)

اور حضرت تھانوی لندن میں انگریزی لباس کے استعمال کے سلسلے میں فرماتے ہیں : میں اس باب میں یہ سمجھے ہوا ہوں کہ جس جگہ یہ قومی لباس ہے جیسے ہندوستان وہاں اس کا پہننا “من تشبه بقوم فهو منهم” میں داخل ہوتا ہے اور جہاں ملکی ہے جس کی علامت یہ ہے کہ وہاں سب قومیں اور سب مذاہب کے لوگ ایک ہی لباس پہنتے ہیں وہاں پہننا کچھ حرج نہیں ہے (امداد الفتاوی 268/4

لیکن یہ گنجائش اسی وقت ہے جبکہ اس سے ستر پوشی کے تقاضے پورے ہوتے ہیں یعنی اس قدر چست یا باریک نہ ہو کہ جسم کی بناوٹ ظاہر ہو رہی ہو یا رنگت جھلک رہی ہو چنانچہ حدیث میں ہے : صنفان من أهل النار لم أرهما بعد نساء كاسيات عاريات، مميلات مائلات۔۔۔ جہنمیوں کی دوقسموں کو میں نے ابھی تک نہیں دیکھا ہے ۔ان میں سے ایک ایسی عورتیں ہیں جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہونگی۔مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی اور خود ان کی طرف مائل ہونے والی ہونگی۔

اور حدیث کے شارحین نے لکھا ہے کہ اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جو اس قدر باریک یا چست لباس پہنے ہوں گی کہ اس سے بدن کی رنگت جھلک رہی یا جسم کی بناوٹ نمایاں ہو رہی ہوگی۔

3- سونے یا چاندی کی قلعی کی گئی گھڑی یا چشمہ پہننا:

گھڑی اور چشمے کے فریم پر سونے یا چاندی کا پانی چڑھایا گیا ہو تو اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔[1] کیونکہ اس کی حیثیت تابع کی ہوتی ہے اور تابع کی حیثیت سے بعض ایسی چیزیں بھی جائز ہو جاتی ہیں جو مستقلا جائز نہیں ہے چنانچہ ابو شیخ بیان کرتے ہیں کہ

أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ وَعِنْدَهُ جَمْعٌ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لُبْسِ الذَّهَبِ إِلَّا مُقَطَّعًا قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ۔(سنن نسائی:5151)

 انہوں نے حضرت معاویہ سے سنا اور اس وقت وہاں بہت سے صحابہ کرام موجود تھے انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سونے کے پہننے سے منع کیا کرتے تھے مگر یہ کہ وہ تھوڑا موڑا ہو صحابہ کرام نے کہا ہاں ہمیں معلوم ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:

حديث معاوية في إباحة الذهب مقطعا هو في التابع غير المفرد (تھذیب سنن ابی داؤد 87/3)

حضرت امیر معاویہ کی حدیث تھوڑے سے سونے کے جواز کے سلسلے میں تابع اور غیر مستقل سے متعلق ہے۔

4- مصنوعی ریشمی کپڑے:

اج کل مارکیٹ میں بعض ایسے کپڑے بھی دستیاب ہیں جو اپنی چمک اور نرمی میں بالکل ریشم کی طرح معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ ریشم نہیں ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ شریعت نے مردوں کے لیے طبعی ریشمی کپڑے کو حرام قرار دیا ہے نہ کہ مصنوعی ریشمی کپڑے کو ؛اس لیے وہ حرمت کے دائرے میں داخل نہیں ہے اور اسے پہننا جائز ہے؛ کیونکہ تمام چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے جائز ہوتی ہیں اور حرام اسی وقت قرار دی جاتی ہیں جبکہ حرمت کی کوئی دلیل موجود ہو۔

5- تصویر دار کپڑے:

ایسے کپڑے کو پہننا جس پر کسی جاندار کی تصویر بنی ہو مرد و عورت ہر ایک کے لیے ممنوع ہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے :

عَنْ عَلِيٍّ قَالَ صَنَعْتُ طَعَامًا فَدَعَوْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ فَدَخَلَ فَرَأَى سِتْرًا فِيهِ تَصَاوِيرُ فَخَرَجَ وَقَالَ إِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَا تَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ تَصَاوِيرُ(سنن نسائى:5351)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ میں نے کھانا بنایا اور نبی ﷺ کو دعوت دی ۔آپ ﷺتشریف لائے تو دیکھا کہ ایک پردے پر تصویر بنی ہوئی ہے ۔آپ فورا واپس ہوگئے اور فرمایا:فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے ہیں جس میں تصویریں ہوں۔

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں:

قدِمَ رَسُول اللَّه ﷺ مِنْ سفَرٍ، وقَد سَتَرْتُ بِقِرَامٍ عَلَى سَهْوَةٍ لِي فِيهِ تَصَاوِيرُ فَنَزَعَهُ وَقَالَ أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ الَّذِينَ يُضَاهُونَ بِخَلْقِ اللَّهِ (سنن نسائى:5356

رسول اللہ ﷺ ایک سفر سے تشریف لے آئے اور میں نے اپنے ایک طاق پر تصویر دار پردہ لٹکا رکھا تھا ۔آپ نے اسے وہاں سے ہٹادیا اور فرمایا:قیامت کے دن سب سے سخت عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو اللہ کی تخلیق کی نقل بناتے ہیں ۔

6-چمڑے کی جیکٹ:

چمڑے کی جیکٹ پہننا جائز ہے کیونکہ کسی جانور کی کھال کو دباغت دے دی جائے یا اسے شرعی طریقے پر ذبح کیا گیا ہو تو اس کی کھال پاک ہو جاتی ہے ،صرف خنزیر اور انسان کی کھال اس سے مستثنی ہے-

کہ خنزیر کی کھال دباغت اور ذبح شرعی کے باوجود پاک نہیں ہوتی ہے؛ کیوں کہ کی وہ مکمل طور پر ناپاک ہے ۔اور انسان کو اللہ نے معزز اور مکرم بنایا ہے اور اس کی کھال کو یا اس کے جسم کے کسی حصے کو استعمال کرنے میں اس کی اہانت ہے۔

اور درندے جانور کی کھال بھی دباغت یا ذبح شرعی کی وجہ سے پاک ہو جاتی ہے چنانچہ حدیث میں ہے :

أيُّما إهابٍ دُبِغ فقد طَهُرَ.

جس کھال کو بھی دباغت دے دی جائے وہ پاک ہوجاتی ہے۔

( أخرجه الترمذي (1728)، والنسائي (4241) واللفظ لهما، وأخرجه مسلم (366) باختلاف يسير)

اور امام ابوبکر جصاص رازی لکھتے ہیں:

”وقد روى عطاء عن ابن عباس وأبو الزبير عن جابر ومطرف عن عمار إباحة الانتفاع بجلود السباع وعن علي بن حسين والحسن وإبراهيم والضحاك وابن سيرين لا بأس بلبس جلود السباع “

حضرت عطاء نے حضرت ابن عباس سے ،ابو زبیر نے حضرت جابر سے،مطرف نے حضرت عمار رضی اللہ عنہم سے درندوں کی کھال سے فائدہ اٹھانے کے مباح ہونے کو نقل کیا ہے اور حضرت علی بن حسین اور حضرت حسن بصری اور حضرت ابراہیم اور حضرت ضحاک اور ابن سیرین سے منقول ہے کہ درندوں کی کھال پہننےمیں کوئی حرج نہیں ۔ (احکام القرآن 151/1)

بعض احادیث میں اس کے پہننے سے منع کیا گیا ہے چنانچہ حضرت مقدام نے حضرت معاویہ سے پوچھا:

هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لُبْسِ جُلُودِ السِّبَاعِ وَالرُّكُوبِ عَلَيْهَا؟ قَالَ نَعَمْ (سنن ابو داود: 4131)

کیا اپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندے جانوروں کی کھال کو پہننے اور اس پر سوار ہونے سے منع کیا ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں۔

اور حضرت اسامہ سے منقول ہے :

إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن جلود السباع (سنن أبي داود: 4132، سنن الترمذي:1770، سنن النسائي: 4253)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کی کھال سے منع فرمایا ہے.

شارحین حدیث نے ان روایتوں کی تشریح میں لکھا ہے :

۔۔۔يحتمل أن النهي عما لم يدبغ منها لأجل النجاسة ، أو أن النهي لأجل أنها مراكب أهل السرف والخيلاء . (تحفة  الأحوذي)

احتمال یہ ہے کہ اس چمڑے سے منع کیا گیا ہے جسے دباغت نہ دی گئی ہو یا ممانعت اس لئے ہے کہ وہ متکبروں اور فضول خرچوں کی سواریوں کی زین ہے ۔

اور علامہ عینی لکھتے ہیں:

والأولى هنا هو الأخذ بالحديثين جميعا وهو أن يحمل المنع على ما قبل الدباغ والأخبار بالطهارة بعده.

بہتر یہ ہےکہ دونوں طرح کی حدیثوں پر عمل کیا جائےاور ممانعت کو دباغت سے پہلے کے استعمال پر اور طہارت کو دباغت کے بعد استعمال پر محمول کیا جائے ۔ (عمدۃ القاری 574/6)

اور ملا علی قاری لکھتے ہیں:

” فإن لبس جلود السباع والركوب عليها من دأب الجبابرة وعمل المترفين فلا يليق بأهل الصلاح وزاد ابن الملك وقال إن فيه تكبرا وزينة“.

درندوں کی کھال پہننااور اس پر سوار ہونا متکبرین کا طریقہ اورعیش پرستوں کا کام ہے ،لہذا یہ نیک لوگوں کے لائق نہیں ہے اور ابن ملک نے مزید کہا ہے کہ اس میں تکبر بھی ہے اور زینت بھی۔ (مرقاۃ المفاتیح 73/2)

شیخ عبد الحق محدث دہلوی کہتے ہیں:

علماء نے اس کی ممانعت کی علت یہ بیان کی ہے کہ یہ جابر اور متکبر لوگوں کی عادت ہے ۔اس اعتبار سے یہ نہی تنزیہی ہے۔ (اشعۃ اللمعات 697/1)

7- میک اپ:

جلد کی نرمی اور ملائمت ،رنگت میں نکھار یا خوبصورتی میں اضافے کے مقصد سے کریم یا پاؤڈر وغیرہ کا استعمال درست ہے بشرطیکہ اس میں کسی ناپاک اور حرام چیز کی آمیزش نہ ہو اور نہ وہ صحت کے لیے نقصان دہ ہو۔

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ کہتی ہیں:

كَانَتِ النُّفَسَاءُ تَجْلِسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، وَكُنَّا نَطْلِي وُجُوهَنَا بِالْوَرْسِ مِنَ الْكَلَفِ.

رسول اللہ ﷺ کے عہد میں عورتیں نفاس کی حالت میں چالیس دن رہا کرتی تھیں اور اس دوران پڑ جانے والے چہرے کے داغ ،دھبے اور چھائیں وغیره کے لئے ورس(زرد سرخی مائل رنگ) استعمال کرتی تھیں۔ (ترمذی:139. ابوداؤد :113)

اسی طرح سے عورتوں کے لیے ہاتھ، پاؤں ،ہونٹ اور رخسار وغیرہ پر رنگین کریم اور لپسٹک وغیرہ کا استعمال جائز ہے لیکن مردوں کے لیے درست نہیں ہے؛ کیونکہ حدیث میں مہندی لگانے کی اجازت صرف عورتوں کو دی گئی ہے اور اسی بنیاد پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ مردوں کے لیے بطور زینت ہاتھ وغیرہ پر مہندی لگانا حرام ہے(شرح مهذب،ج1/ص294) نیز حدیث میں مردوں کو اپنے جسم پر زعفران لگانے سے منع کیا گیا ہے حضرت انس کہتے ہیں کہ

نهى النبي صلى الله عليه وسلم أن يتزعفر الرجل.

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کے لیے زعفران لگانے کی ممانعت فرمائی ہے (صحیح بخاری 5846، صحیح مسلم 2101وغیرہ)

لپسٹک کے سلسلے میں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر اس کی وجہ سے پانی ہونٹ تک نہ پہنچے تو نہ وضو درست ہوگا اور نہ غسل صحیح ہوگا اور وضو اور غسل کے وقت اسے صاف کرنا ضروری ہوگا۔

8- سر کے بال کو مونڈنا اور کٹوانا:

عورتوں کے لیے بال صنفی پہچان کا ذریعہ اور حسن و زیبائش کی علامت ہے اس لیے اس کے حق میں بال مونڈنا ممنوع ہے (2) چنانچہ حج کے موقع پر مردوں کے لیے بال منڈانے کو پسند کیا گیا ہے لیکن عورتوں کو اس سے منع کیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ عام حالات میں بدرجہ اولی اس کی ممانعت ہوگی حضرت علی سے روایت ہے :

نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان تحلق المراة راسها (جامع ترمزي:914 سنن نسائي:5049 وعن ابن عباس مرفوعا ليس على النساء الحلق انما على النساء التقصير. اخرجه ابو داؤد والدار قطني والطبراني وقد قوى اسناده البخاري في التاريخ و ابو حاتم في العلل وحسنه الحافظ. تحفة الاحوذى)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو سر منڈانے سے منع فرمایا ہے.

نیز اس کے لیے اس طرح سے بال کٹوانا بھی ممنوع ہے جس سے مردوں کے ساتھ مشابہت ہو جائے .(3)

اس لیے کہ حدیث میں ان عورتوں پر لعنت کی گئی ہے جو مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرتی ہیں۔

نیز مرد و عورت دونوں کو بالوں کی تراش و خراش میں غیر قوموں اور فاسق و فاجر کی مشابہت سے بچنا چاہیے خصوصا آج کل بالوں کا جو فیشن رائج ہے اس سے سختی کے ساتھ پرہیز کرنا چاہیے جس میں سر کے کچھ حصے کے بال کو مونڈ دیا جاتا ہے اور کچھ کو باقی رکھا جاتا ہے یا بالوں کے کچھ حصوں کو کاٹ کر لکیریں بنا دی جاتی ہیں کیونکہ یہ “قزع” کے حکم میں شامل ہے جس سے حدیث میں منع کیا گیا ہے حضرت عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے :

نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن القزع(صحيح بخارى:5921، صحيح مسلم:2120 غيره)

رسول اللہ ﷺ نے قزع سے منع فرمایا ہے۔

حدیث کے راوی حضرت نافع کہتے ہیں کہ”قزع” یہ ہے کہ

بچے کے سر کا بعض حصہ مونڈ دیا جائے اور بعض کو چھوڑ دیا جائے ۔ (يحلق بعض راس الصبي ويترك البعض .صحيح مسلم:2120)

9- بالوں کے مختلف اسٹائل:

بالوں کے سلسلے میں شریعت نے کسی خاص انداز کا پابند نہیں بنایا ہے بلکہ اسے انسان کی مرضی اور پسند پر چھوڑ دیا ہے البتہ اس بات کا لحاظ ضرور رکھا ہے کہ اس میں غیروں کے ساتھ مشابہت نہ ہونے پائے چنانچہ حدیث میں ہے:

أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَسْدِلُ شَعَرَهُ وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يَفْرُقُونَ رُءُوسَهُمْ ، و كَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَسْدِلُونَ رُءُوسَهُمْ ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ مُوَافَقَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ فِيمَا لَمْ يُؤْمَرْ فِيهِ بِشَيْءٍ ، ثُمَّ فَرَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْد(صحيح بخاري: 3556 وغيره)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالوں کو مانگ نکالے بغیر لٹکتا ہوا چھوڑ دیتے تھے اور اس وقت مشرکین مانگ نکالا کرتے تھے اور اہل کتاب مانگ نہیں نکالتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کی طرف سے جن چیزوں کے بارے میں کوئی حکم نہیں آیا ہوتا وہ اس میں اہل کتاب کی موافقت کو پسند کیا کرتے تھے اور پھر اس کے بعد آپ مانگ نکالنے لگے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ اس وقت مشرکوں کی کثرت تھی اور اہل کتاب کے بارے میں یہ امید کی جا سکتی تھی کہ ان کا عمل گزشتہ نبیوں کے طریقے سے ماخوذ ہوگا اس لیے

بت پرستوں کی بہ نسبت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ موافقت کو پسند کیا کرتے تھے اور جب زیادہ تر مشرکین نے اسلام قبول کر لیا تو پھر یہود کی مشابہت سے بچنے کے لیے آپ نے مانگ نکالنا شروع کر دیا (فتح الباری)

اور معمر سے منقول روایت میں ہے:

ثم أمر بالفرق ففرق وكان الفرق آخر الامرين (عون المعبود)

پھر اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو مانگ نکالنے کا حکم دیا گیا اور اپ مانگ نکالنے لگے اور یہی آپ کا آخری عمل تھا

لہذا بالوں کو گھنگریالا بنانا اور اس میں شکن پیدا کرنا ممنوع ہے کیونکہ اس میں غیروں کے ساتھ مشابہت ہے نیز اللہ کی بناوٹ میں تبدیلی اور زینت میں غلو ہے جس سے منع کیا گیا ہے چنانچہ حدیث میں ہے :

من عقد لحيته… فان محمدا صلى الله عليه وسلم منه بري( سنن أبي داود:36، سنن نسائی: 5067)

جو کوئی اپنے داڑھی کے بال کو باندھے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس سے برأت کا اظہار کرتے ہیں۔

علامہ سندھی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد داڑھی کو گول اور گھنگریالا بنانا ہے اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد داڑھی کو باندھنا ہے (حاشیہ سندھی علی النسائی)

10-مصنوعی بال اور وگ کا استعمال:

خوبصورتی اور زیبائش کے لیے انسانی بالوں سے بنے ہوئے وگ کو استعمال کرنا ممنوع ہے ؛ کیونکہ یہ ایک طرح کی جعل سازی ہے، نیز انسانی اجزاء کا استعمال ہے جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

لعن الله الواصلة والمستوصلة (صحيح بخارى 2/878)

بال جوڑنے اور جڑوانے والی پر اللہ کی لعنت ہو۔

اور اس مقصد کے لیے دوسرے حیوانات اور مصنوعی بال کا استعمال درست ہے[4]  کیونکہ انسانی اور غیر انسانی بال میں خاصا فرق ہو ہوتا ہے ؛ اس لیے دھوکہ کا اندیشہ نہیں .حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ انہوں نے بعض خواتین کو اونی دھاگہ لگانے کی اجازت دی (رد المحتار9/535)

11- چہرہ اور جسم کے دوسرے حصوں سے بال کو صاف کرنا:

بھؤں کے بال کو اکھاڑنا اور دوا وغیرہ کے ذریعے اسے ختم کرنا درست نہیں ہے کیونکہ حدیث میں بالوں کو نوچنے والی پر لعنت کی گئی ہے اور امام ابو داؤد نے لکھا ہے کہ اس سے مراد بھؤں کے بال کو نوچ کر اسے باریک کرنا ہے (سنن ابو داؤد 2/572)

البتہ اگر بھوں کے بال خلاف عادت زیادہ بڑھ جائیں تو اسے کاٹ کر چھوٹا کر دینے میں کوئی حرج نہیں ہے[5]

نیز اگر عورت کے چہرے پر بال اگ آئیں تو اسے صاف کر دینا‌ جائز ہے ؛ کیونکہ عورت کے چہرے پر بال کا آنا خلاف عادت اور اسے باقی رکھنے میں مردوں کے ساتھ مشابہت ہے چنانچہ حضرت عائشہ سے کسی عورت نے سوال کیا کہ عورت اپنے شوہر کے لئے رخسار کے بال کو صاف کر سکتی ہے تو انہوں نے کہا کہ ممکن حد تک تکلیف دہ چیزوں کو ختم کر دو (فتح البارى 10/462)

اور علامہ شامی نے لکھا ہے کہ چہرے سے بال صاف کرنا حرام ہے مگر یہ کہ کسی عورت کو داڑھی یا مونچھ نکل آئے تو اسے صاف کر دینا درست ہے بلکہ مستحب ہے[6]

چہرے کے علاوہ جسم کے دوسرے حصوں سے مثلا پنڈلی ران اور سینے وغیرہ سے بال کو صاف کرنے کے معاملے میں اختلاف ہے . بعض علماء کی رائے ہے کہ ایسا کرنا درست نہیں ہے؛ کیونکہ بدن کے مختلف حصوں پر یہ بال فطری اور طبعی طور پر ہوتے ہیں اس لیے انہیں ختم کرنا اللہ کی بناوٹ میں تبدیلی کے حکم میں داخل ہے البتہ عورت کے بازو پنڈلی اور سینے وغیرہ پر مردوں کی طرح گھنے اور بڑے بال نکل آئیں جس کی وجہ سے اس کا جسم مردوں کی طرح نظر آنے لگے تو اسے صاف کرنے کی اجازت ہے؛ کیوں کہ اس کے لئے ان حصوں پر بال عورت کی عام فطرت کے خلاف ہے اور اسی بنیاد پر اس کے لئے چہرے کے بال کو صاف کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

اس کے برخلاف بعض دوسرے علماء کا خیال ہے کہ مردوں کے لیے بھی جسم کے مذکورہ حصوں سے بال صاف کرنے کی گنجائش ہے کیونکہ شریعت میں اس کی ممانعت مذکور نہیں ہے اگرچہ ایسا کرنا خلاف ادب اور غیر افضل ہے۔[7]

12- مصنوعی پلکیں:

مصنوعی پلکیں اگر انسان اور خنزیر کے علاوہ دوسرے جانور کے بالوں سے بنی ہوں تو ان کے لگانے کی اجازت ہے بشرطیکہ اس میں فریب دہی نہ ہو اور اگر وہ انسان یا خنزیر کے بالوں سے بنائی گئی ہوں تو ان کا استعمال ممنوع ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مکرم و محترم بنایا ہے ۔ارشاد باری ہے :

وَ لَقَدۡ کَرَّمۡنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ وَ حَمَلۡنٰہُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ وَ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلۡنٰہُمۡ عَلٰی کَثِیۡرٍ مِّمَّنۡ خَلَقۡنَا تَفۡضِیۡلًا .(سورة الاسراء: 70)

اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی ہے، اور انہیں خشکی اور سمندر دونوں میں سواریاں مہیا کی ہیں، اور ان کو پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا ہے، اور ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا کی ہے۔

اور اس کے جسم کے کسی حصے کے استعمال میں اس کی اہانت ہے ۔اس لئے اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔

نیز حدیث میں اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے کے بالوں کو لگانے کی ممانعت ہے.حضرت عائشہ سے روایت ہے:

أَنَّ جَارِيَةً مِنَ الْأَنْصَارِ تَزَوَّجَتْ، وَأَنَّهَا مَرِضَتْ، فَتَمَعَّطَ شَعَرُهَا، فَأَرَادُوا أَنْ يَصِلُوهَا، فَسَأَلُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : ” لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ “. (صحيح بخاري:5934)

ایک انصاری لڑکی کی شادی ہوئی اور بیماری کی وجہ سے اس کے بال جھڑ گئے تھے ۔اس کے گھر والوں نے چاہا کہ اس میں بال جوڑ دیں اور نبی اکرم ﷺ سے اس سلسلے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: اللہ نے بال جوڑنے اور جوڑوانے والی پر لعنت کی ہے ۔

اور خنزیر مکمل طور پر ناپاک ہے اس لئے اس کے کسی حصے کا استعمال جائز نہیں۔

13- مصنوعی پتلی:

انکھوں کی رنگت کو تبدیل کرنے کے لیے مختلف رنگوں کی پتلیوں کا (lense) رواج بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے استعمال کے سلسلے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے بعض لوگ اسے ناجائز کہتے ہیں ؛ کیونکہ یہ بھی خلقت میں تبدیلی کے حکم میں داخل ہے اور بعض لوگ اسے جائز قرار دیتے ہیں بشرطیکہ اس میں دھو کر دہی اور بے حیا و فاسقہ عورتوں سے مشابہت نہ ہو اور نہ ہی طبی لحاظ سے نقصان دہ ہو ؛کیونکہ شریعت نے زیب وزینت کے معاملے میں خواتیں کے لئے بہت زیادہ وسعت رکھی ہے اور آرائش و زیبائش کو ان کی فطرت میں شامل قرار دیا ہے ۔ارشاد ربانی ہے:

اَوَ مَنۡ یُّنَشَّؤُا فِی الۡحِلۡیَۃِ وَ ہُوَ فِی الۡخِصَامِ غَیۡرُ مُبِیۡنٍ ۔(سورۃ الزخرف:18)

اور کیا (اللہ نے ایسی اولاد پسند کی ہے) جو زیوروں میں پالی پوسی جاتی ہے اور جو بحث مباحثے میں اپنی بات کھل کر بھی نہیں کہہ سکتی ؟

غرضیکہ زیادہ صحیح یہی ہے کہ مذکورہ شرطوں کے ساتھ مصنوعی پتلی لگانا جائز ہے لیکن ایسا کرنا زینت میں غلو کے دائرے میں داخل ہے اس لئے اس سے بچنا بہتر ہے ۔

14- مصنوعی تل:

عارضی اور وقتی طور پر رخسار یا ہونٹ پر مصنوعی تل بنانا جائز ہے بشرطیکہ اس میں دھوکہ دہی نہ ہو۔ اور گود کر یا کسی اور ذریعے سے مستقل طور پر تل بنانا جائز نہیں ہے[8]  کیونکہ حدیث میں گودنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ اللہ کی بناوٹ میں تبدیلی کے حکم میں داخل ہے ۔حضرت ابو جحیفہ کہتے ہیں:

لَعَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَاشِمَةَ وَالْمُسْتَوْشِمَةَ، وَآكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ. (صحيح بخاري 5347)

نبی ﷺ نے گودنے اور گودوانے والی پر اور سود کھانے اور کھلانے والے پر لعنت بھیجی ہے ۔

15- مصنوعی لمبے ناخن:

پلاسٹک کے بنے ہوئے طویل ناخن جو بالکل اصلی ناخن کی طرح معلوم ہوتے ہیں اور پھر ان کو کلر کر کے گوند کے ذریعے اصل ناخن پر چپکا دیا جاتا ہے

اس طرح کے ناخن کا استعمال جائز نہیں ہے ؛ کیونکہ اس میں غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت ہے اور ایسا کرنا فطرت کے خلاف ہے اس لیے کہ حدیث میں ناخن تراشنے کو امور فطرت میں شمار کیا گیا ہے۔اور چالیس دن کے اندر اسے کاٹنے کا حکم دیا گیا ہے ۔حضرت انس سے روایت ہے :

وُقِّتَ لَنَا فِي : قَصِّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفِ الْإِبِطِ، وَحَلْقِ الْعَانَةِ، أَنْ لَا نَتْرُكَ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً.(صحیح مسلم: 258)

ہمارے لئے مونچھ تراشنے، ناخن‌کاٹنے ،بغل کے بال نوچنے اور ناف کے نیچے کے بال کے مونڈنے کے لئے ایک وقت مقرر کر دیا گیا ہے کہ اسے چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑے رکھیں۔

اور جب اصل ناخن کے سلسلے میں یہ حکم ہے تو نقلی لمبے ناخن کے لگانے کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟

لیکن اگر کسی کے اصلی ناخن نہ ہوں تو چونکہ یہ ایک عیب ہے اس لیے اس صورت میں نقلی ناخن لگانے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ دھوکہ دہی نہ ہو اور مصنوعی ناخن میں جائز اجزاء کا استعمال کیا گیا ہو اور کسی دوسرے انسان کا ناخن نہ ہو ؛کیونکہ کسی دوسرے انسان کے جسمانی اعضاء کا استعمال درست نہیں ہے۔ نیز ان کی لمبائی عام ناخن سے زائد نہ رکھی جائے ۔

اور چونکہ یہ ناخن تک پانی پہنچنے میں رکاوٹ ہے اس لیے اس کے ہوتے ہوئے وضو اور غسل درست نہیں ہوگا۔

البتہ پیوندکاری کے ذریعے اسے جسم کا حصہ بنا دیا گیا ہو تو ایسی صورت میں وضو اور غسل میں اسی پر پانی بہا دینا کافی ہوگا۔

16- نیل پالش:

زینت کے لیے عورتوں کو اپنے ہاتھ اور پیر کو رنگنے کی اجازت ہے چنانچہ حدیث میں انہیں مہندی لگانے کی ترغیب دی گئی ہے لہذا ناخن کلر لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اس طرح کا کلر عام طور پر ناخن تک پانی پہنچنے میں رکاوٹ ہوتا ہے اور ہر وضو کے وقت اسے صاف کرنا دشوار ہے؛ اس لیے اس سے منع کیا جاتا ہے۔

17- پلاسٹک اور کاسمیٹک سرجری:

ہمارا جسم اللہ کی ملکیت ہے ، بطور امانت ہمیں دی گئی ہے، ہم اس کے مالک و مختار نہیں کی اپنی مرضی کے مطابق اس میں تغیر و تبدیل اور کاٹ چھانٹ کرتے رہیں اور گزر چکا ہے کہ اللہ کی بناوٹ میں تبدیلی شیطانی بہکاوے کا نتیجہ ہے اور اسی بنیاد پر حدیث میں خوبصورتی کے لئے اللہ کی بناوٹ میں تبدیلی کرنے والی عورتوں پر لعنت کی گئی ہے امام طبری مذکورہ حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

کسی عورت کے لئے اللہ کی پیدا کردہ بناوٹ میں خوبصورتی کے مقصد سے کمی اور زیادتی جائز نہیں ہے جیسے کہ کسی کے بھوں کے بال ملے ہوئے ہوں اور وہ فاصلہ پیدا کرنے کے لئے بالوں کو اکھاڑ دے۔۔۔ البتہ اگر اس کی وجہ سے ضرر اور تکلیف ہو جیسے لمبے دانت کی وجہ سے کھانے میں پریشانی ہو رہی ہو یا زائد انگلی کی وجہ سے تکلیف ہو رہی ہو تو دانت اکھاڑ دینے اور انگلی کاٹ دینے کی اجازت ہے (فتح الباری: 10/462)

البتہ علاج کے مقصد سے جسم کے کسی حصے کو چیرنے پھاڑنے اور کاٹنے کی اجازت ہے (دیکھئے الہندیۃ: 5/360)

اور بدنما عیب بھی ایک نفسیاتی مرض ہے لہذا اسے دور کرنے کے لئے بھی کاٹ چھانٹ کرنا یا پلاسٹک سرجری کرانا درست ہے چنانچہ حدیث میں ہے کہ:

عن قتادة قال كنت يوم أحد أتقي السهام بوجهي عن وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان آخرها سهما ندرت منه حدقتي، فأخذتها بيدي و قلت: يا رسول الله إن لي امرأة أحبها وأخشى أن تراني تقذرني و قال له صلى الله عليه وسلم إن شئت صبرت ولك الجنة، وإن شئت رددتها ودعوت الله تعالى لك، فقال: يا رسول الله إن الجنة لجزاء جزيل، وعطاء جليل، وإني مغرم بحب النساء. وأخاف أن يقلن أعور فلا يردنني، ولكن تردها وتسأل الله تعالى لي الجنة فردها ودعا لي بالجنة(السيرة الحلبية: 2/252 نیز دیکھئے زادالمعاد:3/197 البدایہ والنہایہ 4/34)

حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ جنگ احد کے موقع پر اپنے چہرے کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کو تیروں کی بوچھار سے بچا رہا تھا اور آخر میں ایک تیر میری آنکھ میں لگا اور میری آنکھ باہر نکل آئی میں نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا ہوں اور مجھے اندیشہ ہے کہ اگر وہ مجھ کو اس حالت میں دیکھے گی تو مجھ سے بدک جائے گی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو صبر کرو اور اس کے بدلے میں تمہارے لیے جنت ہے اور چاہو تو تمہاری آنکھ لوٹا دوں اور تمہارے لیے اللہ سے دعا کروں . میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جنت تو بڑی خوبصورت جزا اور بہترین تحفہ ہے اور میں عورتوں کا دلدادہ ہوں اور مجھے ڈر ہے کہ وہ کہیں گی یہ کانا ہے اور مجھ سے محبت نہیں کریں گی ؛ اس لئے آپ میری آنکھ لوٹا دیجئے اور اللہ تعالی سے میرے لیے جنت کی دعا کر دیجیے چنانچہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میری آنکھ لوٹا دی اور میرے لیے جنت کی دعا فرمائی۔

اور حضرت رافع بن مالک کہتے ہیں:

رميت بسهم يوم بدر ، ففقئت عيني ، فبصق فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم ودعا لي فما آذاني منها شيء(السيرة النبوية لابن كثير: 2/447)

جنگ بدر کے موقع پر تیر لگنے کی وجہ سے میری آنکھ پھوٹ گئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنا تھوک لگایا اور دعا فرمائی تو پھر اس میں کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔

اور فقہ حنفی کی مایہ ناز کتاب البدائع میں ہے:

وإعادة جزء منفصل إلى مكانه ليلتئم يجوز كما إذا قطع شيء من عضوه فأعاده إلى مكانه ولا إهانة فی استعمال جزء نفسه فى الإعادة إلى مكانه.

اگر جسم کا کوئی حصہ الگ ہوجائے تو جوڑنے کے مقصد سےاس کی جگہ پر لگا دینا جائز ہے ۔جیسے کہ جب جسم کا کوئی حصہ کٹ جائے تو اسے اس کی جگہ پر لگا دینا درست ہے ۔اور اپنے جسم کے کسی حصے کو اس کی جگہ پر لگانے میں کوئی اہانت نہیں ہے۔(البدائع 5/331)

لہٰذا اگر آنکھ ترچھی یا بہت چھوٹی ہو، ہونٹ کٹا ہوا ہو، ناک ٹیڑھی ہو، ہاتھ پیر میں پانچ کی جگہ چھ انگلیاں ہوں، کان کی بناوٹ عام وضع کے خلاف ہو یا جلنے، کٹنے کی وجہ سے چہرہ وغیرہ پر نشان پڑ گیا ہو تو پلاسٹک سرجری کے ذریعے درست کرانا جائز ہے ؛ کیونکہ غیر طبعی بناوٹ اور عیب کو ختم کرنا اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کے حکم میں داخل نہیں ہے۔

لیکن پھیلی ہوئی ناک کو پتلی اور اونچی بنانا، موٹے ہونٹ کو باریک کرنا، ٹھوڑی کو حسب خواہش شکل دینا، پستان کو ابھارنا یا چھوٹا کرنا، عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے پڑنے والی جھری کو ختم کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہ سب محض خوبصورتی اور خوشنمائی کے لیے اللہ کی بناوٹ میں تبدیلی کرنا ہے۔

البتہ یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ بعض چیزیں عمومی انداز میں خوبصورتی اور خوشنمائی کے لیے اختیار کی جاتی ہیں مگر انفرادی طور پر وہ کسی کے حق میں ضرورت کا درجہ اختیار کر لیتی ہیں جیسے کہ بھدی ناک کی وجہ سے کسی لڑکی کے رشتہ میں دشواری پیش آرہی ہے اور اس کی وجہ سے لڑکی اور اس کے گھر کے لوگ اذیت میں مبتلا ہوں تو بدرجہ مجبوری اس کے لیے پلاسٹک سرجری کی اجازت ہو سکتی ہے۔

غرضیکہ کہ ضرر اور عیب کو دور کرنے کیلئے پلاسٹک سرجری کی اجازت ہے اور محض خوبصورتی کے لئے اس کی گنجائش نہیں ہے۔

18- ہیئر ٹرانسپلانٹیشن:

اگر کسی کے سر پر بالکل بال نہ ہوں یا کم ہوں تو بالوں کی پیوند کاری جائز ہے،اس لئے کہ یہ بھی علاج میں داخل ہے اور اس کی وجہ سے انسان نفسیاتی طور پر تکلیف محسوس کرتا ہے اور احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کے تین لوگوں کو آزمانا چاہا جس میں سے ایک گنجا، دوسرا مبروص اور تیسرا اندھا تھا، فرشتہ انسانی شکل میں ان سے ہر ایک کے پاس آیا اور ان کی خواہش پوچھی. انہوں نے کہا ہم جس مصیبت میں گرفتار ہیں اس سے نجات چاہتے ہیں. گنجے اور مبروص نے اس کی وجہ یہ بیان کی کہ لوگ اس کی وجہ سے ہمیں کمتر سمجھتے ہیں۔ فرشتے نے گنجے کے سر پر ہاتھ پھیرا تو معجزاتی طور پر اس پر بال اُگ آئے تھے۔ اسی طرح سے نابینا اور مبروص بھی بھلے چنگے ہوگئے۔ (صحیح بخاری:3464،  صحیح مسلم: 2964)

اگر گنجے پن کا علاج اور عیب زائل کرنے کی تدبیر ناجائز ہوتی تو فرشتہ یہ کام نہ کرتا۔

لیکن شرط یہ ہے کہ خود اسی کے بال کو استعمال کیا جائے یعنی اگر اگلے حصے پر بال نہ ہوں تو پچھلے حصے سے بال لے کر اسے پیوست کر دیا جائے[9] اور یہ بالکل اسی طرح سے ہے جیسے کہ جسم کے کسی حصے سے گوشت یا چمڑا نکال کر دوسرے حصے میں لگا دیا جائے جو کسی حادثہ کی وجہ سے خراب ہوگیا ہے۔

ایسے ہی غیر انسانی بال کو لگانا بھی جائز ہے[10]۔ البتہ دوسرے کسی انسان کے بال کو پیوست کرنا جائز نہیں ہے.

19 – آرائش و زیبائش کے لیے کھانے پینے کی چیزوں کا استعمال:

خوبصورتی اور زینت کے لئے کھانے پینے کی چیزوں مثلاً دودھ، انڈا اور شہد وغیرہ کا استعمال کرنا درست ہے اس لئے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

{هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا} [البقرة: 29]

کھانے پینے اور دوسری چیزیں انسان کے فائدے اور نفع کے لئے پیدا کی گئی ہیں۔ اور خوبصورتی میں اضافہ ایک جائز مقصد ہے؛ اس لئے اس میں ان چیزوں کا استعمال درست ہے البتہ احتیاط کا تقاضا ہے کہ استعمال کے بعد اسے کسی برتن میں دھل کر جانور کو کھلا دیا جائے یا پودے وغیرہ میں ڈال دیا جائے ۔اور نالی میں بہانے سے بچا جائے ۔


حواشى

[1]    والتموية الذي لا يخلص منه شيء لا باس به بالاجماع ولا باس بالانتفاع بالاواني والمموهه بالذهب والفضه بالاجماع (خلاصه الفتاوى:4/372)

[2] ولو حلقت المراۃ رأسها فإن فعلت لوجع أصابها لا باس به، وإن فعلت ذلك تشبها بالرجل فهو مكروه. (الهندية 5/350

[3] قطعت شعر رأسها اثمت ولعنت زاد في البزازية: وإن باذن الزوج، لأنه لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق، ولذا يحرم على الرجل قطع لحيته، والمعنى المؤثر التشبه بالرجال. ردالمحتار 9/583

[4] ووصل الشعر بشعر الآدمي حرام، سواء كان شعرها أو شعر غيرها ولا باس للمراه أن تجعل في قرونها وزوائبها شيء من الو بر. (الهندية 5/358

[5] ولا باس باخذ الحاجبين وشعر وجهه ما لم يشتبه المخنث (رد المحتار 9/526)

[6] إزالة الشعر من الوجه حرام، إلا إذا أنتبتت المراة لحية أو شوارب فلا تحرم إزالته بل يستحب. (رد المحتار 9/526)

[7] وفي حلق شعر الصدر والظهر ترك الادب۔ (الهندية 5/3580 نیز دیکھیے فتاوی محمودیہ 15/385)

[8] إنما النهي في التغيير الذي يكون باقيا، أما ما لا يكون باقيا كالكحل ونحوه من الخضابات فقد أجازه مالك وغيره من العلماء (نيل الاوطار 6/217)

[9] أَنَّ اسْتِعْمَالَ جُزْءٍ مُنْفَصِلٍ عَنْ غَيْرِهِ مِنْ بَنِي آدَمَ إهَانَةٌ بِذَلِكَ الْغَيْرِ وَالْآدَمِيُّ بِجَمِيعِ أَجْزَائِهِ مُكَرَّمٌ وَلَا إهَانَةَ فِي اسْتِعْمَالِ جُزْءِ نَفْسِهِ فِي الْإِعَادَةِ إلَى مَكَانِهِ۔ (بدائع الصنائع : 133/5)

[10] وَلَا بَأْسَ بِذَلِكَ مِنْ شَعْرِ الْبَهِيمَةِ وَصُوفِهَا لِأَنَّهُ انْتِفَاعٌ بِطَرِيقِ التَّزَيُّنِ بِمَا يَحْتَمِلُ ذَلِكَ۔ (بدائع الصنائع : 126/5)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply